رائی کا پہاڑ
صدر صاحب کے استقبال کے لیے موجود سرکاری حکام اور اہل کاروں کی صف میں ہم بھی شامل تھے۔
رائی کا پہاڑ اور بات کا بتنگڑ بنا دینا ہمارے یہاں کا عام دستور ہے جس میں ہمارا میڈیا اور بالخصوص الیکٹرانک میڈیا بھی پیش پیش نظر آتا ہے۔ گزشتہ دنوں ہمارے صدر مملکت کے ساتھ یہی سلوک ہوا اور ہر کسی نے سود کے حوالے سے ان کے ریمارکس کو سیاق و سباق سے ہٹ کر توڑ مروڑ کے پیش کرنے کی کوشش کی۔
بات صرف اتنی سی تھی کہ چند روز قبل فیصل آباد میں ٹیکسٹائل ایسوسی ایشن کی ایک تقریب سے خطاب کے دوران صدر ممنون حسین نے ایسوسی ایشن کے عہدیداران کے کچھ مطالبات کے جواب میں برسبیل تذکرہ یہ کہہ دیا کہ کاروباری حضرات ٹیکس کی ادائیگی سے تو یہ کہہ کر گریز کرتے ہیں کہ یہ غیر اسلامی ہے اور دین میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے حالانکہ اسلامی حکومت کو ریاست کا کام چلانے کے لیے دین کی روشنی میں فیصلے کرنے کا اختیار ہوتا ہے اور ممتاز اسلامی اسکالر ڈاکٹر حمید اللہ نے تو علما سے یہ تک کہا ہے کہ غریب آدمی چونکہ ساری زندگی اپنا گھر نہیں بنا سکتا اس لیے گھر بنانے کے مقصد سے لیے گئے قرضے پر انٹرسٹ یا سود کی ادائیگی کے لیے گنجائش ہونی چاہیے۔ صدر صاحب کی اتنی سی بات کا یار لوگوں نے بتنگڑ بنادیا۔
دوسروں کے کپڑوں پر کسی نہ کسی بہانے کیچڑ اچھالنا اور منہ سے نکلے ہوئے الفاظ کو distort کرکے کچھ کا کچھ مطلب نکالنا ہمارے یہاں کا دستور بن چکا ہے اور ریٹنگ بڑھانے کی اندھی دوڑ میں ہر چینل اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ کر ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ سب سے زیادہ افسوس تو اس بات کا ہے کہ اس طرح کی اخلاق سے گری ہوئی حرکتیں کرتے ہوئے کسی کو اس بات کا لحاظ بھی نہیں ہوتا کہ جس شخص کی پگڑی اچھالی جا رہی ہے وہ کس مقام و مرتبے کا مالک ہے اور اس کی علمیت، اہلیت اور شرافت کا معیار کتنا بلند ہے۔
یہ عجیب حسن اتفاق ہے کہ ہم محترم ممنون حسین اور ان کے خاندان سے اس وقت سے واقف ہیں جب وہ سندھ کے گورنر بھی نہیں بنے تھے۔ صدر صاحب کے گھرانے کے بارے میں ہم پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ ''ایں خانہ ہمہ آفتاب است'' ان کا خانوادہ عرصہ دراز سے صاف ستھری تجارت سے منسلک ہے اور صدر صاحب بذات خود ایک باعمل مسلمان (Practicing Muslim) ہیں۔
بھارت کی یہ روایت رہی ہے کہ وہاں کے اکثر صدور مملکت علم و دانش کے زیور سے آراستہ رہے ہیں جن میں صدر اول ڈاکٹر راجندر پرشاد سے لے کر ڈاکٹر رادھا کرشنن، ڈاکٹر ذاکر حسین اور ڈاکٹر عبدالکلام جیسے نابغہ روزگار شامل ہیں۔ اگرچہ ہمارے یہاں اس سلسلے میں ایسی مستحکم روایت تو رائج نہیں ہوسکی مگر ہمارے یہاں بھی صدر کے منصب پر اہل علم و دانش کا فائز ہونا ایک اچھا شگون ہے۔ ان میں سابق صدر فاروق احمد خان لغاری (مرحوم) اور موجودہ صدر ممنون حسین یقینا قابل ذکر ہیں۔ ہمیں وہ وقت یاد ہے کہ جب صدر فاروق لغاری صاحب صوبہ بلوچستان کے سرکاری دورے پر تشریف لائے تھے۔ اس وقت صوبے کے بیشتر علاقے قدرتی آفت کی زد میں تھے۔ وقفے وقفے سے طوفانی بارش کا سلسلہ جاری تھا اور آسمان پر گہرے بادل چھائے ہوئے تھے۔
صدر صاحب کے استقبال کے لیے موجود سرکاری حکام اور اہل کاروں کی صف میں ہم بھی شامل تھے۔ یکایک گھٹاؤں کے پردے سے صدر لغاری کا خصوصی طیارہ شہاب ثاقب کی طرح نمودار ہوا اور بادلوں کی گھنی چادر کو چیرتا ہوا کوئٹہ ایئرپورٹ پر لینڈ کرگیا۔ اس وقت کے وزیر اطلاعات اور نام ور صحافی ارشاد احمد حقانی لغاری صاحب کے ہمراہ تھے۔ صدر لغاری کا یہ انتہائی مختصر دورہ بہت مصروف بھی تھا۔ اس دورے میں زراعت کے موضوع پر ایک سیمینار سے خطاب بھی شامل تھا جس میں ایگری کلچر کے شعبے سے تعلق رکھنے والے بڑے بڑے ماہرین نے بھی اپنے اپنے مقالات پیش کیے جو بڑی محنت اور عرق ریزی سے تیار کیے گئے تھے۔ اس کے بعد صدر لغاری کو خطبہ صدارت پیش کرنا تھا جو ہمارے خیال میں پہلے سے تیار شدہ ہونا چاہیے تھا۔ مگر خلاف توقع لغاری صاحب نے فی البدیہہ آغاز کلام کردیا۔ انھوں نے زراعت کے مختلف پہلوؤں پر ہی نہیں بلکہ ان سے متعلق جزویات پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی۔
ہال میں موجود تمام حاضرین پر ایک قسم کا سحر سا طاری تھا جب کہ ماہرین زراعت انگشت بہ دنداں نظر آرہے تھے۔ سب سے کمال کی بات یہ تھی کہ لغاری صاحب کے پاس نہ کوئی Notes تھے اور نہ ہی تحریر کی صورت میں کوئی Points ان کے آگے موجود تھے۔ عموماً اس طرح کے صدارتی خطبات محض رسمی اور مختصر ہوتے ہیں لیکن لغاری صاحب کا خطبہ صدارت مفصل بھی تھا اور انتہائی مدلل اور سائنٹیفک بھی۔ وہ تقریباً دو گھنٹے تک بے تکان بولتے رہے۔ لگتا تھا کہ ایک سیل رواں ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ ایک بحر بے کراں ہے جس کی کوئی تہہ نہیں ہے۔اس سے قبل جب کراچی میں اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس منعقد ہوئی تھی تو اس وقت بھی بحیثیت وزیر خارجہ پاکستان فاروق لغاری نے اپنے خطاب میں ایسا سماں باندھ دیا تھا جسے حاضرین و سامعین تادم آخر فراموش نہیں کرسکتے۔ امور خارجہ پر اتنا عبور ہم نے بہت کم لوگوںمیںدیکھاہے۔ لغاری صاحب کا وہ خطاب بھی Extempore ہی تھا۔ فاروق لغاری کی سیاست، ان کی حکمت عملی اور ان کی پالیسیوں سے اختلاف سے قطع نظر ان کی غیر معمولی اہلیت و لیاقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ بقول غالب!
یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
لغاری صاحب ملک عدم سدھار چکے، مگر ان کی انمٹ خوبیوں کی یادیں ہمارے ذہن میں ہمیشہ تروتازہ رہیں گی۔
جانے والے کبھی نہیں آتے
جانے والوں کی یاد آتی ہے
بات صرف اتنی سی تھی کہ چند روز قبل فیصل آباد میں ٹیکسٹائل ایسوسی ایشن کی ایک تقریب سے خطاب کے دوران صدر ممنون حسین نے ایسوسی ایشن کے عہدیداران کے کچھ مطالبات کے جواب میں برسبیل تذکرہ یہ کہہ دیا کہ کاروباری حضرات ٹیکس کی ادائیگی سے تو یہ کہہ کر گریز کرتے ہیں کہ یہ غیر اسلامی ہے اور دین میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے حالانکہ اسلامی حکومت کو ریاست کا کام چلانے کے لیے دین کی روشنی میں فیصلے کرنے کا اختیار ہوتا ہے اور ممتاز اسلامی اسکالر ڈاکٹر حمید اللہ نے تو علما سے یہ تک کہا ہے کہ غریب آدمی چونکہ ساری زندگی اپنا گھر نہیں بنا سکتا اس لیے گھر بنانے کے مقصد سے لیے گئے قرضے پر انٹرسٹ یا سود کی ادائیگی کے لیے گنجائش ہونی چاہیے۔ صدر صاحب کی اتنی سی بات کا یار لوگوں نے بتنگڑ بنادیا۔
دوسروں کے کپڑوں پر کسی نہ کسی بہانے کیچڑ اچھالنا اور منہ سے نکلے ہوئے الفاظ کو distort کرکے کچھ کا کچھ مطلب نکالنا ہمارے یہاں کا دستور بن چکا ہے اور ریٹنگ بڑھانے کی اندھی دوڑ میں ہر چینل اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ کر ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ سب سے زیادہ افسوس تو اس بات کا ہے کہ اس طرح کی اخلاق سے گری ہوئی حرکتیں کرتے ہوئے کسی کو اس بات کا لحاظ بھی نہیں ہوتا کہ جس شخص کی پگڑی اچھالی جا رہی ہے وہ کس مقام و مرتبے کا مالک ہے اور اس کی علمیت، اہلیت اور شرافت کا معیار کتنا بلند ہے۔
یہ عجیب حسن اتفاق ہے کہ ہم محترم ممنون حسین اور ان کے خاندان سے اس وقت سے واقف ہیں جب وہ سندھ کے گورنر بھی نہیں بنے تھے۔ صدر صاحب کے گھرانے کے بارے میں ہم پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ ''ایں خانہ ہمہ آفتاب است'' ان کا خانوادہ عرصہ دراز سے صاف ستھری تجارت سے منسلک ہے اور صدر صاحب بذات خود ایک باعمل مسلمان (Practicing Muslim) ہیں۔
بھارت کی یہ روایت رہی ہے کہ وہاں کے اکثر صدور مملکت علم و دانش کے زیور سے آراستہ رہے ہیں جن میں صدر اول ڈاکٹر راجندر پرشاد سے لے کر ڈاکٹر رادھا کرشنن، ڈاکٹر ذاکر حسین اور ڈاکٹر عبدالکلام جیسے نابغہ روزگار شامل ہیں۔ اگرچہ ہمارے یہاں اس سلسلے میں ایسی مستحکم روایت تو رائج نہیں ہوسکی مگر ہمارے یہاں بھی صدر کے منصب پر اہل علم و دانش کا فائز ہونا ایک اچھا شگون ہے۔ ان میں سابق صدر فاروق احمد خان لغاری (مرحوم) اور موجودہ صدر ممنون حسین یقینا قابل ذکر ہیں۔ ہمیں وہ وقت یاد ہے کہ جب صدر فاروق لغاری صاحب صوبہ بلوچستان کے سرکاری دورے پر تشریف لائے تھے۔ اس وقت صوبے کے بیشتر علاقے قدرتی آفت کی زد میں تھے۔ وقفے وقفے سے طوفانی بارش کا سلسلہ جاری تھا اور آسمان پر گہرے بادل چھائے ہوئے تھے۔
صدر صاحب کے استقبال کے لیے موجود سرکاری حکام اور اہل کاروں کی صف میں ہم بھی شامل تھے۔ یکایک گھٹاؤں کے پردے سے صدر لغاری کا خصوصی طیارہ شہاب ثاقب کی طرح نمودار ہوا اور بادلوں کی گھنی چادر کو چیرتا ہوا کوئٹہ ایئرپورٹ پر لینڈ کرگیا۔ اس وقت کے وزیر اطلاعات اور نام ور صحافی ارشاد احمد حقانی لغاری صاحب کے ہمراہ تھے۔ صدر لغاری کا یہ انتہائی مختصر دورہ بہت مصروف بھی تھا۔ اس دورے میں زراعت کے موضوع پر ایک سیمینار سے خطاب بھی شامل تھا جس میں ایگری کلچر کے شعبے سے تعلق رکھنے والے بڑے بڑے ماہرین نے بھی اپنے اپنے مقالات پیش کیے جو بڑی محنت اور عرق ریزی سے تیار کیے گئے تھے۔ اس کے بعد صدر لغاری کو خطبہ صدارت پیش کرنا تھا جو ہمارے خیال میں پہلے سے تیار شدہ ہونا چاہیے تھا۔ مگر خلاف توقع لغاری صاحب نے فی البدیہہ آغاز کلام کردیا۔ انھوں نے زراعت کے مختلف پہلوؤں پر ہی نہیں بلکہ ان سے متعلق جزویات پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی۔
ہال میں موجود تمام حاضرین پر ایک قسم کا سحر سا طاری تھا جب کہ ماہرین زراعت انگشت بہ دنداں نظر آرہے تھے۔ سب سے کمال کی بات یہ تھی کہ لغاری صاحب کے پاس نہ کوئی Notes تھے اور نہ ہی تحریر کی صورت میں کوئی Points ان کے آگے موجود تھے۔ عموماً اس طرح کے صدارتی خطبات محض رسمی اور مختصر ہوتے ہیں لیکن لغاری صاحب کا خطبہ صدارت مفصل بھی تھا اور انتہائی مدلل اور سائنٹیفک بھی۔ وہ تقریباً دو گھنٹے تک بے تکان بولتے رہے۔ لگتا تھا کہ ایک سیل رواں ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ ایک بحر بے کراں ہے جس کی کوئی تہہ نہیں ہے۔اس سے قبل جب کراچی میں اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس منعقد ہوئی تھی تو اس وقت بھی بحیثیت وزیر خارجہ پاکستان فاروق لغاری نے اپنے خطاب میں ایسا سماں باندھ دیا تھا جسے حاضرین و سامعین تادم آخر فراموش نہیں کرسکتے۔ امور خارجہ پر اتنا عبور ہم نے بہت کم لوگوںمیںدیکھاہے۔ لغاری صاحب کا وہ خطاب بھی Extempore ہی تھا۔ فاروق لغاری کی سیاست، ان کی حکمت عملی اور ان کی پالیسیوں سے اختلاف سے قطع نظر ان کی غیر معمولی اہلیت و لیاقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ بقول غالب!
یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
لغاری صاحب ملک عدم سدھار چکے، مگر ان کی انمٹ خوبیوں کی یادیں ہمارے ذہن میں ہمیشہ تروتازہ رہیں گی۔
جانے والے کبھی نہیں آتے
جانے والوں کی یاد آتی ہے