یہ لڑکی نور عنایت کون تھی
قصہ کہانی سے جو نور کو شغف تھا اسی کے زیر اثر اس نے بچوں کے لیے کہانیاں لکھیں جو مقبول ہوئیں۔
لندن کے گارڈین میں شایع ہونے والا ایک کالم ابھی کل پرسوں 'ڈان' کے مضمون میں دہرایا گیا ہے۔
اس میں ایک مسلمان بی بی نور عنایت کا ذکر ہے جو دوسری عالمی جنگ میں فرانس میں اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے نازیوں کی زد میں آگئی اور بالآخر ان کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اترگئی۔ اس وقت اس کی عمر تیس سال تھی۔ اسے جارج کراس کا تمغہ تو پہلے ہی مل چکا ہے۔ اب خبر یہ ہے کہ لندن کے گولڈن اسکوئر میں اس کا مجسمہ نصب کیا جائے گا۔ 18نومبر کو یہ تقریب ہو گی اور پرنسس این اس کی نقاب کشائی کریں گی۔
اس کالم میں اس کے حسب نسب کے بارے میں صرف اتنا بتایا گیا ہے کہ وہ ایک بزرگ عنایت خاں کی صاحبزادی تھی۔ یہ بزرگ صوفیا کے کسی سلسلے سے منسلک تھے۔ اور یہ کہ یہ بہت خاموش لڑکی تھی اور فرانس میں جنگی مشن پر جانے سے پہلے وہ اپنے گھر کے قریب کے پارک میں بنچ پر بیٹھی کتاب کے مطالعہ میں غرق نظر آتی تھی۔
جو بتانے کی باتیں تھیں وہ تو اس کالم میں بتائی ہی نہیں گئیں۔ یہ بی بی اصل میں سلطان ٹیپو کی پڑپوتی تھی۔ شعر و افسانے سے اسے بہت شغف تھا۔ کہانیاں لکھتے پڑھتے اسے مہاتما بدھ کی جاتکوں تک رسائی ہو گئی۔ اور ان جاتکوں سے اسے اتنا شغف ہوا کہ اس نے منتخب جاتکوں کو انگریزی میں منتقل کر کے ایک مجموعہ مرتب کر ڈالا۔
ہماری ان معلومات کا ماخذ آصف فرخی کی تحقیق ہے۔ جاتکوں کا یہ انگریزی مجموعہ ان کے ہاتھ لگ گیا۔ پھر اس کے بارے میں لکھی گئی، ایک کتاب بھی نظر سے گزری۔ اس طرح اس بی بی کی تفصیلات ان کے علم میں آئیں۔ انھوں نے ہم سے اس قصے کا ذکر کیا۔ ہم نے کہا کہ سبحان اللہ' سلطان ٹیپو شہید کا مہاتما بدھ سے کہاں جا کر اور کس رنگ سے ٹانکا ملا ہے۔ ارے اس مجموعہ کو اردو میں ڈھالو اور اس قصے کو قلمبند کرو۔ سو انھوں نے یہ کام جھٹ پٹ انجام دیا۔ اب وہ مجموعہ زیر طباعت ہے۔ مگر کراچی میں اس کی اشاعت سے پہلے ہی اس کی تعارفی تقریب ہو گئی جہاں ہم بھی موجود تھے۔
اب سنیے کہ یہ کہانی مختصراً یوں ہے کہ سلطان ٹیپو کی شہادت کے بعد باقی اولاد پر جوگزری وہ قصہ الگ ہے۔ مگر سلطان کی ایک بیٹی بھی تھی جو اس وقت چودہ برس کی تھی۔ سلطان شہید کے دو وفادار خادموں نے خفیہ طریقے سے محل سے اسے نکالا اور سری رنگا پٹم سے میسور لے گئے۔ وہاں اس کی اس احتیاط کے ساتھ پرورش ہوئی کہ کسی کو اس کے حسب نسب کا پتہ نہ چلا۔ وہاں ایک نامور موسیقار کا گزر ہوا جسے راجہ کے دربار سے بہت انعام واکرام ملے۔ کسی صورت اس لڑکی کی شادی اس موسیقار سے ہو گئی جس کا نام مولا بخش تھا۔ مولا بخش کو جب اصل صورت حال کا پتہ چلا تو وہ میسور سے نکلا اور بڑودہ میں آن بسا۔
وہاں اس نے جو موسیقی کی ایک تربیت گاہ قائم کی تو اس تربیت گاہ میں پنجاب کے ایک نوجوان رحمت علی خاں نے داخلہ لے لیا۔ ادھر مولا بخش کے یہاں ایک بیٹی پیدا ہو چکی تھی اور اب اچھی خاصی بڑی ہو گئی تھی۔ اس لڑکی کی سمجھ لیجیے کہ ٹیپو سلطان کی نواسی خدیجہ بی بی کی شادی رحمت علی خاں سے ہو گئی۔ خدیجہ بی بی کی جلدی ہی گود ہری ہوئی اور وہ ایک بیٹے کی ماں بن گئی۔ اس بیٹے کا نام عنایت خاں تھا۔ اس نے موسیقی کی تعلیم باپ سے لی اور تصوف میں فیض سید ہاشم مدنی نام کے ایک بزرگ سے حاصل کیا۔ یہ 1910ء کی بات ہے کہ عنایت خاں امریکا چلے گئے۔ وہاں موسیقی کے چکر میں ایک نوجوان خاتون سے ملاقات ہوئی جو ان پر ریجھ گئی۔ جلد ہی شادی بھی ہو گئی۔ جلد ہی ان کے یہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام نور النسا رکھا گیا۔ یہی نور النسا آگے چل کر نور عنایت خاں کے نام سے جانی گئی۔
نور عنایت خاں کو انگریزی اور فرانسیسی دونوں زبانوں میں بہت مہارت تھی۔ دوسری عالمی جنگ کے زمانے میں وہ لندن میں تھی۔ عنایت خاں تو صوفی مست بن کر دلی چلے گئے تھے۔ وہیں مرکز نظام الدین اولیا کی درگاہ میں جگہ پائی۔
نور کی تربیت تو صوفیانہ فضا میں ہوئی تھی۔ مزاج بھی صوفیانہ ہی پایا تھا۔ مگر جنگ کے زمانے میں اسے فوجی جاسوسی کے ادارے میں کام کرنا پڑا۔ اس ادارے نے اسے ایک خاص مشن پر فرانس بھیج دیا جو اس وقت نازیوں کے تصرف میں تھا۔ وہاں اس نے اپنے فرائض بڑی جانفشانی سے انجام دیے۔ مگر ایک وطن فروش فرانسیسی جاسوس نے نازیوں سے اس کی جاسوسی کی۔ یوں وہ نازیوں کی قید میں آگئی۔ مگر جبرو تشدد کے باوجود اپنے فرانسیسی ساتھیوں کا پتہ بتانے اور باقی رازوں سے پردہ اٹھانے سے صاف انکار کر دیا۔ پھر جرمن گیسٹاپو اسے زندہ کیسے چھوڑ دیتی۔ موت کے گھاٹ اتر گئی۔
قصہ کہانی سے جو نور کو شغف تھا اسی کے زیر اثر اس نے بچوں کے لیے کہانیاں لکھیں جو مقبول ہوئیں۔ شاید اسی حوالے سے اس کا تعارف مہاتما بدھ کی جاتک کہانیوں سے ہوا اور ان کہانیوں نے اس طرح اس کے دل میں گھر کیا کہ پھر اس نے ان کہانیوں سے اپنی پسند کا ایک انتخاب کیا۔ انھیں انگریزی زبان کا جامہ پہنایا۔ یہ مجموعہ 1939ء میں لندن سے شایع ہوا۔
نور النسا نے باپ سے جو تصوف کی تعلیم پائی تھی، شاید یہ اس کا اثر تھا کہ جاتک کتھائوں سے اسے اتنا شغف ہو گیا اور بدھ تعلیمات میں اسے بہت معنی نظر آنے لگے۔ اس کی منتخب جاتکوں میں ایک جاتک ایسی ہے کہ لگتا ہے کہ اپنی زندگی کے آخری آزمائشی زمانے میں وہ گویا اسی رنگ میں بسر کر رہی تھی۔ یہ کتھا اس طرح ہے کہ ایک باغ میں بسر کرنے والے بندر اس طرح گھر گئے تھے کہ وہاں سے بچ کر نکل جانا ان کے لیے محال نظر آ رہا تھا۔ تب اس بندر نے جو ان کا گرو تھا، ان کی نجات کی ایک ترکیب سوچی۔ باغ کی ایک عقبی حد پر ایک گھنا درخت تھا جس کی شاخیں عقب میں بہتی ہوئی گنگا پر دور تک پھیلی ہوئی تھیں۔ دوسرے کنارے پر ایک ایسا ہی گھنا درخت کھڑا تھا جس کی شاخیں دریا پر پھیلتے پھیلتے اس درخت کے قریب آ گئی تھیں۔ بس بیچ میں تھوڑا اکھانچا رہ گیا تھا۔ گرو بندر نے بندروں سے کہا کہ میں اس طرح پٹ لٹیوں گاکہ میرا سر ا دھر کے درخت کی شاخ پر ہو گا اور ٹانگیں گنگا پار کے درخت کی شاخوں پرہوں گی۔ تم باری باری مجھ پر سے گزرتے ہوئے گنگا پار والے درخت پر کود جانا۔
سب بندروں نے ایسا ہی کیا اور صحیح سلامت گنگا پار اتر گئے۔ مگر ان بندروں میں ایک بندر گرو کی جان کا بیری تھا۔ وہ جان کر اس زور سے اس پر کودا کہ اس کی ہڈی پسلی ایک ہو گئی۔ اتنے بندروں کے گزرنے سے گرو کا حال تو پہلے ہی پتلا ہو گیا تھا۔ اب سچ مچ اس کی جان پر آ بنی۔ اس نے بس جلدی ہی جان دیدی۔
مہاتما بدھ نے یہ جاتک سنا کہ کہا کہ وہ گرو بندر میں تھا۔ میں نے ان کی جان بچاتے بچاتے اپنی جان دیدی۔ خیر کوئی بات نہیں۔ پھر میں نے بندر کے جنم سے رہائی پائی اور اگلے جنم میں چلا گیا۔
نور النسا نے بھی تو نازیوں کے پھندے میں پھنس کر یہی کیا۔ نازیوں کو اپنے کسی ساتھی کا پتہ نہیں دیا۔ ان کے عوض اپنی جان پر کھیل گئی۔
ہندوستان کی ایک خاتون شرابنی باسو نے نور پر ایک پوری کتاب 'جاسوس شہزادی' کے عنوان سے لکھی ہے۔ اصف فرخی نے یہ ساری تفصیلات اپنے دیباچہ میں اسی کتاب سے مستعارلی ہیں۔ وہاں بتایا گیا ہے کہ جب آخر میں نازیوں نے اس پر ہلہ بولا تو فرانسیسی زبان میں اس نے آزادی' کا نعرہ لگایا۔ اس کے ساتھ ہی ایک گولی نے اس کا کام تمام کر دیا۔
نور النسا نے اگر فرانس کی خدمت انجام دی تو یہ اس کی خاندانی روایات کے عین مطابق تھا۔ ٹیپو سلطان نے انگریزوں کے مقابلہ میں فرانس ہی سے تو رفاقت کا رشتہ قائم کیا تھا۔ باقی برطانیہ کی جو خدمت انجام دی اسے تاریخ کی بوالعجبییوں میں شمار کرنا چاہیے۔
اس میں ایک مسلمان بی بی نور عنایت کا ذکر ہے جو دوسری عالمی جنگ میں فرانس میں اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے نازیوں کی زد میں آگئی اور بالآخر ان کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اترگئی۔ اس وقت اس کی عمر تیس سال تھی۔ اسے جارج کراس کا تمغہ تو پہلے ہی مل چکا ہے۔ اب خبر یہ ہے کہ لندن کے گولڈن اسکوئر میں اس کا مجسمہ نصب کیا جائے گا۔ 18نومبر کو یہ تقریب ہو گی اور پرنسس این اس کی نقاب کشائی کریں گی۔
اس کالم میں اس کے حسب نسب کے بارے میں صرف اتنا بتایا گیا ہے کہ وہ ایک بزرگ عنایت خاں کی صاحبزادی تھی۔ یہ بزرگ صوفیا کے کسی سلسلے سے منسلک تھے۔ اور یہ کہ یہ بہت خاموش لڑکی تھی اور فرانس میں جنگی مشن پر جانے سے پہلے وہ اپنے گھر کے قریب کے پارک میں بنچ پر بیٹھی کتاب کے مطالعہ میں غرق نظر آتی تھی۔
جو بتانے کی باتیں تھیں وہ تو اس کالم میں بتائی ہی نہیں گئیں۔ یہ بی بی اصل میں سلطان ٹیپو کی پڑپوتی تھی۔ شعر و افسانے سے اسے بہت شغف تھا۔ کہانیاں لکھتے پڑھتے اسے مہاتما بدھ کی جاتکوں تک رسائی ہو گئی۔ اور ان جاتکوں سے اسے اتنا شغف ہوا کہ اس نے منتخب جاتکوں کو انگریزی میں منتقل کر کے ایک مجموعہ مرتب کر ڈالا۔
ہماری ان معلومات کا ماخذ آصف فرخی کی تحقیق ہے۔ جاتکوں کا یہ انگریزی مجموعہ ان کے ہاتھ لگ گیا۔ پھر اس کے بارے میں لکھی گئی، ایک کتاب بھی نظر سے گزری۔ اس طرح اس بی بی کی تفصیلات ان کے علم میں آئیں۔ انھوں نے ہم سے اس قصے کا ذکر کیا۔ ہم نے کہا کہ سبحان اللہ' سلطان ٹیپو شہید کا مہاتما بدھ سے کہاں جا کر اور کس رنگ سے ٹانکا ملا ہے۔ ارے اس مجموعہ کو اردو میں ڈھالو اور اس قصے کو قلمبند کرو۔ سو انھوں نے یہ کام جھٹ پٹ انجام دیا۔ اب وہ مجموعہ زیر طباعت ہے۔ مگر کراچی میں اس کی اشاعت سے پہلے ہی اس کی تعارفی تقریب ہو گئی جہاں ہم بھی موجود تھے۔
اب سنیے کہ یہ کہانی مختصراً یوں ہے کہ سلطان ٹیپو کی شہادت کے بعد باقی اولاد پر جوگزری وہ قصہ الگ ہے۔ مگر سلطان کی ایک بیٹی بھی تھی جو اس وقت چودہ برس کی تھی۔ سلطان شہید کے دو وفادار خادموں نے خفیہ طریقے سے محل سے اسے نکالا اور سری رنگا پٹم سے میسور لے گئے۔ وہاں اس کی اس احتیاط کے ساتھ پرورش ہوئی کہ کسی کو اس کے حسب نسب کا پتہ نہ چلا۔ وہاں ایک نامور موسیقار کا گزر ہوا جسے راجہ کے دربار سے بہت انعام واکرام ملے۔ کسی صورت اس لڑکی کی شادی اس موسیقار سے ہو گئی جس کا نام مولا بخش تھا۔ مولا بخش کو جب اصل صورت حال کا پتہ چلا تو وہ میسور سے نکلا اور بڑودہ میں آن بسا۔
وہاں اس نے جو موسیقی کی ایک تربیت گاہ قائم کی تو اس تربیت گاہ میں پنجاب کے ایک نوجوان رحمت علی خاں نے داخلہ لے لیا۔ ادھر مولا بخش کے یہاں ایک بیٹی پیدا ہو چکی تھی اور اب اچھی خاصی بڑی ہو گئی تھی۔ اس لڑکی کی سمجھ لیجیے کہ ٹیپو سلطان کی نواسی خدیجہ بی بی کی شادی رحمت علی خاں سے ہو گئی۔ خدیجہ بی بی کی جلدی ہی گود ہری ہوئی اور وہ ایک بیٹے کی ماں بن گئی۔ اس بیٹے کا نام عنایت خاں تھا۔ اس نے موسیقی کی تعلیم باپ سے لی اور تصوف میں فیض سید ہاشم مدنی نام کے ایک بزرگ سے حاصل کیا۔ یہ 1910ء کی بات ہے کہ عنایت خاں امریکا چلے گئے۔ وہاں موسیقی کے چکر میں ایک نوجوان خاتون سے ملاقات ہوئی جو ان پر ریجھ گئی۔ جلد ہی شادی بھی ہو گئی۔ جلد ہی ان کے یہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام نور النسا رکھا گیا۔ یہی نور النسا آگے چل کر نور عنایت خاں کے نام سے جانی گئی۔
نور عنایت خاں کو انگریزی اور فرانسیسی دونوں زبانوں میں بہت مہارت تھی۔ دوسری عالمی جنگ کے زمانے میں وہ لندن میں تھی۔ عنایت خاں تو صوفی مست بن کر دلی چلے گئے تھے۔ وہیں مرکز نظام الدین اولیا کی درگاہ میں جگہ پائی۔
نور کی تربیت تو صوفیانہ فضا میں ہوئی تھی۔ مزاج بھی صوفیانہ ہی پایا تھا۔ مگر جنگ کے زمانے میں اسے فوجی جاسوسی کے ادارے میں کام کرنا پڑا۔ اس ادارے نے اسے ایک خاص مشن پر فرانس بھیج دیا جو اس وقت نازیوں کے تصرف میں تھا۔ وہاں اس نے اپنے فرائض بڑی جانفشانی سے انجام دیے۔ مگر ایک وطن فروش فرانسیسی جاسوس نے نازیوں سے اس کی جاسوسی کی۔ یوں وہ نازیوں کی قید میں آگئی۔ مگر جبرو تشدد کے باوجود اپنے فرانسیسی ساتھیوں کا پتہ بتانے اور باقی رازوں سے پردہ اٹھانے سے صاف انکار کر دیا۔ پھر جرمن گیسٹاپو اسے زندہ کیسے چھوڑ دیتی۔ موت کے گھاٹ اتر گئی۔
قصہ کہانی سے جو نور کو شغف تھا اسی کے زیر اثر اس نے بچوں کے لیے کہانیاں لکھیں جو مقبول ہوئیں۔ شاید اسی حوالے سے اس کا تعارف مہاتما بدھ کی جاتک کہانیوں سے ہوا اور ان کہانیوں نے اس طرح اس کے دل میں گھر کیا کہ پھر اس نے ان کہانیوں سے اپنی پسند کا ایک انتخاب کیا۔ انھیں انگریزی زبان کا جامہ پہنایا۔ یہ مجموعہ 1939ء میں لندن سے شایع ہوا۔
نور النسا نے باپ سے جو تصوف کی تعلیم پائی تھی، شاید یہ اس کا اثر تھا کہ جاتک کتھائوں سے اسے اتنا شغف ہو گیا اور بدھ تعلیمات میں اسے بہت معنی نظر آنے لگے۔ اس کی منتخب جاتکوں میں ایک جاتک ایسی ہے کہ لگتا ہے کہ اپنی زندگی کے آخری آزمائشی زمانے میں وہ گویا اسی رنگ میں بسر کر رہی تھی۔ یہ کتھا اس طرح ہے کہ ایک باغ میں بسر کرنے والے بندر اس طرح گھر گئے تھے کہ وہاں سے بچ کر نکل جانا ان کے لیے محال نظر آ رہا تھا۔ تب اس بندر نے جو ان کا گرو تھا، ان کی نجات کی ایک ترکیب سوچی۔ باغ کی ایک عقبی حد پر ایک گھنا درخت تھا جس کی شاخیں عقب میں بہتی ہوئی گنگا پر دور تک پھیلی ہوئی تھیں۔ دوسرے کنارے پر ایک ایسا ہی گھنا درخت کھڑا تھا جس کی شاخیں دریا پر پھیلتے پھیلتے اس درخت کے قریب آ گئی تھیں۔ بس بیچ میں تھوڑا اکھانچا رہ گیا تھا۔ گرو بندر نے بندروں سے کہا کہ میں اس طرح پٹ لٹیوں گاکہ میرا سر ا دھر کے درخت کی شاخ پر ہو گا اور ٹانگیں گنگا پار کے درخت کی شاخوں پرہوں گی۔ تم باری باری مجھ پر سے گزرتے ہوئے گنگا پار والے درخت پر کود جانا۔
سب بندروں نے ایسا ہی کیا اور صحیح سلامت گنگا پار اتر گئے۔ مگر ان بندروں میں ایک بندر گرو کی جان کا بیری تھا۔ وہ جان کر اس زور سے اس پر کودا کہ اس کی ہڈی پسلی ایک ہو گئی۔ اتنے بندروں کے گزرنے سے گرو کا حال تو پہلے ہی پتلا ہو گیا تھا۔ اب سچ مچ اس کی جان پر آ بنی۔ اس نے بس جلدی ہی جان دیدی۔
مہاتما بدھ نے یہ جاتک سنا کہ کہا کہ وہ گرو بندر میں تھا۔ میں نے ان کی جان بچاتے بچاتے اپنی جان دیدی۔ خیر کوئی بات نہیں۔ پھر میں نے بندر کے جنم سے رہائی پائی اور اگلے جنم میں چلا گیا۔
نور النسا نے بھی تو نازیوں کے پھندے میں پھنس کر یہی کیا۔ نازیوں کو اپنے کسی ساتھی کا پتہ نہیں دیا۔ ان کے عوض اپنی جان پر کھیل گئی۔
ہندوستان کی ایک خاتون شرابنی باسو نے نور پر ایک پوری کتاب 'جاسوس شہزادی' کے عنوان سے لکھی ہے۔ اصف فرخی نے یہ ساری تفصیلات اپنے دیباچہ میں اسی کتاب سے مستعارلی ہیں۔ وہاں بتایا گیا ہے کہ جب آخر میں نازیوں نے اس پر ہلہ بولا تو فرانسیسی زبان میں اس نے آزادی' کا نعرہ لگایا۔ اس کے ساتھ ہی ایک گولی نے اس کا کام تمام کر دیا۔
نور النسا نے اگر فرانس کی خدمت انجام دی تو یہ اس کی خاندانی روایات کے عین مطابق تھا۔ ٹیپو سلطان نے انگریزوں کے مقابلہ میں فرانس ہی سے تو رفاقت کا رشتہ قائم کیا تھا۔ باقی برطانیہ کی جو خدمت انجام دی اسے تاریخ کی بوالعجبییوں میں شمار کرنا چاہیے۔