دُہری شہریت کی اصل حقیقت

پاکستان کے سیاسی لیڈر، صحافی، کالم نگار اپنے خاص ذہن اور سوچ کے ساتھ سیاسی و سماجی دوروں پر یہاں آتے ہیں۔۔۔

Abdulqhasan@hotmail.com

دہری شہریت اور برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کے مسائل کا حقیقی جائزہ ایک پاکستانی نے لیا ہے۔

جو گزشتہ پچاس برس سے برطانیہ میں مقیم ہے اور تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے حالات کا صحیح ادراک اور برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کے مزاج اور ضروریات کا صحیح فہم رکھتا ہے۔ جذباتی ہو کر نہیں بلکہ ایک حقیقت پسند بن کر بات کرتا ہے۔ جناب نور اﷲ میاں نے اپنے طویل مکتوب میں لکھا ہے کہ چند ہفتوں سے پاکستان میں دہری شہریت کے مسئلے پر جو بحث جاری ہے اس کے ضمن میں یہ معروضات ہیں۔

چند ہفتوں سے دہری شہریت کے ایشو پر اخبارات اور ٹی وی پر بحث و مباحثے چل رہے ہیں اور ہر فن مولا قسم کے لیڈر کالم نگار اور ٹی وی اینکر پرسن اپنی اپنی گپیں ہانکتے رہتے ہیں اور سب کی تان بیرون ملک پاکستانیوں پر جا کر ٹوٹتی ہے اور ان کے کندھوں پر اپنے اپنے مفادات کی بندوق چلا رہے ہیں۔ وہ لوگ حقیقت سے اتنے ہی بے خبر ہیں جتنے آج سے 40/50 سال قبل کے وہ انگریز جو انڈیا اور پاکستان میں چند ہفتوں کی چھٹیاں گزار کر واپس جاکر اپنے آپ کو ایشیائی تارکین وطن کے جملہ مسائل کے حل کا ماہر کہتے تھے اور حقیقت یہ ہے کہ ان جیسے Do-gooders نے مسائل کو سلجھانے کے بجائے الجھا دیا۔ یہاں تک کہ تارکین وطن میں سے پڑھے لکھے سمجھدار لوگوں نے آگے بڑھ کر حکومت کے مختلف اداروں اور بالخصوص محکمہ تعلیم میں راہنمائی کی۔

پاکستان کے سیاسی لیڈر، صحافی، کالم نگار اپنے خاص ذہن اور سوچ کے ساتھ سیاسی و سماجی دوروں پر یہاں آتے ہیں اور اپنے مخصوص محدود سے حلقے میں چند دن گزار کر واپس چلے جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ یہاں کے تارکین وطن کے مسائل اور ان کی ترجیحات کو خوب سمجھتے ہیں۔ حقیقت میں وہ نیم حکیم ہیں۔

مجھے اس ملک میں آباد ہوئے عرصہ50 سال گزر چکا ہے اور ایک طویل مدت محکمہ تعلیم سے وابستہ رہاہوں ،اس پورے عرصہ میں اپنے ایشیائی تارکین وطن کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ اور ان میں شب و روز گزارے ہیں۔ ایک عام مزدور سے لے کر ایک کروڑ پتی کاروبار کے مالک تک اور اسکولوں اور کالجوں کے اساتذہ' ڈاکٹروں اور وکلاء اور دوسرے تمام شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے قریبی واسطہ رہا ہے اور اب بھی ہے۔

میری نسل جو 60ء کی دہائی میں یہاں آئی تھی، میری طرح ان کی بہت بڑی اکثریت دیہات سے تھی۔ جو اپنے مال مویشی بیچ کر یا زمین گروی رکھ کر یہاں آئے تھے اور سوچ یہ تھی کہ 5 سال محنت کر کے اپنا قرض بھی اتاریں گے' گھر اور گھر والوں کے حالات سدھار کر واپس وطن لوٹ جائیں گے اور اپنے کھیت جوتیں گے (لیکن واپس کوئی نہیں گیا۔ یہ ایک الگ موضوع اور کہانی ہے) سو یہاں سے ترسیل زر کا سلسلہ شروع ہوا۔ ہم پاکستان رقوم اس لیے نہیں بھیجتے کہ ہمیں پاکستان سے پیار ہے۔


(اگرچہ اس میں بھی کوئی شک نہیں۔ ہمیں بھی اپنے دیس سے اتنا ہی پیار ہے جتنا وہاں کے رہنے والوں کو ہے) بلکہ پاکستان میں رقوم بھیجنا ہماری مجبوری ہے۔ اس لیے کہ جنہوں نے اپنے پیٹ کاٹ کر ہمیں یہاں بھیجا تھا وہ وہیں ہیں اور ان بزرگوں' بہن بھائیوں اور عزیز و اقارب سے عملی تعاون کرنا ہمارا مذہبی اور اخلاقی فرض ہے۔

ہم بھی پاکستانی معاشرے اور سوسائٹی کا حصہ تھے اور ہیں اور ہم میں بھی وہ سب کمزوریاں' خرابیاں اور برائیاں ہیں جو ان میں ہیں۔ ہم نے بھی یہاں آ کر اچھے برے سب کام کیے ہیں اور کر رہے ہیں۔ ہمیں بھی اپنے کالے دھن کو چھپانا ہوتا ہے، اس لیے کہ یہاں کے محکمہ ٹیکس کی گرفت بہت سخت ہوتی ہے اور بچنا محال ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ ہم اپنے وطن کی محبت میں وہاں رقوم بھیجتے ہیں تو وہ یقیناً اپنے آپ کو اور اپنے ملک کو دھوکا دے رہا ہے اور غلط بیانی کر رہا ہے اور یہ جو ہمارے لیڈران کرام ہمارے حق میں بول رہے ہیں، یہ دراصل ان کی اپنی آواز ہے، وہ صرف اپنے مفاد کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ وہ یہاں اپنا حلقہ بنا کر اپنی چودھراہٹ قائم کرنا چاہتے ہیں، وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ایسا کرنے سے بیرون ملک پاکستانی آپس میں مزید بٹ جائیں گے اور جو تھوڑی بہت یک جہتی ہے وہ بھی ختم ہو جائے گی۔

دہری شہریت ہم نے اس لیے لے رکھی ہے کہ دونوں ممالک کے قوانین اس کی اجازت دیتے ہیں لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں اس دہری شہریت کے قوانین کی بین السطور تفاصیل سے آگاہی نہیں ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جب جب پاکستان پر کوئی مشکل گھڑی آئی، ہم نے ہر طرح سے تعاون کیا۔ لیکن یہ ہمارا کوئی احسان نہیں، پاکستانی ہونے کے ناتے یہ ہمارا فرض بنتا ہے۔ کیا پاکستان میں بسنے والے پاکستانی ان مشکل حالات میں اپنے ضرورت مند بھائیوں کی مدد نہیں کرتے؟ اگر کرتے ہیں تو کیا وہ احسان ہے، انھیں پھر ہماری ترسیل زر کو ملک پر احسان کی صورت میں دیکھنے کا کیا جواز ہے۔

ہمارے مفاد پرست پاکستانی سیاست دانوں میں یہ جو آجکل ہماری دہری شہریت کی آڑ لے کر اپنے الو سیدھے کرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے ،یہ انتہائی خطرناک رجحان ہے۔ ہمارا کوئی ایسا مطالبہ نہیں۔ بیرون ملک بسنے والے پاکستانیوں میں سے اگر کسی کو ملک کی سیاست میں حصہ لینے کا شوق ہے تو میدان کھلا ہے، اپنی دہری شہریت ترک کر کے وطن جائے اور سیاست میں حصہ لے۔ یہ بھی غلط ہو گا کہ پہلے الیکشن لڑے اور جیتنے کی صورت میں شہریت ترک کرے۔ جیسے کہ مسلم لیگ (ن) کہتی ہے۔ دو کشتیوں کی سواری اور دو مائوں سے ممتا کی آس غلط اور نا مناسب ہے۔ جن پاکستانی سیاست دانوں نے دہری شہریت کے ساتھ سیاست میں حصہ لیا ہے، انھوں نے غیر آئینی اور غیر قانونی کام کیا ہے، انھیں آئین کے مطابق نااہل قرار دینا چاہیے۔

آخر میں، میں اپنے پاکستانی سیاست دانوں اور ٹی وی اینکروں سے گزارش کرونگا کہ وہ خواجہ سرائوں کی طرح سے محفلیں لگانا بند کریں اور قومی و ملکی مسائل پر مثبت گفتگو کا آغاز کریں، شاید صحیح سمت مل جائے۔
Load Next Story