لوح ثانی
ممتاز احمد شیخ لاہوریئے بھی ہیں اور گورنمنٹ کالج کے سابق طالب علم ہونے کی رعائت سے ’’راوین‘‘ بھی،
ادبی رسائل کی حالت کو خراب کہنا اس اعتبار سے درست نہیں کہ ہم نے کم از کم اپنی ہوش کی حد تک انھیں میر صاحب کے اسی شعر کی تصویر دیکھا ہے کہ
حال کیا پوچھ پوچھ جاتے ہو
کبھی پاتے بھی ہو بحال ہمیں!
محمد طفیل' احمد ندیم قاسمی' ڈاکٹر وزیر آغا' نسیم درانی' مشفق خواجہ' جمیل جالبی' فیصل عجمی 'ریاض احمد چوہدری' صدیقہ بیگم ' عطا الحق قاسمی ' نصیر احمد ناصر' مبین مرزا' علی محمد فرشی اور احسن سلیم کے علاوہ چنداور دیوانگان ادب نے بھی گذشتہ نصف صدی میں کم یا زیادہ عرصے تک ایسے بھاری بھرکم ادبی جرائد کی اشاعت کا اہتمام کیا ہے جو کئی برس تک کم یا زیادہ پابندی کے ساتھ اشاعت پذیر ہوتے رہے ہیں۔
ان کے علاوہ بہت سے ایسے جرائد بھی ہیں جن کا آغاز تو بڑی دھوم دھام کے ساتھ ہوا مگر وہ شعلۂ مستعجل کی طرح دیکھتے ہی دیکھتے اپنی ہی آگ میں جل بجھے۔ ماضی میں ذرا اور پیچھے جایئے تو 20 ویں صدی کے آغاز میں جاری ہونے والے سر عبدالقادر کے ''مخزن'' سے لے کر شاہد احمد دہلوی کے ''ساقی'' اور صبا لکھنوی کے ''افکار'' تک بہت سے ایسے ادبی جرائد بھی ملتے ہیں۔
جن کے خاص نمبر خاصے کی چیزیں ہوا کرتے تھے مگر دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ ان میں سے بیشتر پرچے اپنے ایڈیٹرز کی زندگی تک اور ان کے وسائل اور دلچسپی کے سہارے پر ہی زندہ رہے اور ان کے ساتھ ہی بند ہوتے چلے گئے ایسے میں ''ممتاز احمد شیخ'' کی طرف سے ''لوح'' کے نام سے ایک سہ ماہی ادبی دستاویز کی اشاعت کا اعلان اور اس کے دوسرے شمارے کی آمد سے ایک بار پھر یہ سوال سامنے آیا ہے کہ کیا کم و بیش 20 کروڑ کی آبادی کے حامل اس وطن عزیز میں ادب سوائے چند سر پھرے قسم کے ادب گزیدگان کے علاوہ کسی کا مسئلہ ہے بھی کہ نہیں؟
اب یہ سوال ایسا تلخ اور پیچیدہ ہے کہ اس کا احاطہ کئی ضحیم کتابوں کا متقاضی ہے سو میں صرف اس سوال کودہرانے پر اکتفا کرتا ہوںکہ اس وقت میرے پیش نظر ''لوح'' کے نقش ثانی پر اپنے تاثرات کا اظہار کرنا ہے کہ 646بڑے سائز کے صفحات پر محیط یہ پرچہ ادبی حوالے سے قابل تعریف بھی ہے اور لائق توجہ بھی۔
ممتاز احمد شیخ لاہوریئے بھی ہیں اور گورنمنٹ کالج کے سابق طالب علم ہونے کی رعائت سے ''راوین'' بھی، ان کے یہ دونوں تعلق اور تعارف آپ کو اس ضخیم ادبی دستاویز میں بھی دکھائی دیں گے مگر غالب کے اس ''ہے' نہیں ہے'' والے مصرعے کی طرح کہ ان کا مقصد ہم عصر ادب کا ایک ایسا مرقع ترتیب دینا ہے جس میں علاقائی' ملکی اور بین الاقوامی ہر طرح کے منتخب اورنمایندہ ادب پاروں کو ایک جگہ جمع کر دیا جائے اور ایک اچھے اور ذمے دار ایڈیٹر کی طرح خود کو اس عمل میںاس طرح سے شامل رکھا جائے کہ آپ بیک وقت بے نام بھی رہیں اور ناگزیر بھی۔ یہاں پھر غالب ہی کا ایک شعر یاد آ رہا ہے کہ
تھا میں گلدستۂ احباب کی بندش کی گیاہ
متفرق ہوئے میرے رفقاء ' میرے بعد
اتفاق کی بات ہے کہ ممتاز احمد شیخ نے اپنے اداریے کے لیے بھی غالب ہی کے ایک مصرعے کو عنوان بنایا ہے کہ ''خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا کہیے'' مختلف تحریروں کو موضوع اور کیفیت کے اعتبار سے ترتیب دینے کے لیے 16 مختلف ذیلی عنوانات بنائے گئے ہیں جو دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ کئی حوالوں سے بہت منفرد اور تخلیقی بھی ہیں مثال کے طور پر حمدیہ تحریروں کے لیے ''شام شہر ہول میں شمعیں جلا دیتا ہے تو'' نعتیہ کلام کے لیے ''کرم اے شۂ عرب و عجم'' گورنمنٹ کالج کی یادوں سے وابستہ تحاریر کے لیے ''محبت جو امر ہو گئی'' رفتگاں کے لیے ''تکریم رفتگاں اجالتی ہے کوچہ و قریہ'' اور اسی طرح ''یاد آتے ہیں زمانے کیا کیا'' ''ہزار طرح کیقصے سفر میں ملتے ہیں'' ''سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا'' ''نظم لکھے تجھے ایسے کہ زمانے وا ہوں ''''لگا رہا ہوں مضامین نو کے پھر انبار'' غزل شاعری ہے ۔
عشق ہے' کیا ہے''''نہیں منت کش تاب شنیدن داستاں میری'' ''قرطاس پہ جہان دگر ہیں'' ''اب دو عالم سے صدائے ساز آتی ہے'' ''خال و خط یار کے'' ''یہی تو ٹوٹے دلوں کا علاج ہے'' اور ''گفتنی نا گفتنی'' کے عنوانات قائم کیے گئے ہیں۔ جہاں تک ان کے تحت شامل کردہ تحریروںکے معیار کا تعلق ہے تو اس کے لیے مناسب ترین توصیفی ترکیب ''تسلی بخش'' ہے کہ اتنی بے شمار تحریروں کا ایک ہی معیار کا حامل ہونا عملی طور پر ناممکن کام ہے اسی طرح نوجوان اور کم تجربہ کار لکھنے والوں کی تحریروں کا موازنہ سینئر نسل کے نمایندہ لکھنے والوں کی تحریروں سے کرنا بھی مناسب نہیں کہ یہاں بھی احمد مشتاق کا ایک مشہور شعر درمیان میں پڑتا ہے کہ
نئے دیوانوں کو دیکھیں تو خوشی ہوتی ہے
ہم بھی ایسے ہی تھے جب آئے تھے ویرانے میں
یہ اور بات ہے کہ بعض نئے لکھنے والوں کی تحریریں سینئرز کے کان کترتی نظر آتی ہے اور بعض مستند اور نام ور لوگوں کی تحریروں میں تھکن اور تکرار کا احساس ہوتا ہے اور یہ کوئی انوکھی یا پریشان کن بات نہیں کہ ایسا ہر جگہ اورہر زبان کے ادب میں ہوتا ہے۔ میرے نزدیک ''لوح'' کے اس دوسرے شمارے کی سب سے اہم اور قابل تعریف بات اس کے ایڈیٹر اور ان کی ٹیم کا وہ جذبہ ہے جس کے زور پر انھوں نے اتنے بہت سے ادیبوں' شاعروں اور نقادوں سے نہ صرف رابطہ کیا بلکہ ان سے ایسی اچھی' نئی اور اتنی زیادہ تخلیقات حاصل بھی کر لیں، عام دنیاوی اور کاروباری زبان میں یہ ایک Thank Less کام سہی مگر ہم دیکھتے ہیں کہ آخری تجزیئے میں یہی بظاہر بے کار نظر آنے والے کام ہی قوموں کے فکری' نظری ا ور تخلیقی مزاج کے علمبردار بھی ٹھہرتے ہیں اور سند بھی۔
حال کیا پوچھ پوچھ جاتے ہو
کبھی پاتے بھی ہو بحال ہمیں!
محمد طفیل' احمد ندیم قاسمی' ڈاکٹر وزیر آغا' نسیم درانی' مشفق خواجہ' جمیل جالبی' فیصل عجمی 'ریاض احمد چوہدری' صدیقہ بیگم ' عطا الحق قاسمی ' نصیر احمد ناصر' مبین مرزا' علی محمد فرشی اور احسن سلیم کے علاوہ چنداور دیوانگان ادب نے بھی گذشتہ نصف صدی میں کم یا زیادہ عرصے تک ایسے بھاری بھرکم ادبی جرائد کی اشاعت کا اہتمام کیا ہے جو کئی برس تک کم یا زیادہ پابندی کے ساتھ اشاعت پذیر ہوتے رہے ہیں۔
ان کے علاوہ بہت سے ایسے جرائد بھی ہیں جن کا آغاز تو بڑی دھوم دھام کے ساتھ ہوا مگر وہ شعلۂ مستعجل کی طرح دیکھتے ہی دیکھتے اپنی ہی آگ میں جل بجھے۔ ماضی میں ذرا اور پیچھے جایئے تو 20 ویں صدی کے آغاز میں جاری ہونے والے سر عبدالقادر کے ''مخزن'' سے لے کر شاہد احمد دہلوی کے ''ساقی'' اور صبا لکھنوی کے ''افکار'' تک بہت سے ایسے ادبی جرائد بھی ملتے ہیں۔
جن کے خاص نمبر خاصے کی چیزیں ہوا کرتے تھے مگر دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ ان میں سے بیشتر پرچے اپنے ایڈیٹرز کی زندگی تک اور ان کے وسائل اور دلچسپی کے سہارے پر ہی زندہ رہے اور ان کے ساتھ ہی بند ہوتے چلے گئے ایسے میں ''ممتاز احمد شیخ'' کی طرف سے ''لوح'' کے نام سے ایک سہ ماہی ادبی دستاویز کی اشاعت کا اعلان اور اس کے دوسرے شمارے کی آمد سے ایک بار پھر یہ سوال سامنے آیا ہے کہ کیا کم و بیش 20 کروڑ کی آبادی کے حامل اس وطن عزیز میں ادب سوائے چند سر پھرے قسم کے ادب گزیدگان کے علاوہ کسی کا مسئلہ ہے بھی کہ نہیں؟
اب یہ سوال ایسا تلخ اور پیچیدہ ہے کہ اس کا احاطہ کئی ضحیم کتابوں کا متقاضی ہے سو میں صرف اس سوال کودہرانے پر اکتفا کرتا ہوںکہ اس وقت میرے پیش نظر ''لوح'' کے نقش ثانی پر اپنے تاثرات کا اظہار کرنا ہے کہ 646بڑے سائز کے صفحات پر محیط یہ پرچہ ادبی حوالے سے قابل تعریف بھی ہے اور لائق توجہ بھی۔
ممتاز احمد شیخ لاہوریئے بھی ہیں اور گورنمنٹ کالج کے سابق طالب علم ہونے کی رعائت سے ''راوین'' بھی، ان کے یہ دونوں تعلق اور تعارف آپ کو اس ضخیم ادبی دستاویز میں بھی دکھائی دیں گے مگر غالب کے اس ''ہے' نہیں ہے'' والے مصرعے کی طرح کہ ان کا مقصد ہم عصر ادب کا ایک ایسا مرقع ترتیب دینا ہے جس میں علاقائی' ملکی اور بین الاقوامی ہر طرح کے منتخب اورنمایندہ ادب پاروں کو ایک جگہ جمع کر دیا جائے اور ایک اچھے اور ذمے دار ایڈیٹر کی طرح خود کو اس عمل میںاس طرح سے شامل رکھا جائے کہ آپ بیک وقت بے نام بھی رہیں اور ناگزیر بھی۔ یہاں پھر غالب ہی کا ایک شعر یاد آ رہا ہے کہ
تھا میں گلدستۂ احباب کی بندش کی گیاہ
متفرق ہوئے میرے رفقاء ' میرے بعد
اتفاق کی بات ہے کہ ممتاز احمد شیخ نے اپنے اداریے کے لیے بھی غالب ہی کے ایک مصرعے کو عنوان بنایا ہے کہ ''خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا کہیے'' مختلف تحریروں کو موضوع اور کیفیت کے اعتبار سے ترتیب دینے کے لیے 16 مختلف ذیلی عنوانات بنائے گئے ہیں جو دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ کئی حوالوں سے بہت منفرد اور تخلیقی بھی ہیں مثال کے طور پر حمدیہ تحریروں کے لیے ''شام شہر ہول میں شمعیں جلا دیتا ہے تو'' نعتیہ کلام کے لیے ''کرم اے شۂ عرب و عجم'' گورنمنٹ کالج کی یادوں سے وابستہ تحاریر کے لیے ''محبت جو امر ہو گئی'' رفتگاں کے لیے ''تکریم رفتگاں اجالتی ہے کوچہ و قریہ'' اور اسی طرح ''یاد آتے ہیں زمانے کیا کیا'' ''ہزار طرح کیقصے سفر میں ملتے ہیں'' ''سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا'' ''نظم لکھے تجھے ایسے کہ زمانے وا ہوں ''''لگا رہا ہوں مضامین نو کے پھر انبار'' غزل شاعری ہے ۔
عشق ہے' کیا ہے''''نہیں منت کش تاب شنیدن داستاں میری'' ''قرطاس پہ جہان دگر ہیں'' ''اب دو عالم سے صدائے ساز آتی ہے'' ''خال و خط یار کے'' ''یہی تو ٹوٹے دلوں کا علاج ہے'' اور ''گفتنی نا گفتنی'' کے عنوانات قائم کیے گئے ہیں۔ جہاں تک ان کے تحت شامل کردہ تحریروںکے معیار کا تعلق ہے تو اس کے لیے مناسب ترین توصیفی ترکیب ''تسلی بخش'' ہے کہ اتنی بے شمار تحریروں کا ایک ہی معیار کا حامل ہونا عملی طور پر ناممکن کام ہے اسی طرح نوجوان اور کم تجربہ کار لکھنے والوں کی تحریروں کا موازنہ سینئر نسل کے نمایندہ لکھنے والوں کی تحریروں سے کرنا بھی مناسب نہیں کہ یہاں بھی احمد مشتاق کا ایک مشہور شعر درمیان میں پڑتا ہے کہ
نئے دیوانوں کو دیکھیں تو خوشی ہوتی ہے
ہم بھی ایسے ہی تھے جب آئے تھے ویرانے میں
یہ اور بات ہے کہ بعض نئے لکھنے والوں کی تحریریں سینئرز کے کان کترتی نظر آتی ہے اور بعض مستند اور نام ور لوگوں کی تحریروں میں تھکن اور تکرار کا احساس ہوتا ہے اور یہ کوئی انوکھی یا پریشان کن بات نہیں کہ ایسا ہر جگہ اورہر زبان کے ادب میں ہوتا ہے۔ میرے نزدیک ''لوح'' کے اس دوسرے شمارے کی سب سے اہم اور قابل تعریف بات اس کے ایڈیٹر اور ان کی ٹیم کا وہ جذبہ ہے جس کے زور پر انھوں نے اتنے بہت سے ادیبوں' شاعروں اور نقادوں سے نہ صرف رابطہ کیا بلکہ ان سے ایسی اچھی' نئی اور اتنی زیادہ تخلیقات حاصل بھی کر لیں، عام دنیاوی اور کاروباری زبان میں یہ ایک Thank Less کام سہی مگر ہم دیکھتے ہیں کہ آخری تجزیئے میں یہی بظاہر بے کار نظر آنے والے کام ہی قوموں کے فکری' نظری ا ور تخلیقی مزاج کے علمبردار بھی ٹھہرتے ہیں اور سند بھی۔