ہرشخص کو اپنے حصے کا ٹیکس دینا ہوگا ڈی جی انٹیلی جنس ایف بی آر

کوئی نہ کوئی افسرٹیکس چوری میںملاہوتاہے،سوچ میں پڑجاتاہوں وسائل کرپشن پکڑنے پریاٹیکس چوری روکنے پرلگاؤں

اپنے وسائل پیداکرناہونگے ورنہ مزیدٹیکس لگاناپڑیںگے، تاجروں کوہراساں کرنے کاتاثرغلط ہے، ہارون ترین کاخصوصی انٹرویو۔ فوٹو: ایکسپریس

FAISALABAD:
ایف بی آر کے ڈائریکٹرجنرل انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن ان لینڈ ریونیو ہارون ترین نے انکشاف کیا ہے کہ ٹیکس چوری اور کرپشن دونوں ہی مسلسل بڑھتے جارہے ہیں اور اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ میں خودسوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ حکومت کے فراہم کردہ محدود وسائل کرپشن پکڑنے پر لگاؤں یا ٹیکس چوری پر، کیونکہ ٹیکس چوری میں محکمہ کا کوئی نہ کوئی افسر ملا ہوا ہوتا ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ انکم ٹیکس چوری میں ملوث لوگوں کیخلاف فوجداری مقدمات درج کروائے گئے ہیں، ان مقدمات میں لوگوں کو سزائیں بھی ملیں گی اور ریکوری بھی بہتر ہوگی۔ ملک کا نظام اگر چلانا اور اس کو بچانا ہے تو اپنے وسائل پیدا کرنا ہوںگے، مانگے کی رقم سے زیادہ عرصے تک نظام نہیں چلایا جاسکتا ہے۔ ''ایکسپریس'' کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے کہا گزشتہ ایک سال کے دوران ٹیکس چوری پر 157 ایف آئی آرز درج کرلی گئی ہیں، اب تک تک 54 ارب روپے کی ٹیکس چوری کی نشاندہی کرچکے ہیں، محدود انسانی وسائل سے ادارہ چلارہے ہیں۔

اوسطاً 3 سے 4 افسر ایک ڈائریکٹوریٹ میں تعینات ہیں، اگر کام بڑھانا ہے تو مزید وسائل اور عملہ بھی دینا ہوگا، سپاہی اور اسلحہ فراہم کیا جائے جس کیلیے ایف بی آر کو متعدد مرتبہ لکھ چکا ہوں مگر اس کی بھی مجبوری ہے کیونکہ اس کا بجٹ پہلے سے مختص ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا کسی سے ٹیکس لینا آسان کام نہیں، جو لوگ ٹیکس چوری میں ملوث ہوتے ہیں ان کیخلاف تمام شواہد موجود ہوتے ہیں مگر اس کے باوجود وہ اس کو جھٹلادیتے ہیں، اب تک جتنے مقدمات بنائے ان میں سے کئی لوگ اعلیٰ قانونی فورمز پر گئے جہاں سے ان کی پٹیشنیں خارج ہوئیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارا ادارہ ٹھوس اور ناقابل تردید شواہد کی بنیاد پر کیس بناتا ہے۔


یہ تاثر غلط ہے کہ ڈائریکٹوریٹ جنرل انٹیلی جنس تاجروں اور صنعتکاروں کو گرفتار کرکے خوف وہراس پیدا کرتا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ صرف ان تاجروں اور صنعتکاروں کیخلاف ایف آئی آرز درج کی جاتی ہیں جو تمام شواہد ہونے کے باوجود ٹیکس واجبات ادا نہیں کرتے۔ انھوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ٹیکس دہندگان کو ہراساں نہ کیا جائے۔ انھوں نے کہا کہ اگر معاشرے میں پوچھ گچھ اور سزا وجزا کا عمل نہ ہو تو معاشرہ نہیں چل سکتا، اگرچہ ڈی جی انٹیلی جنس میں اچھی ساکھ کے حامل افسران تعینات کیے گئے ہیں مگر اس کے باوجود ٹیکس دہندگان کیساتھ ساتھ ان لینڈ ریونیو افسران پر بھی کڑی نظر رکھی جاتی ہے اور اگر کسی افسر پر کوئی الزام آتا ہے تو چارج شیٹ کیساتھ اس افسر کو یہاں سے روانہ کیا جاتاہے، اب تک 6 کمشنر ان لینڈ ریونیو کے بارے میں لکھ کر دے چکا ہوں کہ انھیں چارج شیٹ کیا جائے، وزیراعظم پاکستان اور چیئرمین ایف بی آر کی جانب سے بھی دو کیسوں میں مجھے انکوائری افسر مقرر کیا گیا ہے جن کی انکوائری مکمل کرکے بھجوا چکا ہوں، وزیراعظم کی جانب سے ایک کیس میں کرپشن پر ایک افسر کو برطرف بھی کیا جاچکا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا ملکی معیشت کے اہم شعبے میں ایک ٹیکس چور کیخلاف ایف آئی آر درج کرکے گرفتار کیا گیا، اس ایک اقدام کے بعد اس شعبے سے قانونی طور پر حاصل ہونیوالی ٹیکس وصولی میں 240 فیصد اضافہ ہوا۔ وسائل بڑھانے کیلیے ہرشخص کو دیانتداری سے اپنے حصے کا ٹیکس ادا کرنا ہوگا، بالواسطہ ٹیکسوں کے بجائے بلاواسطہ ٹیکسوں پر انحصار بڑھانا ہوگا، اگر لوگ دیانتداری سے ڈائریکٹ ٹیکس ادا نہیں کریںگے تو حکومت چلانے کیلیے درکار وسائل حاصل کرنے کیلیے مزید ڈائریکٹ ٹیکس لگانا پڑیںگے جس سے امیر اور غریب کے درمیان فرق بڑھتا جائیگا۔ انھوں نے کہا تاریخ میں پہلی مرتبہ انکم ٹیکس چوری پر فوجداری مقدمات درج کئے گئے،اس سے پہلے صرف سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی چوری پر مقدمات درج کیے جاتے تھے، ان مقدمات میں لوگوں کو سزائیں بھی ملیں گی اور ٹیکس ریکوری بھی بہتر ہوگی۔

Load Next Story