ہم بہت روئے وہ جب یاد آیا
16 دسمبر گریہ و زاری کا دن، 44 سال پہلے ہمارا ایک بازو کاٹ دیا گیا تھا۔
بیٹھ کر سایہ گل میں ناصر
ہم بہت روئے وہ جب یاد آیا
16 دسمبر گریہ و زاری کا دن، 44 سال پہلے ہمارا ایک بازو کاٹ دیا گیا تھا۔ بڑی خوں ریزی ہوئی تھی، بڑی بربریت ہوئی تھی، انسانیت کا نام ونشان مٹ چکا تھا۔ حیوانیت کا راج تھا۔ 44 سال پہلے کئی دنوں تک گھروں کے چولہے نہیں جلے تھے، یہ بہت بڑا سانحہ تھا۔ ہمارے ملک کا نصف سے زیادہ حصہ علیحدہ کردیا گیا تھا۔ یہی تو وہ لوگ تھے جنھوں نے پاکستان بنایا تھا اور ان ہی کی قدر نہ کی گئی۔
پورا مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش) لہولہان تھا، کیا شہر، کیا گاؤں، ہر جگہ موت کے سائے رقص کررہے تھے۔ حبیب جالب نے اس صورتحال کو کہیں زیادہ بہتر انداز میں پیش کیا تھا:
ہریالی کو آنکھیں ترسیں بگیا لہولہان
پیار کے گیت سناؤں کس کو شہر ہوئے ویران
بگیا لہولہان
ڈستی ہیں سورج کی کرنیں چاند جلائے جان
پگ پگ موت کے گہرے سائے جیون موت سامان
چاروں اور ہوا پھرتی ہے لے کر تیر کمان
بگیا لہولہان
چھلنی ہیں کلیوں کے سینے خون میں لت پت
اور نہ جانے کب تک ہوگی اشکوں کی برسات
دنیا والوں کب بیتیں گے دکھ کے یہ دن رات
خون سے ہولی کھیل رہے ہیں دھرتی کے بلوان
بگیا لہولہان
اتنا بڑا سانحہ ہوگیا تھا۔ ہمیں سدھر جانا چاہیے تھا، مگر ہم نہ سدھرے، یہ میں ''ہم'' سیاست دانوں اور اﷲ کی زمین پر قابضین کو کہہ رہا ہوں اور باقی ماندہ ملک کو بھی لوٹ کھایا۔ ''اور نہ جانے کب تک ہوگی اشکوں کی برسات'' جالب تم 44 سال پہلے صحیح سوچ رہے تھے۔ ''اشکوں کی برسات'' تھمی نہیں! اس میں اضافہ ہوگیا۔
سیاسی پارٹیوں کی عمریں بہت لمبی ہیں، مسلم لیگ نے تو پاکستان بنایا، اس کا قیام تو بٹوارے سے پہلے ہی عمل میں آگیا تھا۔ سمجھو اس جماعت کی عمر تقریباً 80 سال ہے۔ باقی سیاسی جماعتیں بھی بڑی لمبی عمریں پاکر زندہ ہیں۔ کوئی 70 سال، کوئی 60 سال، ان میں سب سے کم عمر سیاسی جماعت ایم کیو ایم ہے۔ اس کی عمر بھی 40 سال ہوچکی ہے۔ مگر غریب کے حالات نہیں بدلے، غریب تو غریب ترین ہوچکا ہے۔
ابھی کل ہی فیصل آباد کی ایک ماں نے اپنے تین بچوں سمیت زہر کھاکر خودکشی کی ہے، ماں اور دو بچیاں مرچکی ہیں، ایک کشمکش میں ہے۔ یہ خودکشیاں بہت زیادہ ہوچکی ہیں اور غریبوں کے حصے کی دولت یہ سیاست دان دبائے بیٹھے ہیں۔ یہ سیاست دان سیاست کو کھیل سمجھتے ہیں۔ حالانکہ ان کا کام گلی گلی غریبوں کو ان کا حق پہنچانا ہونا چاہیے۔ وہ حق وہ دولت جس پر سیاست دانوں اور ان کے حواریوں نے قبضہ کر رکھا ہے اور جدید اسلحے سے لیس محافظ بٹھا رکھے ہیں۔
ملک آدھے سے زیادہ کٹ گیا۔ یہ ظالم نہ سدھرے، پھر پاکستان کی قسمت میں ایک اور 16 دسمبر آگیا، پتا نہیں 16 دسمبر کی تاریخ ظالموں نے قصداً چنی یا محض اتفاق ہے، بہرحال یہ جو بھی ہے 16 دسمبر کو ہی قدرت نے ایک قیامت برپا کرنی تھی۔ یہ پچھلے سال کی بات ہے 16 دسمبر ہی تھی پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں نے بہت منظم حملہ کردیا۔ ہر قسم کے ہتھیاروں سے مسلح درندوں نے کچھ نہ چھوڑا۔ وہ ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے۔ ''کوئی زندہ بچنے نہ پائے'' مگر ہماری مسلح فوج بھی موقع پر پہنچ گئی۔ مگر اس وقت تک بہت سے پھول جیسے بچے مارے جاچکے تھے۔ اس سانحے میں 144 شہادتیں ہوئیں۔ 16 دسمبر کا دن روتے ہوئے گزرا۔ آرمی پبلک اسکول کے بچے اپنے عزم کا اظہار کررہے تھے:
مجھے ماں، اس سے بدلہ لینے جانا ہے
مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے
پورے دن یہ نغمہ نشر ہوتا رہا اور سب کو رلاتا رہا، شہید بچوں کی تصویریں دکھائی جاتی رہیں، یہ سارے شہید بچے سرخ گلاب تھے، ان ہی سرخ گلابوں کی یادوں کے سائے میں 16 دسمبر روتا رہا، روتا رہا۔
مگر نہ اس 16 دسمبر نے ہمارے سیاست دانوں کو سدھارا اور نہ اس 16 دسمبر نے سدھارا۔ کیا عجیب تماشا ہے کہ سیاسی حکومتیں اپنے اپنے ''لٹیروں'' کو بچانے کے چکر میں پڑی ہوئی ہیں۔ لٹیروں کا خاتمہ ہوجائے یہ بات ان سیاست دانوں کو منظور نہیں! قاتل، بھتہ خور، گولی اور پرچی بھیجنے والے ختم نہ ہوں۔ پوری قوم حیران پریشان کہ یہ سیاست دان خواتین و حضرات کیا کیا دلیلیں لا رہے ہیں، انھیں ذرہ برابر احساس نہیں ہے کہ غریب بچوں سمیت خودکشیاں کررہے ہیں، مررہے ہیں اور یہ سیاست دان آپس میں بے سروپا باتیں کررہے ہیں۔
بھئی یہ لوٹ مار تو ہوتی ہے، جس کے ذریعے بیرون ملک غریبوں کا پیسہ بھیجا جاتا ہے، انھیں ہوش نہیں آتا، یہ پجاری سیاست کو اپنی اپنی طرف گھسیٹ رہے، اس کو نوچ رہے ہیں، بہت پرانے شاعر کا شعر ہے نام ڈھونڈ لیا تھا مگر اس وقت یاد نہیں آرہا۔ شعر سنیے:
مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف ''تماش بینوں'' میں
70 سال ہونے کو آئے، غریب کے حالات نہیں بدلے، دراصل ان تمام سیاست دانوں نے غریب کے حالات نہیں بدلنے، قائم رہیں ان کی جاگیریں، تجوریاں، ان کے قلعہ نما گھر، کروڑوں کی گاڑیاں، ان کے قلعوں میں جھولے، پردے، ان کے ہیلی کاپٹر۔
یہ ٹھاٹ باٹ کھوج لگاؤ تو ظلم ہی نکلے گا، یہ لوگ لاکھ کہتے رہیں ہم ٹیکس دیتے ہیں، ہمارا سب ٹھاٹ باٹ جائز ہے، حق حلال ہے، سب جھوٹ ہے، انصاف پر چلو تو دولت جمع ہوہی نہیں سکتی۔ سبھی دیکھ رہے ہیں، محسوس کررہے ہیں، انصاف کا دن بہت قریب کہ جب بقول جالب
ہنسیں گی سہمی ہوئی نگاہیں
چمک اٹھیںگی، وفا کی راہیں
ہزار ظالم سہی اندھیرا
سحر بھی لیکن قریب تر ہے۔
ہم بہت روئے وہ جب یاد آیا
16 دسمبر گریہ و زاری کا دن، 44 سال پہلے ہمارا ایک بازو کاٹ دیا گیا تھا۔ بڑی خوں ریزی ہوئی تھی، بڑی بربریت ہوئی تھی، انسانیت کا نام ونشان مٹ چکا تھا۔ حیوانیت کا راج تھا۔ 44 سال پہلے کئی دنوں تک گھروں کے چولہے نہیں جلے تھے، یہ بہت بڑا سانحہ تھا۔ ہمارے ملک کا نصف سے زیادہ حصہ علیحدہ کردیا گیا تھا۔ یہی تو وہ لوگ تھے جنھوں نے پاکستان بنایا تھا اور ان ہی کی قدر نہ کی گئی۔
پورا مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش) لہولہان تھا، کیا شہر، کیا گاؤں، ہر جگہ موت کے سائے رقص کررہے تھے۔ حبیب جالب نے اس صورتحال کو کہیں زیادہ بہتر انداز میں پیش کیا تھا:
ہریالی کو آنکھیں ترسیں بگیا لہولہان
پیار کے گیت سناؤں کس کو شہر ہوئے ویران
بگیا لہولہان
ڈستی ہیں سورج کی کرنیں چاند جلائے جان
پگ پگ موت کے گہرے سائے جیون موت سامان
چاروں اور ہوا پھرتی ہے لے کر تیر کمان
بگیا لہولہان
چھلنی ہیں کلیوں کے سینے خون میں لت پت
اور نہ جانے کب تک ہوگی اشکوں کی برسات
دنیا والوں کب بیتیں گے دکھ کے یہ دن رات
خون سے ہولی کھیل رہے ہیں دھرتی کے بلوان
بگیا لہولہان
اتنا بڑا سانحہ ہوگیا تھا۔ ہمیں سدھر جانا چاہیے تھا، مگر ہم نہ سدھرے، یہ میں ''ہم'' سیاست دانوں اور اﷲ کی زمین پر قابضین کو کہہ رہا ہوں اور باقی ماندہ ملک کو بھی لوٹ کھایا۔ ''اور نہ جانے کب تک ہوگی اشکوں کی برسات'' جالب تم 44 سال پہلے صحیح سوچ رہے تھے۔ ''اشکوں کی برسات'' تھمی نہیں! اس میں اضافہ ہوگیا۔
سیاسی پارٹیوں کی عمریں بہت لمبی ہیں، مسلم لیگ نے تو پاکستان بنایا، اس کا قیام تو بٹوارے سے پہلے ہی عمل میں آگیا تھا۔ سمجھو اس جماعت کی عمر تقریباً 80 سال ہے۔ باقی سیاسی جماعتیں بھی بڑی لمبی عمریں پاکر زندہ ہیں۔ کوئی 70 سال، کوئی 60 سال، ان میں سب سے کم عمر سیاسی جماعت ایم کیو ایم ہے۔ اس کی عمر بھی 40 سال ہوچکی ہے۔ مگر غریب کے حالات نہیں بدلے، غریب تو غریب ترین ہوچکا ہے۔
ابھی کل ہی فیصل آباد کی ایک ماں نے اپنے تین بچوں سمیت زہر کھاکر خودکشی کی ہے، ماں اور دو بچیاں مرچکی ہیں، ایک کشمکش میں ہے۔ یہ خودکشیاں بہت زیادہ ہوچکی ہیں اور غریبوں کے حصے کی دولت یہ سیاست دان دبائے بیٹھے ہیں۔ یہ سیاست دان سیاست کو کھیل سمجھتے ہیں۔ حالانکہ ان کا کام گلی گلی غریبوں کو ان کا حق پہنچانا ہونا چاہیے۔ وہ حق وہ دولت جس پر سیاست دانوں اور ان کے حواریوں نے قبضہ کر رکھا ہے اور جدید اسلحے سے لیس محافظ بٹھا رکھے ہیں۔
ملک آدھے سے زیادہ کٹ گیا۔ یہ ظالم نہ سدھرے، پھر پاکستان کی قسمت میں ایک اور 16 دسمبر آگیا، پتا نہیں 16 دسمبر کی تاریخ ظالموں نے قصداً چنی یا محض اتفاق ہے، بہرحال یہ جو بھی ہے 16 دسمبر کو ہی قدرت نے ایک قیامت برپا کرنی تھی۔ یہ پچھلے سال کی بات ہے 16 دسمبر ہی تھی پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں نے بہت منظم حملہ کردیا۔ ہر قسم کے ہتھیاروں سے مسلح درندوں نے کچھ نہ چھوڑا۔ وہ ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے۔ ''کوئی زندہ بچنے نہ پائے'' مگر ہماری مسلح فوج بھی موقع پر پہنچ گئی۔ مگر اس وقت تک بہت سے پھول جیسے بچے مارے جاچکے تھے۔ اس سانحے میں 144 شہادتیں ہوئیں۔ 16 دسمبر کا دن روتے ہوئے گزرا۔ آرمی پبلک اسکول کے بچے اپنے عزم کا اظہار کررہے تھے:
مجھے ماں، اس سے بدلہ لینے جانا ہے
مجھے دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے
پورے دن یہ نغمہ نشر ہوتا رہا اور سب کو رلاتا رہا، شہید بچوں کی تصویریں دکھائی جاتی رہیں، یہ سارے شہید بچے سرخ گلاب تھے، ان ہی سرخ گلابوں کی یادوں کے سائے میں 16 دسمبر روتا رہا، روتا رہا۔
مگر نہ اس 16 دسمبر نے ہمارے سیاست دانوں کو سدھارا اور نہ اس 16 دسمبر نے سدھارا۔ کیا عجیب تماشا ہے کہ سیاسی حکومتیں اپنے اپنے ''لٹیروں'' کو بچانے کے چکر میں پڑی ہوئی ہیں۔ لٹیروں کا خاتمہ ہوجائے یہ بات ان سیاست دانوں کو منظور نہیں! قاتل، بھتہ خور، گولی اور پرچی بھیجنے والے ختم نہ ہوں۔ پوری قوم حیران پریشان کہ یہ سیاست دان خواتین و حضرات کیا کیا دلیلیں لا رہے ہیں، انھیں ذرہ برابر احساس نہیں ہے کہ غریب بچوں سمیت خودکشیاں کررہے ہیں، مررہے ہیں اور یہ سیاست دان آپس میں بے سروپا باتیں کررہے ہیں۔
بھئی یہ لوٹ مار تو ہوتی ہے، جس کے ذریعے بیرون ملک غریبوں کا پیسہ بھیجا جاتا ہے، انھیں ہوش نہیں آتا، یہ پجاری سیاست کو اپنی اپنی طرف گھسیٹ رہے، اس کو نوچ رہے ہیں، بہت پرانے شاعر کا شعر ہے نام ڈھونڈ لیا تھا مگر اس وقت یاد نہیں آرہا۔ شعر سنیے:
مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف ''تماش بینوں'' میں
70 سال ہونے کو آئے، غریب کے حالات نہیں بدلے، دراصل ان تمام سیاست دانوں نے غریب کے حالات نہیں بدلنے، قائم رہیں ان کی جاگیریں، تجوریاں، ان کے قلعہ نما گھر، کروڑوں کی گاڑیاں، ان کے قلعوں میں جھولے، پردے، ان کے ہیلی کاپٹر۔
یہ ٹھاٹ باٹ کھوج لگاؤ تو ظلم ہی نکلے گا، یہ لوگ لاکھ کہتے رہیں ہم ٹیکس دیتے ہیں، ہمارا سب ٹھاٹ باٹ جائز ہے، حق حلال ہے، سب جھوٹ ہے، انصاف پر چلو تو دولت جمع ہوہی نہیں سکتی۔ سبھی دیکھ رہے ہیں، محسوس کررہے ہیں، انصاف کا دن بہت قریب کہ جب بقول جالب
ہنسیں گی سہمی ہوئی نگاہیں
چمک اٹھیںگی، وفا کی راہیں
ہزار ظالم سہی اندھیرا
سحر بھی لیکن قریب تر ہے۔