خوف کے عالم میں خون محاورتاً نہیں حقیقتاً خشک ہوجاتا ہےدلچسپ تحقیق
دوران تحقیق طلبا نے فلمیں پرسکون ماحول میں ایک ہفتے تک دیکھی تھیں
خوف کے مارے خون خشک ہوجانا۔۔۔۔ یہ محارہ تو آپ نے سنا ہوگا۔ یہ محاورہ اس وقت بولا جاتا ہے جب کسی شخص کو انتہائی خوف کا سامنا ہو۔ خود و دہشت کا سبب کوئی جان لیوا صورت حال بھی ہوسکتی ہے۔ ڈراؤنی فلمیں دیکھتے ہوئے بھی ڈر محسوس ہوسکتا ہے۔
خوف کے مارے خون خشک ہوجانے کی بات محاورتاً کہی جاتی ہے مگر اب ایک نئی تحقیق میں بتایاگیا ہے کہ خوف و دہشت کے عالم میں محاورتاً نہیں حقیقتاً خون خشک ہوجاتا ہے! یہ تحقیق ہالینڈ سے تعلق رکھنے والے سائنس دانوں نے کی ہے۔ سائنس دانوں کے بیان کے مطابق ڈراؤنی فلمیں دیکھنے کے دوران خون میں ایک پروٹین جسے فیکٹر VIII کہا جاتا ہے کی مقدار بڑھنے لگتی ہے۔ یہ پروٹین خون کو گاڑھا کرکے شریانوں میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔ گاڑھا ہونے کی صورت میں خون کی مقدار میں کمی واقع ہوتی ہے، دوسرے الفاظ میں خون خشک ہوجاتا ہے۔ یوں ڈراؤنی فلمیں اپنے ناظرین کو اسپتال بھی پہنچاسکتی ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے جب سائنس دانوں نے کسی محاورے کو تحقیق کی بنیاد بنایا ہے۔
تجربے کے لیے محققین نے 24 صحت مند افراد کی رضاکارانہ خدمات حاصل کیں۔ یہ تمام افراد کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبا تھے جن کی عمریں 30 سال یا اس سے کم تھیں۔ دوران تحقیق 14 طلبا کو پہلے تفریحی اور اس کے بعد ڈراؤنی فلم دکھائی گئی۔ باقی طلبا کو پہلے ڈراؤنی اور پھر تفریحی فلم سے لطف اندوز ہونے کی ہدایت کی گئی ۔ہر بار فلم ختم ہونے کے بعد طلبا کے خون کے نمونے لیے جاتے تھے۔ ماہرین نے دیکھا کہ Insidious ( ہدایت کار جیمز وین کی مشہور ہارر فلم ) سے لطف ہونے کے دوران 12 طلبا کے خون میںفیکٹر VIIIکی سطح اوسطاً گیارہ یونٹ فی ڈیسی لیٹر بڑھ گئی۔ فیکٹر VIII کے لیول میں اتنا اضافہ خون کو گاڑھا کرکے دوران خون میں رکاوٹ پیدا کر سکتا ہے۔
اس تحقیق سے وابستہ ڈاکٹر بینے نمیتھ کہتے ہیں ''تحقیق کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ ڈراؤنی فلمیں دیکھتے ہوئے فیکٹر VIII کا لیول خون میں بڑھ جاتا ہے۔ اس پروٹین کی سطح میں گیارہ یونٹ فی ڈیسی لیٹر اضافہ شریانوں میں رکاوٹ پیدا ہونے کا خطرہ 17 فی صد تک بڑھا دیتا ہے۔''
دوران تحقیق طلبا نے فلمیں پرسکون ماحول میں ایک ہفتے تک دیکھی تھیں ، ہر بار دونوں فلموں کے اختتام پر طلبا سے خون کے نمونے لے کر ان کا تجزیہ کیا گیا۔ ہر طالب علم سے ان کے طرز زندگی سے متعلق تفصیلات بھی حاصل کی گئی تھیں۔ یہ بھی پوچھا گیا تھا کہ انھیں کس قسم کی فلمیں دیکھنا پسند ہے؟۔
فیکٹر VIII کے علاوہ تحقیق کو دوران خون میں رکاوٹ پیدا کرنے والے دوسرے پروٹین کی سطح میں کسی تبدیلی کے شواہد نہیں ملے۔
خوف کے مارے خون خشک ہوجانے کی بات محاورتاً کہی جاتی ہے مگر اب ایک نئی تحقیق میں بتایاگیا ہے کہ خوف و دہشت کے عالم میں محاورتاً نہیں حقیقتاً خون خشک ہوجاتا ہے! یہ تحقیق ہالینڈ سے تعلق رکھنے والے سائنس دانوں نے کی ہے۔ سائنس دانوں کے بیان کے مطابق ڈراؤنی فلمیں دیکھنے کے دوران خون میں ایک پروٹین جسے فیکٹر VIII کہا جاتا ہے کی مقدار بڑھنے لگتی ہے۔ یہ پروٹین خون کو گاڑھا کرکے شریانوں میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔ گاڑھا ہونے کی صورت میں خون کی مقدار میں کمی واقع ہوتی ہے، دوسرے الفاظ میں خون خشک ہوجاتا ہے۔ یوں ڈراؤنی فلمیں اپنے ناظرین کو اسپتال بھی پہنچاسکتی ہیں۔ یہ پہلا موقع ہے جب سائنس دانوں نے کسی محاورے کو تحقیق کی بنیاد بنایا ہے۔
تجربے کے لیے محققین نے 24 صحت مند افراد کی رضاکارانہ خدمات حاصل کیں۔ یہ تمام افراد کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبا تھے جن کی عمریں 30 سال یا اس سے کم تھیں۔ دوران تحقیق 14 طلبا کو پہلے تفریحی اور اس کے بعد ڈراؤنی فلم دکھائی گئی۔ باقی طلبا کو پہلے ڈراؤنی اور پھر تفریحی فلم سے لطف اندوز ہونے کی ہدایت کی گئی ۔ہر بار فلم ختم ہونے کے بعد طلبا کے خون کے نمونے لیے جاتے تھے۔ ماہرین نے دیکھا کہ Insidious ( ہدایت کار جیمز وین کی مشہور ہارر فلم ) سے لطف ہونے کے دوران 12 طلبا کے خون میںفیکٹر VIIIکی سطح اوسطاً گیارہ یونٹ فی ڈیسی لیٹر بڑھ گئی۔ فیکٹر VIII کے لیول میں اتنا اضافہ خون کو گاڑھا کرکے دوران خون میں رکاوٹ پیدا کر سکتا ہے۔
اس تحقیق سے وابستہ ڈاکٹر بینے نمیتھ کہتے ہیں ''تحقیق کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ ڈراؤنی فلمیں دیکھتے ہوئے فیکٹر VIII کا لیول خون میں بڑھ جاتا ہے۔ اس پروٹین کی سطح میں گیارہ یونٹ فی ڈیسی لیٹر اضافہ شریانوں میں رکاوٹ پیدا ہونے کا خطرہ 17 فی صد تک بڑھا دیتا ہے۔''
دوران تحقیق طلبا نے فلمیں پرسکون ماحول میں ایک ہفتے تک دیکھی تھیں ، ہر بار دونوں فلموں کے اختتام پر طلبا سے خون کے نمونے لے کر ان کا تجزیہ کیا گیا۔ ہر طالب علم سے ان کے طرز زندگی سے متعلق تفصیلات بھی حاصل کی گئی تھیں۔ یہ بھی پوچھا گیا تھا کہ انھیں کس قسم کی فلمیں دیکھنا پسند ہے؟۔
فیکٹر VIII کے علاوہ تحقیق کو دوران خون میں رکاوٹ پیدا کرنے والے دوسرے پروٹین کی سطح میں کسی تبدیلی کے شواہد نہیں ملے۔