تصدیق غیر مصدقہ

اسناد کی اپنی ایک قیمت ہوتی ہے جو کہ قدر و قیمت سے بالکل مختلف ایک الگ جنس ہے۔

پیدائش کا تصدیق نامہ ایک ایسا سرٹیفیکٹ ہے، جو اس دنیا میں وارد ہونے کے کافی سال بعد شناختی کارڈ بناتے وقت درکار ہوتا ہے۔ فوٹو:فائل

کہتے ہیں کہ آزمائے ہوئے کو آزمانا جہالت ہے لیکن الجبرا (ریاضی) میں آزمائے ہوئے کو ہی آزمایا جاتا ہے۔ استاد محترم ابن انشاء کا فرمان اپنی جگہ درست لیکن آج کل یہ طریقہ ہر سرکاری محکمہ کے تمام دفاتر میں رائج ہے۔ قانون کی اس درجہ پابندی صرف ان سرکاری دفاتر میں ہے جہاں عوام الناس کو یا تو ملازمت عالیہ کی تلاش و ما بعد کے مرحلہ کا درپیش ہو یا اپنی کسی دستاویز کی تصدیق درکار ہو۔

ملازمت عالیہ ''ملکہ عالیہ'' کی طرح ہفت صفت ہوتی ہے۔ کام کاج میں خوار ہوئے بغیر بلحاظ عہدہ تنخواہ و مراعات کے علاوہ سرکاری، درباری و بے کاری تعطیلات کی ریل پیل، وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن یہ ہُما سر پر بٹھانے کیلئے درکار مرحلے تقریباً دودھ کی نہر کھودنے کےمصداق ہے۔ پہلے بات کریں گے ان اسناد و دستاویز کی جو اس کوہ گراں کو سرکرنے کے لئے درکار ہیں۔

پیدائش کا تصدیق نامہ ایک ایسا سرٹیفیکٹ ہے، جو اس دنیا میں وارد ہونے کے کافی سال بعد شناختی کارڈ بناتے وقت درکار ہوتا ہے۔ (اگر آپ کے والدین نے اندراج پیدائش نہ کروایا ہو) تاکہ آپ اس ظالم دنیا کو یقین دلا سکیں کہ آپ واقعی پیدا ہوچکے ہیں۔ اسکے بعد ڈومیسائل، شناختی کارڈ اور تعلیمی اسناد کی باری آئے گی اگر آپ ''نواب'' بننے کے خواہشمند ہوں جو کہ پڑھ لکھ کر آپ کو بن جانا چاہیئے لیکن جو آپ تب بھی بن نہیں پاتے۔ ان اسناد کی اپنی ایک قیمت ہوتی ہے جو کہ قدر و قیمت سے بالکل مختلف ایک الگ جنس ہے۔ آپ کو اپنے تعلیم یافتہ ہونے کی تصدیقی دستاویزات کی مد میں اسکول، کالج کے علاوہ بورڈ یا یونیورسٹی کی فیس بھرنی پڑتی ہے۔

پھر مرحلہ آتا ہے جناب ان دستاویزات کی تصدیق کا۔ دوبارہ تصدیقی فیس کے نام پر آپ ایک اور فیس ادا کرتے ہیں جس کے عوض آپکی دستاویز کی پشت پر ''ویریفائڈ'' کا ٹھپہ لگا دیا جاتا ہے۔ چلو میاں موج کرو۔ اس بات کی تصدیق کی جاتی ہے کہ فلاں ابن فلاں نے ہم سے جو سند (ڈگری) لی ہے وہ واقعی ہم نے ہی اسے عطا فرمائی ہے۔ اب جناب باری آتی ہے نقول کے تصدیق کی جس کے لئے ایک گزیٹیڈ افسر کی ضرورت پڑتی ہے جو کاغذات ملاحظہ فرمانے کے بعد نقول کی تصدیق کرتے ہیں تاکہ وہ آجر محکمہ کیلئے قابل قبول بن سکیں.

چونکہ ایجاد ضرورت کی عاق کردہ نا خلف اولاد ہے۔ لہٰذا اب متعدد اتھارٹیوں کے بعد لا تعداد ٹیسٹنگ سروسز جنم لے چکی ہیں۔ جو بر دکھوائی کا معاوضہ فریقین سے یکساں وصول کرتی ہیں۔ آجر بی جمالو کی طرح بھس میں چنگی ڈال کر دور کھڑے ہوتے ہیں۔ ابھی عشق کا ایک اور امتحاں یعنی انٹرویو رہتا ہے۔ جس میں اصول ارشمدیس، دعائے قنوت، پانی پت کی لڑائیوں سے لے کر ٹمبکٹو سے ہمارے سفارتی تعلقات اور خانگی معاملات تک کسی بھی موضوع کو چھیڑا جاسکتا ہے۔ نکہتِ باد بہاری کو آپ ٹوک نہیں سکتے کہ جناب میں نے تو عرضی کلرک درجہ اول کے لئے دی تھی مجھے تکون کے طول وعرض یا ردیف و قافیہ سے کیا لینا دینا۔

پھر ایک قیامت کا نامہ آپکےنام آتا ہے۔ میاں مبارک ہو، آپ منتخب ہوچکے ہیں۔ ہاں ہمارے ہاں کام کی کچھ سہل شرائط ہیں مثلاً آپ دفتر میں سو نہیں سکتے، کھڑے ہو کر کھانس نہیں سکتے وغیرہ وغیرہ۔ اگر آپ کو منظور ہوں، تو جائیے کچہری میں مرؤجہ فیس کے عوض ایک تصدیق نامہ لے آئیے جس میں درج ہو کہ آپ شریف آدمی کی طرح شوہرانہ اطاعت کیساتھ اپنا کام سرانجام دیں گے۔ لیکن وقت قیام ابھی نہیں آیا۔ جلد ہی آپ کو مژدہ سنایا جاتا ہے کہ جب تک آپ کے اسناد کی تصدیق سرکاری طور پر نہیں ہوجاتی آپ بوجوہ تنخواہ وصول نہیں کرسکتے۔


قہر درویش بر جان درویش آپ یا تو بذات خود یہ سارا عمل (ویریفیکیشن وغیرہ) دوبارہ کریں گے یا پھر کسی عامل سائیں (جن کے ان گنت فرائض کے علاوہ یہ ناخوشگوار فریضہ بھی منجانب سرکار انہی کے ذمہ ہے) کو اپنی اسناد ہمراہ پروانہ راہداری (جو آج بھی آپ ہی کی جیب سے جاری ہوگا) حوالہ کرتے ہیں۔ کچھ دن گذرتے ہیں جب تفصیل کا پوچھتے ہیں تو چونکہ تصدیق کرانے والوں نے کسی اور ادارے کو ارسال کردی بجائے آپ کی سابقہ مادرعلمی کے، لہٰذا نتیجہ صاف ظاہر احمد کی ٹوپی محمود کے سر پر نہیں رکھی جاسکتی ۔

اگر دیارِ غیر میں نوکری، تعلیم کا معاملہ درپیش ہو اور وہاں سے برائے تصدیق آپکے کاغذ ارسال ہوں تو معاملہ پیچیدہ تر ہوتا ہے۔ تصدیق کرانا یا کرنا بذات خود ایک مستحن اقدام ہے اور رائج کرنے والوں نے اسے معاملات میں دیانت کی نیت سے شروع کیا ہے لیکن جب ہم ریت چھان کر کنکر پھانک جاتے ہیں تو سب کچھ ایک بے معنی مشق بن جاتی ہے۔ کہنے والے بےشک کہتے رہیں کہ،
''ڈگری، ڈگری ہوتی ہے''۔

لیکن قانون، قانون ہوتا ہے جب تک کہ اس کی آنکھیں اور ہاتھ آزاد رہیں۔ کار سرکار میں مداخلت ایک جرم گردانا جاتا ہے اور بغیر مشیر کی تنخواہ لئے مشورہ دینا بھی شاید اسی زمرہ میں آتا ہو کہ ڈھونڈنے والے اس کے لئے بھی کہیں سے 58 ٹو B بنا لائیں گے۔ لہٰذا کنفیوشش کا کہا ماننا ہی بہتر ہے۔

مت دیکھو، مت بولو، مت کرو، اگرچہ اس نے ساتھ میں ''برا'' بھی کہا تھا۔
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں،
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
Load Next Story