اللہ میں صبر کروں گی
اس کتاب کے لکھاری اظہر محمود شیخ ہیں، وہ ملتان میں آمنہ تھیلیسیمیا اسپتال میںپبلک ریلیشن آفیسر اور سائیکالوجسٹ ہیں،
میرے سامنے یہ کتاب رکھی ہے، اس کا نام ہے، ''اﷲ میں صبر کروں گی!'' دل کو چھو لینے والے واقعات پر مبنی یہ کتاب، ان ماؤں کے دلوں کی پکار ہے جو اپنی اولادوں کی لاعلاج بیماریوں کے خلاف جنگ لڑتی ہیں، ایک جنگ وہ اپنے حالات سے لڑ رہی ہوتی ہیں، غربت کے عفریت کے ساتھ اور اس پر بچے ایسی بیماری میں مبتلا جو کسی امیر کے بچے کو بھی نہ ہو۔ اولاد کی بے بسی اپنی بے بسی سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ میں نے ابھی اس کتاب کو پڑھا ہے اور سولہ دسمبر کے سانحے کے ساتھ ساتھ اس کتاب کے کئی سانحات پر بھی آنسو بہائے ہیں۔
اس کتاب کے لکھاری اظہر محمود شیخ ہیں، وہ ملتان میں آمنہ تھیلیسیمیا اسپتال میںپبلک ریلیشن آفیسر اور سائیکالوجسٹ ہیں، اس کے علاوہ کئیر اینڈ کیور فاؤنڈیشن کے چیئرمین بھی ہیں۔ ان کی یہ کتاب جانے کبھی آپ کی نظر سے گزری یا نہیں، آپ نے مندرجہ بالا دونوں اداروں کے نام کہیں سنے یا پڑھے کہ نہیں مگر میں اس کتاب میں سے چند کہانیوں کے ٹکڑے آپ کے ساتھ شئیر کرتی ہوں ، آخر میں میں آپ سے ایک پیرا میں اس کتاب کے موضوع پر بات کروں گی۔
ایک ماں جو اپنے آپ کو تقسیم کر کے بچہ پیدا کرتی ہے اور پھر اسی بچے کو زندگی اور موت کے درمیان لٹکا ہوا دیکھتی ہو تو اس کے دل پر کیا گزرتی ہو گی، یہ ایک ماں کی آنکھوں کے آنسوؤں سے واضح ہوتا ہے، کیا یہ ہماری آزمائش ہے؟ اگر یہ ہماری آزمائش ہے تو یہ معصوم کیوں جھیل رہی ہے؟ گھر کا سارا سامان بک گیا، برتن، بستر، چارپائی، سب کچھ۔ ہر ہفتے چار ہزار کی دوائی درکار ہے ، خون لگوانا ہے۔ یہ سوچ اس بے سہارا ماں کو کھائے جاتی ہے۔ ہمارے پاس شام کی روٹی کے لیے آٹا نہیں تو عثمان کا علاج کیسے کروائیں؟
عائشہ کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ رکشہ چلے گا تو گھرکاکچن چلے گا اور اس کی ادویات، چیک اپ، بلڈ ٹرانسفیوژن ، آرام اور سکون ملے گا۔ اگر رکشہ خراب ہو جاتا ہے تو عائشہ زیادہ پریشان ہو جاتی ہے، سجدے میں گر جاتی ہے، دعائیں مانگ مانگ کر نڈھال ہو جاتی ہے، '' اللہ میرے ابو کا رکشہ جلدی سے جادو سے ٹھیک ہو جائے!!''عمر تھیلیسیمیا میں مبتلا تھا، بہت بہادری سے موت کا کھیل اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔
تھیلیسیمیا ایک خاموش دشمن کی مانند ہے ، بالکل ایسے جیسے ہر لمحہ اپنا آپ خود زندہ کیا جائے، جب عمر کی حالت تشویش ناک ہوتی ہے تو وہ والدین کو خود تسلی دیتا ہے اور انھیں پریشانی کی حالت میں نہیں دیکھ سکتا۔ماں جب اپنا درد بیان کرتی ہے تو ہر ماں جایا اس کا درد برداشت نہیں کر سکتا ، یہ الفاظ لکھتے ہوئے مجھ پر کیا گزر رہی ہے، میں جانتا ہوں ۔ ہر بات لکھتے ہوئے آنسوؤں میں نمی آ جاتی ہے جو میں مشکل سے چھپاتا ہوں کیونکہ میں کمزور ہوں۔ مجھ میں پتھر دل نہیں جو کہ ایک ماں کا درد محسوس کر کے ٹس سے مس نہ ہو۔بائیس سال کے بعد خاندان میں طلحہ کی آمد جس قدر خوشی کا باعث تھی اس کی دوسری جانب اسے لاحق مرض نے ایک ایسے امتحان میں ڈالا جو کبھی ختم نہیں ہوتا اور جب ختم ہوتا ہے تو سب کچھ ختم کر کے۔کیا ہم معاشرے میں رہتے ہیں؟ تہذیب کہاں ہے۔
احساس کہاں، ذمے داری کہاں، اجتماعی ہم آہنگی کہاں؟ تومیرا خیال ہے کہ ہم ایک جنگل میں رہتے ہیں، اس جنگل میں ایک مامتا جس کے پانچ بچے ہیمو فیلیا کا شکار ہوئے، محمد انس عمر چودہ برس، عمر اور عمیر جڑواں عمر بارہ برس، حسنین،عمر دس برس اور عبدالباسط سات برس کا ہے۔ ایک برکتوں بھرا بیٹوں کی عنایت والا گھرہیمو فیلیا کا شکار ہے۔یہ بیماری خون چوستی ہے، غربت کی چکی میں پسے ہوئے وہ لوگ جو روٹی کے دو لقموں کے لیے صبح سے شام تک دوڑ دھوپ کرتے ہیں، وہ مہنگی ادویات اور خون کا انتظام کہاں سے کریں؟ ماں کا بس چلے تو وہ اپنا سارا خون نکال کر اپنے بچے کو زندگی دے دے، وہ تو پیٹ میں بچے کو رکھ کر ، اپنا خون شامل کر کے اسے سانسیں بخشتی ہے اور اب اپنی سانسوں کو ٹوٹتا ہوا دیکھ کر اس پر کیا گزرتی ہے۔ جس نے ایک انسان کو بچایا، اس نے گویا ساری انسانیت کو بچایا۔ میں تھیلیسیمیا کے مرض کا شکار ہوں، میری عمر اس وقت کم ہے مگر میں جینا چاہتا ہوں۔
میں بھی بڑا ہو کر اسکول جانا چاہتا ہوں ، میری بھی خواہش ہے کہ میں باغوں میں جا کر تتلیوں کا تعاقب کروں ، پھولوں کے درمیان کھڑا ہو کر تصویر بنواؤں۔ میرے جیسے بچے نہ تو اسکول جاتے ہیںاور نہ ہی باغوں میں بلکہ وہ تو موت کے منہ میں جاتے ہیں۔ اگر آپ اپنے بچوں کو ایک دن ہوٹل میں کھانا نہ کھلائیں اور وہ کھانا میرے نام وقف کر دیں، سگریٹ پینے والے اگر ایک دن کا سگریٹ کا خرچہ میرے لیے مخصوص کر دیں، فلم دیکھنے والوں سے منت کرتا ہوں کہ وہ اس کی رقم میرے علاج کے لیے دے دیں ۔
مہنگے کپڑے جوتے پرفیوم خریدنے والے اگر اپنی خواہش پر میری ضرورت کو ترجیح دیں تو میں آخری سانس تک ان کا ممنون رہوں گا۔زندگی کو خوشی سے گزارنا ہر کسی کا حق ہے تو پھر غریبوں کے بچے کیوں نہ ایسی زندگی گزاریں ؟ پاکستانی عوام کو چاہیے کہ وہ ان تمام بلڈ سینٹرز کا ساتھ دیں چاہے یہ جہاں بھی ہیں تا کہ پورے پاکستان میں جتنے بھی بچے اس بیماری کا شکار ہیںان سب کو زندگی کی خوشیاں ملیں جن کے وہ بھی حق دار ہیں، آپ لوگوں کے خون کے عطیات ان بچوںکے لیے زندگی ہیں اور زندگی سے کسے پیار نہیں!!( تھیلیسیمیا، خون میں لال خلیات کی کمی کو کہتے ہیں اور ہیمو فیلیا میں مریض کے جسم سے کسی بھی وجہ سے خون بہنا شروع ہو جائے تو تھمتا نہیں) آپ جان گئے ہوں کہ اس کتاب کو لکھنے سے ان کا کیا مقصد ہے۔
اس سے زیادہ مچھے کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں ہے- یہ بھی جان گئے ہوں گے کہ کن بچوں کا علاج آمنہ تھیلیسیمیا اسپتال میں ہوتا ہے، وہ بچے جو اس بیماری کا علاج افورڈ نہیں کرسکتے اور ہر روز مرتے ہیں کہ ان کے سامنے ان کے بچے منہ میں جا رہے ہوتے ہیں... اس کار خیر میں اپنا حصہ فراخ دلی سے ڈالیں، اللہ تعالی آپ کو اس کا اجر عظیم دے -اظہر محمود شیخ کا فون نمبر... 0333- 7636666
اس کتاب کے لکھاری اظہر محمود شیخ ہیں، وہ ملتان میں آمنہ تھیلیسیمیا اسپتال میںپبلک ریلیشن آفیسر اور سائیکالوجسٹ ہیں، اس کے علاوہ کئیر اینڈ کیور فاؤنڈیشن کے چیئرمین بھی ہیں۔ ان کی یہ کتاب جانے کبھی آپ کی نظر سے گزری یا نہیں، آپ نے مندرجہ بالا دونوں اداروں کے نام کہیں سنے یا پڑھے کہ نہیں مگر میں اس کتاب میں سے چند کہانیوں کے ٹکڑے آپ کے ساتھ شئیر کرتی ہوں ، آخر میں میں آپ سے ایک پیرا میں اس کتاب کے موضوع پر بات کروں گی۔
ایک ماں جو اپنے آپ کو تقسیم کر کے بچہ پیدا کرتی ہے اور پھر اسی بچے کو زندگی اور موت کے درمیان لٹکا ہوا دیکھتی ہو تو اس کے دل پر کیا گزرتی ہو گی، یہ ایک ماں کی آنکھوں کے آنسوؤں سے واضح ہوتا ہے، کیا یہ ہماری آزمائش ہے؟ اگر یہ ہماری آزمائش ہے تو یہ معصوم کیوں جھیل رہی ہے؟ گھر کا سارا سامان بک گیا، برتن، بستر، چارپائی، سب کچھ۔ ہر ہفتے چار ہزار کی دوائی درکار ہے ، خون لگوانا ہے۔ یہ سوچ اس بے سہارا ماں کو کھائے جاتی ہے۔ ہمارے پاس شام کی روٹی کے لیے آٹا نہیں تو عثمان کا علاج کیسے کروائیں؟
عائشہ کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ رکشہ چلے گا تو گھرکاکچن چلے گا اور اس کی ادویات، چیک اپ، بلڈ ٹرانسفیوژن ، آرام اور سکون ملے گا۔ اگر رکشہ خراب ہو جاتا ہے تو عائشہ زیادہ پریشان ہو جاتی ہے، سجدے میں گر جاتی ہے، دعائیں مانگ مانگ کر نڈھال ہو جاتی ہے، '' اللہ میرے ابو کا رکشہ جلدی سے جادو سے ٹھیک ہو جائے!!''عمر تھیلیسیمیا میں مبتلا تھا، بہت بہادری سے موت کا کھیل اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔
تھیلیسیمیا ایک خاموش دشمن کی مانند ہے ، بالکل ایسے جیسے ہر لمحہ اپنا آپ خود زندہ کیا جائے، جب عمر کی حالت تشویش ناک ہوتی ہے تو وہ والدین کو خود تسلی دیتا ہے اور انھیں پریشانی کی حالت میں نہیں دیکھ سکتا۔ماں جب اپنا درد بیان کرتی ہے تو ہر ماں جایا اس کا درد برداشت نہیں کر سکتا ، یہ الفاظ لکھتے ہوئے مجھ پر کیا گزر رہی ہے، میں جانتا ہوں ۔ ہر بات لکھتے ہوئے آنسوؤں میں نمی آ جاتی ہے جو میں مشکل سے چھپاتا ہوں کیونکہ میں کمزور ہوں۔ مجھ میں پتھر دل نہیں جو کہ ایک ماں کا درد محسوس کر کے ٹس سے مس نہ ہو۔بائیس سال کے بعد خاندان میں طلحہ کی آمد جس قدر خوشی کا باعث تھی اس کی دوسری جانب اسے لاحق مرض نے ایک ایسے امتحان میں ڈالا جو کبھی ختم نہیں ہوتا اور جب ختم ہوتا ہے تو سب کچھ ختم کر کے۔کیا ہم معاشرے میں رہتے ہیں؟ تہذیب کہاں ہے۔
احساس کہاں، ذمے داری کہاں، اجتماعی ہم آہنگی کہاں؟ تومیرا خیال ہے کہ ہم ایک جنگل میں رہتے ہیں، اس جنگل میں ایک مامتا جس کے پانچ بچے ہیمو فیلیا کا شکار ہوئے، محمد انس عمر چودہ برس، عمر اور عمیر جڑواں عمر بارہ برس، حسنین،عمر دس برس اور عبدالباسط سات برس کا ہے۔ ایک برکتوں بھرا بیٹوں کی عنایت والا گھرہیمو فیلیا کا شکار ہے۔یہ بیماری خون چوستی ہے، غربت کی چکی میں پسے ہوئے وہ لوگ جو روٹی کے دو لقموں کے لیے صبح سے شام تک دوڑ دھوپ کرتے ہیں، وہ مہنگی ادویات اور خون کا انتظام کہاں سے کریں؟ ماں کا بس چلے تو وہ اپنا سارا خون نکال کر اپنے بچے کو زندگی دے دے، وہ تو پیٹ میں بچے کو رکھ کر ، اپنا خون شامل کر کے اسے سانسیں بخشتی ہے اور اب اپنی سانسوں کو ٹوٹتا ہوا دیکھ کر اس پر کیا گزرتی ہے۔ جس نے ایک انسان کو بچایا، اس نے گویا ساری انسانیت کو بچایا۔ میں تھیلیسیمیا کے مرض کا شکار ہوں، میری عمر اس وقت کم ہے مگر میں جینا چاہتا ہوں۔
میں بھی بڑا ہو کر اسکول جانا چاہتا ہوں ، میری بھی خواہش ہے کہ میں باغوں میں جا کر تتلیوں کا تعاقب کروں ، پھولوں کے درمیان کھڑا ہو کر تصویر بنواؤں۔ میرے جیسے بچے نہ تو اسکول جاتے ہیںاور نہ ہی باغوں میں بلکہ وہ تو موت کے منہ میں جاتے ہیں۔ اگر آپ اپنے بچوں کو ایک دن ہوٹل میں کھانا نہ کھلائیں اور وہ کھانا میرے نام وقف کر دیں، سگریٹ پینے والے اگر ایک دن کا سگریٹ کا خرچہ میرے لیے مخصوص کر دیں، فلم دیکھنے والوں سے منت کرتا ہوں کہ وہ اس کی رقم میرے علاج کے لیے دے دیں ۔
مہنگے کپڑے جوتے پرفیوم خریدنے والے اگر اپنی خواہش پر میری ضرورت کو ترجیح دیں تو میں آخری سانس تک ان کا ممنون رہوں گا۔زندگی کو خوشی سے گزارنا ہر کسی کا حق ہے تو پھر غریبوں کے بچے کیوں نہ ایسی زندگی گزاریں ؟ پاکستانی عوام کو چاہیے کہ وہ ان تمام بلڈ سینٹرز کا ساتھ دیں چاہے یہ جہاں بھی ہیں تا کہ پورے پاکستان میں جتنے بھی بچے اس بیماری کا شکار ہیںان سب کو زندگی کی خوشیاں ملیں جن کے وہ بھی حق دار ہیں، آپ لوگوں کے خون کے عطیات ان بچوںکے لیے زندگی ہیں اور زندگی سے کسے پیار نہیں!!( تھیلیسیمیا، خون میں لال خلیات کی کمی کو کہتے ہیں اور ہیمو فیلیا میں مریض کے جسم سے کسی بھی وجہ سے خون بہنا شروع ہو جائے تو تھمتا نہیں) آپ جان گئے ہوں کہ اس کتاب کو لکھنے سے ان کا کیا مقصد ہے۔
اس سے زیادہ مچھے کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں ہے- یہ بھی جان گئے ہوں گے کہ کن بچوں کا علاج آمنہ تھیلیسیمیا اسپتال میں ہوتا ہے، وہ بچے جو اس بیماری کا علاج افورڈ نہیں کرسکتے اور ہر روز مرتے ہیں کہ ان کے سامنے ان کے بچے منہ میں جا رہے ہوتے ہیں... اس کار خیر میں اپنا حصہ فراخ دلی سے ڈالیں، اللہ تعالی آپ کو اس کا اجر عظیم دے -اظہر محمود شیخ کا فون نمبر... 0333- 7636666