فراز کی کار
احمد فراز کی کار کی بولی صرف سوا چھ لاکھ لگی اس پر لوگ افسوس کا اظہار کر رہے ہیں۔
احمد فراز کی کار کی بولی صرف سوا چھ لاکھ لگی اس پر لوگ افسوس کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ فراز کی توہین ہے۔ سمجھ میں نہیں آیا کہ لوگ فراز کی توہین سمجھ رہے ہیں یا کار کی توہین۔ کیونکہ ہمارے یہاں تو نوادرات اس چیزکو سمجھا جاتا ہے جسے کیش کیا جا سکے۔ موئن جو دڑو اور دوسرے اہم تاریخی مقامات سے ملنے والے ''آثار'' اور ''اشیا'' کا کیا ہوا۔ مورتیاں اور سکے کہاں سے چوری ہوئے اورکہاں بک گئے۔ کہاں پہنچ گئے۔ کچھ ہوا؟ نہیں! ہم خود شاہد ہیں کہ ریڈیو پاکستان حیدر آباد سے سندھی موسیقی کا ''خزانہ'' چوری کیا گیا۔
ایک نئے قائم ادارے نے 70-80 سال پرانی موسیقی کو اپنا قرار دے دیا، جو دراصل ریڈیو پاکستان حیدرآباد کا ورثہ تھی اور ہے مگر اس کے پاس نہیں ہے اور یہ کارروائی انجام دینے والا فرد اس نئے ادارے کا اعلیٰ افسر بنا جو دراصل ریڈیو پاکستان حیدر آباد کا جزوقتی اناؤنسر تھا۔ یہ بھی ایک قرض تھا ہم پر جو آج اس مضمون کے تحت ادا ہو گیا۔ تو اس ملک میں چند شعرا اور ادیبوں کا ذکر اور ان کے بارے میں بات چیت اس لیے کی جاتی ہے کہ سرحد پار بات کرنے والے موجود ہیں۔ آج آپ اقبال کو چھوڑ دیجیے وہ اپنا لیں گے ان کا تو ترانہ ہی وہی ہے اب تک جو اقبال نے کہا تھا۔ ہم نے ترانے کو نہ جانے کیا رنگ دے دیا اور آج تک اس پر کار بند نہ ہو سکے۔
خیر یہ تو ایک الگ بحث ہے بات ہو رہی ہے فراز کی کار کی تو اس کی بولی حیرت انگیز طور پر تین لاکھ سے شروع کی گئی۔ یہ اخبار کا کہنا ہے گیارہ دسمبر کے! تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے۔ اگر فراز نے اس کار میں سفر کیا تھا تو یہ کون سی قابل ذکر بات ہے۔ قابل ذکر بات تو یہ ہے کہ اس کار کا خریدار اس کے ساتھ کیا کرے گا استعمال کرے گا یا قومی یادگارکے طور پر محفوظ کر دے گا۔ شاید استعمال ہی کرے گا وہ شخص کیونکہ حکومت نے تو اسے خریدا نہیں ہے کہ محفوظ کرے اور سچ بات یہ ہے کہ اسے محفوظ کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے بیشک فراز ایک اچھے شاعر تھے مگر اس کے علاوہ کیا۔
رومانوی شاعری سے قوم کو رومانوی شاعر ہی ملتے ہیں قوم کی تربیت اور راہ متعین کرنے والا تو کوئی کام انھوں نے شاید نہیں کیا۔ اگر ان کی غزلیں گائی نہ جاتیں تو یہ ''مشہوری'' بھی نہ ہوتی۔ یہ ہم عام لوگوں کا خیال ظاہرکر رہے ہیں کیونکہ ہمارے معاشرے میں ادب کا سلسلہ انحطاط کا شکار ہے۔ اور اس کا آغاز انسانی رویوں سے ہوتا ہے۔ اگر لکھنو، دہلی اور خود سندھ پنجاب کی تہذیب کی بات کریں تو اس دور میں جب اکبر الٰہ آبادی کا شکوہ شور ہوا تھا تو تہذیب اور آداب آہستہ آہستہ معاشرے سے رخصت ہو رہے تھے۔ امراؤ جان ادا کا دور ختم ہو رہا تھا۔ اور لوگ مغرب کی اقدار کو اپنے معاشرے میں جگہ دے رہے تھے۔
مغرب کی اقدار Singular سوچ کی حامل تھیں اور ہیں اور اس سوچ کے تحت فرد کی آزادی کا نعرہ دراصل ذمے داریوں سے آزاد ہونے اور کرنے کا نعرہ تھا جو اردو زبان میں ''مادر پدر'' آزاد کہلاتا ہے۔ اس کے دونوں پہلو ہیں۔ ماں باپ بھی آزاد اور اولاد بھی آزاد یعنی یوں لگتا ہے جیسے کہ کہا جا رہا ہے کہ ''انسان آزاد پیدا ہوا ہے'' تو اس نے ہماری معاشرتی زندگی کو بہت متاثر کیا اور Singular Approach کو جنم دیا جس کا مقصد یہ تھا کہ فرد ہی دراصل سب کچھ ہے حالانکہ علامہ صاحب ہمارے بارے میں تنبیہہ کر رہے تھے کہ ''فرد قائم ربط سے ہے'' مگر مغرب اس ربط کو توڑنا چاہتا تھا سو وہ کامیاب ہوا اور برصغیر کا معاشرہ جو ''دادا سے پوتے تک'' چل رہا تھا یکسوئی کے ساتھ بکھر گیا اور ہر شخص کو اپنی اپنی پڑ گئی۔ دولت کے بارے میں سوچ بدل گئی۔ ''میرا اور میری'' کا تصور پیدا ہو گیا اور ''ہمارا اور ہماری'' کا خیال رفت بود۔
اس معاشرے نے ''فرار'' کا ایک راستہ اختیار کیا اور اب شاعری دراصل ادب اور زبان کے فروغ سے زیادہ اظہار، ردعمل کی شاعری بن گئی۔ گل و بلبل دراصل امن کے استعارے تھے سو وہ بدل کر انصاف اور جدوجہد کے اشارے بن گئے جن کا مقصد بھی دو طرح کا تھا۔ انصاف میرے لیے اور میرا پسندیدہ۔ اور جدوجہد ان کے لیے جن کو کبھی انصاف نہیں ملے گا اور نہ مل سکا۔
شاعری کو اسلحہ بنا کر استعمال کیا گیا، انسانی ذہنوں کو متاثر کر کے ان کو اپنی پسند کے راستوں پر قائم کیا گیا۔ یہ کام آج کل سائنسی بنیادوں پر کیا جا رہا ہے شاعری کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ اور آپ کھیپ کی کھیپ تخریب کاروں کی دیکھ رہے ہیں جو دنیا بھر میں ختم نہیں ہو رہی۔ دنیا بھر کی شاعری اب کیا کر رہی ہے۔ کیوں معاشرہ شاعری سے متاثر نہیں کیوں شاعری کی معاشرے میں عزت نہیں ہے؟ کیونکہ معاشرہ اب مادی اقدار پر قائم ہے۔ ضرورتوں کا سلسلہ ہے۔ مغربی شاعری پر تو ہم رائے زنی کرنے کا حق نہیں رکھتے کیونکہ ان کے شعرا نے اپنی شاعری کو اس مقصد کے لیے کامیابی سے استعمال کیا جو انھوں نے احساس کے تحت قائم کیا تھا اور ان کے خیال کے مطابق درست تھا۔ مگر یہاں اس خطے میں قیام پاکستان کے علاوہ کوئی قابل ذکر کارنامہ انجام نہیں دیا جا سکا اور اس میں شاعری کا حصہ بہت زیادہ نہیں ہے کیونکہ ایک آدھ کے علاوہ کوئی سیاسی راہنما شاعر نہیں تھا۔ کم ازکم صف اول کے لوگ تو نہیں۔ قیام پاکستان کے بعد کیا ہوا۔
حبیب جالب، شورش یہی چند ایک نام ہیں جنھوں نے مثبت سوچ کی راہ پر چلنا پسند کیا اور انجام کیا ہوا۔ اس مادی معاشرے نے انھیں کیا دیا۔ زندگی بھر مزدوری۔ ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی بڑے بڑے لوگوں نے ان کی شاعری کو ''بڑے بڑے مقاصد'' کے لیے استعمال کیا جو ''ملکی'' نہیں ''ذاتی'' ہے اور ہیں۔ آج بھی ان شعرا کے اشعار پڑھنے کا مقصد ملک کی بھلائی نہیں بلکہ اپنی ''مطلب برآری'' ہے۔ جو سلوک ہم نے اپنی مقدس ترین کتاب کے ساتھ کیا ہے۔ کچھ ویسا ہی سلوک ہم نے اپنی ''کچھ انقلابی شاعری'' کے ساتھ کیا ہے اور اب تو ملک سے باہر اردو زبان کے اتنے شعرا پیدا ہو گئے ہیں کہ ملک کے شاعروں کا وجود خطرے میں ہے۔ وہ جو بصد احترام بلوائے جاتے ہیں بس چند سال اور اس کے بعد تو ''باہر والے'' خود کفیل ہو جائیں گے اب بھی ان میں سے کئی ایک ''علامہ'' بنے ہوئے ہیں شاعری کے لیے تعلیم کا ہونا بھی ضروری نہیں سمجھا جاتا حیدرآباد کے ایک کباب فروش بھی شاعر تھے جنھوں نے ایک فلم کے گانے بھی لکھے تھے۔
تو دراصل احمد فراز کی کار کی کسی کو ضرورت ہے شاید اور اس نے یہ کوشش کی کہ مارکیٹ ویلیو سے کم قیمت پر مل جائے تو دونوں کا بھلا ہو جائے گا۔ فراز تو اب رہے نہیں کہ اپنی کار کو ''قوم کا اثاثہ'' بنوا سکتے لہٰذا جو مل جائے ''پس ماندگان'' کے کام آ جائے گا اور لگے ہاتھوں ان کا بھی بھلا ہو جائے گا جو اسے خرید لیں گے۔ ''سستی کار بڑا لیبل'' یہی ہے ہمارا عام رویہ! سب کچھ برائے فروخت ہے کرکٹ ضرور کھیل لیں بھارت سے یہ ''قومی مسئلہ'' ہے۔ اگر کرکٹ نہ ہوئی تو پاکستان کا ''قومی تشخص'' خطرے میں پڑ جائے گا۔ ''کوچوں'' کی ایک بے کار لائن مفت خورے جمع۔ جن پر ''میچ فکسنگ کے شبہات'' تھے وہ ٹیم کو تیار کر رہے ہیں۔ یہ سب کچھ پاکستان میں ہی ممکن ہے۔ اوپر سے نیچے تک ''بے ایمانی'' اور ''بے ایمانوں'' کی ایک لمبی قطار ہے ہر طرف جہاں بھی آپ جائیں جس طرح ٹی وی کے ایک خاص پروگرام کے بعد پولیس والے کھلے عام رشوت لینے لگے یہی کام اب دوسرے تمام ادارے کر رہے ہیں کیونکہ ہمارے یہاں اب ان کو معیوب اور قابل سزا نہیں دکھایا جاتا۔ ''ہنر'' کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
بات فراز کی کار سے شروع کی تھی اور بات پھر فراز کی کار پر ہی آ پہنچی۔ اس ملک کی اقدار اور طور طریقے اور اخلاقیات سب احمد فراز کی کار تو ہیں جس کی بولی اصل قیمت سے بھی کم لگی ہے۔
ایک نئے قائم ادارے نے 70-80 سال پرانی موسیقی کو اپنا قرار دے دیا، جو دراصل ریڈیو پاکستان حیدرآباد کا ورثہ تھی اور ہے مگر اس کے پاس نہیں ہے اور یہ کارروائی انجام دینے والا فرد اس نئے ادارے کا اعلیٰ افسر بنا جو دراصل ریڈیو پاکستان حیدر آباد کا جزوقتی اناؤنسر تھا۔ یہ بھی ایک قرض تھا ہم پر جو آج اس مضمون کے تحت ادا ہو گیا۔ تو اس ملک میں چند شعرا اور ادیبوں کا ذکر اور ان کے بارے میں بات چیت اس لیے کی جاتی ہے کہ سرحد پار بات کرنے والے موجود ہیں۔ آج آپ اقبال کو چھوڑ دیجیے وہ اپنا لیں گے ان کا تو ترانہ ہی وہی ہے اب تک جو اقبال نے کہا تھا۔ ہم نے ترانے کو نہ جانے کیا رنگ دے دیا اور آج تک اس پر کار بند نہ ہو سکے۔
خیر یہ تو ایک الگ بحث ہے بات ہو رہی ہے فراز کی کار کی تو اس کی بولی حیرت انگیز طور پر تین لاکھ سے شروع کی گئی۔ یہ اخبار کا کہنا ہے گیارہ دسمبر کے! تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے۔ اگر فراز نے اس کار میں سفر کیا تھا تو یہ کون سی قابل ذکر بات ہے۔ قابل ذکر بات تو یہ ہے کہ اس کار کا خریدار اس کے ساتھ کیا کرے گا استعمال کرے گا یا قومی یادگارکے طور پر محفوظ کر دے گا۔ شاید استعمال ہی کرے گا وہ شخص کیونکہ حکومت نے تو اسے خریدا نہیں ہے کہ محفوظ کرے اور سچ بات یہ ہے کہ اسے محفوظ کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے بیشک فراز ایک اچھے شاعر تھے مگر اس کے علاوہ کیا۔
رومانوی شاعری سے قوم کو رومانوی شاعر ہی ملتے ہیں قوم کی تربیت اور راہ متعین کرنے والا تو کوئی کام انھوں نے شاید نہیں کیا۔ اگر ان کی غزلیں گائی نہ جاتیں تو یہ ''مشہوری'' بھی نہ ہوتی۔ یہ ہم عام لوگوں کا خیال ظاہرکر رہے ہیں کیونکہ ہمارے معاشرے میں ادب کا سلسلہ انحطاط کا شکار ہے۔ اور اس کا آغاز انسانی رویوں سے ہوتا ہے۔ اگر لکھنو، دہلی اور خود سندھ پنجاب کی تہذیب کی بات کریں تو اس دور میں جب اکبر الٰہ آبادی کا شکوہ شور ہوا تھا تو تہذیب اور آداب آہستہ آہستہ معاشرے سے رخصت ہو رہے تھے۔ امراؤ جان ادا کا دور ختم ہو رہا تھا۔ اور لوگ مغرب کی اقدار کو اپنے معاشرے میں جگہ دے رہے تھے۔
مغرب کی اقدار Singular سوچ کی حامل تھیں اور ہیں اور اس سوچ کے تحت فرد کی آزادی کا نعرہ دراصل ذمے داریوں سے آزاد ہونے اور کرنے کا نعرہ تھا جو اردو زبان میں ''مادر پدر'' آزاد کہلاتا ہے۔ اس کے دونوں پہلو ہیں۔ ماں باپ بھی آزاد اور اولاد بھی آزاد یعنی یوں لگتا ہے جیسے کہ کہا جا رہا ہے کہ ''انسان آزاد پیدا ہوا ہے'' تو اس نے ہماری معاشرتی زندگی کو بہت متاثر کیا اور Singular Approach کو جنم دیا جس کا مقصد یہ تھا کہ فرد ہی دراصل سب کچھ ہے حالانکہ علامہ صاحب ہمارے بارے میں تنبیہہ کر رہے تھے کہ ''فرد قائم ربط سے ہے'' مگر مغرب اس ربط کو توڑنا چاہتا تھا سو وہ کامیاب ہوا اور برصغیر کا معاشرہ جو ''دادا سے پوتے تک'' چل رہا تھا یکسوئی کے ساتھ بکھر گیا اور ہر شخص کو اپنی اپنی پڑ گئی۔ دولت کے بارے میں سوچ بدل گئی۔ ''میرا اور میری'' کا تصور پیدا ہو گیا اور ''ہمارا اور ہماری'' کا خیال رفت بود۔
اس معاشرے نے ''فرار'' کا ایک راستہ اختیار کیا اور اب شاعری دراصل ادب اور زبان کے فروغ سے زیادہ اظہار، ردعمل کی شاعری بن گئی۔ گل و بلبل دراصل امن کے استعارے تھے سو وہ بدل کر انصاف اور جدوجہد کے اشارے بن گئے جن کا مقصد بھی دو طرح کا تھا۔ انصاف میرے لیے اور میرا پسندیدہ۔ اور جدوجہد ان کے لیے جن کو کبھی انصاف نہیں ملے گا اور نہ مل سکا۔
شاعری کو اسلحہ بنا کر استعمال کیا گیا، انسانی ذہنوں کو متاثر کر کے ان کو اپنی پسند کے راستوں پر قائم کیا گیا۔ یہ کام آج کل سائنسی بنیادوں پر کیا جا رہا ہے شاعری کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ اور آپ کھیپ کی کھیپ تخریب کاروں کی دیکھ رہے ہیں جو دنیا بھر میں ختم نہیں ہو رہی۔ دنیا بھر کی شاعری اب کیا کر رہی ہے۔ کیوں معاشرہ شاعری سے متاثر نہیں کیوں شاعری کی معاشرے میں عزت نہیں ہے؟ کیونکہ معاشرہ اب مادی اقدار پر قائم ہے۔ ضرورتوں کا سلسلہ ہے۔ مغربی شاعری پر تو ہم رائے زنی کرنے کا حق نہیں رکھتے کیونکہ ان کے شعرا نے اپنی شاعری کو اس مقصد کے لیے کامیابی سے استعمال کیا جو انھوں نے احساس کے تحت قائم کیا تھا اور ان کے خیال کے مطابق درست تھا۔ مگر یہاں اس خطے میں قیام پاکستان کے علاوہ کوئی قابل ذکر کارنامہ انجام نہیں دیا جا سکا اور اس میں شاعری کا حصہ بہت زیادہ نہیں ہے کیونکہ ایک آدھ کے علاوہ کوئی سیاسی راہنما شاعر نہیں تھا۔ کم ازکم صف اول کے لوگ تو نہیں۔ قیام پاکستان کے بعد کیا ہوا۔
حبیب جالب، شورش یہی چند ایک نام ہیں جنھوں نے مثبت سوچ کی راہ پر چلنا پسند کیا اور انجام کیا ہوا۔ اس مادی معاشرے نے انھیں کیا دیا۔ زندگی بھر مزدوری۔ ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی بڑے بڑے لوگوں نے ان کی شاعری کو ''بڑے بڑے مقاصد'' کے لیے استعمال کیا جو ''ملکی'' نہیں ''ذاتی'' ہے اور ہیں۔ آج بھی ان شعرا کے اشعار پڑھنے کا مقصد ملک کی بھلائی نہیں بلکہ اپنی ''مطلب برآری'' ہے۔ جو سلوک ہم نے اپنی مقدس ترین کتاب کے ساتھ کیا ہے۔ کچھ ویسا ہی سلوک ہم نے اپنی ''کچھ انقلابی شاعری'' کے ساتھ کیا ہے اور اب تو ملک سے باہر اردو زبان کے اتنے شعرا پیدا ہو گئے ہیں کہ ملک کے شاعروں کا وجود خطرے میں ہے۔ وہ جو بصد احترام بلوائے جاتے ہیں بس چند سال اور اس کے بعد تو ''باہر والے'' خود کفیل ہو جائیں گے اب بھی ان میں سے کئی ایک ''علامہ'' بنے ہوئے ہیں شاعری کے لیے تعلیم کا ہونا بھی ضروری نہیں سمجھا جاتا حیدرآباد کے ایک کباب فروش بھی شاعر تھے جنھوں نے ایک فلم کے گانے بھی لکھے تھے۔
تو دراصل احمد فراز کی کار کی کسی کو ضرورت ہے شاید اور اس نے یہ کوشش کی کہ مارکیٹ ویلیو سے کم قیمت پر مل جائے تو دونوں کا بھلا ہو جائے گا۔ فراز تو اب رہے نہیں کہ اپنی کار کو ''قوم کا اثاثہ'' بنوا سکتے لہٰذا جو مل جائے ''پس ماندگان'' کے کام آ جائے گا اور لگے ہاتھوں ان کا بھی بھلا ہو جائے گا جو اسے خرید لیں گے۔ ''سستی کار بڑا لیبل'' یہی ہے ہمارا عام رویہ! سب کچھ برائے فروخت ہے کرکٹ ضرور کھیل لیں بھارت سے یہ ''قومی مسئلہ'' ہے۔ اگر کرکٹ نہ ہوئی تو پاکستان کا ''قومی تشخص'' خطرے میں پڑ جائے گا۔ ''کوچوں'' کی ایک بے کار لائن مفت خورے جمع۔ جن پر ''میچ فکسنگ کے شبہات'' تھے وہ ٹیم کو تیار کر رہے ہیں۔ یہ سب کچھ پاکستان میں ہی ممکن ہے۔ اوپر سے نیچے تک ''بے ایمانی'' اور ''بے ایمانوں'' کی ایک لمبی قطار ہے ہر طرف جہاں بھی آپ جائیں جس طرح ٹی وی کے ایک خاص پروگرام کے بعد پولیس والے کھلے عام رشوت لینے لگے یہی کام اب دوسرے تمام ادارے کر رہے ہیں کیونکہ ہمارے یہاں اب ان کو معیوب اور قابل سزا نہیں دکھایا جاتا۔ ''ہنر'' کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
بات فراز کی کار سے شروع کی تھی اور بات پھر فراز کی کار پر ہی آ پہنچی۔ اس ملک کی اقدار اور طور طریقے اور اخلاقیات سب احمد فراز کی کار تو ہیں جس کی بولی اصل قیمت سے بھی کم لگی ہے۔