محض سائنس و ٹیکنالوجی کی تعلیم سے اچھے پروفیشنلز تو بن سکتے ہیں شہری نہیں
پنجاب یونیورسٹی، شعبۂ فارسی کے چیئرمین ڈاکٹر محمد سلیم مظہر کے حالات و خیالات
زیادہ عرصہ نہیں گزرا، یہی کوئی سو ڈیڑہ سو سال پہلے کی بات ہے کہ برصغیر کی سرکاری زبان فارسی ہوا کرتی تھی۔
مگر پھر ایسٹ انڈیا کمپنی نے فارسی کو بے دخل کردیا ۔ آزادی توخیر اسے مل گئی' مگر زبان واپس نہ مل سکی۔ مسئلہ صرف زبان کی گمشدگی کا نہیں ہے' بلکہ اس کے ساتھ ساتھ کئی صدیوں پر مشتمل ہمارا علمی' ادبی' تہذیبی سرمایہ اور تاریخ بھی کہیں کھو گئی ۔ قوم کو اس سرمائے کی فکر کیونکر لاحق ہوتی کہ وہ تو اس کی قدر و قیمت سے بھی آگاہ نہیں ہے۔ یہ تو خدا کا شکر ہے کہ ابھی تک ہمارے درمیان محمد سلیم مظہر جیسے لوگ موجود ہیں' جو ایک طرف اس سرمائے کے کھو جانے پر لوگوں میں احساس زیاں پیدا کر رہے ہیں تو دوسری طرف اس متاع گم گشتہ کو عام کرنے میں اپنی تمام توانائیاں صرف کئے ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر محمد سلیم مظہر شعبہ فارسی، پنجاب یونیورسٹی کے چیئرمین ہیں۔ وہ پہلے پاکستانی ہیں جنہیں فارسی زبان میں پوسٹ ڈاکٹریٹ کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ سات کتابوں کے مصنف/ شریک مصنف ہیں۔ مختلف ملکی اور غیر ملکی تحقیقی مجلوں میں اب تک ان کے 48 تحقیقی مضامین شائع ہو چکے ہیں۔ فارسی زبان میں تحقیقی خدمات پر حکومت ایران سے 1992ء اور 2001ء میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔ تحریک استحکام پاکستان کونسل' جو کہ پاکستان کی ایک غیر سرکاری تنظیم ہے' نے بھی انہیں 2010ء میں قائداعظم گولڈ میڈل سے نوازا ہے۔
فارسی زبان کی ہمارے لئے کیا اہمیت ہے؟ اس کے جواب میں ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ ہمارا تو قومی ترانہ ہی فارسی میں ہے۔ صرف ایک لفظ 'کا' کا فرق ہے۔ اس کے علاوہ علامہ اقبالؒ کے کلام کا دو تہائی حصہ فارسی زبان میں ہے' جس میں انہوں نے اپنے بنیادی افکار و تصورات' خاص طور پر فلسفہ خودی کو بڑے صراحت سے بیان کیا ہے۔ آج ہمارے ملک کے مقتدر رہنما اور سیاسی رہبر بھی Self reliance یا خود انحصاری کی بات کرتے ہیں' جو کہ دراصل علامہ اقبالؒ کے فلسفہ خودی کی روح ہے۔ علامہ نے اپنی شاعری میں خودی' اتحاد امت' عشق رسولﷺ' محنت کرنے اور حلال روزی کمانے کا درس دیا ہے۔ ایران اور افغانستان کے لوگوں نے علامہ اقبالؒ کے کلام سے بہت اثر قبول کیاہے، جس کی وجہ سے ان میں اپنی آزادی کے لئے لڑنے کی تڑپ اور جرأت پیدا ہوئی۔ ہمارے ہاں اس بات کی خاص طور پر ضرورت ہے کہ لوگ علامہ کا کلام پڑھیں اور ان کے افکار سے آگاہی حاصل کریں۔
ڈاکٹر مظہر سلیم کہتے ہیں ''ہمارے ہاں اردو کی اپنی ایک خاص اہمیت ہے کہ یہ قومی زبان ہے' پھر یہ فارسی زبان کے بہت قریب بھی ہے۔ لیکن صحیح طور پر فارسی زبان کو سمجھے بغیر ہم اپنی تاریخ اور ثقافت کو اچھی طرح نہیں سمجھ سکتے۔ عربی زبان کے بعد فارسی زبان کو اسلام کی دوسری زبان سمجھا جاتا ہے۔ قرآن مجید کے سب سے زیادہ تراجم اس میں ہوئے ہیں اور اس میں ہی سب سے زیادہ تفاسیر لکھی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے دوسرے علوم کا خزانہ بھی فارسی زبان میں موجود ہے۔ ان سب علوم کے چونکہ بنیادی منابع (Sources) فارسی میں ہیں' اس لئے ان کے مطالعے کے بغیر ہم اپنی تاریخ کو صحیح طور پر نہیں سمجھ سکتے۔''
برصغیر کی مختلف لائبریریوں اور بعض گھرانوں میں ابھی تک فارسی زبان میں ہاتھ سے لکھی ہوئی کتابیں موجود ہیں۔ اس تحریری میراث (Written Heritage) میں تاریخ' فلسفہ' ادیان' تفاسیر' احادیث' جغرافیہ' طب' حربی علوم' حتیٰ کہ شکار کھیلنے کی تربیتی کتب (Guides) بھی موجود ہیں۔ ان میں سے کچھ کتب ترجمہ ہو کر منظر عام پر آ چکی ہیں' لیکن بہت ساخزانہ ابھی خطی نسخوں کی صورت میں پڑا ہوا ہے جسے لوگوں کے سامنے لانا ضروری ہے۔ ''
ڈاکٹر سلیم مظہر کے مطابق ''مرزا غالب کی فارسی شاعری اور نثر اردو کی طرح کمال درجے کی ہے۔ انہوں نے اپنی پنشن کے حوالے سے فارسی میں جو عرضی نما خطوط لکھے ہیں' وہ شاہکار ہیں کہ کس خوبی سے انہوں نے اپنا مدعا بیان کیا ہے۔ ہمارے ہاں لوگ چونکہ فارسی زبان سے زیادہ آشنا نہیں ہیں' اس لئے مرزا غالب کی فارسی شاعری اور نثر کو اس سطح کی پذیرائی نہیں مل سکی جو کہ ان کی اردو شاعری اور نثر کے حصے میں آئی ہے۔''
رومی' خیام اور دوسرے شعرأ کے جو ترجمے انگریزی یا دوسری زبانوں میں ہوئے ہیں' اس کے متعلق ان کا کہنا ہے کہ شاعری کا کسی دوسری زبان میں ترجمہ بہت مشکل ہوتا ہے' بلکہ یہ ناممکن بات ہے کہ آپ فنی اور فکری سطح پر ہوبہو کسی شعر کو دوسری زبان میں منتقل کر کے دکھا سکیں۔ تاہم شاعر کے فن اور افکار کی ترویج کے لئے شاعری کا دوسری زبانوں میں ترجمہ ضروری بھی ہے کہ دوسرے لوگ بھی اس میں موجود حکمت و دانائی سے استفادہ کر سکیں۔
ہمارے ہاں ادب' زبان اور دوسرے معاشرتی علوم کو سائنس و ٹیکنالوجی کے مقابلے میں کم تر اہمیت کا حامل تصور کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر سلیم مظہر سے اس بارے میں بات ہوئی تو انہوں نے بڑی صراحت سے اس بارے میں اپنے موقف سے آگاہ کیا ''یہ افسوس ناک صورتحال ہے۔ دونوں طرح کے علوم کی اپنی جگہ پر خاص اہمیت ہے اور ایک کو دوسرے کے مقابلے میں کم تر نہیں کہا جا سکتا۔ ادب انسان میں جمالیاتی حس بیدار کرتا ہے' جس سے اس میں رواداری' سکون' ٹھہراؤ آتا ہے۔ اس سے انسان کی فکر میں Originality آتی ہے، وہ تہذیب سیکھتا ہے۔
اپنے ادب' زبان اور معاشرتی علوم کے مطالعے سے اس کا ناتا اپنی دھرتی کے ساتھ جڑا رہتا ہے اور اس کے قدم زمین پر ٹکے رہتے ہیں۔ اپنے ملک' معاشرے' لوگوں کے ساتھ اس کی جذباتی اور ذہنی وابستگی پیدا ہوتی ہے۔ دوسری صورت میں اگر ان علوم کو بالکل نظر انداز کر دیا جائے تو انسان معلق بہ ہوا ہو کر رہے جاتا ہے۔ وہ ہر چیز کو مادی نقطہ نظر سے دیکھتا ہے' اسے جہاں فائدہ نظر آتا ہے، بغیر کسی تردد کے آسانی سے وہاں چلا جاتا ہے۔ ادب پڑھے بغیر اس کے رویے بھی شدید ہو جاتے ہیں۔ مغربی ممالک امداد کے نام پر سائنس و ٹیکنالوجی کی تعلیم کے لئے ہماری حکومتوں کو جو قرض دیتے ہیں' اس کی وجہ سے جو پروفیشنلز (ڈاکٹر' انجینئر' سائنسدان' بینکار) بنتے ہیں' وہ زیادہ معاوضہ ملنے کی صورت میں بغیر کسی تردد کے اپنا ملک چھوڑ کر مغربی ممالک چلے جاتے ہیں کیونکہ ان کی اپنے معاشرے اور تہذیب کے ساتھ جڑیں گہری نہیں ہوتیں۔ اس طرح ان امداد دینے والے ممالک کو مفت میں تربیت یافتہ پروفیشنلز میسر آ جاتے ہیں۔''
اس کے علاوہ اگر دو ایک جیسی پیشہ ورانہ استعداد کے حامل پروفیشنلز ہیں تو ان میں سے ترقی کرنے کے زیادہ امکانات اس میں ہوں گے جو کہ اپنی زبان' تہذیب اور ادب سے وابستگی رکھتا ہو گا' محض سائنس و ٹیکنالوجی کی تعلیم سے ہم اچھے پروفیشنلز تو بنا سکتے ہیں' لیکن اچھے شہری نہیں۔
اب ایک اجمالی نظر ڈاکٹر سلیم مظہر کے حالات زندگی پر ڈالتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد سلیم مظہر 21 جولائی 1962ء کو ڈیرہ غازی خان کی یونین کونسل مانہ احمدانی کے قصبہ بستی بڈھن میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد' عبدالرشید خان' اسکول ہیڈ ماسٹر تھے۔ وہ شعر و ادب کا اچھا ذوق رکھتے تھے۔ خاص طور پر فارسی شاعری سے انہیں بہت لگاؤ تھا۔ وہ گلستان سعدی سے شعر پڑھتے اور سرائیکی زبان میں ترجمہ کر کے اس کا مطلب اپنے بیٹے کو سمجھاتے۔ اس طرح ان کا بچپن سے ہی فارسی شعر و ادب سے تعلق جڑ گیا۔ چھٹی سے آٹھویں جماعت تک انہوں نے اسکول میں بھی ایک مضمون کی حیثیت سے فارسی زبان پڑھی۔ 1978ء میں علاقے کے سرکاری ہائی اسکول سے میٹرک کیا۔
گورنمنٹ کالج ڈیرہ غازی خان سے 1980ء میں ایف اے' جبکہ 1983ء میں بی اے کے امتحان پاس کئے۔ ایف اے اور بی اے میں بھی فارسی کا مضمون انہوں نے پڑھا۔ جب سلیم مظہر آٹھویں جماعت میں پڑھتے تھے تو ان کے والد کا انتقال ہو گیا تھا۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد ان کی والدہ نے ان کی اور چھوٹے بھائی بہن کی پرورش کی۔ گریجویشن کرنے کے بعد خاندان کے بڑوں کا خیال تھا کہ انہیں انگریزی کی تعلیم حاصل کرنی چاہئے تاکہ روزگار کے سلسلے میں آسانی رہے' لیکن وہ فارسی زبان پڑھنا چاہتے تھے۔ فارسی میں ایم اے کرنے کے لئے انہوں نے پنجاب یونیورسٹی' لاہور میں داخلہ لے لیا۔ وہ اپنی زندگی میں پہلی دفعہ لاہور آئے تھے' لیکن پہلے دن سے ہی لاہور نے انہیں کھلی بانہوں سے خوش آمدید کہا اور اس دن سے آج تک انہیں کبھی لاہور میں اجنبیت محسوس نہیں ہوئی۔ اس بات کا وہ خاص طور پر ذکر کرتے ہیں کہ لاہور کے لوگ اعلیٰ ظرف اور کھلے دل کے مالک ہیں۔ 1986ء میں انہوں نے امتیازی حیثیت میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے فارسی کے امتحان میں کامیابی حاصل کی۔
1987ء میں وہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں لیکچرار تعینات ہوئے اور 1988ء میں اسی حیثیت میں وہ پنجاب یونیورسٹی' شعبہ فارسی سے جڑ گئے۔ 1995ء میں پوسٹ گریجویشن کے لئے وہ تہران یونیورسٹی (ایران) چلے گئے۔ جہاں سے انہوں نے 1997ء میں امتیازی حیثیت میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ اس دوران وہ تہران یونیورسٹی میں BS کے طلباء کو اردو اور مطالعہ پاکستان پڑھاتے بھی رہے۔ 2006ء میں انہوں نے یونیورسٹی آف لندن کے شعبہ اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن سٹڈیز (SOAS) سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
پہلی دفعہ وہ 2001ء سے2005ء تک پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فارسی کے چیئرمین بنائے گئے۔ 2007ء سے 2011ء تک فیکلٹی آف اورینٹل لرننگ کے ڈین کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں۔ 2007ء سے 2011ء تک سینٹر فارساؤتھ ایشین سٹڈیز (پنجاب یونیورسٹی) کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے بھی ذمہ داریاں نبھائیں۔ 2010ء سے اب تک وہ شعبہ فارسی کے چیئرمین ہیں، اس کے علاوہ مختلف نوع کی انتظامی ذمہ داریاں بھی انجام دے رہے ہیں۔
پاکستان میں انہوں نے ڈاکٹر عبدالشکور احسن' ڈاکٹر سید محمد اکرم شاہ' ڈاکٹر ظہور الدین احمد' ڈاکٹر آفتاب اصغر اور ڈاکٹر نسرین اختر سے کسب فیض کیا' جبکہ ایران میں ان کے اساتذہ میں ڈاکٹر محسن ابوالقاسمی' ڈاکٹر مظاہر مصفا' ڈاکٹر فتح اللہ مجتبائی' ڈاکٹر اسماعیل حاکمی اور ڈاکٹر ژالہ آموز گار شامل ہیں۔
ڈاکٹر سلیم مظہر تحقیق و تدریس دونوں کو پسند کرتے ہیں۔ رومی ان کے پسندیدہ شاعر ہیں۔ گلستان سعدی ان کو تقریباً حفظ ہے' جب بھی اسے پڑھتے ہیں' ہمیشہ نئی بات حاصل ہوتی ہے۔ ان کے چھوٹے بھائی نے بھی کیمسٹری میں Phd کیا ہے اور وہ PCSIR میں ملازمت کرتے ہیں۔ ان کی والدہ نے اپنی اولاد کی پرورش میں بے پناہ قربانیاں دیں۔ ان کی مشفقانہ تربیت کے زیرسایہ دونوں بیٹے Phd کرنے میں کامیاب ہوئے۔ شادی خاندان میں ہوئی۔ دو بیٹیوں اور تین بیٹوں کے مشفق والد ہیں۔ نوجوانوں کو خاص طور پر نصیحت کرتے ہیں کہ وہ تاریخ اور ادب ضرور پڑھیں۔ پاکستانی قوم کو بڑا سخت جان سمجھتے ہیں کہ اس نے بڑے مشکل حالات کا حوصلے سے سامنا کیا ہے۔ مایوسی کی کوئی ضرورت نہیں' بحرانوں میں امکانات پنہاں ہوتے ہیں۔
مگر پھر ایسٹ انڈیا کمپنی نے فارسی کو بے دخل کردیا ۔ آزادی توخیر اسے مل گئی' مگر زبان واپس نہ مل سکی۔ مسئلہ صرف زبان کی گمشدگی کا نہیں ہے' بلکہ اس کے ساتھ ساتھ کئی صدیوں پر مشتمل ہمارا علمی' ادبی' تہذیبی سرمایہ اور تاریخ بھی کہیں کھو گئی ۔ قوم کو اس سرمائے کی فکر کیونکر لاحق ہوتی کہ وہ تو اس کی قدر و قیمت سے بھی آگاہ نہیں ہے۔ یہ تو خدا کا شکر ہے کہ ابھی تک ہمارے درمیان محمد سلیم مظہر جیسے لوگ موجود ہیں' جو ایک طرف اس سرمائے کے کھو جانے پر لوگوں میں احساس زیاں پیدا کر رہے ہیں تو دوسری طرف اس متاع گم گشتہ کو عام کرنے میں اپنی تمام توانائیاں صرف کئے ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر محمد سلیم مظہر شعبہ فارسی، پنجاب یونیورسٹی کے چیئرمین ہیں۔ وہ پہلے پاکستانی ہیں جنہیں فارسی زبان میں پوسٹ ڈاکٹریٹ کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ سات کتابوں کے مصنف/ شریک مصنف ہیں۔ مختلف ملکی اور غیر ملکی تحقیقی مجلوں میں اب تک ان کے 48 تحقیقی مضامین شائع ہو چکے ہیں۔ فارسی زبان میں تحقیقی خدمات پر حکومت ایران سے 1992ء اور 2001ء میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔ تحریک استحکام پاکستان کونسل' جو کہ پاکستان کی ایک غیر سرکاری تنظیم ہے' نے بھی انہیں 2010ء میں قائداعظم گولڈ میڈل سے نوازا ہے۔
فارسی زبان کی ہمارے لئے کیا اہمیت ہے؟ اس کے جواب میں ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ ہمارا تو قومی ترانہ ہی فارسی میں ہے۔ صرف ایک لفظ 'کا' کا فرق ہے۔ اس کے علاوہ علامہ اقبالؒ کے کلام کا دو تہائی حصہ فارسی زبان میں ہے' جس میں انہوں نے اپنے بنیادی افکار و تصورات' خاص طور پر فلسفہ خودی کو بڑے صراحت سے بیان کیا ہے۔ آج ہمارے ملک کے مقتدر رہنما اور سیاسی رہبر بھی Self reliance یا خود انحصاری کی بات کرتے ہیں' جو کہ دراصل علامہ اقبالؒ کے فلسفہ خودی کی روح ہے۔ علامہ نے اپنی شاعری میں خودی' اتحاد امت' عشق رسولﷺ' محنت کرنے اور حلال روزی کمانے کا درس دیا ہے۔ ایران اور افغانستان کے لوگوں نے علامہ اقبالؒ کے کلام سے بہت اثر قبول کیاہے، جس کی وجہ سے ان میں اپنی آزادی کے لئے لڑنے کی تڑپ اور جرأت پیدا ہوئی۔ ہمارے ہاں اس بات کی خاص طور پر ضرورت ہے کہ لوگ علامہ کا کلام پڑھیں اور ان کے افکار سے آگاہی حاصل کریں۔
ڈاکٹر مظہر سلیم کہتے ہیں ''ہمارے ہاں اردو کی اپنی ایک خاص اہمیت ہے کہ یہ قومی زبان ہے' پھر یہ فارسی زبان کے بہت قریب بھی ہے۔ لیکن صحیح طور پر فارسی زبان کو سمجھے بغیر ہم اپنی تاریخ اور ثقافت کو اچھی طرح نہیں سمجھ سکتے۔ عربی زبان کے بعد فارسی زبان کو اسلام کی دوسری زبان سمجھا جاتا ہے۔ قرآن مجید کے سب سے زیادہ تراجم اس میں ہوئے ہیں اور اس میں ہی سب سے زیادہ تفاسیر لکھی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے دوسرے علوم کا خزانہ بھی فارسی زبان میں موجود ہے۔ ان سب علوم کے چونکہ بنیادی منابع (Sources) فارسی میں ہیں' اس لئے ان کے مطالعے کے بغیر ہم اپنی تاریخ کو صحیح طور پر نہیں سمجھ سکتے۔''
برصغیر کی مختلف لائبریریوں اور بعض گھرانوں میں ابھی تک فارسی زبان میں ہاتھ سے لکھی ہوئی کتابیں موجود ہیں۔ اس تحریری میراث (Written Heritage) میں تاریخ' فلسفہ' ادیان' تفاسیر' احادیث' جغرافیہ' طب' حربی علوم' حتیٰ کہ شکار کھیلنے کی تربیتی کتب (Guides) بھی موجود ہیں۔ ان میں سے کچھ کتب ترجمہ ہو کر منظر عام پر آ چکی ہیں' لیکن بہت ساخزانہ ابھی خطی نسخوں کی صورت میں پڑا ہوا ہے جسے لوگوں کے سامنے لانا ضروری ہے۔ ''
ڈاکٹر سلیم مظہر کے مطابق ''مرزا غالب کی فارسی شاعری اور نثر اردو کی طرح کمال درجے کی ہے۔ انہوں نے اپنی پنشن کے حوالے سے فارسی میں جو عرضی نما خطوط لکھے ہیں' وہ شاہکار ہیں کہ کس خوبی سے انہوں نے اپنا مدعا بیان کیا ہے۔ ہمارے ہاں لوگ چونکہ فارسی زبان سے زیادہ آشنا نہیں ہیں' اس لئے مرزا غالب کی فارسی شاعری اور نثر کو اس سطح کی پذیرائی نہیں مل سکی جو کہ ان کی اردو شاعری اور نثر کے حصے میں آئی ہے۔''
رومی' خیام اور دوسرے شعرأ کے جو ترجمے انگریزی یا دوسری زبانوں میں ہوئے ہیں' اس کے متعلق ان کا کہنا ہے کہ شاعری کا کسی دوسری زبان میں ترجمہ بہت مشکل ہوتا ہے' بلکہ یہ ناممکن بات ہے کہ آپ فنی اور فکری سطح پر ہوبہو کسی شعر کو دوسری زبان میں منتقل کر کے دکھا سکیں۔ تاہم شاعر کے فن اور افکار کی ترویج کے لئے شاعری کا دوسری زبانوں میں ترجمہ ضروری بھی ہے کہ دوسرے لوگ بھی اس میں موجود حکمت و دانائی سے استفادہ کر سکیں۔
ہمارے ہاں ادب' زبان اور دوسرے معاشرتی علوم کو سائنس و ٹیکنالوجی کے مقابلے میں کم تر اہمیت کا حامل تصور کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر سلیم مظہر سے اس بارے میں بات ہوئی تو انہوں نے بڑی صراحت سے اس بارے میں اپنے موقف سے آگاہ کیا ''یہ افسوس ناک صورتحال ہے۔ دونوں طرح کے علوم کی اپنی جگہ پر خاص اہمیت ہے اور ایک کو دوسرے کے مقابلے میں کم تر نہیں کہا جا سکتا۔ ادب انسان میں جمالیاتی حس بیدار کرتا ہے' جس سے اس میں رواداری' سکون' ٹھہراؤ آتا ہے۔ اس سے انسان کی فکر میں Originality آتی ہے، وہ تہذیب سیکھتا ہے۔
اپنے ادب' زبان اور معاشرتی علوم کے مطالعے سے اس کا ناتا اپنی دھرتی کے ساتھ جڑا رہتا ہے اور اس کے قدم زمین پر ٹکے رہتے ہیں۔ اپنے ملک' معاشرے' لوگوں کے ساتھ اس کی جذباتی اور ذہنی وابستگی پیدا ہوتی ہے۔ دوسری صورت میں اگر ان علوم کو بالکل نظر انداز کر دیا جائے تو انسان معلق بہ ہوا ہو کر رہے جاتا ہے۔ وہ ہر چیز کو مادی نقطہ نظر سے دیکھتا ہے' اسے جہاں فائدہ نظر آتا ہے، بغیر کسی تردد کے آسانی سے وہاں چلا جاتا ہے۔ ادب پڑھے بغیر اس کے رویے بھی شدید ہو جاتے ہیں۔ مغربی ممالک امداد کے نام پر سائنس و ٹیکنالوجی کی تعلیم کے لئے ہماری حکومتوں کو جو قرض دیتے ہیں' اس کی وجہ سے جو پروفیشنلز (ڈاکٹر' انجینئر' سائنسدان' بینکار) بنتے ہیں' وہ زیادہ معاوضہ ملنے کی صورت میں بغیر کسی تردد کے اپنا ملک چھوڑ کر مغربی ممالک چلے جاتے ہیں کیونکہ ان کی اپنے معاشرے اور تہذیب کے ساتھ جڑیں گہری نہیں ہوتیں۔ اس طرح ان امداد دینے والے ممالک کو مفت میں تربیت یافتہ پروفیشنلز میسر آ جاتے ہیں۔''
اس کے علاوہ اگر دو ایک جیسی پیشہ ورانہ استعداد کے حامل پروفیشنلز ہیں تو ان میں سے ترقی کرنے کے زیادہ امکانات اس میں ہوں گے جو کہ اپنی زبان' تہذیب اور ادب سے وابستگی رکھتا ہو گا' محض سائنس و ٹیکنالوجی کی تعلیم سے ہم اچھے پروفیشنلز تو بنا سکتے ہیں' لیکن اچھے شہری نہیں۔
اب ایک اجمالی نظر ڈاکٹر سلیم مظہر کے حالات زندگی پر ڈالتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد سلیم مظہر 21 جولائی 1962ء کو ڈیرہ غازی خان کی یونین کونسل مانہ احمدانی کے قصبہ بستی بڈھن میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد' عبدالرشید خان' اسکول ہیڈ ماسٹر تھے۔ وہ شعر و ادب کا اچھا ذوق رکھتے تھے۔ خاص طور پر فارسی شاعری سے انہیں بہت لگاؤ تھا۔ وہ گلستان سعدی سے شعر پڑھتے اور سرائیکی زبان میں ترجمہ کر کے اس کا مطلب اپنے بیٹے کو سمجھاتے۔ اس طرح ان کا بچپن سے ہی فارسی شعر و ادب سے تعلق جڑ گیا۔ چھٹی سے آٹھویں جماعت تک انہوں نے اسکول میں بھی ایک مضمون کی حیثیت سے فارسی زبان پڑھی۔ 1978ء میں علاقے کے سرکاری ہائی اسکول سے میٹرک کیا۔
گورنمنٹ کالج ڈیرہ غازی خان سے 1980ء میں ایف اے' جبکہ 1983ء میں بی اے کے امتحان پاس کئے۔ ایف اے اور بی اے میں بھی فارسی کا مضمون انہوں نے پڑھا۔ جب سلیم مظہر آٹھویں جماعت میں پڑھتے تھے تو ان کے والد کا انتقال ہو گیا تھا۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد ان کی والدہ نے ان کی اور چھوٹے بھائی بہن کی پرورش کی۔ گریجویشن کرنے کے بعد خاندان کے بڑوں کا خیال تھا کہ انہیں انگریزی کی تعلیم حاصل کرنی چاہئے تاکہ روزگار کے سلسلے میں آسانی رہے' لیکن وہ فارسی زبان پڑھنا چاہتے تھے۔ فارسی میں ایم اے کرنے کے لئے انہوں نے پنجاب یونیورسٹی' لاہور میں داخلہ لے لیا۔ وہ اپنی زندگی میں پہلی دفعہ لاہور آئے تھے' لیکن پہلے دن سے ہی لاہور نے انہیں کھلی بانہوں سے خوش آمدید کہا اور اس دن سے آج تک انہیں کبھی لاہور میں اجنبیت محسوس نہیں ہوئی۔ اس بات کا وہ خاص طور پر ذکر کرتے ہیں کہ لاہور کے لوگ اعلیٰ ظرف اور کھلے دل کے مالک ہیں۔ 1986ء میں انہوں نے امتیازی حیثیت میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے فارسی کے امتحان میں کامیابی حاصل کی۔
1987ء میں وہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں لیکچرار تعینات ہوئے اور 1988ء میں اسی حیثیت میں وہ پنجاب یونیورسٹی' شعبہ فارسی سے جڑ گئے۔ 1995ء میں پوسٹ گریجویشن کے لئے وہ تہران یونیورسٹی (ایران) چلے گئے۔ جہاں سے انہوں نے 1997ء میں امتیازی حیثیت میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ اس دوران وہ تہران یونیورسٹی میں BS کے طلباء کو اردو اور مطالعہ پاکستان پڑھاتے بھی رہے۔ 2006ء میں انہوں نے یونیورسٹی آف لندن کے شعبہ اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن سٹڈیز (SOAS) سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
پہلی دفعہ وہ 2001ء سے2005ء تک پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فارسی کے چیئرمین بنائے گئے۔ 2007ء سے 2011ء تک فیکلٹی آف اورینٹل لرننگ کے ڈین کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں۔ 2007ء سے 2011ء تک سینٹر فارساؤتھ ایشین سٹڈیز (پنجاب یونیورسٹی) کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے بھی ذمہ داریاں نبھائیں۔ 2010ء سے اب تک وہ شعبہ فارسی کے چیئرمین ہیں، اس کے علاوہ مختلف نوع کی انتظامی ذمہ داریاں بھی انجام دے رہے ہیں۔
پاکستان میں انہوں نے ڈاکٹر عبدالشکور احسن' ڈاکٹر سید محمد اکرم شاہ' ڈاکٹر ظہور الدین احمد' ڈاکٹر آفتاب اصغر اور ڈاکٹر نسرین اختر سے کسب فیض کیا' جبکہ ایران میں ان کے اساتذہ میں ڈاکٹر محسن ابوالقاسمی' ڈاکٹر مظاہر مصفا' ڈاکٹر فتح اللہ مجتبائی' ڈاکٹر اسماعیل حاکمی اور ڈاکٹر ژالہ آموز گار شامل ہیں۔
ڈاکٹر سلیم مظہر تحقیق و تدریس دونوں کو پسند کرتے ہیں۔ رومی ان کے پسندیدہ شاعر ہیں۔ گلستان سعدی ان کو تقریباً حفظ ہے' جب بھی اسے پڑھتے ہیں' ہمیشہ نئی بات حاصل ہوتی ہے۔ ان کے چھوٹے بھائی نے بھی کیمسٹری میں Phd کیا ہے اور وہ PCSIR میں ملازمت کرتے ہیں۔ ان کی والدہ نے اپنی اولاد کی پرورش میں بے پناہ قربانیاں دیں۔ ان کی مشفقانہ تربیت کے زیرسایہ دونوں بیٹے Phd کرنے میں کامیاب ہوئے۔ شادی خاندان میں ہوئی۔ دو بیٹیوں اور تین بیٹوں کے مشفق والد ہیں۔ نوجوانوں کو خاص طور پر نصیحت کرتے ہیں کہ وہ تاریخ اور ادب ضرور پڑھیں۔ پاکستانی قوم کو بڑا سخت جان سمجھتے ہیں کہ اس نے بڑے مشکل حالات کا حوصلے سے سامنا کیا ہے۔ مایوسی کی کوئی ضرورت نہیں' بحرانوں میں امکانات پنہاں ہوتے ہیں۔