گوجر خان کی گونج

65 اور 71 کی جنگوں میں بھی گوجر خان کے علاقے نے قربانیاں پیش کیں اور نشان حیدر حاصل کیے۔

ghalib@millat.com

یہ گونج بلند ہوئی اور ہوتی چلی گئی۔پوٹھوہار کاخطہ صدیوں سے سے سویا ہوا تھا۔

اس کی قسمت بھی ساتھ ہی سوئی رہی، اس دھرتی نے سورمائوں کو جنم دیا، شاعروں، مزاح نگاروں کو جنم دیا،دانشوروں اور صحافیوں کو جنم دیا، مگر اس کی تقدیر نہ بدلی، اس کا غلغلہ بلند نہ ہو سکا۔آج بر صغیر کے دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کا تعلق اسی خطے سے ہے، پاک فوج کے سربراہ اس دھرتی کے فرزند ہیں، لیکن کوئی اس دھرتی کی مانگ میں سیندور نہ بھر سکا۔پاکستانی وزیر اعظم تو ادھار پر آئے تھے اور بھارتی وزیر اعظم برسوں پہلے یہ خطہ چھوڑ چکے، دھرتی ماں کا خیال کون کرتا۔

اونچے نیچے ٹبوں، بے آب وگیاہ ٹیلوں، بل کھاتی سڑکوں کے درمیان اس خطے کے ویران افق پر نظر پڑتی تو انسان ایک ٹھنڈی آہ بھرنے پر مجبور ہو جاتا۔کشمیر کے سفید چوٹیوں والے پہاڑوں کے قدموں اورمنگلا ڈیم کے شوریدہ سرپانیوں کے سامنے بچھا ہوا یہ خطہ اپنی تقدیر بدلنے کے خواب کی تعبیر نہ دیکھ سکا،ضمیر جعفری نے اس کے شاہنامے لکھے، کرنل محمد خاںنے اس کو گدگدایا، مگر زمین جنبد ،نہ جنبد گل محمد کی مجسم تصویر بناپوٹھو ہار انگڑائی نہ لے سکا۔پنجاب کے پانچ دریائوں نے پورے بر صغیر کو ہریالی بخش دی مگر پوٹھو ہار کے پانچ دریائوں کا پانی سطح زمین سے ہی چمٹا رہاا ور کبھی اپنے کناروں سے نہ چھلک سکا۔کاہی کے جنگل اس موسم میں کسی بڑھیا کے سر کی طرح سفید ہو جاتے ہیں۔

سراپا عجزو نیاز، رومانویت کا شاہکار مگر مسافر ان کی طرف توجہ دیے بغیر اپنی منزلوں کی طرف گامزن رہتے ہیں۔پوٹھو ہار کا جادو اثرخطہ کسی کہانی کو جنم نہ دے سکا۔سوکھی ہوئی بے گوشت بھیڑ بکریاں، گدھے اور دیگر مویشی کسی چرواہے کے بغیر بلند ٹیلوں اور ٹبوں کے کٹے پھٹے کناروں پر گھاس پھونس کھانے میں محو رہتے، تیز رفتار کاروں، بسوں ، ٹرکوں اور ٹرالوں کے ہارن ان کے معمولات میں کوئی فرق نہ ڈال سکے۔جی ٹی روڈ سے گزرنے والے نہیں جانتے کہ ٹوٹے پھوٹے پہاڑوں کے پیچھے کوئی مخلوق رہتی بھی ہے ہی یا نہیں اور اگر رہتی ہے تو کن حالوں میں ہے۔بتیس سال قبل ایک گاڑی میں عطا الحق قاسمی، امجد اسلام امجد، گلزار وفا چوہدری اور وحید رضا بھٹی کو ڈرائیو کرتے ہوئے میں نے بتایا تھا کہ سامنے ایک گائوں جو نظر آ رہا ہے ، وہاں کے تمام مرد باہر روزگار کے لیے جا چکے ہیں۔

مجھے بھی یہ بات کسی اور نے بتائی ہو گی جو واقف حال ہو گا۔اب کسی نے بتایا ہے کہ جو دیہات نظر نہیں آتے، وہاں کوٹھیاں بن گئی ہیں، اس پیسے سے جو محنت کش پاکستانی باہر سے بھیج رہے ہیں، ان کے پیسے سے صحن چمن میں رونق ہے مگر ہمارے آئین میں ایک غیر آئینی بات لکھ دی گئی ہے کہ اوور سیز محنت کش پاکستان کی پارلیمنٹ کے رکن نہیں بن سکتے، بس کنویں کے مینڈک کی طرح محنت مشقت کرتے رہیں اور ہمارے اونچے ایوانوں کے لیے خرچہ پانی بھیجتے رہیں۔

ہر شخص سمجھتا ہے کہ یہ آئین ہی کے ایک آرٹیکل، جس میں بنیادی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے، کے خلاف ہے مگر اس خلاف آئین پابندی کو وائڈ ابنشو نہیں کیا گیا۔ اس آئینی پابندی سے سب سے زیادہ پوٹھو ہار کا خطہ متائثر ہوا ہو گا ، صحیح اعدادو شمار اوور سیز منسٹری کے پاس ہی ہوسکتے ہیں، یا شاید نہ ہوں۔اسے آم کھانے سے غرض ہے، پیڑ گننے سے نہیں۔ پہلی جنگ عظیم برپا ہوئی۔ دوسری جنگ عظیم کا طبل بجا تو اسی علاقے کے جری، دلیر، شیر گبھرو برما سے لیبیا تک پھیلے ہوئے میدان جنگ میں داد شجاعت دیتے رہے، کوئی اس جنگ میں کام آ گئے، ان کی لاشیں بھی واپس نہیں آسکی ہوں گی ۔


البتہ ان کو ملنے والے تمغے ان کے گھروں میں سجا دیے گئے۔65 اور 71 کی جنگوں میں بھی اس علاقے نے قربانیاں پیش کیں اور نشان حیدر حاصل کیے۔ ان تمغوں کی چکا چوند تو بہت تھی، عزت اور تکریم بھی بہت تھی، مگر اس سے آگے کا حال مت پوچھو۔دل خون کے آنسو روتا ہے، لوگ جنوبی پنجاب کی محرومیوں کا رونا روتے ہیں ، میں جی ٹی روڈ سے گزرتے ہوئے پوٹھو ہار کی محرومیوں پر آنسو بہاتا ہوں۔منگلا ڈیم کا دہانہ عین اس کی شہہ رگ کے قریب واقع ہے مگر شاید ہی کوئی ایک بوند اس علاقے کی دھرتی کو میسر آئی ہو۔چھوٹے چھوٹے تالاب جنھیں جوہڑ کہنازیادہ صحیح ہے۔

جانوروں اور انسانوں کی پیاس بجھاتے ہیں اور کھیت، بادل کی راہ دیکھتے ہیں،بارش ہو جائے تو اونچی نیچی ڈھلوانوں پر سرسوںکھل اٹھتی ہے ورنہ کچی مونگ پھلی ،پیٹ کے جہنم کی آگ بجھانے کے لیے میسر آتی ہے۔جب سے موٹر وے بن گئی ہے، کوئی جی ٹی روڈ کا رخ ہی نہیں کرتا، بس جاپانی سفارت خانے کے اسو مورا صاحب ہی جی ٹی روڈ پر سفر کو ترجیح دیتے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ موٹر وے پر ہوا میں اڑنے کا گمان گزرتا ہے اور جی ٹی روڈ پر پائوں دھرتی کے قریب رہتے ہیں اور آنکھوں کے سامنے حیات افروز مناظر کی فلم چلتی ہے۔

جس دن سے راجہ پرویز اشرف وزیر اعظم بنے، اس خطے کی قسمت بدلنے کی آس بھی جگمگا اٹھی۔شریف برادران لاہور میں لوہے کے جنگلے اگانے پرپیسہ پانی کی طرح بہا رہے ہیں ، وزیر اعظم گیلانی نے ملتان پر نظر کرم کی، مگر راجہ پرویز اشروف نے پوٹھو ہار کو توجہ دی تو کوئی اسکینڈل کھڑا نہیں ہوا کہ وہ اس علاقے کو اس کا حق واپس دے رہے تھے، وہ حق جو آزادی ملنے سے اب تک غصب کیا جاتا رہا۔جی ٹی روڈ ہو یا کلر کہار سے آگے موٹر وے ہو، کہیں کسی گلبرگ، ڈیفنس،ماڈل ٹائون یا سیٹلائٹ ٹائون کا نام و نشان نہیں ملتا۔کسی کارخانے کی چمنیاں دھواں اگلتی نظر نہیں آتیں۔

کسی یونیورسٹی کی خوشبو دماغ کو طراوت نہیں بخشتی۔ خدا خدا کرکے اس خطے کو اقتدار تک رسائی ملی تو اب نئے دریچے وا ہو رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے اپنے علاقے میں، پاکستان کے سب سے زیادہ محروم خطے میں ایک جلسہ عام برپا کیا، کہتے ہیں یہ تاریخ میں سب سے بڑا عوامی جلسہ تھا۔اس میں کسی کو لایا نہیں گیا، ایس پی، ڈی ایس پی، تھانیدار، منشی ، پٹواری سب تخت لاہور کے حکم پر چلتے ہیں،وہ وزیر اعظم سے کیوںکر تعاون کرتے، اس لیے جلسے میں جو لوگ آئے، اپنے پائوں پر چل کر آئے، میرا احساس ہے کہ اس علاقے میں جب وسیع زمینیں ہی نہیں تو ٹریکٹر ٹرالیاں بھی کیوں ہوں گی، اس لیے جلسہ گاہ کو بھرنے کے لیے لوگوں کو اپنے سچے جذبوں پر انحصار کرنا پڑا ہو گا اور یہ جذبات اس روز امڈ امڈ آئے، حد نظر تک سر ہی سر تھے اور فضا نعروں سے گونج رہی تھی۔

اس علاقے نے اپنے وزیر اعظم کو عزت اور وقار سے مالا مال کر دیا تھا۔وزیر اعظم کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے ہے،وہ جانتے تھے کہ پوٹھوہار کے سنگین مسائل کیا ہیں اور ان کے حل کے لیے انھوں نے بارہ بلین سے زائد کے منصوبوں کا اعلان کیا۔گوجرخان کی بھی سنی گئی اور اسے تحصیل سے ضلع کا درجہ مل گیا۔مندرہ چکوال روڈ اور سوہاوہ چکوال روڈ کو ڈبل کرنے کی منظوری دی گئی ، ان منصوبوں پر با لترتیب2.70 بلین روپے اور3.30 بلین روپے خرچ ہوں گے۔وزیر اعظم نے اپنے ہاتھ سے گوجر خان انڈر پاس کی تعمیر کا افتتاح کیا جس پر 425ملین کی لاگت آئے گی۔دولتالہ گوجر خان سڑک کی تعمیر کے لیے 160 ملین کی رقم مختص کی گئی۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو وزیر اعظم کا سب سے اہم یہ اعلان تھا کہ اس علاقے میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی یونیورسٹی قائم کی جائے گی اور اسکولوں اور کالجوں میں آئی ٹی لیب فراہم کی جائیں گی۔

سڑکوں کی تعمیر سے اس علاقے کو ایک دوسرے سے رابطہ میں آسانیاں پیدا ہوں گی اور آئی ٹی لیب کی فراہمی سے اس علاقے کو تعلیم یافتہ، مہذب اور متمدن دنیا سے رابطہ قائم کر نے میںمدد ملے گی۔ ایک مختصر عرصے کا وزیر اعظم اپنے علاقے کی اس سے بڑی اور کیا خدمت کر سکتا ہے لیکن در اصل یہ پاکستان کے ایک پس ماندہ تریں خطے کی خدمت ہے جو آج سینہ تانے، فخر کے ساتھ کھڑا ہونے کے قابل ہو گیا ہے۔گوجرخان کی گونج دور دور تک سنی جا رہی ہے، اس کی تقدیر خواب خر گوش سے بیدار ہو گئی ہے۔
Load Next Story