کرم ایجنسی میں ایف سی چیک پوسٹ پر دہشت گردوں کا حملہ
افغانستان کی جانب سے پاکستان کے قبائلی علاقے میں اکثر دراندازی کے واقعات ہوتے رہتے ہیں
افغانستان کے سرحدی علاقے سے پاکستان کے قبائلی علاقے کرم ایجنسی میں ایف سی چیک پوسٹ پر حملہ ناکام بنادیا گیا۔ جوابی کارروائی میں 5 دہشتگرد ہلاک جب کہ درجنوں زخمی ہوگئے۔ حملہ آور اسلحہ اور لاشوں کو چھوڑ کر فرار ہوگئے۔ سرکاری ذرایع کے مطابق حملے میں ایف سے اہلکاروں کے جانی و مالی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔ ادھر لوئر کرم کے علاقے خار کلی میں کھیتوں سے میزائل برآمد کیا گیا جسے پولیٹکل حکام نے ناکارہ بنا دیا۔ پشاور میں پولیس نے 3 شدت پسندوں کو گرفتار کرکے اسلحہ اور بارودی مواد برآمد کرلیا۔
افغانستان کی جانب سے پاکستان کے قبائلی علاقے میں اکثر دراندازی کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ پاکستانی چیک پوسٹوں پر دہشت گردوں کے حملے بھی ہوتے رہتے ہیں۔ اس سے یہی حقیقت واضح ہوتی ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں سے ملحقہ افغان علاقے غیر محفوظ ہیں اور وہاں افغانستان کی سیکیورٹی فورسز کی رٹ یا تو موجود نہیں ہے یا انتہائی کمزور ہے۔ افغانستان میں تعینات نیٹو افواج بھی اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام چلی آ رہی ہیں۔ افغانستان کی انتظامیہ کو بھی اس صورت حال کا یقیناً علم ہو گا۔ بلاشبہ پاک افغان سرحد انتہائی دشوار گزار ہے اور یہاں مکمل طور پر سیکیورٹی کے انتظامات کرنا انتہائی مشکل کام ہے تاہم جس تواتر سے دہشت گردوں کی کارروائیاں ہو رہی ہیں' اس کا تقاضا یہ ہے کہ پاک بھارت سرحد پر زیادہ سے زیادہ حفاظتی اقدامات کیے جائیں۔ پاکستان افغانستان اور نیٹو کو باہم مل کر اس حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ کرنا چاہیے۔
تینوں فریق ایک دوسرے سے ملتے رہتے ہیں لیکن افغانستان سے دراندازی کے واقعات مسلسل جاری ہیں۔ افغان حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ پاک افغان سرحد کے معاملات پر سنجیدگی سے غور کرے۔ جب تک پاک افغان سرحد پر حفاظتی اقدامات کو فول پروف نہیں بنایا جاتا' دونوں ملکوں میں دہشت گردی پر قابو پانا خاصا مشکل کام ہو گا۔پاکستان کو ڈیورنڈ لائن کے مسئلے پر بھی افغان حکومت سے کھل کر مذاکرات کرنے چاہئیں تاکہ اس مسئلے کا دائمی حل نکل سکے۔ پاکستان افغانستان میں امن کا خواہاں ہے اور اس حوالے سے مثبت کردار بھی ادا کر رہا ہے۔ پاک فوج کے سربراہ مفاہمتی عمل پر بات کرنے کے لیے کابل بھی گئے ہیں۔
افغانستان کی قیادت کو بھی حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ماضی کی پالیسیوں سے جان چھڑانی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ افغانستان کی حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی سیکیورٹی فورسز کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کرے۔پاکستان کے قبائلی علاقوں سے ملحقہ افغان علاقوں میں سیکیورٹی کی صورت حال کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اگر افغانستان کی سیکیورٹی فورسز اپنا کردار زیادہ بہتر طریقے سے ادا کریں تو افغانستان سے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں آنے والے دہشت گردوں کو روکا جا سکتا ہے۔پاکستان کے کئی علاقوں میں کارروائیاں کرنے والے افغانستان میں روپوش ہیں۔ ان میں مولوی فضل اللہ اور اس کے ساتھی بھی شامل ہیں۔ افغانستان کی حکومت کو ان عناصر کے خلاف بھی بھرپور کارروائی کرنی چاہیے تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد سازی کی فضا بحال ہو سکے۔
افغانستان کی جانب سے پاکستان کے قبائلی علاقے میں اکثر دراندازی کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ پاکستانی چیک پوسٹوں پر دہشت گردوں کے حملے بھی ہوتے رہتے ہیں۔ اس سے یہی حقیقت واضح ہوتی ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں سے ملحقہ افغان علاقے غیر محفوظ ہیں اور وہاں افغانستان کی سیکیورٹی فورسز کی رٹ یا تو موجود نہیں ہے یا انتہائی کمزور ہے۔ افغانستان میں تعینات نیٹو افواج بھی اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام چلی آ رہی ہیں۔ افغانستان کی انتظامیہ کو بھی اس صورت حال کا یقیناً علم ہو گا۔ بلاشبہ پاک افغان سرحد انتہائی دشوار گزار ہے اور یہاں مکمل طور پر سیکیورٹی کے انتظامات کرنا انتہائی مشکل کام ہے تاہم جس تواتر سے دہشت گردوں کی کارروائیاں ہو رہی ہیں' اس کا تقاضا یہ ہے کہ پاک بھارت سرحد پر زیادہ سے زیادہ حفاظتی اقدامات کیے جائیں۔ پاکستان افغانستان اور نیٹو کو باہم مل کر اس حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ کرنا چاہیے۔
تینوں فریق ایک دوسرے سے ملتے رہتے ہیں لیکن افغانستان سے دراندازی کے واقعات مسلسل جاری ہیں۔ افغان حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ پاک افغان سرحد کے معاملات پر سنجیدگی سے غور کرے۔ جب تک پاک افغان سرحد پر حفاظتی اقدامات کو فول پروف نہیں بنایا جاتا' دونوں ملکوں میں دہشت گردی پر قابو پانا خاصا مشکل کام ہو گا۔پاکستان کو ڈیورنڈ لائن کے مسئلے پر بھی افغان حکومت سے کھل کر مذاکرات کرنے چاہئیں تاکہ اس مسئلے کا دائمی حل نکل سکے۔ پاکستان افغانستان میں امن کا خواہاں ہے اور اس حوالے سے مثبت کردار بھی ادا کر رہا ہے۔ پاک فوج کے سربراہ مفاہمتی عمل پر بات کرنے کے لیے کابل بھی گئے ہیں۔
افغانستان کی قیادت کو بھی حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ماضی کی پالیسیوں سے جان چھڑانی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ افغانستان کی حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی سیکیورٹی فورسز کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کرے۔پاکستان کے قبائلی علاقوں سے ملحقہ افغان علاقوں میں سیکیورٹی کی صورت حال کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اگر افغانستان کی سیکیورٹی فورسز اپنا کردار زیادہ بہتر طریقے سے ادا کریں تو افغانستان سے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں آنے والے دہشت گردوں کو روکا جا سکتا ہے۔پاکستان کے کئی علاقوں میں کارروائیاں کرنے والے افغانستان میں روپوش ہیں۔ ان میں مولوی فضل اللہ اور اس کے ساتھی بھی شامل ہیں۔ افغانستان کی حکومت کو ان عناصر کے خلاف بھی بھرپور کارروائی کرنی چاہیے تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد سازی کی فضا بحال ہو سکے۔