قائداعظم اور کرسمس
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم تقسیم در تقسیم کے اس عمل سے گذر رہے ہیں کہ ہم نے اپنے قائد کو بھی تقسیم کردیا ہے۔
خوشی تو خوشی ہوتی ہے۔ اس کا کوئی رنگ، کوئی مذہب، کوئی ذات یا قبیلہ نہیں ہوتا۔ لیکن ہر انسان خوشی کو اپنے اپنے انداز میں منانا پسند کرتا ہے۔ کوئی خوشی میں ناچتا ہے تو کوئی گاتا ہے تو کوئی جھومنے لگتا ہے۔ کوئی چراغاں کرکے اپنی خوشی کا اظہار کرتا ہے تو کوئی خوشی میں غریبوں کو کھانا کھلاتا ہے۔ کوئی کیک کاٹتا ہے تو کوئی بکرا کاٹتا ہے۔ لیکن کھاتے سب ہی ہیں جو اس کی خوشی میں خوش ہوتے ہیں۔ غرض خوشی منانے کا انداز تو جدا جدا ہوسکتا ہے لیکن خوشی سب کی سانجھی ہوتی ہے۔ کسی کی خوشی میں شرکت نہ کرنے کی کسی مذہب میں ممانعت نہیں ہے۔
یوم عاشورا، ظہورِ اسلام سے پہلے قریش مکہ مکرمہ کے نزدیک بھی بڑا دن تھا۔ اِسی دن خانہ کعبہ پر غلاف چڑھایا جاتا تھا اور قریش مکہ مکرمہ اِس دن روزہ رکھتے۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآل وسلم کا دستور تھا کہ آپﷺ مکہ مکرمہ کے لوگوں کے اُن کاموں سے اِتفاق فرماتے تھے جو ملتِ ابراہیمی کی نسبت سے اچھے کام ہوتے تھے۔ اِسی بناء پر آپ حج کی تقریبات میں بھی شرکت فرماتے تھے اور اِسی اُصول کی بنا پر عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے۔ لیکن قبل از ہجرت اِس روزے کا کسی کو حکم نہ فرمایا۔
پھر آپ ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے تو حضرت عبدﷲ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے یہود کو ''یوم عاشورہ'' کا روزہ رکھتے ہوئے پایا ''تو اْن سے فرمایا یہ کیسا دن ہے جس میں تم روزہ رکھتے ہو؟ انہوں نے عرض کی یہ وہ عظیم دن ہے جس میں ﷲ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ اور اُن کی قوم کو نجات عطا فرمائی تھی اور فرعون اور اُس کے پیروکاروں کو غرق فرما دیا تھا۔ بعد ازیں جب یہ دن آتا تو (حضرت) موسیٰ ؑ شکرانے میں اِس دن کا روزہ رکھتے اور ہم بھی رکھتے ہیں۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآل وسلم نے (اُن کی بات کو سماعت فرمانے کے بعد) اِرشاد فرمایا کہ ہم حضرت موسیٰ ؑ کے تم سے زیادہ حقدار ہیں۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآل وسلم نے یوم عاشورہ کا روزہ خود بھی رکھا اور اِس دن کا روزہ رکھنے کا حکم بھی فرمایا۔
(بخاری، مسلم، مشکوٰۃ، مسند احمد، صتح الباری، عمدۃ القاری، درمنثور، ابو داؤد، ابن کثیر)
یہ بات پیشِ نظر رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآل وسلم کا یہ روزہ رکھنا حضرت موسیٰؑ کی موافقت کے لئے تھا۔ پیروی کے لئے نہیں تھا اور نہ ہی یہودیوں کی اِس میں پیروی تھی۔
25 دسمبر کا دن اس لحاظ سے منفرد ہے کہ ہر سال قائد اعظم کا یوم پیدائش اور ہمارے مسیحی بھائیوں کے عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ظہور کا دن بھی۔ گویا پاکستان کی مسیحی برادری کے لیے یہ ایک دوہری خوشی کا دن ہے بلکہ ایک لحاظ سے فقہہ، فرقے اور عقیدے کی تقسیم سے بالاتر ہر مسلمان کے لئے بھی یہ ایک خوشی کا دن ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کی رسالت اور انجیل کے الہامی صحیفہ ہونے پر ایمان ہمارے ایمان کی بنیادی شرائط میں شامل ہے۔
خوشیاں بانٹنے سے بڑھتی ہیں اسی لئے ہم اپنی خوشیوں میں اپنے دوستوں کو شریک کرتے ہیں۔ کسی کے چہرے پر خوشی دیکھ کر کون انسان ہوگا جو خوش نہ ہو؟ یہ ایک ایسا موقع ہے جب کہ ولادت رسول پاک صلی ﷲ علیہ وآل وسلم، ولادت عیسیٰ علیہ السلام اور قائد اعظم کی ولادت ہر پاکستانی کو خوشی کے ساتھ یکجہتی کا پیغام دے رہی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کسی کو خوشی منانے کے انداز پر اعتراض ہو لیکن شاید ہی کوئی ایسا پاکستانی ہو جسے اس کی خوشی نہ ہو۔ خود بھی خوشی منائیں اور اپنے مسیحی بھائیوں کی خوشی میں بھی شریک ہوں۔
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم تقسیم در تقسیم کے اس عمل سے گذر رہے ہیں کہ ہم نے اپنے قائد کو بھی تقسیم کردیا ہے۔ جبکہ قائد اعظم نے لارڈ ماؤنٹ پر بھی واضح کردیا تھا کہ غیر مسلموں کے ساتھ خیرسگالی اور رواداری کا برتاؤ ہم نے اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآل وسلم سے سیکھا ہے۔ قائد اعظم قرآن حکیم کو ایک مکمل ضابطہ حیات قرار دیتے تھے لیکن ہم نے اپنی زندگی کے کسی بھی شعبہ میں قرآن کی تعلیمات کو نافذ نہیں کیا۔ اگر ہم نے اپنے پیارے پاکستان کو قائد اعظم کا پاکستان بنانا ہے تو یہاں سے جھوٹ اور منافقت کی سیاست کو ختم کرنا ہوگا، بدعنوانی، ظلم، نا انصافی اور استحصال کی ہر شکل کو مٹانا ہوگا اور اسی کو مٹانے ہر دور میں انبیاء آئے اور ایسے قائد آئے جن کے اصولوں پر چل کر ہی ہم حقیقی خوشی حاصل کرسکتے ہیں۔
[poll id="843"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
یوم عاشورا، ظہورِ اسلام سے پہلے قریش مکہ مکرمہ کے نزدیک بھی بڑا دن تھا۔ اِسی دن خانہ کعبہ پر غلاف چڑھایا جاتا تھا اور قریش مکہ مکرمہ اِس دن روزہ رکھتے۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآل وسلم کا دستور تھا کہ آپﷺ مکہ مکرمہ کے لوگوں کے اُن کاموں سے اِتفاق فرماتے تھے جو ملتِ ابراہیمی کی نسبت سے اچھے کام ہوتے تھے۔ اِسی بناء پر آپ حج کی تقریبات میں بھی شرکت فرماتے تھے اور اِسی اُصول کی بنا پر عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے۔ لیکن قبل از ہجرت اِس روزے کا کسی کو حکم نہ فرمایا۔
پھر آپ ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے تو حضرت عبدﷲ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے یہود کو ''یوم عاشورہ'' کا روزہ رکھتے ہوئے پایا ''تو اْن سے فرمایا یہ کیسا دن ہے جس میں تم روزہ رکھتے ہو؟ انہوں نے عرض کی یہ وہ عظیم دن ہے جس میں ﷲ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ اور اُن کی قوم کو نجات عطا فرمائی تھی اور فرعون اور اُس کے پیروکاروں کو غرق فرما دیا تھا۔ بعد ازیں جب یہ دن آتا تو (حضرت) موسیٰ ؑ شکرانے میں اِس دن کا روزہ رکھتے اور ہم بھی رکھتے ہیں۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآل وسلم نے (اُن کی بات کو سماعت فرمانے کے بعد) اِرشاد فرمایا کہ ہم حضرت موسیٰ ؑ کے تم سے زیادہ حقدار ہیں۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآل وسلم نے یوم عاشورہ کا روزہ خود بھی رکھا اور اِس دن کا روزہ رکھنے کا حکم بھی فرمایا۔
(بخاری، مسلم، مشکوٰۃ، مسند احمد، صتح الباری، عمدۃ القاری، درمنثور، ابو داؤد، ابن کثیر)
یہ بات پیشِ نظر رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآل وسلم کا یہ روزہ رکھنا حضرت موسیٰؑ کی موافقت کے لئے تھا۔ پیروی کے لئے نہیں تھا اور نہ ہی یہودیوں کی اِس میں پیروی تھی۔
25 دسمبر کا دن اس لحاظ سے منفرد ہے کہ ہر سال قائد اعظم کا یوم پیدائش اور ہمارے مسیحی بھائیوں کے عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ظہور کا دن بھی۔ گویا پاکستان کی مسیحی برادری کے لیے یہ ایک دوہری خوشی کا دن ہے بلکہ ایک لحاظ سے فقہہ، فرقے اور عقیدے کی تقسیم سے بالاتر ہر مسلمان کے لئے بھی یہ ایک خوشی کا دن ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کی رسالت اور انجیل کے الہامی صحیفہ ہونے پر ایمان ہمارے ایمان کی بنیادی شرائط میں شامل ہے۔
خوشیاں بانٹنے سے بڑھتی ہیں اسی لئے ہم اپنی خوشیوں میں اپنے دوستوں کو شریک کرتے ہیں۔ کسی کے چہرے پر خوشی دیکھ کر کون انسان ہوگا جو خوش نہ ہو؟ یہ ایک ایسا موقع ہے جب کہ ولادت رسول پاک صلی ﷲ علیہ وآل وسلم، ولادت عیسیٰ علیہ السلام اور قائد اعظم کی ولادت ہر پاکستانی کو خوشی کے ساتھ یکجہتی کا پیغام دے رہی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کسی کو خوشی منانے کے انداز پر اعتراض ہو لیکن شاید ہی کوئی ایسا پاکستانی ہو جسے اس کی خوشی نہ ہو۔ خود بھی خوشی منائیں اور اپنے مسیحی بھائیوں کی خوشی میں بھی شریک ہوں۔
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم تقسیم در تقسیم کے اس عمل سے گذر رہے ہیں کہ ہم نے اپنے قائد کو بھی تقسیم کردیا ہے۔ جبکہ قائد اعظم نے لارڈ ماؤنٹ پر بھی واضح کردیا تھا کہ غیر مسلموں کے ساتھ خیرسگالی اور رواداری کا برتاؤ ہم نے اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآل وسلم سے سیکھا ہے۔ قائد اعظم قرآن حکیم کو ایک مکمل ضابطہ حیات قرار دیتے تھے لیکن ہم نے اپنی زندگی کے کسی بھی شعبہ میں قرآن کی تعلیمات کو نافذ نہیں کیا۔ اگر ہم نے اپنے پیارے پاکستان کو قائد اعظم کا پاکستان بنانا ہے تو یہاں سے جھوٹ اور منافقت کی سیاست کو ختم کرنا ہوگا، بدعنوانی، ظلم، نا انصافی اور استحصال کی ہر شکل کو مٹانا ہوگا اور اسی کو مٹانے ہر دور میں انبیاء آئے اور ایسے قائد آئے جن کے اصولوں پر چل کر ہی ہم حقیقی خوشی حاصل کرسکتے ہیں۔
آؤ جہاں بھر میں خوشیاں بانٹیں
اپنے اپنے گھر کی روشنیاں بانٹیں
آؤ اس اجڑے گلشن میں وحیدؔ
پھول بانٹیں بہار و تتلیاں بانٹیں
[poll id="843"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔