بھیڑیے کی منطق اور شامت اعمال
مثلاً: ایک بھیڑیا ندی کے کنارے پانی پی رہا تھا، اس کی نظر کچھ ہی دور پانی پیتے ہوئے بکری کے بچے پر پڑی۔
کسی ملک کا آئین دراصل قانون سازی کی حدود متعین کرتا ہے اور رہنمائی فراہم کرتا ہے جب کہ جنگل کا قانون بھیڑیے کی منطق سے رہنمائی حاصل کرتا ہے۔
مثلاً: ایک بھیڑیا ندی کے کنارے پانی پی رہا تھا، اس کی نظر کچھ ہی دور پانی پیتے ہوئے بکری کے بچے پر پڑی۔ اس کی نیت خراب ہو گئی ''اوئے! تو دیکھ نہیں رہا ہے کہ میں پانی پی رہا ہوں؟ تو نے میرا پانی گندہ کر دیا۔'' بکری کا بچہ منمنایا۔ ''حضور! پانی تو آپ کی طرف سے بہتا ہوا میری طرف آ رہا ہے۔'' بھیڑیا غصے سے آگ بگولا ہو گیا۔ ''تیری یہ ہمت کہ مجھے جھوٹا کہہ رہا ہے؟'' اور اس کو چیر پھاڑ کر کھا گیا۔
اس کو کہتے ہیں بھیڑیے کی منطق یعنی چت بھی میری اور پٹ بھی میری۔ یہی جنگل کا قانون ہے جس کی رو سے دو فیصد خون پینے والے درندے 98 فیصد گھاس کھانے والے چرندوں پر حکومت کرتے ہیں۔ آج دنیا ناقابل علاج اور ناقابل بیان دہشت گردی کی لپیٹ میں مبتلا ہے۔
جس کی وجہ یہ ہے کہ چند کوڑھ مغز تھنک ٹینکس نیو ورلڈ آرڈر جیسے جنگل کے قانون کو بھیڑیے کی منطق کا سہارا لے کر اقوام عالم کے سر تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلاً جارحانہ دفاع یا پیشگی حملے کا نظریہ ہے۔ یعنی کسی بھی ملک کو امریکا کے لیے خطرہ بننے کی مہلت نہ دو۔ جنگ امریکا کی سرحد تک آنے کا انتظار نہ کیا جائے، بلکہ دشمن کی سرحد پر لڑی جائے۔
برطانوی وزیر اعظم کی مخبری پر کہ عراق کیمیاوی ہتھیار بنا رہا ہے امریکا نے عراق پر حملہ کر کے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ سنی شیعہ میں خانہ جنگی کرا دی (خفیہ ایجنڈے کے مطابق) جب یہ اطمینان ہو گیا کہ سنی اور شیعہ آپس میں ایک دوسرے کے گلے کاٹنے میں خودکفیل ہو گئے ہیں، اب ان کو کسی بیرونی دشمن کی محتاج نہیں رہی، تب برطانوی وزیر اعظم نے اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے بھولپن کا اعتراف کر لیا کہ انھوں نے ایک غلط اطلاع پر یقین کر لیا تھا۔ لاکھوں قتل ہوئے، شہر کھنڈر بن گئے افسوس صد افسوس۔ چہ! چہ! چہ!
یہاں سے فارغ ہو کر امریکا افغانستان پر چڑھ دوڑا کہ القاعدہ کے رہنما امریکا کے پرانے دوست نئے دشمن اسامہ بن لادن کو حوالے کیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ کیا امریکا کو اسامہ بن لادن کو سوڈان سے افغانستان منتقل کرتے وقت یہ پتہ نہیں تھا کہ پٹھانوں کی روایت ہے کہ وہ اپنے مہمان کی حفاظت کے لیے جان بھی دے دیتے ہیں؟
قانون قدرت یہ ہے کہ جب بھی جنگل کے قانون کو شہروں پر مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو شامت اعمال گلے پڑ جاتی ہے۔ مثلاً ایک شخص اپنے کاروباری پارٹنر کو (جس کے آگے پیچھے کوئی نہیں تھا) پچاس ہزار روپے کرایے کے قاتل کو دے کر قتل کرا دیتا ہے۔ اور پورے کاروبار کا واحد مالک بن جاتا ہے۔
جب اپنی کامیابی کا جشن منا رہا ہوتا ہے تو فون آتا ہے۔ کال کرنے والا حکم دیتا ہے کہ ماہانہ پچاس لاکھ روپے اس کا حصہ بینک میں جمع کرا دیا کرے اگر پھانسی چڑھنے کا شوق نہیں ہے تو کیونکہ کرائے کے قاتل سے بات چیت کی آڈیو اور لین دین کی ویڈیو موجود ہے۔ اس کو کہتے ہیں پچاس ہزار میں پچاس لاکھ ماہانہ کی شامت اعمال خرید لی۔
عراق اور افغانستان کی مثال سامنے ہے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں جنگل کے قانون (نیو ورلڈ آرڈر) کو مسلط کرنے کی پاداش میں شامت اعمال القاعدہ امریکا کے گلے پڑ گئی، (امریکی حمایت کی وجہ سے) شامت اعمال تحریک طالبان پاکستان کے گلے پڑ گئی اور اب عراق کی ابو غریب جیل میں صدام حسین کی باقیات اور القاعدہ کے رہنماؤں کے ملاپ سے جنم لینے والی شامت اعمال داعش پوری دنیا کے گلے کا ہار بننے جا رہی ہے۔ مغربی دنیا کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں اور مشرقی دنیا ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم کی حالت میں ہے۔
شام میں داعش کے خلیفہ ابوبکر بغدادی مجلس شوریٰ کی مدد سے نظام حکومت چلاتے ہیں، اور مذہبی معاملات کی نگرانی کرتے ہیں۔ انتظامیہ صدام حسین کی باقیات کے ہاتھ میں ہے اور میدان جنگ میں القاعدہ کے گوریلے سرگرم عمل ہیں۔ ایک لاکھ فوج ہے جس کو پچاس ہزار سے سوا لاکھ ماہانہ تک تنخواہ دی جاتی ہے تیل کے کنوؤں سمیت 81 ہزار میل کا علاقہ قبضے میں ہے تیل کی اسمگلنگ سے دو کروڑ روپے روزانہ کی آمدنی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بقول روسی صدر پوتن 40 ممالک کی فنڈنگ الگ ہے جس میں G-20 کے بھی کچھ ممالک شامل ہیں۔ اس طرح داعش آج انتہائی سفاک ترین اور امیر ترین دہشت گرد تنظیم ہے۔
سوال یہ ہے کہ یکایک ایسی کیا دھماکا خیز پیش رفت ہوئی کہ داعش بھڑک اٹھی اور اپنے سرپرستوں کے لیے ہی شامت اعمال بن گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنی بے تحاشا آمدنی کے مطابق داعش نے اعلیٰ مشاہروں پر انتظامی مشنری تشکیل دی، عالمی نیٹ ورک قائم کیا۔ 50 ہزار سے لے کر 13 لاکھ روپے تک تنخواہ پانے والی فوج بھرتی کی۔ یکایک فنڈز مہیا کرنے والے سرپرستوں نے داعش کے مقبوضہ حساس علاقوں پر بمباری شروع کر دی۔ اکتوبر کے آخری ہفتے میں فرانس نے داعش کی تیل کی تنصیبات پر بمباری کر کے تیل کے کنوؤں کو ناکارہ بنا دیا۔
یعنی دو کروڑ ڈالر روزانہ کی آمدنی پر سوالیہ نشان لگ گیا۔ صرف فوج کے مستقبل پر نظر ڈالیے ان کو 50 ہزار سے 13 لاکھ تک کی تنخواہوں کا کیا ہو گا؟ بغیر تنخواہ کے یہ فوج کیا سے کیا ہو جائے گی؟ جواباً داعش نے پیرس میں دہشت گردی کی واردات کر کے 139 افراد کو قتل کیا۔ 200 زخمی ہوئے۔ مستقبل میں اٹلی، واشنگٹن اور یورپی ممالک کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے کی دھمکی دے ڈالی۔ یہ تو کھیل کی ابتدا ہے آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ جنگ چھیڑنا آسان ہے جان چھڑانا مشکل۔ کیونکہ فیصلہ وقت اور حالات کرتے ہیں۔
اسی دوران سوشل میڈیا کے توسط سے یہ جان کر ڈھارس بندھی کہ انسان چاہے مغرب کا ہو یا مشرق کا۔ ابھی مرا نہیں کیونکہ انسانیت زندہ ہے اور اپنی زندگی کا ثبوت بھی دیتی ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔
پیرس کے ایک چوراہے پر ایک نوجوان اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ کر کھڑا ہو گیا۔ ایک طرف بڑا سا گتہ گرل کے ساتھ لگا ہوا تھا جس پر ہاتھ سے لکھا تھا ''اگر مجھ پر اعتماد ہے تو مجھے گلے لگا لو۔ میں ایک مسلمان ہوں اور مجھے کہا جاتا ہے کہ میں دہشت گرد ہوں۔'' دیکھتے ہی دیکھتے سیکڑوں لوگ مرد پر جمع ہونے لگے اور باری باری اس نوجوان کو گلے لگانے لگے، سبھی کے دل غم سے بوجھل تھے اور آنکھیں آنسوؤں سے تر۔
مثلاً: ایک بھیڑیا ندی کے کنارے پانی پی رہا تھا، اس کی نظر کچھ ہی دور پانی پیتے ہوئے بکری کے بچے پر پڑی۔ اس کی نیت خراب ہو گئی ''اوئے! تو دیکھ نہیں رہا ہے کہ میں پانی پی رہا ہوں؟ تو نے میرا پانی گندہ کر دیا۔'' بکری کا بچہ منمنایا۔ ''حضور! پانی تو آپ کی طرف سے بہتا ہوا میری طرف آ رہا ہے۔'' بھیڑیا غصے سے آگ بگولا ہو گیا۔ ''تیری یہ ہمت کہ مجھے جھوٹا کہہ رہا ہے؟'' اور اس کو چیر پھاڑ کر کھا گیا۔
اس کو کہتے ہیں بھیڑیے کی منطق یعنی چت بھی میری اور پٹ بھی میری۔ یہی جنگل کا قانون ہے جس کی رو سے دو فیصد خون پینے والے درندے 98 فیصد گھاس کھانے والے چرندوں پر حکومت کرتے ہیں۔ آج دنیا ناقابل علاج اور ناقابل بیان دہشت گردی کی لپیٹ میں مبتلا ہے۔
جس کی وجہ یہ ہے کہ چند کوڑھ مغز تھنک ٹینکس نیو ورلڈ آرڈر جیسے جنگل کے قانون کو بھیڑیے کی منطق کا سہارا لے کر اقوام عالم کے سر تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلاً جارحانہ دفاع یا پیشگی حملے کا نظریہ ہے۔ یعنی کسی بھی ملک کو امریکا کے لیے خطرہ بننے کی مہلت نہ دو۔ جنگ امریکا کی سرحد تک آنے کا انتظار نہ کیا جائے، بلکہ دشمن کی سرحد پر لڑی جائے۔
برطانوی وزیر اعظم کی مخبری پر کہ عراق کیمیاوی ہتھیار بنا رہا ہے امریکا نے عراق پر حملہ کر کے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ سنی شیعہ میں خانہ جنگی کرا دی (خفیہ ایجنڈے کے مطابق) جب یہ اطمینان ہو گیا کہ سنی اور شیعہ آپس میں ایک دوسرے کے گلے کاٹنے میں خودکفیل ہو گئے ہیں، اب ان کو کسی بیرونی دشمن کی محتاج نہیں رہی، تب برطانوی وزیر اعظم نے اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے بھولپن کا اعتراف کر لیا کہ انھوں نے ایک غلط اطلاع پر یقین کر لیا تھا۔ لاکھوں قتل ہوئے، شہر کھنڈر بن گئے افسوس صد افسوس۔ چہ! چہ! چہ!
یہاں سے فارغ ہو کر امریکا افغانستان پر چڑھ دوڑا کہ القاعدہ کے رہنما امریکا کے پرانے دوست نئے دشمن اسامہ بن لادن کو حوالے کیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ کیا امریکا کو اسامہ بن لادن کو سوڈان سے افغانستان منتقل کرتے وقت یہ پتہ نہیں تھا کہ پٹھانوں کی روایت ہے کہ وہ اپنے مہمان کی حفاظت کے لیے جان بھی دے دیتے ہیں؟
قانون قدرت یہ ہے کہ جب بھی جنگل کے قانون کو شہروں پر مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو شامت اعمال گلے پڑ جاتی ہے۔ مثلاً ایک شخص اپنے کاروباری پارٹنر کو (جس کے آگے پیچھے کوئی نہیں تھا) پچاس ہزار روپے کرایے کے قاتل کو دے کر قتل کرا دیتا ہے۔ اور پورے کاروبار کا واحد مالک بن جاتا ہے۔
جب اپنی کامیابی کا جشن منا رہا ہوتا ہے تو فون آتا ہے۔ کال کرنے والا حکم دیتا ہے کہ ماہانہ پچاس لاکھ روپے اس کا حصہ بینک میں جمع کرا دیا کرے اگر پھانسی چڑھنے کا شوق نہیں ہے تو کیونکہ کرائے کے قاتل سے بات چیت کی آڈیو اور لین دین کی ویڈیو موجود ہے۔ اس کو کہتے ہیں پچاس ہزار میں پچاس لاکھ ماہانہ کی شامت اعمال خرید لی۔
عراق اور افغانستان کی مثال سامنے ہے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں جنگل کے قانون (نیو ورلڈ آرڈر) کو مسلط کرنے کی پاداش میں شامت اعمال القاعدہ امریکا کے گلے پڑ گئی، (امریکی حمایت کی وجہ سے) شامت اعمال تحریک طالبان پاکستان کے گلے پڑ گئی اور اب عراق کی ابو غریب جیل میں صدام حسین کی باقیات اور القاعدہ کے رہنماؤں کے ملاپ سے جنم لینے والی شامت اعمال داعش پوری دنیا کے گلے کا ہار بننے جا رہی ہے۔ مغربی دنیا کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں اور مشرقی دنیا ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم کی حالت میں ہے۔
شام میں داعش کے خلیفہ ابوبکر بغدادی مجلس شوریٰ کی مدد سے نظام حکومت چلاتے ہیں، اور مذہبی معاملات کی نگرانی کرتے ہیں۔ انتظامیہ صدام حسین کی باقیات کے ہاتھ میں ہے اور میدان جنگ میں القاعدہ کے گوریلے سرگرم عمل ہیں۔ ایک لاکھ فوج ہے جس کو پچاس ہزار سے سوا لاکھ ماہانہ تک تنخواہ دی جاتی ہے تیل کے کنوؤں سمیت 81 ہزار میل کا علاقہ قبضے میں ہے تیل کی اسمگلنگ سے دو کروڑ روپے روزانہ کی آمدنی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بقول روسی صدر پوتن 40 ممالک کی فنڈنگ الگ ہے جس میں G-20 کے بھی کچھ ممالک شامل ہیں۔ اس طرح داعش آج انتہائی سفاک ترین اور امیر ترین دہشت گرد تنظیم ہے۔
سوال یہ ہے کہ یکایک ایسی کیا دھماکا خیز پیش رفت ہوئی کہ داعش بھڑک اٹھی اور اپنے سرپرستوں کے لیے ہی شامت اعمال بن گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنی بے تحاشا آمدنی کے مطابق داعش نے اعلیٰ مشاہروں پر انتظامی مشنری تشکیل دی، عالمی نیٹ ورک قائم کیا۔ 50 ہزار سے لے کر 13 لاکھ روپے تک تنخواہ پانے والی فوج بھرتی کی۔ یکایک فنڈز مہیا کرنے والے سرپرستوں نے داعش کے مقبوضہ حساس علاقوں پر بمباری شروع کر دی۔ اکتوبر کے آخری ہفتے میں فرانس نے داعش کی تیل کی تنصیبات پر بمباری کر کے تیل کے کنوؤں کو ناکارہ بنا دیا۔
یعنی دو کروڑ ڈالر روزانہ کی آمدنی پر سوالیہ نشان لگ گیا۔ صرف فوج کے مستقبل پر نظر ڈالیے ان کو 50 ہزار سے 13 لاکھ تک کی تنخواہوں کا کیا ہو گا؟ بغیر تنخواہ کے یہ فوج کیا سے کیا ہو جائے گی؟ جواباً داعش نے پیرس میں دہشت گردی کی واردات کر کے 139 افراد کو قتل کیا۔ 200 زخمی ہوئے۔ مستقبل میں اٹلی، واشنگٹن اور یورپی ممالک کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے کی دھمکی دے ڈالی۔ یہ تو کھیل کی ابتدا ہے آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ جنگ چھیڑنا آسان ہے جان چھڑانا مشکل۔ کیونکہ فیصلہ وقت اور حالات کرتے ہیں۔
اسی دوران سوشل میڈیا کے توسط سے یہ جان کر ڈھارس بندھی کہ انسان چاہے مغرب کا ہو یا مشرق کا۔ ابھی مرا نہیں کیونکہ انسانیت زندہ ہے اور اپنی زندگی کا ثبوت بھی دیتی ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔
پیرس کے ایک چوراہے پر ایک نوجوان اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ کر کھڑا ہو گیا۔ ایک طرف بڑا سا گتہ گرل کے ساتھ لگا ہوا تھا جس پر ہاتھ سے لکھا تھا ''اگر مجھ پر اعتماد ہے تو مجھے گلے لگا لو۔ میں ایک مسلمان ہوں اور مجھے کہا جاتا ہے کہ میں دہشت گرد ہوں۔'' دیکھتے ہی دیکھتے سیکڑوں لوگ مرد پر جمع ہونے لگے اور باری باری اس نوجوان کو گلے لگانے لگے، سبھی کے دل غم سے بوجھل تھے اور آنکھیں آنسوؤں سے تر۔