شہید بے نظیر بھٹو ہماری ہیرو

انسانی تہذیب نے ہمیشہ علامتوں کا سہارا لیتے ہوئے دنیا کے نظام کو درست رکھنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔

انسانی تہذیب نے ہمیشہ علامتوں کا سہارا لیتے ہوئے دنیا کے نظام کو درست رکھنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ علامتیں واقعات اور افراد کی شکل میں انسانی تاریخ میں اس وقت سے موجود ہیں جب سے تاریخ کی ابتدا ہوئی۔ صرف تہذیبی ارتقاء نے علامتوں کو تبدیل کیا ہے، قدیم زمانے میں اس کو اساطیر کہا گیا اس وقت افراد اپنی جسمانی طاقت کی وجہ سے غیر مرئی قوتوں کے ساتھ اور عجیب الخلقت جانوروں کے ساتھ لڑتے اور عام افراد کے لیے راحت کا باعث ہونے کی وجہ سے تاریخ میں علامت کے طور پر موجود ہیں۔

جدید تہذیب میں جب انسانی علوم نے ارتقاء حاصل کیا اور انسان نے تعلیم کی وجہ سے علامتوں کو سمجھنا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ اس وقت بادشاہت اور ظلم کے انسان دشمن ہتھکنڈوں کو جن کے پنجے جو انسانی استحصال کا سبب تھے ان کو علامتی طور پر مافوق الفطرت حیوان تصور کیا جاتا تھا اور جو استحصال کو ختم کرنے کے لیے مشکلات برداشت کرتے ہوئے ان کے خلاف جدوجہد میں مصروف تھے وہ آج تک انسانوں کے ہیرو ہیں اور علامت کے طور پر دیوتاؤں کی صورت میں آج کے دور میں بھی مثال کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں۔

ان کی جدوجہد پر آج کا انسان مسلسل تحقیق کرتے ہوئے اپنی آزادی کے لیے مثالیں قائم کر رہا ہے۔ زمانے کے ارتقاء اور علم کے بڑھنے کی وجہ سے زمانہ قدیم میں جن کو دیوتا تسلیم کیا جاتا تھا وہ انسانی روپ اختیار کرتے چلے گئے، ان کے لیے رہبر، رہنما، قائد ایسے بہت سے الفاظ استعمال ہونے لگے، کیونکہ انسان استحصال کے مافوق الفطرت ہتھکنڈوں کو سمجھ چکا تھا، انسان کو معلوم ہو چکا تھا کہ اس کی وجہ جن کو قدیم زمانے کی اساطیر نے برائی کی طاقتیں تسلیم کیا تھا وہ بھی ہم جیسے اس دنیا کے باسی ہیں، مگر اپنے اختیارات کو غلط استعمال کرکے انسان کو اپنا غلام رکھنے کے درپے ہیں۔

ان ہیروز کو سیاسی رہنما کہا گیا کیونکہ انھوں نے غلامی، آمریت اور استحصال جیسی انسان دشمن عفریت کے چنگل سے انسانوں کو نکالا۔ اپنی قوم کو استحصال سے آزاد کروانے میں اپنا کردار ادا کیا، اس لیے جدید تہذیب میں وہ قومی ہیرو ہیں اور تاریخ نے ان کو وہی مقام دیا ہوا ہے جو قدیم یونانی دیوتاؤں کو دیا تھا، اور آج کا تاریخ دان ان افراد کی زندگی پر ایسے ہی تحقیق کررہا ہے جیسے وہ قدیم اساطیری ہیروز پر کرتا تھا۔ ہیرو ہر جغرافیہ، ہر قوم، ہر ملک میں ہر دور میں موجود رہے ہیں۔ ان کے بغیر تیز رفتاری سے انسان کی تہذیبی ترقی ناممکن ہے۔

ان ہی قومی، تہذیبی ہیرو کی جدوجہد آنے والوں کے لیے مثال ہوتی ہے، وہ اپنے دور میں استحصال کے خلاف کوششوں میں اپنے سے پہلے آنے والوں کے اقوال، طریقہ کار کو مشعل راہ بناتے ہیں، کیونکہ انسان نے اپنے سے پہلے انسانوں کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی صفوں کو استوار کیا ہے۔

سائنسی ارتقاء نے کائنات کو انسان کے سامنے کھول دیا تھا، چھاپے خانہ کی ایجاد نے معلومات تک رسائی کو آسان اور ممکن بنا دیا، جس نے مختلف ممالک میں ہونے والی سیاسی جدوجہد کے بارے میں اس دنیا کے باشندوں کو آگاہ کیا، مگر انقلاب فرانس نے دنیا کی سیاسی تاریخ کو نیا رنگ دیا، اس کے بعد قدیم زمانے کی انسان دشمن قوتیں جو غائب تھیں ان کو استحصالی قوتوں کا نام دے کر انسان کے سامنے ان کی حقیقت اجاگر کر دی۔ یوں جدید تاریخ میں سیاسی لیڈر نجات دہندہ کے طور پر سامنے آئے۔

برصغیر کی تاریخ بھی دنیا کی تاریخ سے مختلف نہیں، یہ بھی استحصالی قوتوں اور ان کے خلاف جدوجہد سے پر ہے، اس خطے کے باسیوں نے ہمیشہ استحصال کے خلاف آواز اٹھائی اور جدوجہد کی، مگر معلومات میں کمی اور ناخواندگی جیسے مسائل نے ان ہیروز کی غلط شکل کو پیش کیا۔


ایک محدود علاقہ جنھوں نے ان کی جدوجہد دیکھی تھی وہ ان کو ہیرو مانتے تھے مگر حکومت کا پروپیگنڈہ ان کو ظالم، ڈاکو اور باغی قرار دے کر ان کی انسانوں کی آزادی اور حقوق حکمرانی کو غلط انداز میں پیش کرتا رہا، اسی لیے چند سال پہلے تک 1857ء کی جنگ آزادی کے لیے حکمران طبقات اور غاصبوں کا دیا ہوا لفظ غدر استعمال ہوتا تھا۔ اس کے بعد آزادی کے دور میں جدوجہد کرنے والوں کو ہم نے گمنام ہیرو کا نام دیا۔ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد کالونیل دور کی باقیات نے اپنے استحصال کو قائم رکھنے کے لیے اس ملک میں انسان دوست، ہیروز کو ختم کرنے کی کوشش میں وہ تمام ہتھکنڈے استعمال کرنے میں کوئی دریغ نہیں کیا جن کی اجازت مہذب دنیا نہیں دیتی تھی۔

اس ملک میں انسان دوست استحصال مخالف سیاسی رہنماؤں کی شخصیت کو ہر طرح سے تباہ کیا گیا، جس کے لیے مذہب سب سے بڑا سہارا رہا، اس کے بعد نظریاتی مخالفت میں عالمی سیاسی اصطلاحات کی غلط تشریح، قیدوبند، جان لینا سبھی قسم کے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے، تاکہ وہ اپنی نادیدہ زنجیروں سے اپنا غلام بنائے رکھیں، کیونکہ وہ عوام کی آزادی سے ڈرتے تھے۔

پاکستان میں آئین سازی مکمل ہونے کے بعد شہریوں کو بنیادی حقوق ملے تو انھوں نے آئین کے خالق اور اس کی سیاسی جماعت کو نشان عبرت بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، بات کسی ایک جگہ نہیں رک جاتی تو افسوس نہ ہوتا، شہید ذوالفقار بھٹو کی شہادت کے بعد جب محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے ان کے پرچم کو بلند کیا، تو وہی انسان کی حکمرانی کو تسلیم نہ کرنے والے طبقات نے ایک بار پھر قدیم ہتھکنڈوں کو استعمال کرتے ہوئے۔

ان سے زندگی چھین لی اور ان کی پارٹی پر حملے کرنے شروع کردیے موجودہ دور میں جب پیپلز پارٹی کی اپر لیڈر شپ مکمل احتیاط سے کام لیتے ہوئے اپنی جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے ہے تو میڈیا پر حکومتی اداروں کی مضبوط گرفت ہونے کی وجہ سے اس وقت تمام میڈیا ایک مدرسہ کی تصویر بنا ہوا ہے، جس میں تمام کے تمام شرکاء اپنے جسموں کو زور زور سے ہلا کر ایک ہی رٹا لگا رہے ہیں اور ان کا یہ ورد دن رات بغیر وقفہ کے جاری ہے جس طرح مدرسہ کے بچوں کو رٹا لگائے جانے والے الفاظ کی سمجھ نہیں ہوتی کہ ان کے معنی کیا ہیں، ہمارا میڈیا بھی ویسے ہی کر رہا ہے اور اس کو عوامی جاگ ریت قرار دے رہا ہے۔

ہر قوم، قبیلہ، تہذیب کی طرح دنیا بھر کی سیاسی پارٹیاں اپنے ہیروز کا دن بہت اہتمام اور شایان شان طریقہ سے مناتی ہیں تاکہ نئی نسل کو آگاہ رکھا اور اپنے نظریات کے لیے عزم نو کیا جائے۔ دنیا بھر میں عموماً اپنے ہیروز کے ایام ایسی سیاسی پارٹیاں مناتی ہیں جن کی تاریخ جدوجہد سے بھرپور ہوتی ہے۔

ہمیشہ کی طرح پیپلز پارٹی بھی محترمہ بینظیر بھٹو شہید کا دن بہت اہتمام سے مناتی ہے تاکہ ملک میں اور بیرون ملک اپنے سیاسی افکار اجاگر کیے جائیں اور ورکر سے تجدید عہد کروایا جائے کہ ہماری آواز ہمیشہ انسانیت دشمن، استحصال پسند قوتوں کے خلاف اونچی رہے گی، ہم وہی پارٹی ہیں جو کل تھی اور ہمارے عزائم انسانیت دشمن، جمہور دشمن قوتوں کے خلاف وہی ہیں جو ہماری قائد محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے تھے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ صرف پیپلز پارٹی عوام حقوق کے لیے کوشاں رہی ہے اور رہے گی۔ یہی زندہ سیاسی پارٹیوں کا وتیرہ ہوتا ہے۔ انسانی تاریخ ہیروز کی اہمیت سے انکار نہیں سکی اور ہمارے لیڈرز نے پاکستان کی سیاسی تاریخ رقم کی ہے اور ہم بھی اسی مشعل کو تھامے اپنے ہیروز کے نقش قدم پر گامزن ہیں۔
Load Next Story