استعمال شدہ درآمدی اشیا کی قیمتوں میں 100فیصد اضافہ
معروف مراکز کے علاوہ رہائشی علاقوں، مصروف چوراہوں،سڑکوں پر بھی جگہ جگہ بازار سج گئے
دنیا کے مختلف ترقی یافتہ ملکوں سے استعمال شدہ اشیا پاکستان درآمد کی جاتی ہیں جو مقامی مارکیٹ میں فروخت کرنے کے علاوہ ترقی پذیر ملکوں اور افریقی ممالک کو ری ایکسپورٹ بھی کی جاتی ہیں۔
موسم سرما کے نئے ملبوسات کوٹ، جیکٹ اور گرم کپڑے قوت خرید سے باہر ہونے کی وجہ سے اس سال استعمال شدہ گرم ملبوسات کی فروخت میں 100فیصد اضافہ ہوگیا ہے۔
دنیا کے مختلف ترقی یافتہ ملکوں سے بڑے پیمانے پر کپڑے، اوون، جرسی، ریگزین اور چمڑے کی جیکٹس، اوورکوٹ اور بڑے پیمانے پر فروخت ہورہے ہیں جبکہ پرانی جرابوں، رضائیوں، بلینکٹس کی بھی مانگ میں غیرمعمولی اضافہ ہوگیا ہے۔
کراچی میں استعمال شدہ کپڑوں کی فروخت کا سب سے بڑا مرکز لائٹ ہاؤس اور صدر کو سمجھا جاتا تھا تاہم بڑھتی ہوئی مہنگائی اور قوت خرید میں کمی کے سبب شہر کے تمام رہائشی علاقوں، مصروف چوراہوں اور سڑکوں پر بھی جگہ جگہ استعمال شدہ پرانے ملبوسات، فٹ ویئرز کے بازار سج گئے ہیں جہاں استعمال شدہ برانڈڈ ملبوسات، جیکٹس، فٹ ویئرز، جینز فروخت کی جاتی ہیں۔ ان مراکز سے کم آمدن والے طبقے کے ساتھ پوش علاقوں کے نوجوان بھی خریداری کرتے ہیں۔
پاکستان میں روایتی طور پر برطانیہ، امریکا، کینیڈا، جرمنی، اٹلی، فرانس، اسپین، پولینڈ تک سے استعمال شدہ ملبوسات، گرم کپڑے، فٹ ویئر، بیگ، کھلونے، کمبل وغیرہ درآمد کیے جاتے ہیں۔ درآمدات کا دائرہ صرف ملبوسات تک ہی محدود نہیں بلکہ بیرون ملک سے بڑے پیمانے پر استعمال شدہ کھلونے، کراکری، کٹلری آئٹمز، برقی آلات، ہیئرڈرائر، ہیئر اسٹریٹرنز، بچوں کے جھولے، بے بی کوٹس، سجاوٹ کی اشیا اور برتن بھی درآمد کیے جاتے ہیں۔
پاکستان سے استعمال شدہ ملبوسات اور دیگر اشیا افریقہ ملکوں کے علاوہ افغانستان کے راستے وسط ایشیائی ریاستوں، فار ایسٹ ممالک کو بھی ری ایکسپورٹ کی جارہی ہیں۔ پرانے کپڑوں کا کاروبار کرنے والے تاجروں اور درآمد کنندگان کا کہنا ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے استعمال شدہ اشیا کی درآمدی لاگت میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔، ایک سال کے دوران استعمال شدہ اشیا کے 40فٹ کے کنٹینرز کی لاگت میں 50سے 60ہزار روپے کا اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے مقامی سطح پر استعمال شدہ آئٹمز کی تھوک قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں۔
کراچی سے استعمال شدہ گرم ملبوسات اور دیگر اشیا کا 70فیصد اسٹاک اندرون ملک مختلف شہروں کو روانہ کیا جاتا ہے جس میں پنجاب کا حصہ 50فیصد سے زائد ہے۔
ریٹیل کی سطح پر گرم جیکٹ 200 سے 300روپے، بلیزر(کوٹ) 400سے 500روپے، کپڑے کے فٹ ویئرز 150سے 200روپے، لیدر اور اسپورٹ فٹ ویئرز 300سے 400روپے، سوئیٹرز 50سے 100روپے، جرسیاں اور ٹی شرٹس 50سے 100 روپے تک میں فروخت کی جارہی ہیں، لیدر کی جیکٹیں 500 سے 1500روپے تک فروخت کی جارہی ہیں۔ استعمال شدہ کھلونوں میں مشہور کارٹون کریکٹرز عام کھلونوں کے مقابلے میں دگنی قیمت پر فروخت کیے جاتے ہیں۔
موسم سرما کے نئے ملبوسات کوٹ، جیکٹ اور گرم کپڑے قوت خرید سے باہر ہونے کی وجہ سے اس سال استعمال شدہ گرم ملبوسات کی فروخت میں 100فیصد اضافہ ہوگیا ہے۔
دنیا کے مختلف ترقی یافتہ ملکوں سے بڑے پیمانے پر کپڑے، اوون، جرسی، ریگزین اور چمڑے کی جیکٹس، اوورکوٹ اور بڑے پیمانے پر فروخت ہورہے ہیں جبکہ پرانی جرابوں، رضائیوں، بلینکٹس کی بھی مانگ میں غیرمعمولی اضافہ ہوگیا ہے۔
کراچی میں استعمال شدہ کپڑوں کی فروخت کا سب سے بڑا مرکز لائٹ ہاؤس اور صدر کو سمجھا جاتا تھا تاہم بڑھتی ہوئی مہنگائی اور قوت خرید میں کمی کے سبب شہر کے تمام رہائشی علاقوں، مصروف چوراہوں اور سڑکوں پر بھی جگہ جگہ استعمال شدہ پرانے ملبوسات، فٹ ویئرز کے بازار سج گئے ہیں جہاں استعمال شدہ برانڈڈ ملبوسات، جیکٹس، فٹ ویئرز، جینز فروخت کی جاتی ہیں۔ ان مراکز سے کم آمدن والے طبقے کے ساتھ پوش علاقوں کے نوجوان بھی خریداری کرتے ہیں۔
پاکستان میں روایتی طور پر برطانیہ، امریکا، کینیڈا، جرمنی، اٹلی، فرانس، اسپین، پولینڈ تک سے استعمال شدہ ملبوسات، گرم کپڑے، فٹ ویئر، بیگ، کھلونے، کمبل وغیرہ درآمد کیے جاتے ہیں۔ درآمدات کا دائرہ صرف ملبوسات تک ہی محدود نہیں بلکہ بیرون ملک سے بڑے پیمانے پر استعمال شدہ کھلونے، کراکری، کٹلری آئٹمز، برقی آلات، ہیئرڈرائر، ہیئر اسٹریٹرنز، بچوں کے جھولے، بے بی کوٹس، سجاوٹ کی اشیا اور برتن بھی درآمد کیے جاتے ہیں۔
پاکستان سے استعمال شدہ ملبوسات اور دیگر اشیا افریقہ ملکوں کے علاوہ افغانستان کے راستے وسط ایشیائی ریاستوں، فار ایسٹ ممالک کو بھی ری ایکسپورٹ کی جارہی ہیں۔ پرانے کپڑوں کا کاروبار کرنے والے تاجروں اور درآمد کنندگان کا کہنا ہے کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے استعمال شدہ اشیا کی درآمدی لاگت میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔، ایک سال کے دوران استعمال شدہ اشیا کے 40فٹ کے کنٹینرز کی لاگت میں 50سے 60ہزار روپے کا اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے مقامی سطح پر استعمال شدہ آئٹمز کی تھوک قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں۔
کراچی سے استعمال شدہ گرم ملبوسات اور دیگر اشیا کا 70فیصد اسٹاک اندرون ملک مختلف شہروں کو روانہ کیا جاتا ہے جس میں پنجاب کا حصہ 50فیصد سے زائد ہے۔
ریٹیل کی سطح پر گرم جیکٹ 200 سے 300روپے، بلیزر(کوٹ) 400سے 500روپے، کپڑے کے فٹ ویئرز 150سے 200روپے، لیدر اور اسپورٹ فٹ ویئرز 300سے 400روپے، سوئیٹرز 50سے 100روپے، جرسیاں اور ٹی شرٹس 50سے 100 روپے تک میں فروخت کی جارہی ہیں، لیدر کی جیکٹیں 500 سے 1500روپے تک فروخت کی جارہی ہیں۔ استعمال شدہ کھلونوں میں مشہور کارٹون کریکٹرز عام کھلونوں کے مقابلے میں دگنی قیمت پر فروخت کیے جاتے ہیں۔