کیا ہمیں اختلاف امت کے جرم کی سزا ملنے والی ہے
جب کبھی اقتدارکی ہوس اوربالادستی کی خواہش کومسلک کالبادہ اوڑھانےکی کوشش کی گئی ہےیہ انتہائی خوفناک شکل اختیارکرجاتی ہے
کسی امت کی اس سے بڑھ کر بدقسمتی اور کیا ہو گی کہ آگ کا ایک طوفان اس کی جانب بڑھ رہا ہو اور وہ اس میں کودنے کے لیے اپنی پوزیشن مضبوط کر رہی ہو۔ یوں تو آگ اور خون کے اس کھیل کو موجودہ دور میں تازہ دم ہوئے تیس سال ہو چکے ہیں۔ اس امت میں شیعہ سنی اختلاف گزشتہ تیرہ سو سال سے چلا آ رہا ہے لیکن اس کے فساد کی شکل ہمیشہ اس وقت اختیار کی جب اسے اقتدار کی سیڑھی یا غلبے کا ذریعہ بنا کر دوسرے مسلک کے افراد کو قتل کیا گیا۔ تاریخ میں ایسا اس وقت ہوا جب خلاف عثمانیہ کی اجتماعی حکومت کے مقابل میں ایران میں صفوی برسراقتدار آئے۔
صوفیاء کا دیس ایران جہاں سے مولانا روم، سعدی، حافظ اور کیسے نابغۂ روز افراد نے جنم لیا، وہاں مسلکی اختلاف سے دور اس روحانی احساس کو ختم کرنے کے لیے صوفیاء کا قتل عام کیا گیا۔ عراق سے ملاؤں کو بلا کر ایک خاص فقہہ ترتیب دی گئی اور اسے نافذ کیا گیا۔ صفوی حکمرانوں نے یہ صرف اس لیے کیا کہ وہ خلافت عثمانیہ جو کہ سنی مسلک کی اجتماعی خلافت تھی اس کے مقابلے میں اپنی علیحدہ شناخت اور خود مختاری قائم کرنا چاہتے تھے۔ قتل عام کی یہ داستان بہت طویل اور دلگداز ہے کہ کس طرح وہاں اپنے اقتدار کو مسلک کا تڑکا لگا کر قائم کیا گیا اور کیسے ایران کو ایک ایسے علاقے میں تبدیل کر کے رکھ دیا گیا جہاں تصوف اور صوفیاء کا نام بھی اجنبی ہو گیا۔ وجہ شاید یہ تھی کہ یہ لوگ مسلک کے بجائے اتحاد امت کی بات کرتے تھے۔ دوسری دفعہ یہ قتل عام اس وقت نظر آتا ہے جب 1888ء میں افغانستان پر امیر عبدالرحمن کی حکومت تھی تو اس کے چچازاد بھائی محمد اسحاق نے اس کے خلاف بغاوت کا اعلان کیا۔
یہ ایک خالصتاً قبائلی جنگ تھی اور ہزارہ قبیلے کے افراد نے محمد اسحاق کا ساتھ دیا۔ ہزارہ قبیلہ چونکہ چنگیزی ہونے کی وجہ سے خاصا جنگجو تھا۔ اس لیے امیر عبدالرحمن کو شکست کا خوف دامن گیر ہوا۔ چالیس ہزار کے قریب ہزارہ قبائل اس جنگ میں شریک تھے۔ ایسے میں انھیں شکست دینے کا ایک ہی راستہ تھا کہ ان کے خلاف لوگوں کو مسلک کے نام پر متحد کیا جائے۔ پورے افغانستان میں جہاد کا اعلان کیا گیا کہ ہم نے ہزاروں کے خلاف لڑنا ہے کیونکہ وہ شیعہ ہیں۔ ان کا قتل عام کیا گیا۔ ان کی زمینیں ان سے چھین کر پشتونوں کو دے دی گئیں اور انھیں دیگر چھوٹے چھوٹے پیشوں سے رزق کمانے پر مجبور کر دیا گیا۔
جب بھی کبھی اقتدار کی ہوس اور بالادستی کی خواہش کو مسلک کا لبادہ اوڑھانے کی کوشش کی گئی ہے یہ انتہائی خوفناک شکل اختیار کر جاتی ہے۔ امت مسلمہ کی تاریخ میں صرف چند ایک مثالوں کے علاوہ کوئی ایسا بڑا واقعہ نظر نہیں آتا جب دونوں مسالک کے افراد تلواریں سونت کر میدان میں نکل آئے ہوں۔ دونوں مسالک کے ماننے والے ساتھ ساتھ رہتے اور اپنے روزمرہ کاروبار زندگی میں اس کو داخل نہ ہونے دیتے۔ حکومتی کاروبار میں بھی دونوں مسالک کے لوگ سلطنت کے امور نبٹاتے۔ اورنگزیب عالمگیر جیسے شخص جسے سیکولر افراد بہت بدنام کرتے ہیں، اس کی حکومت میں دو شیعہ وزیر تھے۔ برصغیر پاک و ہند میں سب سے پہلے اس اختلاف کو ہوا لکھنو کے انگریز ڈپٹی کمشنر نے دی۔ لکھنو میں عزاء داری کے جلوس کا ایک راستہ متعین تھا۔ اسی دوران شہر کی دوسری سمت شان صحابہ کانفرنس ہوا کرتی تھی۔
1930ء میں انگریز ڈپٹی کمشنر نے عزاء داری کے جلوس کا راستہ بدل کر اسے عین اس جگہ سے گزرنے کا حکم دیا جہاں شان صحابہ کانفرنس ہوا کرتی تھی۔ یہ شیعہ سنی فسادات کا برصغیر میں آغاز تھا۔ لیکن اس کے باوجود بھی پورے عالم اسلام میں اکا دکا فسادات کے علاوہ کوئی مثال نہیں ملتی کہ ایک دوسرے کے شانہ بشانہ محلوں میں رہنے والے یہ گروہ آپس میں ایسے لڑے ہوں کہ قتل و غارت رکنے کا نام نہ لے۔ موجودہ دور میں صدام حسین نے اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے شیعہ اکثریت پر مظالم کیے لیکن وہ ظلم میں شیعوں کے خاص نہ تھا۔ اس نے سب سے زیادہ ظلم سنی کردوں پر کیا جن کی اس نے بستیوں کی بستیاں اجاڑ دیں۔ اس کے ظلم کو مسلکی بالادستی کے زمرے میں نہیں گنا جا سکتا۔ لیکن انقلاب ایران ایک ایسا واقعہ ہے جس نے اس امت میں اس اختلاف کو اس قدر واضح کر دیا کہ یہ دو واضح گروہوں میں تقسیم ہوتی چلی گئی۔
یوں تو ایرانی اس بات کا اعلان کرتے تھے کہ ان کا انقلاب وسیع تر اسلامی انقلاب ہے جو تمام مسالک کی نمایندگی کرتا ہے لیکن حقیقتاً انھوں نے پوری ملت اسلامیہ میں ایسے گروہوں کو منظم کرنا شروع کیا جو ان کے مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔ اقتدار پر بزور قوت قبضہ کر کے ایرانی اسلامی انقلاب کو سوویت یونین کے انقلاب کی طرز پر برآمد کرنے کی پالیسی کا آغاز ہوا۔ کوئٹہ میں جولائی 1985ء کا واقعہ اس کی ایسی مثال ہے جو بہت کچھ کہے دیتی ہے۔ جب ایک جلوس کی پولیس کے ساتھ مڈھ بھیڑ ہوئی اور اس واقعہ میں تیرہ پولیس والوں کے سر کاٹ کر کھمبوں پر لٹکا دیے گئے۔ انقلاب کا اس قدر جنوں تھا کہ ایک حاضر سروس کپتان لودھی چھٹی لے کر آیا اور اس جلوس کی قیادت کی۔ بالآخر فوج بلائی گئی، کرفیو لگا لیکن اس کے بعد سے کوئٹہ کا ہزارہ علاقہ امن کو ترس گیا۔ امن ہو جاتا لیکن بالادستی کی خواہش نے اختلاف کو ہوا دی۔ ہزارہ آبادی کوئٹہ کے مشرقی پہاڑ کے دامن میں آباد تھی۔
گورنر موسیٰ کے زمانے میں مغربی پہاڑ کا دامن بلوچوں سے خریدا گیا اور وہاں افغانستان سے ہزارہ قبائل کے افراد کو لا کر آباد کیا گیا۔ ذہنوں میں شاید یہ تصور تھا کہ دونوں جانب کے پہاڑ ہمارے قبضے میں ہوں گے تو پورا کوئٹہ شہر ہمارا۔ لیکن دوسری جانب مخالف مسلک کے افراد بھی منظم ہوتے چلے گئے۔ جھنگ شہر میں خالصتاً شیعہ زمینداروں سے الیکشن جیتنے کے لیے کاروباری طبقے کے افراد نے چند علماء کو ساتھ ملا کر سپاہ صحابہ بنائی اور پھر بالادستی اور غلبے کو مسلک کا ایسا تڑکا لگا کہ شیعوں کا قتل شروع ہو گیا۔ دوسری جانب سپاہ صحابہ کا بھی کوئی سربراہ ایسا نہیں ہے جسے قتل نہ کیا گیا ہو۔ اس کے باوجود بھی یہ جنگ شیعہ سنی جنگ کی شکل اختیار نہ کر سکتی۔
پورے پاکستان میں سنی آبادیوں میں چھت پر علم لگائے شیعہ افراد کے گھر کسی قدر امن سے رہ رہے ہیں۔ اس لیے یہاں ابھی اس اختلاف نے وہ شکل اختیار نہیں کی جیسی لبنان میں اختیار کی۔ ایران کے پاسداران کی سربراہی میں شام کی سرپرستی میں حزب اللہ کو منظم کیا گیا تا کہ پورے خطے میں مسلک کی بنیاد پر بالادستی حاصل کی جائے۔ مقصد بہت اعلیٰ و ارفع تھا کہ ہم نے اسرائیل سے لڑنا ہے۔ پورے لبنان نے ان کو خوش آمدید کہا۔ لیکن اس نے لبنان، شام، اردن اور فلسطین کے معاشرے کو اس طرح تقسیم کیا کہ آج وہاں قتل و غارت اور ظلم و دہشت کا بازار گرم ہو چکا ہے۔
گزشتہ کئی سالوں سے لبنان میں صدر منتخب نہیں ہو سکا کیونکہ حزب اللہ نہیں چاہتی۔ شام میں جس بالادستی کی جنگ کا آغاز ہوا بڑی خاموشی سے ہوا تھا۔ اب وہ اس قدر پھیل گئی ہے کہ اس نے پوری مسلم امت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ 34 ممالک کا اتحاد ایک طرف اور تین ملک دوسری جانب۔ اس خوفناک صورتحال کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سب ایک دم جاگ اٹھتے، ایک احساس پیدا ہوتا کہ ہم ایسی خوفناک جنگ میں داخل ہونے والے ہیں جو گلی گلی اور محلہ محلہ شروع ہو جائے گی۔ وہ جنھوں نے منبر و محراب پر بیٹھ کر اس آگ کو ہوا دی انھیں بھی احساس نہیں۔ اب بھی اس بات کا درس دے رہے ہیں کہ اس معرکے میں کودو، آخری فتح تمہاری ہو گی۔ اب بھی اپنی مرضی اور اپنے تعصب پر مبنی تجزیے کیے جا رہے ہیں۔ مسلکی بنیاد پر جذبہ جہاد اور شوق شہادت کو ابھارا جا رہا ہے۔ کسی امت کی اس سے بڑھ کر اور کیا بدقسمتی ہو گی۔ لگتا ہے قضا و قدر نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ہمیں اختلاف امت کے جرم کی سزا دے دی جائے۔
صوفیاء کا دیس ایران جہاں سے مولانا روم، سعدی، حافظ اور کیسے نابغۂ روز افراد نے جنم لیا، وہاں مسلکی اختلاف سے دور اس روحانی احساس کو ختم کرنے کے لیے صوفیاء کا قتل عام کیا گیا۔ عراق سے ملاؤں کو بلا کر ایک خاص فقہہ ترتیب دی گئی اور اسے نافذ کیا گیا۔ صفوی حکمرانوں نے یہ صرف اس لیے کیا کہ وہ خلافت عثمانیہ جو کہ سنی مسلک کی اجتماعی خلافت تھی اس کے مقابلے میں اپنی علیحدہ شناخت اور خود مختاری قائم کرنا چاہتے تھے۔ قتل عام کی یہ داستان بہت طویل اور دلگداز ہے کہ کس طرح وہاں اپنے اقتدار کو مسلک کا تڑکا لگا کر قائم کیا گیا اور کیسے ایران کو ایک ایسے علاقے میں تبدیل کر کے رکھ دیا گیا جہاں تصوف اور صوفیاء کا نام بھی اجنبی ہو گیا۔ وجہ شاید یہ تھی کہ یہ لوگ مسلک کے بجائے اتحاد امت کی بات کرتے تھے۔ دوسری دفعہ یہ قتل عام اس وقت نظر آتا ہے جب 1888ء میں افغانستان پر امیر عبدالرحمن کی حکومت تھی تو اس کے چچازاد بھائی محمد اسحاق نے اس کے خلاف بغاوت کا اعلان کیا۔
یہ ایک خالصتاً قبائلی جنگ تھی اور ہزارہ قبیلے کے افراد نے محمد اسحاق کا ساتھ دیا۔ ہزارہ قبیلہ چونکہ چنگیزی ہونے کی وجہ سے خاصا جنگجو تھا۔ اس لیے امیر عبدالرحمن کو شکست کا خوف دامن گیر ہوا۔ چالیس ہزار کے قریب ہزارہ قبائل اس جنگ میں شریک تھے۔ ایسے میں انھیں شکست دینے کا ایک ہی راستہ تھا کہ ان کے خلاف لوگوں کو مسلک کے نام پر متحد کیا جائے۔ پورے افغانستان میں جہاد کا اعلان کیا گیا کہ ہم نے ہزاروں کے خلاف لڑنا ہے کیونکہ وہ شیعہ ہیں۔ ان کا قتل عام کیا گیا۔ ان کی زمینیں ان سے چھین کر پشتونوں کو دے دی گئیں اور انھیں دیگر چھوٹے چھوٹے پیشوں سے رزق کمانے پر مجبور کر دیا گیا۔
جب بھی کبھی اقتدار کی ہوس اور بالادستی کی خواہش کو مسلک کا لبادہ اوڑھانے کی کوشش کی گئی ہے یہ انتہائی خوفناک شکل اختیار کر جاتی ہے۔ امت مسلمہ کی تاریخ میں صرف چند ایک مثالوں کے علاوہ کوئی ایسا بڑا واقعہ نظر نہیں آتا جب دونوں مسالک کے افراد تلواریں سونت کر میدان میں نکل آئے ہوں۔ دونوں مسالک کے ماننے والے ساتھ ساتھ رہتے اور اپنے روزمرہ کاروبار زندگی میں اس کو داخل نہ ہونے دیتے۔ حکومتی کاروبار میں بھی دونوں مسالک کے لوگ سلطنت کے امور نبٹاتے۔ اورنگزیب عالمگیر جیسے شخص جسے سیکولر افراد بہت بدنام کرتے ہیں، اس کی حکومت میں دو شیعہ وزیر تھے۔ برصغیر پاک و ہند میں سب سے پہلے اس اختلاف کو ہوا لکھنو کے انگریز ڈپٹی کمشنر نے دی۔ لکھنو میں عزاء داری کے جلوس کا ایک راستہ متعین تھا۔ اسی دوران شہر کی دوسری سمت شان صحابہ کانفرنس ہوا کرتی تھی۔
1930ء میں انگریز ڈپٹی کمشنر نے عزاء داری کے جلوس کا راستہ بدل کر اسے عین اس جگہ سے گزرنے کا حکم دیا جہاں شان صحابہ کانفرنس ہوا کرتی تھی۔ یہ شیعہ سنی فسادات کا برصغیر میں آغاز تھا۔ لیکن اس کے باوجود بھی پورے عالم اسلام میں اکا دکا فسادات کے علاوہ کوئی مثال نہیں ملتی کہ ایک دوسرے کے شانہ بشانہ محلوں میں رہنے والے یہ گروہ آپس میں ایسے لڑے ہوں کہ قتل و غارت رکنے کا نام نہ لے۔ موجودہ دور میں صدام حسین نے اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے شیعہ اکثریت پر مظالم کیے لیکن وہ ظلم میں شیعوں کے خاص نہ تھا۔ اس نے سب سے زیادہ ظلم سنی کردوں پر کیا جن کی اس نے بستیوں کی بستیاں اجاڑ دیں۔ اس کے ظلم کو مسلکی بالادستی کے زمرے میں نہیں گنا جا سکتا۔ لیکن انقلاب ایران ایک ایسا واقعہ ہے جس نے اس امت میں اس اختلاف کو اس قدر واضح کر دیا کہ یہ دو واضح گروہوں میں تقسیم ہوتی چلی گئی۔
یوں تو ایرانی اس بات کا اعلان کرتے تھے کہ ان کا انقلاب وسیع تر اسلامی انقلاب ہے جو تمام مسالک کی نمایندگی کرتا ہے لیکن حقیقتاً انھوں نے پوری ملت اسلامیہ میں ایسے گروہوں کو منظم کرنا شروع کیا جو ان کے مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔ اقتدار پر بزور قوت قبضہ کر کے ایرانی اسلامی انقلاب کو سوویت یونین کے انقلاب کی طرز پر برآمد کرنے کی پالیسی کا آغاز ہوا۔ کوئٹہ میں جولائی 1985ء کا واقعہ اس کی ایسی مثال ہے جو بہت کچھ کہے دیتی ہے۔ جب ایک جلوس کی پولیس کے ساتھ مڈھ بھیڑ ہوئی اور اس واقعہ میں تیرہ پولیس والوں کے سر کاٹ کر کھمبوں پر لٹکا دیے گئے۔ انقلاب کا اس قدر جنوں تھا کہ ایک حاضر سروس کپتان لودھی چھٹی لے کر آیا اور اس جلوس کی قیادت کی۔ بالآخر فوج بلائی گئی، کرفیو لگا لیکن اس کے بعد سے کوئٹہ کا ہزارہ علاقہ امن کو ترس گیا۔ امن ہو جاتا لیکن بالادستی کی خواہش نے اختلاف کو ہوا دی۔ ہزارہ آبادی کوئٹہ کے مشرقی پہاڑ کے دامن میں آباد تھی۔
گورنر موسیٰ کے زمانے میں مغربی پہاڑ کا دامن بلوچوں سے خریدا گیا اور وہاں افغانستان سے ہزارہ قبائل کے افراد کو لا کر آباد کیا گیا۔ ذہنوں میں شاید یہ تصور تھا کہ دونوں جانب کے پہاڑ ہمارے قبضے میں ہوں گے تو پورا کوئٹہ شہر ہمارا۔ لیکن دوسری جانب مخالف مسلک کے افراد بھی منظم ہوتے چلے گئے۔ جھنگ شہر میں خالصتاً شیعہ زمینداروں سے الیکشن جیتنے کے لیے کاروباری طبقے کے افراد نے چند علماء کو ساتھ ملا کر سپاہ صحابہ بنائی اور پھر بالادستی اور غلبے کو مسلک کا ایسا تڑکا لگا کہ شیعوں کا قتل شروع ہو گیا۔ دوسری جانب سپاہ صحابہ کا بھی کوئی سربراہ ایسا نہیں ہے جسے قتل نہ کیا گیا ہو۔ اس کے باوجود بھی یہ جنگ شیعہ سنی جنگ کی شکل اختیار نہ کر سکتی۔
پورے پاکستان میں سنی آبادیوں میں چھت پر علم لگائے شیعہ افراد کے گھر کسی قدر امن سے رہ رہے ہیں۔ اس لیے یہاں ابھی اس اختلاف نے وہ شکل اختیار نہیں کی جیسی لبنان میں اختیار کی۔ ایران کے پاسداران کی سربراہی میں شام کی سرپرستی میں حزب اللہ کو منظم کیا گیا تا کہ پورے خطے میں مسلک کی بنیاد پر بالادستی حاصل کی جائے۔ مقصد بہت اعلیٰ و ارفع تھا کہ ہم نے اسرائیل سے لڑنا ہے۔ پورے لبنان نے ان کو خوش آمدید کہا۔ لیکن اس نے لبنان، شام، اردن اور فلسطین کے معاشرے کو اس طرح تقسیم کیا کہ آج وہاں قتل و غارت اور ظلم و دہشت کا بازار گرم ہو چکا ہے۔
گزشتہ کئی سالوں سے لبنان میں صدر منتخب نہیں ہو سکا کیونکہ حزب اللہ نہیں چاہتی۔ شام میں جس بالادستی کی جنگ کا آغاز ہوا بڑی خاموشی سے ہوا تھا۔ اب وہ اس قدر پھیل گئی ہے کہ اس نے پوری مسلم امت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ 34 ممالک کا اتحاد ایک طرف اور تین ملک دوسری جانب۔ اس خوفناک صورتحال کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سب ایک دم جاگ اٹھتے، ایک احساس پیدا ہوتا کہ ہم ایسی خوفناک جنگ میں داخل ہونے والے ہیں جو گلی گلی اور محلہ محلہ شروع ہو جائے گی۔ وہ جنھوں نے منبر و محراب پر بیٹھ کر اس آگ کو ہوا دی انھیں بھی احساس نہیں۔ اب بھی اس بات کا درس دے رہے ہیں کہ اس معرکے میں کودو، آخری فتح تمہاری ہو گی۔ اب بھی اپنی مرضی اور اپنے تعصب پر مبنی تجزیے کیے جا رہے ہیں۔ مسلکی بنیاد پر جذبہ جہاد اور شوق شہادت کو ابھارا جا رہا ہے۔ کسی امت کی اس سے بڑھ کر اور کیا بدقسمتی ہو گی۔ لگتا ہے قضا و قدر نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ہمیں اختلاف امت کے جرم کی سزا دے دی جائے۔