کراچی کے سرکاری اسکولوں کی حالتِ زار
کراچی میں گھوسٹ اسکول، گھوسٹ اساتذہ اور گھوسٹ طلبہ اب بھی موجود ہیں۔
ISLAMABAD:
کراچی میں گھوسٹ اسکول، گھوسٹ اساتذہ اور گھوسٹ طلبہ اب بھی موجود ہیں۔ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرداں غیر سرکاری تنظیم (N.G.O) انسانی حقوق کمیشن (H.R.C.P) نے کراچی کے سرکاری اسکولوں میں سروے کیا۔ اس سروے کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ سرکاری پرائمری اسکولوں میں داخلے کی شرح کم ہو کر 9 فیصد سے بھی کم ہوگئی ہے۔
سینئر صحافی اور اپنی زندگی انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے وقف کرنے والے آئی اے رحمن نے اس رپورٹ کے اجراء کے وقت یہ سوال کیا کہ کراچی کے باقی 91 فیصد بچے غیر سرکاری اسکولوں یا مدرسوںمیں تعلیم حاصل کرتے ہیں، اس بارے میں اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔ ایچ آر سی پی کے متحرک کارکن خضر حبیب کی قیادت میں رضاکاروں نے کئی ماہ تک کراچی کے اسکولوں میں جا کر اعداد و شمار جمع کیے۔ ان اعداد و شمار میں چونکا دینے والے انکشافات سامنے آئے۔ ایک ٹیم نے 2 ہزار سے زائد اسکولوں کے بارے میں اعداد و شمار جمع کیے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کراچی کی آبادی کے اعتبار سے اسکولوں کی تعداد کم ہے۔
1998 میں دستیاب اعدا د و شمار کے موازنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ طلبا کے سرکاری اسکولوں میں داخلے کی شرح کم ہورہی ہے۔ بین الاقوامی معیار کے مطابق اسکولوں کی نگرانی کے لیے قائم ہونے والی اسکول مینجمنٹ کمیٹیاں یا تو بہت سے اسکولوں میں قائم نہیں ہوتیں یا پھر فعال نہیں ہیں۔ پرائمری اسکولوں میں مخلوط تعلیم ہے اور ان اسکولوں میں لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہے۔
والدین کا کہنا ہے کہ عموماً لڑکوں کو غیر سرکاری اسکولوں میں داخل کرایا جاتا ہے اور لڑکیوں کو سرکاری اسکول بھیج دیا جاتا ہے۔ سروے کرنے والے رضاکاروں نے اس بات کا مشاہدہ کیا کہ اسکولوں کے جنرل رجسٹر (G.R) میں طلبا کی تعداد زیادہ ظاہر کی جاتی ہے جب کہ کلاس روم میں طلبا کی تعداد کم ہوتی ہے۔ تحقیق پر یہ معلوم ہوا کہ جنرل رجسٹر میں ان طلبا کے ناموں کا اخراج نہیں ہوتا جو اسکول چھوڑ جاتے ہیں تاکہ اسکول کی کارکردگی پر کوئی سوال نہ ابھر سکے۔
ان اسکولوں میں غیر تدریسی عملے کی کمی ہے اور ایک اسکول کی عمارت میں کئی کئی اسکول قائم ہیں۔ اسکولوں کا بجٹ کم ہے اور ہیڈ ماسٹر عموماً ضروری کارروائی کے اندراج کے بغیر داخلے اور ٹرانسفر سرٹیفکیٹ (T.C) وغیرہ جاری کردیتے ہیں۔ کراچی کے 70 فیصد اسکولوں میں کنڈے کی بجلی استعمال ہوتی ہے اور 20 فیصد اب بھی بجلی سے محروم ہیں۔ رپورٹ میں یہ اہم اطلاع درج ہے کہ 15 فیصد اسکولوں کی عمارتیں مخدوش ہیں مگر پرائمری اسکولوں کی عمارتیں بہتر حالت میں ہیں۔ سروے کرنے والے ماہرین نے جب وجہ معلوم کرنے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ پرائمری اسکولوں کو یو ایس ایڈ اور S.M.C سے باقاعدہ گرانٹ ملتی ہے۔
اس سروے میں بتایا گیا ہے کہ 60 فیصد طلبا اپنے کلاس روم خود صاف کرتے ہیں کیونکہ صفائی کے لیے خاکروب موجود نہیں ہیں۔ اسی طرح کراچی کے 95 فیصد اسکولوں میں بیت الخلاء موجود ہیں، مگر ان میں سے 90 فیصد استعمال نہیں ہوتے۔ اسی طرح 90 فیصد اسکولوں میں لڑکیاں اس سہولت سے محروم ہیں۔ اسی طرح 90 فیصد اسکولوں میں پانی دستیاب نہیں ہے۔ طالب علم قریبی مساجد کے بیت الخلا سے استفادہ کرتے ہیں۔ لڑکیاں اس سہولت سے محروم ہیں۔
90 فیصد اسکولوں میں طبی سہولتیں دستیاب نہیں ہیں اور 55 فیصد اسکولوں میں پینے کا پانی نہیں ہے۔ کراچی ویسٹ کے 70 فیصد اسکولوں کے طلبا پینے کے پانی سے محروم ہیں۔ 95 فیصد اسکولوں میں سائنس کی لیبارٹری نہیں ہے۔ کراچی کے سرکاری اسکولوں میں سے 95 فیصد اسکولوں میں لائبریریاں نہیں ہیں، جن 5 فیصد اسکولوں میں لائبریریاں ہیں وہاں ایک الماری میں کتابیں رکھ دی گئی ہیں اور طالب علموں کو ان کتابوں تک رسائی نہیں ہے۔ اسی طرح 60 فیصد اسکولوں میں کھیل کے میدان موجود نہیں ہیں۔
اسکولوں میں کھیل اور دیگر ہم نصابی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کراچی کے اضلاع کورنگی اور ملیر میں ایک کمرے پر مشتمل اسکول بھی ہیں۔ ضلع ملیر میں ایک ایسے اسکول میں 7 اساتذہ ملازم ہیں اور 28 طلبا کے نام جنرل رجسٹر میں درج ہیں۔ اسی طرح ضلع کورنگی میں ایک کمرے کے اسکول میں 12 اساتذہ اور 88 طالب علم ہیں۔ ضلع ملیر میں 5 کمروں کے اسکول میں ایک استاد ہے اور 130 طلبا کا نام رجسٹر میں درج ہے۔ اسی طرح کیماڑی کے علاقے بابا بھٹ میں 14 کمروں پر مشتمل اسکول میں 500 طالب علموں کے نام درج ہیں جب کہ 14 اساتذہ وہاں تعینات ہیں۔ اس طرح 248 پرائمری اسکول ایک کمرے پر مشتمل ہیں، جہاں 5 کلاسوں کے طلبا ایک کمرے میں علم کی آگ بجھاتے ہیں۔
کراچی کے بہت سے اسکولوں میں اساتذہ اپنی ملازمتوں پر نہیں آتے مگر ان کے دستخط حاضری رجسٹر پر موجود ہوتے ہیں۔ عموماً یہ غیر حاضر اساتذہ 5 ہزار تک کی ماہانہ رشوت مجاز حکام کی نذر کرتے ہیں۔ اساتذہ نے سروے کرنے والے رضاکاروں کو اپنی صورتحال بتاتے ہوئے کہا کہ محکمہ تعلیم میں کوئی کام رشوت کے بغیر نہیں ہوتا۔ انتخابات اور مردم شماری میں ان سے جبری کام لیا جاتا ہے۔ اسی طرح 76 فیصد اساتذہ کا کہنا ہے کہ وہ طلبا پر جسمانی تشدد نہیں کرتے۔ 9 فیصد اساتذہ طلبا پر تشدد کے حق میں ہیں۔ طلبا نے سروے کرنے والے ماہرین کو بتایا کہ اساتذہ کی اکثریت کلاسوں میں نہیں جاتی۔ 30 فیصد والدین یہ حقیقت تسلیم کرتے ہیں کہ معاشی مجبوریوں کی بنا پر وہ بچوں کو سرکاری اسکولوں میں تعلیم دلوانے پر مجبور ہیں۔
یہ رپورٹ حکومت سندھ کے محکمہ تعلیم کی حالتِ زار کی کھلی عکاسی کرتی ہے۔ 1973 کے آئین کے تحت اسکول کی تعلیم صوبائی حکومت کا دائرہ اختیار ہے مگر محکمہ تعلیم کی ناقص کارکردگی کی بنا پر اسکولوں میں پڑھنے والے طلبا کی شرح کم ہورہی ہے۔ تعلیمی امور کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے محکمہ تعلیم کی بنیادی ترجیح تعلیم نہیں رہی۔ محکمہ تعلیم کو سیاسی بھرتیوں اور لوٹ مار کے لیے چھوڑ دیا گیا ۔
اربوں روپے کے فنڈز ہر سال محکمہ تعلیم کے حوالے ہوتے ہیں مگر ان میں سے بیشتر فنڈ مکمل طور پر استعمال ہی نہیں ہوتے اور پھر ان میں خرد برد ہوتی ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت 2008 میں برسرِ اقتدار آئی تو یہ امید تھی کہ اب تعلیم کا محکمہ سب سے فعال بن جائے گا مگر سابق وزیر تعلیم کے دور میں صورتحال خراب ہوتی چلی گئی۔ اس دور میں چپڑاسی سے لے کر ڈائریکٹر تک کی آسامی فروخت ہوئی۔ عالمی بینک کے معیار کو پامال کرتے ہوئے کئی ہزار افراد کو بغیر کسی امتحان پاس کیے استاد کے رتبے پر فائز کیا گیا۔
بقول ایک سینئر استاد ان میں سے بیشتر استاد بننے کے اہل نہیں تھے، مگر یہ لوگ کئی لاکھ روپے رشوت دے کر استاد بنے تھے۔ جب اس صورتحال کا گرانٹ دینے والے عالمی اداروں کے افسروں کو علم ہوا تو سابق صدر آصف زرداری نے اپنے بہنوئی فضل پیچوہو کو سیکریٹری تعلیم مقرر کردیا۔ یہ افراد ملازمتوں سے محروم ہوئے اور ان افراد کے مقدمات عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں۔
یہ لوگ مظاہرے کرتے ہیں اور وزیراعلیٰ ہاؤس جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پولیس واٹر کینن سے ان پر پانی پھینکتی ہے اور کبھی کبھی آنسو گیس کے گولے برساتی ہے۔ ٹی وی چینلز براہِ راست یہ کارروائی نشر کرتے ہیں۔ اس طرح یہ لوگ مظلوم بن جاتے ہیں۔ جب سابق وزیر تعلیم اور محکمہ تعلیم کے افسروں کے خلاف کارروائی شروع ہوئی توسابق صدر آصف زرداری نے اس کو انتقام قرار دیا، وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے سندھ پر وفاق کا حملہ کہا۔ ماہرِ تعلیم پروفیسر سعید عثمانی کہتے ہیںکہ جب تک محکمہ تعلیم کو محض پیسے کمانے کی وزارت سمجھا جائے گا صورتحال بہتر نہیں ہوگی۔ خضر حبیب اور ان کے ساتھیوں نے ایک انتہائی مفید رپورٹ تیار کی ہے۔
اگر پیپلز پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ تعلیم شہری کا حق ہے تو اس حق کو عملی طور پر تسلیم کرتے ہوئے اس رپورٹ کو سندھ اسمبلی میں پیش کیا جائے۔ اراکین سندھ اسمبلی رپورٹ کا عرق ریزی سے جائزہ لیں اور سندھ میں تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کیا جائے۔ تعلیم ہر شہری کا حق ہے۔ آئین کا آرٹیکل 25A اس حق کی توثیق کرتا ہے۔ حکومت سندھ اس آرٹیکل پر عملدرآمد کی پابند ہے۔
کراچی میں گھوسٹ اسکول، گھوسٹ اساتذہ اور گھوسٹ طلبہ اب بھی موجود ہیں۔ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرداں غیر سرکاری تنظیم (N.G.O) انسانی حقوق کمیشن (H.R.C.P) نے کراچی کے سرکاری اسکولوں میں سروے کیا۔ اس سروے کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ سرکاری پرائمری اسکولوں میں داخلے کی شرح کم ہو کر 9 فیصد سے بھی کم ہوگئی ہے۔
سینئر صحافی اور اپنی زندگی انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے وقف کرنے والے آئی اے رحمن نے اس رپورٹ کے اجراء کے وقت یہ سوال کیا کہ کراچی کے باقی 91 فیصد بچے غیر سرکاری اسکولوں یا مدرسوںمیں تعلیم حاصل کرتے ہیں، اس بارے میں اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔ ایچ آر سی پی کے متحرک کارکن خضر حبیب کی قیادت میں رضاکاروں نے کئی ماہ تک کراچی کے اسکولوں میں جا کر اعداد و شمار جمع کیے۔ ان اعداد و شمار میں چونکا دینے والے انکشافات سامنے آئے۔ ایک ٹیم نے 2 ہزار سے زائد اسکولوں کے بارے میں اعداد و شمار جمع کیے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کراچی کی آبادی کے اعتبار سے اسکولوں کی تعداد کم ہے۔
1998 میں دستیاب اعدا د و شمار کے موازنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ طلبا کے سرکاری اسکولوں میں داخلے کی شرح کم ہورہی ہے۔ بین الاقوامی معیار کے مطابق اسکولوں کی نگرانی کے لیے قائم ہونے والی اسکول مینجمنٹ کمیٹیاں یا تو بہت سے اسکولوں میں قائم نہیں ہوتیں یا پھر فعال نہیں ہیں۔ پرائمری اسکولوں میں مخلوط تعلیم ہے اور ان اسکولوں میں لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہے۔
والدین کا کہنا ہے کہ عموماً لڑکوں کو غیر سرکاری اسکولوں میں داخل کرایا جاتا ہے اور لڑکیوں کو سرکاری اسکول بھیج دیا جاتا ہے۔ سروے کرنے والے رضاکاروں نے اس بات کا مشاہدہ کیا کہ اسکولوں کے جنرل رجسٹر (G.R) میں طلبا کی تعداد زیادہ ظاہر کی جاتی ہے جب کہ کلاس روم میں طلبا کی تعداد کم ہوتی ہے۔ تحقیق پر یہ معلوم ہوا کہ جنرل رجسٹر میں ان طلبا کے ناموں کا اخراج نہیں ہوتا جو اسکول چھوڑ جاتے ہیں تاکہ اسکول کی کارکردگی پر کوئی سوال نہ ابھر سکے۔
ان اسکولوں میں غیر تدریسی عملے کی کمی ہے اور ایک اسکول کی عمارت میں کئی کئی اسکول قائم ہیں۔ اسکولوں کا بجٹ کم ہے اور ہیڈ ماسٹر عموماً ضروری کارروائی کے اندراج کے بغیر داخلے اور ٹرانسفر سرٹیفکیٹ (T.C) وغیرہ جاری کردیتے ہیں۔ کراچی کے 70 فیصد اسکولوں میں کنڈے کی بجلی استعمال ہوتی ہے اور 20 فیصد اب بھی بجلی سے محروم ہیں۔ رپورٹ میں یہ اہم اطلاع درج ہے کہ 15 فیصد اسکولوں کی عمارتیں مخدوش ہیں مگر پرائمری اسکولوں کی عمارتیں بہتر حالت میں ہیں۔ سروے کرنے والے ماہرین نے جب وجہ معلوم کرنے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ پرائمری اسکولوں کو یو ایس ایڈ اور S.M.C سے باقاعدہ گرانٹ ملتی ہے۔
اس سروے میں بتایا گیا ہے کہ 60 فیصد طلبا اپنے کلاس روم خود صاف کرتے ہیں کیونکہ صفائی کے لیے خاکروب موجود نہیں ہیں۔ اسی طرح کراچی کے 95 فیصد اسکولوں میں بیت الخلاء موجود ہیں، مگر ان میں سے 90 فیصد استعمال نہیں ہوتے۔ اسی طرح 90 فیصد اسکولوں میں لڑکیاں اس سہولت سے محروم ہیں۔ اسی طرح 90 فیصد اسکولوں میں پانی دستیاب نہیں ہے۔ طالب علم قریبی مساجد کے بیت الخلا سے استفادہ کرتے ہیں۔ لڑکیاں اس سہولت سے محروم ہیں۔
90 فیصد اسکولوں میں طبی سہولتیں دستیاب نہیں ہیں اور 55 فیصد اسکولوں میں پینے کا پانی نہیں ہے۔ کراچی ویسٹ کے 70 فیصد اسکولوں کے طلبا پینے کے پانی سے محروم ہیں۔ 95 فیصد اسکولوں میں سائنس کی لیبارٹری نہیں ہے۔ کراچی کے سرکاری اسکولوں میں سے 95 فیصد اسکولوں میں لائبریریاں نہیں ہیں، جن 5 فیصد اسکولوں میں لائبریریاں ہیں وہاں ایک الماری میں کتابیں رکھ دی گئی ہیں اور طالب علموں کو ان کتابوں تک رسائی نہیں ہے۔ اسی طرح 60 فیصد اسکولوں میں کھیل کے میدان موجود نہیں ہیں۔
اسکولوں میں کھیل اور دیگر ہم نصابی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کراچی کے اضلاع کورنگی اور ملیر میں ایک کمرے پر مشتمل اسکول بھی ہیں۔ ضلع ملیر میں ایک ایسے اسکول میں 7 اساتذہ ملازم ہیں اور 28 طلبا کے نام جنرل رجسٹر میں درج ہیں۔ اسی طرح ضلع کورنگی میں ایک کمرے کے اسکول میں 12 اساتذہ اور 88 طالب علم ہیں۔ ضلع ملیر میں 5 کمروں کے اسکول میں ایک استاد ہے اور 130 طلبا کا نام رجسٹر میں درج ہے۔ اسی طرح کیماڑی کے علاقے بابا بھٹ میں 14 کمروں پر مشتمل اسکول میں 500 طالب علموں کے نام درج ہیں جب کہ 14 اساتذہ وہاں تعینات ہیں۔ اس طرح 248 پرائمری اسکول ایک کمرے پر مشتمل ہیں، جہاں 5 کلاسوں کے طلبا ایک کمرے میں علم کی آگ بجھاتے ہیں۔
کراچی کے بہت سے اسکولوں میں اساتذہ اپنی ملازمتوں پر نہیں آتے مگر ان کے دستخط حاضری رجسٹر پر موجود ہوتے ہیں۔ عموماً یہ غیر حاضر اساتذہ 5 ہزار تک کی ماہانہ رشوت مجاز حکام کی نذر کرتے ہیں۔ اساتذہ نے سروے کرنے والے رضاکاروں کو اپنی صورتحال بتاتے ہوئے کہا کہ محکمہ تعلیم میں کوئی کام رشوت کے بغیر نہیں ہوتا۔ انتخابات اور مردم شماری میں ان سے جبری کام لیا جاتا ہے۔ اسی طرح 76 فیصد اساتذہ کا کہنا ہے کہ وہ طلبا پر جسمانی تشدد نہیں کرتے۔ 9 فیصد اساتذہ طلبا پر تشدد کے حق میں ہیں۔ طلبا نے سروے کرنے والے ماہرین کو بتایا کہ اساتذہ کی اکثریت کلاسوں میں نہیں جاتی۔ 30 فیصد والدین یہ حقیقت تسلیم کرتے ہیں کہ معاشی مجبوریوں کی بنا پر وہ بچوں کو سرکاری اسکولوں میں تعلیم دلوانے پر مجبور ہیں۔
یہ رپورٹ حکومت سندھ کے محکمہ تعلیم کی حالتِ زار کی کھلی عکاسی کرتی ہے۔ 1973 کے آئین کے تحت اسکول کی تعلیم صوبائی حکومت کا دائرہ اختیار ہے مگر محکمہ تعلیم کی ناقص کارکردگی کی بنا پر اسکولوں میں پڑھنے والے طلبا کی شرح کم ہورہی ہے۔ تعلیمی امور کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے محکمہ تعلیم کی بنیادی ترجیح تعلیم نہیں رہی۔ محکمہ تعلیم کو سیاسی بھرتیوں اور لوٹ مار کے لیے چھوڑ دیا گیا ۔
اربوں روپے کے فنڈز ہر سال محکمہ تعلیم کے حوالے ہوتے ہیں مگر ان میں سے بیشتر فنڈ مکمل طور پر استعمال ہی نہیں ہوتے اور پھر ان میں خرد برد ہوتی ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت 2008 میں برسرِ اقتدار آئی تو یہ امید تھی کہ اب تعلیم کا محکمہ سب سے فعال بن جائے گا مگر سابق وزیر تعلیم کے دور میں صورتحال خراب ہوتی چلی گئی۔ اس دور میں چپڑاسی سے لے کر ڈائریکٹر تک کی آسامی فروخت ہوئی۔ عالمی بینک کے معیار کو پامال کرتے ہوئے کئی ہزار افراد کو بغیر کسی امتحان پاس کیے استاد کے رتبے پر فائز کیا گیا۔
بقول ایک سینئر استاد ان میں سے بیشتر استاد بننے کے اہل نہیں تھے، مگر یہ لوگ کئی لاکھ روپے رشوت دے کر استاد بنے تھے۔ جب اس صورتحال کا گرانٹ دینے والے عالمی اداروں کے افسروں کو علم ہوا تو سابق صدر آصف زرداری نے اپنے بہنوئی فضل پیچوہو کو سیکریٹری تعلیم مقرر کردیا۔ یہ افراد ملازمتوں سے محروم ہوئے اور ان افراد کے مقدمات عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں۔
یہ لوگ مظاہرے کرتے ہیں اور وزیراعلیٰ ہاؤس جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پولیس واٹر کینن سے ان پر پانی پھینکتی ہے اور کبھی کبھی آنسو گیس کے گولے برساتی ہے۔ ٹی وی چینلز براہِ راست یہ کارروائی نشر کرتے ہیں۔ اس طرح یہ لوگ مظلوم بن جاتے ہیں۔ جب سابق وزیر تعلیم اور محکمہ تعلیم کے افسروں کے خلاف کارروائی شروع ہوئی توسابق صدر آصف زرداری نے اس کو انتقام قرار دیا، وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے سندھ پر وفاق کا حملہ کہا۔ ماہرِ تعلیم پروفیسر سعید عثمانی کہتے ہیںکہ جب تک محکمہ تعلیم کو محض پیسے کمانے کی وزارت سمجھا جائے گا صورتحال بہتر نہیں ہوگی۔ خضر حبیب اور ان کے ساتھیوں نے ایک انتہائی مفید رپورٹ تیار کی ہے۔
اگر پیپلز پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ تعلیم شہری کا حق ہے تو اس حق کو عملی طور پر تسلیم کرتے ہوئے اس رپورٹ کو سندھ اسمبلی میں پیش کیا جائے۔ اراکین سندھ اسمبلی رپورٹ کا عرق ریزی سے جائزہ لیں اور سندھ میں تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کیا جائے۔ تعلیم ہر شہری کا حق ہے۔ آئین کا آرٹیکل 25A اس حق کی توثیق کرتا ہے۔ حکومت سندھ اس آرٹیکل پر عملدرآمد کی پابند ہے۔