شافع روز جزا کی لگائی گئی فرد جرم
اپنے والد مرحوم کی انگلی پکڑے میں نے اوائل بچپن میں ان محافل میں جانا شروع کیا۔
ISLAMABAD:
مدحت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، درود و سلام کی صدائیں، محافل جشن عید میلاد النبیؐ کی پرنور فضاؤں میں بستیاں بقۂ نور بنی ہوتی ہیں۔ ہر کوئی سید الانبیاء سے محبت اور عشق کا والہانہ اظہار کر رہا ہوتا ہے۔ عمارتیں چراغوں سے روشن ہوتی ہیں اور محفلیں نعت و سلام کی دھڑکنیں بن جاتی ہیں۔ ایسی کیفیت اور میلاد کا یہ سماں صرف اور صرف برصغیر پاک و ہند کا خاصہ ہے۔ عشق رسولؐ کا اس قدر والہانہ اظہار اسی سرزمین کے مقدر میں آیا ہے۔
اپنے والد مرحوم کی انگلی پکڑے میں نے اوائل بچپن میں ان محافل میں جانا شروع کیا۔ سماع کی کوئی محفل ہو، درود و سلام کا کوئی سماں ہو، بارہ ربیع الاول کا جلوس، ان سب جگہ میں ذوق و شوق سے جاتا ہوں ۔ پورے محلے میں ہمارا گھر وہ واحد گھر ہوتا جس کی منڈیر پر میں اور میرے بھائی بہن رات کو دیے اور موم بتیاں روشن کرتے۔ ہوا تیز ہوتی تو انھیں اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے بجھنے سے بچاتے۔ میری والدہ انتہائی عسرت اور تنگدستی کے عالم میں بھی اس دن زردہ یا کھیر ضرور بناتیں جسے میں اور میرا بھائی پلیٹوں میں ڈالتے ان پر انھی کے ہاتھ کے کروشیا کے کاڑھے ہوئے رومال رکھتے اور پورے محلے میں بانٹ کر آتے۔
اس روز میرے والد کی حالت دیدنی ہوتی۔ مستقل درود پڑھتے رہتے اور مسلسل ان کی آنکھوں سے آنسو رواں رہتے۔ دن کے اختتام تک یہ آنسو سسکیوں اور ہچکیوں میں بدل جاتے اور درود کی آواز بلند ہو جاتی۔ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے محبت، احترام اور عشق کا تھوڑا بہت قرینہ میں نے اپنے والد مرحوم کی صحبت سے سیکھا۔ لیکن اس عشق و محبت اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کے مسلسل ماحول میں دو لمحات ایسے تھے جب میں کانپ جاتا اور بچپن ہی میں مجھ پر خوف سا طاری ہو جاتا۔ یہ خوف اس لیے بھی زیادہ گہرا ہو جاتا کہ میں اپنے والد کو شدید ترین رقت اور خوف کے عالم میں دیکھتا۔
ہم جس مسجد میں جمعہ پڑھنے جاتے وہ گھر سے تھوڑی دور تھی۔ والد کا معمول تھا کہ جمعہ کی نماز کا اہتمام دن کے آغاز سے ہی ہوتا اور ابھی مولوی صاحب منبر پر خطبے کے لیے نہیں بیٹھے ہوتے تھے کہ ہم لوگ مسجد پہنچ جاتے۔ گجرات کے مولوی محمود شاہ صاحب بڑے پُر اثر مقرر تھے۔ قصے، کہانیوں، سیاسی شعبدہ بازیوں اور دیگر معاملات سے بیان کو رنگین بناتے۔ ان کے والد ولایت شاہ صاحب پہلی صف کے آخر میں بنے اپنے کمرے میں بیٹھے ان کا وعظ سنتے۔ سنتوں کا وقفہ ہوتا تو وہ اٹھ کر وضو کے لیے جاتے اور واپسی پر منبر کے ساتھ کھڑے کھڑے چند فقرے کہتے اور پھر صف میں جا کر بیٹھ جاتے۔
وہ محمود شاہ صاحب کی قصہ گوئیوں اور رنگین بیانی پر تبصرہ کرتے، بیٹا ہونے کی حیثیت سے ڈانٹتے اور پھر اچانک ان کا لہجہ بدل جاتا، کہتے دیکھو، اگر آج کسی باپ کا جوان بیٹا جس پر اس نے خون پسینہ خرچ کر کے پڑھایا ہو، اگر وہ بی اے میں فیل ہو جائے تو باپ کی کمر ٹوٹ جاتی ہے۔ او! ظالموں تمہیں ذرا بھی خیال نہیں آتا اس سید الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کا جن کی یہ امت فیل ہونے جا رہی ہے۔ یہ سب کہنے کے بعد ان کی حالت غیر ہو جاتی اور صف میں جا کر بیٹھ جاتے۔
بی اے کرنا اس زمانے میں بہت مشکل کام سمجھا جاتا تھا۔ ہمارے اردگرد ایسے کتنے تھے جو بار بار فیل ہوتے تھے اور والدین پریشان۔ مجھے اس فقرے کی سنگینی کا اندازہ تھا۔ میں والد کی جانب دیکھتا تو وہ دونوں گھٹنوں میں سر چھپائے اردگرد کے لوگوں سے چھپ کر رو رہے ہوتے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی شفاعت اور رحمت سے بھر پور ساری تقریریں سننے کے باوجود میں خوف کی کیفیت سے نہ نکل پاتا۔ دوسرا لمحہ تو بار بار آتا اور مجھے بار بار کم مائیگی، شرمندگی اور خوف کا شکار کرتا۔ میرے والد علامہ اقبال کی یہ رباعی اکثر پڑھتے اور پھر دیر تک روتے۔
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روز محشر عذر ہائے من پذیر
گر تو می بینی حسابم ناگزیر
از نگاہِ مصطفے پنہاں بگیر
(ترجمہ: اے اللہ تو تمام عالمین کا غنی ہے اور میں ایک حقیر پر تقسیر فقیر ہوں، مجھ سے روز قیامت حساب مت لینا اور میری یہ درخواست قبول کر لینا لیکن اگر) میرا حساب ناگزیر ہو اور اس کے سوا کوئی چارہ نہ ہو تو مجھے رسول اکرم ﷺ کی نگاہوں سے دور لے جا کر حساب لینا۔ مجھے آپؐ کے سامنے حساب دیتے ہوئے بہت شرمندگی ہو گی۔
یوں تو یہ رباعی سید الانبیاءﷺ کی ذات کے ساتھ عشق' محبت کا اعلیٰ ترین اظہار ہے اور اس رباعی کا ایک خاصہ یہ ہے کہ اگر آپ کی آنکھوں میں دعا کے دوران آنسو نہ آئے ہوں' رقت طاری نہ ہوئی ہو تو آپ اس رباعی کو اس کے پورے فہم ادراک کو اپنے اوپر نازل کرتے ہوئے پڑھیں تو فوراً رقت طاری ہو جاتی ہے۔ لیکن اس رباعی اور سید ولائت شاہ صاحب کی اس گفتگو سے پیدا ہونے والی کیفیت کا راز مجھ پر اس وقت کھلا جب قرآن پاک کا مطالعہ کرتے ہوئے میں سورۃ الفرقان کی 30 ویں آیت پر پہنچا۔ اس میں ایک لرزا دینے والی کیفیت ہے۔ یہ کیفیت روز محشر کی ہے جو اس سورۃ کی 25 ویں آیت سے شروع ہوتی ہے۔
اللہ فرماتے ہیں ''جس دن آسمان پھٹ کر ایک بادل کو راہ دے گا اور فرشتے اس طرح اتارے جائیں گے کہ ان کا تار بندھ جائے گا اور اس دن صحیح معنوں میں بادشاہی خدائے رحمن کی ہو گی اور وہ دن کافروں پر بہت سخت ہو گا اور جس دن ظالم انسان حسرت سے اپنے ہاتھوں کو کاٹ کھائے گا اور کہے گا، ''کاش میں نے پیغمبر کی ہمراہی اختیار کر لی ہوتی۔
ہائے میری بربادی! کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا۔ میرے پاس نصیحت آ چکی تھی' مگر اس دوست نے مجھے اس سے بھٹکا دیا اور شیطان تو ہے ہی ایسا کہ وقت پڑنے پر انسان کو بے کس چھوڑ جاتا ہے'' (الفرقان 25تا29)۔ روز محشر کے اس منظر نامے اور ماحول کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس وقت رسول اللہﷺ اپنی امت کی شکایت پیش کریں گے، ''اور رسولؐ کہیں گے یا رب میری قوم اس قرآن کو بالکل چھوڑ بیٹھی تھی (الفرقان 30)، جس قوم کے سامنے رسول اکرمﷺ خود مدعی بن کر قیامت کے روز پیش ہوں گے۔ اسے اس دن سے ذرا بھی خوف نہیں آتا۔کیسا دعویٰ جو آپؐ کی جانب سے پیش کیا جائے گا۔ ہم پر حرف بحرف صادق نہیں آتا۔کیا ہم ایسی قوم نہیں کہ جس نے قرآن کو پس پشت ڈال دیا ہو' مکمل طور پر چھوڑ دیا ہو۔ اقبال نے کہا تھا
گر قومی خواہی مسلمان زیستن
نیست ممکن جز بہ قرآن زیستن
ترجمہ:(اگر تو چاہتا ہے کہ ایک مسلمان کی زندگی گزارے تو یہ قرآن پر عمل کیے بغیر نا ممکن ہے)۔ قرآن پاک صرف اور صرف ہماری تقریبات کے آغاز میں پڑھا جاتا ہے' دلہن کے سر پر رخصتی کے وقت رکھا جاتا ہے۔ کبھی قسم کھانے کی نوبت آ جائے تو نکالا جاتا ہے۔ ہم میں سے کتنے ہیں جو اس اللہ کی عطا کردہ ہدایت کے سمندر میں غوطہ زن ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ پوری امت نے تو قرآن پاک کو پس پشت ڈالا ہی تھا لیکن شاید ہم پر اسے پس پشت ڈالنے کا عذاب دہرا ہے۔
ستاون اسلامی ممالک نے جب اپنے ممالک کی سرحدیں تخلیق کیں تو ہر کسی نے اسے رہنے کے لیے ایک علاقے کے طور پر دنیا کے نقشے پر ترتیب دیا۔ ایک قومی کے لیے' مصریوں' ایرانیوں' عراقیوں اور شامیوں کے لیے۔ لیکن ہم نے تو یہ زمین اس لیے مانگی' یہ گھر اس لیے طلب کیا' یہ جائے امان اس لیے طلب کی کہ ہم یہاں وہ لوگ مل کر رہیں گے جو کلمہ طیبہ کی وجہ سے بھائی ہیں۔ محمد حسین چیمہ اور گورو داس چیمہ' دونوں کا دادا ایک تھا لیکن انھوں نے بھائی ہونے سے انکار کر دیا۔
ہمیں اللہ نے یہ زمین عطا کی تا کہ ہم اس زمین کو اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر بہتر بنائیں۔ ہم نعمت ملنے پر اسقدر خوش تھے کہ ہم بھول گئے کہ نعمت کی ناشکری عذاب کا مستحق قرار دیتی ہے۔ ہم پر تو مقدمہ دہرا ہے۔
ایک اس دنیا میں وعدہ کر کے مکر گئے اور آخرت میں ہم رسول اکرم ﷺ کے مقدمے کا سامنا کریں گے۔ ایسے میں کسی کو ہوش ہے' کوئی سوچ سکتا ہے' کوئی ایک لمحے کے لیے خوف کی فضا سے نکل سکتا ہے۔ ہم جو شفاعت کے طلبگار ہیں' ہم جو ان کے دامن شفاعت میں پناہ ڈھونڈتے ہیں' کیا ہم رسول اللہ ﷺ کی اس فرد جرم کے مرتکب تو نہیں ہو رہے۔ ایک لمحے کو سوچیے پھر دیکھئے خوف سے آپ کیسے کانپ اٹھتے ہیں' آنسو ہیں کہ تھمیں گے نہیں رقت ہے کہ ختم نہیں ہو گی۔
مدحت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، درود و سلام کی صدائیں، محافل جشن عید میلاد النبیؐ کی پرنور فضاؤں میں بستیاں بقۂ نور بنی ہوتی ہیں۔ ہر کوئی سید الانبیاء سے محبت اور عشق کا والہانہ اظہار کر رہا ہوتا ہے۔ عمارتیں چراغوں سے روشن ہوتی ہیں اور محفلیں نعت و سلام کی دھڑکنیں بن جاتی ہیں۔ ایسی کیفیت اور میلاد کا یہ سماں صرف اور صرف برصغیر پاک و ہند کا خاصہ ہے۔ عشق رسولؐ کا اس قدر والہانہ اظہار اسی سرزمین کے مقدر میں آیا ہے۔
اپنے والد مرحوم کی انگلی پکڑے میں نے اوائل بچپن میں ان محافل میں جانا شروع کیا۔ سماع کی کوئی محفل ہو، درود و سلام کا کوئی سماں ہو، بارہ ربیع الاول کا جلوس، ان سب جگہ میں ذوق و شوق سے جاتا ہوں ۔ پورے محلے میں ہمارا گھر وہ واحد گھر ہوتا جس کی منڈیر پر میں اور میرے بھائی بہن رات کو دیے اور موم بتیاں روشن کرتے۔ ہوا تیز ہوتی تو انھیں اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے بجھنے سے بچاتے۔ میری والدہ انتہائی عسرت اور تنگدستی کے عالم میں بھی اس دن زردہ یا کھیر ضرور بناتیں جسے میں اور میرا بھائی پلیٹوں میں ڈالتے ان پر انھی کے ہاتھ کے کروشیا کے کاڑھے ہوئے رومال رکھتے اور پورے محلے میں بانٹ کر آتے۔
اس روز میرے والد کی حالت دیدنی ہوتی۔ مستقل درود پڑھتے رہتے اور مسلسل ان کی آنکھوں سے آنسو رواں رہتے۔ دن کے اختتام تک یہ آنسو سسکیوں اور ہچکیوں میں بدل جاتے اور درود کی آواز بلند ہو جاتی۔ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے محبت، احترام اور عشق کا تھوڑا بہت قرینہ میں نے اپنے والد مرحوم کی صحبت سے سیکھا۔ لیکن اس عشق و محبت اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کے مسلسل ماحول میں دو لمحات ایسے تھے جب میں کانپ جاتا اور بچپن ہی میں مجھ پر خوف سا طاری ہو جاتا۔ یہ خوف اس لیے بھی زیادہ گہرا ہو جاتا کہ میں اپنے والد کو شدید ترین رقت اور خوف کے عالم میں دیکھتا۔
ہم جس مسجد میں جمعہ پڑھنے جاتے وہ گھر سے تھوڑی دور تھی۔ والد کا معمول تھا کہ جمعہ کی نماز کا اہتمام دن کے آغاز سے ہی ہوتا اور ابھی مولوی صاحب منبر پر خطبے کے لیے نہیں بیٹھے ہوتے تھے کہ ہم لوگ مسجد پہنچ جاتے۔ گجرات کے مولوی محمود شاہ صاحب بڑے پُر اثر مقرر تھے۔ قصے، کہانیوں، سیاسی شعبدہ بازیوں اور دیگر معاملات سے بیان کو رنگین بناتے۔ ان کے والد ولایت شاہ صاحب پہلی صف کے آخر میں بنے اپنے کمرے میں بیٹھے ان کا وعظ سنتے۔ سنتوں کا وقفہ ہوتا تو وہ اٹھ کر وضو کے لیے جاتے اور واپسی پر منبر کے ساتھ کھڑے کھڑے چند فقرے کہتے اور پھر صف میں جا کر بیٹھ جاتے۔
وہ محمود شاہ صاحب کی قصہ گوئیوں اور رنگین بیانی پر تبصرہ کرتے، بیٹا ہونے کی حیثیت سے ڈانٹتے اور پھر اچانک ان کا لہجہ بدل جاتا، کہتے دیکھو، اگر آج کسی باپ کا جوان بیٹا جس پر اس نے خون پسینہ خرچ کر کے پڑھایا ہو، اگر وہ بی اے میں فیل ہو جائے تو باپ کی کمر ٹوٹ جاتی ہے۔ او! ظالموں تمہیں ذرا بھی خیال نہیں آتا اس سید الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کا جن کی یہ امت فیل ہونے جا رہی ہے۔ یہ سب کہنے کے بعد ان کی حالت غیر ہو جاتی اور صف میں جا کر بیٹھ جاتے۔
بی اے کرنا اس زمانے میں بہت مشکل کام سمجھا جاتا تھا۔ ہمارے اردگرد ایسے کتنے تھے جو بار بار فیل ہوتے تھے اور والدین پریشان۔ مجھے اس فقرے کی سنگینی کا اندازہ تھا۔ میں والد کی جانب دیکھتا تو وہ دونوں گھٹنوں میں سر چھپائے اردگرد کے لوگوں سے چھپ کر رو رہے ہوتے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی شفاعت اور رحمت سے بھر پور ساری تقریریں سننے کے باوجود میں خوف کی کیفیت سے نہ نکل پاتا۔ دوسرا لمحہ تو بار بار آتا اور مجھے بار بار کم مائیگی، شرمندگی اور خوف کا شکار کرتا۔ میرے والد علامہ اقبال کی یہ رباعی اکثر پڑھتے اور پھر دیر تک روتے۔
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روز محشر عذر ہائے من پذیر
گر تو می بینی حسابم ناگزیر
از نگاہِ مصطفے پنہاں بگیر
(ترجمہ: اے اللہ تو تمام عالمین کا غنی ہے اور میں ایک حقیر پر تقسیر فقیر ہوں، مجھ سے روز قیامت حساب مت لینا اور میری یہ درخواست قبول کر لینا لیکن اگر) میرا حساب ناگزیر ہو اور اس کے سوا کوئی چارہ نہ ہو تو مجھے رسول اکرم ﷺ کی نگاہوں سے دور لے جا کر حساب لینا۔ مجھے آپؐ کے سامنے حساب دیتے ہوئے بہت شرمندگی ہو گی۔
یوں تو یہ رباعی سید الانبیاءﷺ کی ذات کے ساتھ عشق' محبت کا اعلیٰ ترین اظہار ہے اور اس رباعی کا ایک خاصہ یہ ہے کہ اگر آپ کی آنکھوں میں دعا کے دوران آنسو نہ آئے ہوں' رقت طاری نہ ہوئی ہو تو آپ اس رباعی کو اس کے پورے فہم ادراک کو اپنے اوپر نازل کرتے ہوئے پڑھیں تو فوراً رقت طاری ہو جاتی ہے۔ لیکن اس رباعی اور سید ولائت شاہ صاحب کی اس گفتگو سے پیدا ہونے والی کیفیت کا راز مجھ پر اس وقت کھلا جب قرآن پاک کا مطالعہ کرتے ہوئے میں سورۃ الفرقان کی 30 ویں آیت پر پہنچا۔ اس میں ایک لرزا دینے والی کیفیت ہے۔ یہ کیفیت روز محشر کی ہے جو اس سورۃ کی 25 ویں آیت سے شروع ہوتی ہے۔
اللہ فرماتے ہیں ''جس دن آسمان پھٹ کر ایک بادل کو راہ دے گا اور فرشتے اس طرح اتارے جائیں گے کہ ان کا تار بندھ جائے گا اور اس دن صحیح معنوں میں بادشاہی خدائے رحمن کی ہو گی اور وہ دن کافروں پر بہت سخت ہو گا اور جس دن ظالم انسان حسرت سے اپنے ہاتھوں کو کاٹ کھائے گا اور کہے گا، ''کاش میں نے پیغمبر کی ہمراہی اختیار کر لی ہوتی۔
ہائے میری بربادی! کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا۔ میرے پاس نصیحت آ چکی تھی' مگر اس دوست نے مجھے اس سے بھٹکا دیا اور شیطان تو ہے ہی ایسا کہ وقت پڑنے پر انسان کو بے کس چھوڑ جاتا ہے'' (الفرقان 25تا29)۔ روز محشر کے اس منظر نامے اور ماحول کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس وقت رسول اللہﷺ اپنی امت کی شکایت پیش کریں گے، ''اور رسولؐ کہیں گے یا رب میری قوم اس قرآن کو بالکل چھوڑ بیٹھی تھی (الفرقان 30)، جس قوم کے سامنے رسول اکرمﷺ خود مدعی بن کر قیامت کے روز پیش ہوں گے۔ اسے اس دن سے ذرا بھی خوف نہیں آتا۔کیسا دعویٰ جو آپؐ کی جانب سے پیش کیا جائے گا۔ ہم پر حرف بحرف صادق نہیں آتا۔کیا ہم ایسی قوم نہیں کہ جس نے قرآن کو پس پشت ڈال دیا ہو' مکمل طور پر چھوڑ دیا ہو۔ اقبال نے کہا تھا
گر قومی خواہی مسلمان زیستن
نیست ممکن جز بہ قرآن زیستن
ترجمہ:(اگر تو چاہتا ہے کہ ایک مسلمان کی زندگی گزارے تو یہ قرآن پر عمل کیے بغیر نا ممکن ہے)۔ قرآن پاک صرف اور صرف ہماری تقریبات کے آغاز میں پڑھا جاتا ہے' دلہن کے سر پر رخصتی کے وقت رکھا جاتا ہے۔ کبھی قسم کھانے کی نوبت آ جائے تو نکالا جاتا ہے۔ ہم میں سے کتنے ہیں جو اس اللہ کی عطا کردہ ہدایت کے سمندر میں غوطہ زن ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ پوری امت نے تو قرآن پاک کو پس پشت ڈالا ہی تھا لیکن شاید ہم پر اسے پس پشت ڈالنے کا عذاب دہرا ہے۔
ستاون اسلامی ممالک نے جب اپنے ممالک کی سرحدیں تخلیق کیں تو ہر کسی نے اسے رہنے کے لیے ایک علاقے کے طور پر دنیا کے نقشے پر ترتیب دیا۔ ایک قومی کے لیے' مصریوں' ایرانیوں' عراقیوں اور شامیوں کے لیے۔ لیکن ہم نے تو یہ زمین اس لیے مانگی' یہ گھر اس لیے طلب کیا' یہ جائے امان اس لیے طلب کی کہ ہم یہاں وہ لوگ مل کر رہیں گے جو کلمہ طیبہ کی وجہ سے بھائی ہیں۔ محمد حسین چیمہ اور گورو داس چیمہ' دونوں کا دادا ایک تھا لیکن انھوں نے بھائی ہونے سے انکار کر دیا۔
ہمیں اللہ نے یہ زمین عطا کی تا کہ ہم اس زمین کو اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر بہتر بنائیں۔ ہم نعمت ملنے پر اسقدر خوش تھے کہ ہم بھول گئے کہ نعمت کی ناشکری عذاب کا مستحق قرار دیتی ہے۔ ہم پر تو مقدمہ دہرا ہے۔
ایک اس دنیا میں وعدہ کر کے مکر گئے اور آخرت میں ہم رسول اکرم ﷺ کے مقدمے کا سامنا کریں گے۔ ایسے میں کسی کو ہوش ہے' کوئی سوچ سکتا ہے' کوئی ایک لمحے کے لیے خوف کی فضا سے نکل سکتا ہے۔ ہم جو شفاعت کے طلبگار ہیں' ہم جو ان کے دامن شفاعت میں پناہ ڈھونڈتے ہیں' کیا ہم رسول اللہ ﷺ کی اس فرد جرم کے مرتکب تو نہیں ہو رہے۔ ایک لمحے کو سوچیے پھر دیکھئے خوف سے آپ کیسے کانپ اٹھتے ہیں' آنسو ہیں کہ تھمیں گے نہیں رقت ہے کہ ختم نہیں ہو گی۔