دہشتگردوں کے سہولت کار کارروائی ضروری ہے
دہشت گردی کے خاتمے اور ملک کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے سیاسی وعسکری قیادت ایک پیج پر ہیں
PESHAWAR:
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے ہفتے کو رائیونڈ لاہور میں پنجاب میں امن وامان کے حوالے سے اہم اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ہدایت کی کہ عوام کے جان ومال کے تحفظ کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جائیں اور نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کو تیز کیا جائے۔ اجلاس میں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، وزیر داخلہ چوہدری نثار، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، آئی جی پولیس پنجاب اور سیکیورٹی اداروں کے دیگر اعلیٰ افسروں نے شرکت کی۔ اجلاس میں تعلیم، صحت، صاف پانی اور دیگر ترقیاتی کاموں کا جائزہ لیا گیا۔
وزیراعظم نے پنجاب حکومت کے صاف پانی پروجیکٹ کے لیے وفاق کی جانب سے پچاس فیصد فنڈز دینے کا اعلان کیا یہ فنڈز تمام صوبوں کو ملیں گے۔ دوسری جانب چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے شمالی وزیرستان کے دورہ کے موقع پر فوجی جوانوں اور افسروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک بھر میں دہشت گردوں کے نیٹ ورکس اور ان کے روابط کو بے نقاب کیا جا رہا ہے، اس گٹھ جوڑ کو ہر قیمت پر توڑا جائے گا اور تمام دہشت گردوں کے خاتمے تک آپریشنز جاری رہیں گے۔ جنرل راحیل شریف نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فوجی جوانوں اور افسروں کی جرأت، حوصلے، مستقل مزاجی اور قربانی کے جذبے کی تعریف کی۔
دہشت گردی کے خاتمے اور ملک کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے سیاسی وعسکری قیادت ایک پیج پر ہیں اور انھوں نے ہمیشہ اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ وہ ملک سے دہشت گردی کے مستقل خاتمے کے لیے جنگ جاری رکھیں گے اور یہ جنگ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جاری رہے گی۔ سیاسی وعسکری قیادت میں اتفاق اور اپنے مقصد کے حصول کے لیے یکسوئی ہی کا نتیجہ ہے کہ آج ملک میں دہشت گرد عناصر روزبروز قانون کی گرفت میں آتے اور کمزور پڑتے جا رہے ہیں۔ شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے صفایا کے بعد ملک میں دہشت گردی کی وارداتوں میں نمایاں کمی آنا اس کا بین ثبوت ہے کہ اس جنگ کو اپنے منطقی انجام تک پہنچنے تک بہرصورت جاری رکھا جائے۔ ایک اہم مسئلہ جو اس جنگ کی کامیابی میں سدراہ بنا ہوا تھا وہ ان کے چھپے ہوئے سہولت کاروں کا ہے۔
یہ اطلاعات منظرعام پر آ چکی ہیں کہ ملک بھر میں بہت سے ایسے گروہ اور افراد موجود ہیں جو ظاہراً اور باطناً دہشت گردوں کی کسی نہ کسی سطح پر مدد کرتے ہیں، بعض ایسے واقعات کا بھی انکشاف ہوا ہے کہ یہ افراد انتہائی بااثر اور اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں جس کے باعث یہ قانون کی گرفت اور عام آدمی کی نظروں سے بچے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں دہشت گردوں کے نیٹ ورکس روزبروز مضبوط ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ جب تک دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے گٹھ جوڑ کو توڑا نہیں جاتا اور سہولت کاروں کو بھی قانون کے کٹہرے میں نہیں لایا جاتا، دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنا ایک مشکل امر ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی بھی دہشت گرد گروہ تب تک اپنا وجود برقرار رکھتا ہے جب تک اسے داخلی یا خارجی سطح پر امداد اور تعاون حاصل رہے۔
دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ان روابط اور سپلائی لائنز کو توڑنا اشد ضروری ہے۔ اب سیاسی اور عسکری قیادت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو بھی ہرممکن طور پر گرفتار کیا جائے خواہ وہ کتنے ہی بااثر کیوں نہ ہوں۔ شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے صفایا کے بعد اب وہاں پر متاثرہ افراد کی آبادکاری کا عمل تیزی سے جاری ہے لیکن اس امر کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ دہشت گرد ان علاقوں میں دوبارہ نہ آنے پائیں اور فوج نے جو قربانیاں دی ہیں وہ رائیگاں نہ چلی جائیں۔ جہاں تک ملک میں تعلیم، صحت اور صاف پانی کی فراہمی کا تعلق ہے تو ان مسائل پر قابو پانے کے لیے بھی جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اخباروں میں ایسی خبریں بھی آ چکی ہیں کہ متعدد شہروں میں پینے کا صاف پانی میسر نہیں اور جو پانی فراہم کیا جا رہا ہے اس میں مضرصحت خطرناک اجزاء شامل ہیں اس کے علاوہ ملک میں ابھی تک ایسے علاقے موجود ہیں جہاں انسان اور جانور اکٹھے پانی پیتے ہیں۔
سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت بھی تسلی بخش نہیں، قصبوں اور دیہات میں ایسے اسکول بڑی تعداد میں موجود ہیں جن کی عمارتیں ہی نہیں اور بچے کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ سرکاری اسپتالوں کی صورت حال بھی بہتر نہیں، غیرمعیاری اور جعلی ادویات کی بھرمار ہے۔ لوڈشیڈنگ، مہنگائی اور بے روزگاری کا عفریت ملکی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ حکومت کے سامنے مسائل کی بھرمار ہے مگر انھیں حل کرنا بھی اس کا فرض اولین ہے، اسے مینڈیٹ بھی اسی حوالے سے ملا ہے۔ دہشت گردی اور دیگر ملکی مسائل کو حل کرنا صرف حکومت ہی کی ذمے داری نہیں بلکہ تمام سیاسی جماعتوں پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ عوام کو مسائل کے گرداب سے نکالنے کے لیے حکومت کے ساتھ تعاون کریں اور کوئی ایسا فعل سرانجام نہ دیں جس سے ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں پیدا ہوں۔
وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے ہفتے کو رائیونڈ لاہور میں پنجاب میں امن وامان کے حوالے سے اہم اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ہدایت کی کہ عوام کے جان ومال کے تحفظ کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جائیں اور نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کو تیز کیا جائے۔ اجلاس میں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، وزیر داخلہ چوہدری نثار، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، آئی جی پولیس پنجاب اور سیکیورٹی اداروں کے دیگر اعلیٰ افسروں نے شرکت کی۔ اجلاس میں تعلیم، صحت، صاف پانی اور دیگر ترقیاتی کاموں کا جائزہ لیا گیا۔
وزیراعظم نے پنجاب حکومت کے صاف پانی پروجیکٹ کے لیے وفاق کی جانب سے پچاس فیصد فنڈز دینے کا اعلان کیا یہ فنڈز تمام صوبوں کو ملیں گے۔ دوسری جانب چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف نے شمالی وزیرستان کے دورہ کے موقع پر فوجی جوانوں اور افسروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک بھر میں دہشت گردوں کے نیٹ ورکس اور ان کے روابط کو بے نقاب کیا جا رہا ہے، اس گٹھ جوڑ کو ہر قیمت پر توڑا جائے گا اور تمام دہشت گردوں کے خاتمے تک آپریشنز جاری رہیں گے۔ جنرل راحیل شریف نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فوجی جوانوں اور افسروں کی جرأت، حوصلے، مستقل مزاجی اور قربانی کے جذبے کی تعریف کی۔
دہشت گردی کے خاتمے اور ملک کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے سیاسی وعسکری قیادت ایک پیج پر ہیں اور انھوں نے ہمیشہ اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ وہ ملک سے دہشت گردی کے مستقل خاتمے کے لیے جنگ جاری رکھیں گے اور یہ جنگ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جاری رہے گی۔ سیاسی وعسکری قیادت میں اتفاق اور اپنے مقصد کے حصول کے لیے یکسوئی ہی کا نتیجہ ہے کہ آج ملک میں دہشت گرد عناصر روزبروز قانون کی گرفت میں آتے اور کمزور پڑتے جا رہے ہیں۔ شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے صفایا کے بعد ملک میں دہشت گردی کی وارداتوں میں نمایاں کمی آنا اس کا بین ثبوت ہے کہ اس جنگ کو اپنے منطقی انجام تک پہنچنے تک بہرصورت جاری رکھا جائے۔ ایک اہم مسئلہ جو اس جنگ کی کامیابی میں سدراہ بنا ہوا تھا وہ ان کے چھپے ہوئے سہولت کاروں کا ہے۔
یہ اطلاعات منظرعام پر آ چکی ہیں کہ ملک بھر میں بہت سے ایسے گروہ اور افراد موجود ہیں جو ظاہراً اور باطناً دہشت گردوں کی کسی نہ کسی سطح پر مدد کرتے ہیں، بعض ایسے واقعات کا بھی انکشاف ہوا ہے کہ یہ افراد انتہائی بااثر اور اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں جس کے باعث یہ قانون کی گرفت اور عام آدمی کی نظروں سے بچے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں دہشت گردوں کے نیٹ ورکس روزبروز مضبوط ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ جب تک دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے گٹھ جوڑ کو توڑا نہیں جاتا اور سہولت کاروں کو بھی قانون کے کٹہرے میں نہیں لایا جاتا، دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنا ایک مشکل امر ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی بھی دہشت گرد گروہ تب تک اپنا وجود برقرار رکھتا ہے جب تک اسے داخلی یا خارجی سطح پر امداد اور تعاون حاصل رہے۔
دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ان روابط اور سپلائی لائنز کو توڑنا اشد ضروری ہے۔ اب سیاسی اور عسکری قیادت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو بھی ہرممکن طور پر گرفتار کیا جائے خواہ وہ کتنے ہی بااثر کیوں نہ ہوں۔ شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے صفایا کے بعد اب وہاں پر متاثرہ افراد کی آبادکاری کا عمل تیزی سے جاری ہے لیکن اس امر کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ دہشت گرد ان علاقوں میں دوبارہ نہ آنے پائیں اور فوج نے جو قربانیاں دی ہیں وہ رائیگاں نہ چلی جائیں۔ جہاں تک ملک میں تعلیم، صحت اور صاف پانی کی فراہمی کا تعلق ہے تو ان مسائل پر قابو پانے کے لیے بھی جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اخباروں میں ایسی خبریں بھی آ چکی ہیں کہ متعدد شہروں میں پینے کا صاف پانی میسر نہیں اور جو پانی فراہم کیا جا رہا ہے اس میں مضرصحت خطرناک اجزاء شامل ہیں اس کے علاوہ ملک میں ابھی تک ایسے علاقے موجود ہیں جہاں انسان اور جانور اکٹھے پانی پیتے ہیں۔
سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت بھی تسلی بخش نہیں، قصبوں اور دیہات میں ایسے اسکول بڑی تعداد میں موجود ہیں جن کی عمارتیں ہی نہیں اور بچے کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ سرکاری اسپتالوں کی صورت حال بھی بہتر نہیں، غیرمعیاری اور جعلی ادویات کی بھرمار ہے۔ لوڈشیڈنگ، مہنگائی اور بے روزگاری کا عفریت ملکی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ حکومت کے سامنے مسائل کی بھرمار ہے مگر انھیں حل کرنا بھی اس کا فرض اولین ہے، اسے مینڈیٹ بھی اسی حوالے سے ملا ہے۔ دہشت گردی اور دیگر ملکی مسائل کو حل کرنا صرف حکومت ہی کی ذمے داری نہیں بلکہ تمام سیاسی جماعتوں پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ عوام کو مسائل کے گرداب سے نکالنے کے لیے حکومت کے ساتھ تعاون کریں اور کوئی ایسا فعل سرانجام نہ دیں جس سے ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں پیدا ہوں۔