ملکی معیشت پر قرضوں کا بوجھ
معاشی استحکام کے دعوؤں کے باوجود پاکستان قرضوں کے ایک نہ ختم ہونے والے منحوس چکر میں پھنسا ہوا ہے
موجودہ حکومت یہ دعویٰ کرتی دکھائی دیتی ہے کہ وہ ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں اور وسائل بروئے کار لا رہی ہے اور وہ جلد معاشی مشکلات پر قابو پانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ موجودہ حکومت نے بڑے بڑے ترقیاتی منصوبے شروع کر رکھے ہیں جن میں چین کے تعاون سے اقتصادی راہداری کا منصوبہ بھی شامل ہے جن کے پایہ تکمیل تک پہنچنے کے بعد معاشی خوشحالی کے ایک نئے سفر کا آغاز ہو جائے گا تاہم حقائق بتاتے ہیں کہ پاکستان کی معیشت خاصی مشکلات میں پھنسی ہوئی ہے ایک جانب دہشت گردی' توانائی کے بحران' مہنگائی اور بیروزگاری کے چیلنجز درپیش ہیں تو دوسری جانب اندرونی اور بیرونی قرضوں کا ایک پہاڑ ہے جو ملکی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے بلکہ معاشی ماہرین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ قرضوں کا یہ بوجھ ملکی معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ کر اسے کھوکھلا کر رہا ہے۔
معاشی استحکام کے دعوؤں کے باوجود پاکستان قرضوں کے ایک نہ ختم ہونے والے منحوس چکر میں پھنسا ہوا ہے۔موجودہ حکومت نے برسراقتدار آنے کے بعد یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ قرضوں کے کشکول کو توڑ دے گی اور ایسی معاشی پالیسیاں لائے گی کہ اسے غیرملکی قرضے لینے کی نوبت ہی نہیں آئے گی اور وہ ملکی وسائل ہی کو بہتر انداز میں بروئے کار لا کر معاشی انقلاب لے آئے گی۔ حکومت معاشی انقلاب لانے میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر ملک کی موجودہ معاشی صورت حال بڑی تلخ حقیقتوں کو عیاں کر رہی ہے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق 2014-15ء کے اختتام پر مجموعی غیر ملکی قرضے کی مالیت 65ارب 10کروڑ ڈالر ریکارڈ کی گئی۔ حکومت کو ملکی بجٹ کا ایک بڑا حصہ غیر ملکی قرضوں اور سود کی ادائیگی پر خرچ کرنا پڑتا ہے جس سے ملکی معیشت کو شدید دھچکا پہنچتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق پاکستان نے گزشتہ پانچ سال کے دوران قرضوں اور سود کی مد میں 25 ارب ڈالر کی ادائیگیاں کی ہیں جو ملک کی ایک سال کی مجموعی برآمدات کے برابر ہے' قرض کی اصل رقم کی مد میں 20ارب ڈالر جب کہ سود کی مد میں پانچ ارب ڈالر ادا کیے گئے' پانچ سال کے دوران 25 ارب ڈالر ادا کرنے کے باوجود مجموعی غیر ملکی قرضوں میں محض ایک ارب 26 کروڑ ڈالر کی کمی واقع ہوئی ہے' اسٹیٹ بینک کی سالانہ معاشی رپورٹ برائے سال 2014-15 کے مطابق پاکستان نے مالی سال2014-15 کے دوران قرضوں کی اصل رقم کی مد میں 3ارب 53 کروڑ ڈالر اور سود کی مد میں ایک ارب 17 کروڑ ڈالر ادا کیے۔
معاشی ماہرین تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حکومت کشکول توڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکی اور حکومت اپنی معاشی پالیسیاں چلانے کے لیے مزید قرضوں پر قرضے لینے پر مجبور ہے۔ اربوں ڈالر کے یہ لیے گئے قرضے کہاں خرچ ہو رہے ہیں اور ان سے معاشی صورت حال میں کیا تبدیلی آ رہی ہے' عوام کو اس کے ثمرات نظر نہیں آ رہے۔ عام آدمی کی حالت تو یہ ہے کہ وہ آج بھی کسمپرسی کا شکار ہے اور ملک میں غربت بڑھ رہی ہے۔ غیر ملکی اور ملکی قرضوں سے ارباب حکومت اور خاص طبقے ہی مستفید ہوتے ہیں جب کہ ان قرضوں کی ادائیگی کا بوجھ عام آدمی پر پڑتا ہے اور وہ مہنگائی اور غربت کی چکی میں مسلسل پستا چلا جاتا ہے' ارکان حکومت' افسر شاہی اور عام آدمی کے معیار زندگی کو دیکھ کر بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکومتی معاشی پالیسیوں اور غیر ملکی قرضوں سے کن کی زندگی میں خوشحالی کا انقلاب آ رہا ہے۔ جب حکومت غیر ملکی قرضے لیتی ہے تو اس سلسلے میں عائد کردہ شرائط کے مطابق عوامی ضروریات کی اشیا کو مہنگا کر دیتی ہے۔
مختلف قسم کے ٹیکس عائد ہوتے ہیں جن کا بوجھ بھی نچلے طبقات پر منتقل ہو جاتا ہے۔ حیرت انگیز امر ہے کہ ملکی بجٹ کا وہ حصہ جو عوام کی زندگیوں میں انقلاب لا سکتا ہے قرضوں اور سود کی مد میں ادائیگیوں پر صرف ہو جاتا ہے اور حکومت ہے کہ وہ مزید قرضوں کے حصول کے لیے غیر ملکی اداروں کی ہر شرط کے سامنے سر تسلیم خم کیے ہوئے ہے۔ خود انحصاری کی منزل پانے کے لیے ملکی وسائل کے درست استعمال اور ٹیکسز کا نظام بہتر بنا کر ملکی اشرافیہ کو اس نیٹ میں لایا جائے۔ حکمران اپنے اخراجات میں کمی کریں' غیر ملکی دوروں پر بڑے بڑے وفود لے جانے پر پابندی لگائی جائے' سرکاری افسروں کے غیر ملکی دوروں پر پابندی لگائی جائے' عوام کے منتخب نمایندے خواہ وہ ایم این ایز ہوں' ایم پی ایز ہوں' سینیٹرز ہوں یا بلدیاتی نمایندے سب رضا کارانہ طور پر اپنی تنخواہیں اور مراعات لینا بند کر دیں تو صورت حال بہتر ہو سکتی ہے۔یہی درست معاشی پالیسی ہے۔
معاشی استحکام کے دعوؤں کے باوجود پاکستان قرضوں کے ایک نہ ختم ہونے والے منحوس چکر میں پھنسا ہوا ہے۔موجودہ حکومت نے برسراقتدار آنے کے بعد یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ قرضوں کے کشکول کو توڑ دے گی اور ایسی معاشی پالیسیاں لائے گی کہ اسے غیرملکی قرضے لینے کی نوبت ہی نہیں آئے گی اور وہ ملکی وسائل ہی کو بہتر انداز میں بروئے کار لا کر معاشی انقلاب لے آئے گی۔ حکومت معاشی انقلاب لانے میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر ملک کی موجودہ معاشی صورت حال بڑی تلخ حقیقتوں کو عیاں کر رہی ہے۔
اخباری اطلاعات کے مطابق 2014-15ء کے اختتام پر مجموعی غیر ملکی قرضے کی مالیت 65ارب 10کروڑ ڈالر ریکارڈ کی گئی۔ حکومت کو ملکی بجٹ کا ایک بڑا حصہ غیر ملکی قرضوں اور سود کی ادائیگی پر خرچ کرنا پڑتا ہے جس سے ملکی معیشت کو شدید دھچکا پہنچتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق پاکستان نے گزشتہ پانچ سال کے دوران قرضوں اور سود کی مد میں 25 ارب ڈالر کی ادائیگیاں کی ہیں جو ملک کی ایک سال کی مجموعی برآمدات کے برابر ہے' قرض کی اصل رقم کی مد میں 20ارب ڈالر جب کہ سود کی مد میں پانچ ارب ڈالر ادا کیے گئے' پانچ سال کے دوران 25 ارب ڈالر ادا کرنے کے باوجود مجموعی غیر ملکی قرضوں میں محض ایک ارب 26 کروڑ ڈالر کی کمی واقع ہوئی ہے' اسٹیٹ بینک کی سالانہ معاشی رپورٹ برائے سال 2014-15 کے مطابق پاکستان نے مالی سال2014-15 کے دوران قرضوں کی اصل رقم کی مد میں 3ارب 53 کروڑ ڈالر اور سود کی مد میں ایک ارب 17 کروڑ ڈالر ادا کیے۔
معاشی ماہرین تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حکومت کشکول توڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکی اور حکومت اپنی معاشی پالیسیاں چلانے کے لیے مزید قرضوں پر قرضے لینے پر مجبور ہے۔ اربوں ڈالر کے یہ لیے گئے قرضے کہاں خرچ ہو رہے ہیں اور ان سے معاشی صورت حال میں کیا تبدیلی آ رہی ہے' عوام کو اس کے ثمرات نظر نہیں آ رہے۔ عام آدمی کی حالت تو یہ ہے کہ وہ آج بھی کسمپرسی کا شکار ہے اور ملک میں غربت بڑھ رہی ہے۔ غیر ملکی اور ملکی قرضوں سے ارباب حکومت اور خاص طبقے ہی مستفید ہوتے ہیں جب کہ ان قرضوں کی ادائیگی کا بوجھ عام آدمی پر پڑتا ہے اور وہ مہنگائی اور غربت کی چکی میں مسلسل پستا چلا جاتا ہے' ارکان حکومت' افسر شاہی اور عام آدمی کے معیار زندگی کو دیکھ کر بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکومتی معاشی پالیسیوں اور غیر ملکی قرضوں سے کن کی زندگی میں خوشحالی کا انقلاب آ رہا ہے۔ جب حکومت غیر ملکی قرضے لیتی ہے تو اس سلسلے میں عائد کردہ شرائط کے مطابق عوامی ضروریات کی اشیا کو مہنگا کر دیتی ہے۔
مختلف قسم کے ٹیکس عائد ہوتے ہیں جن کا بوجھ بھی نچلے طبقات پر منتقل ہو جاتا ہے۔ حیرت انگیز امر ہے کہ ملکی بجٹ کا وہ حصہ جو عوام کی زندگیوں میں انقلاب لا سکتا ہے قرضوں اور سود کی مد میں ادائیگیوں پر صرف ہو جاتا ہے اور حکومت ہے کہ وہ مزید قرضوں کے حصول کے لیے غیر ملکی اداروں کی ہر شرط کے سامنے سر تسلیم خم کیے ہوئے ہے۔ خود انحصاری کی منزل پانے کے لیے ملکی وسائل کے درست استعمال اور ٹیکسز کا نظام بہتر بنا کر ملکی اشرافیہ کو اس نیٹ میں لایا جائے۔ حکمران اپنے اخراجات میں کمی کریں' غیر ملکی دوروں پر بڑے بڑے وفود لے جانے پر پابندی لگائی جائے' سرکاری افسروں کے غیر ملکی دوروں پر پابندی لگائی جائے' عوام کے منتخب نمایندے خواہ وہ ایم این ایز ہوں' ایم پی ایز ہوں' سینیٹرز ہوں یا بلدیاتی نمایندے سب رضا کارانہ طور پر اپنی تنخواہیں اور مراعات لینا بند کر دیں تو صورت حال بہتر ہو سکتی ہے۔یہی درست معاشی پالیسی ہے۔