پاک بھارت… امن یا جنگ
ہم پاکستانی ان دنوں ایک ایسے دشمن کے سامنے ایک بار پھر کھڑے ہیں جو ہمارے لیے انتہائی بے رحم اور سچا دشمن ہے
WASHINGTION:
جنگ چھوٹی ہو یا بڑی اس سے سب سے زیادہ خوفزدہ فوج کے جرنیل ہوتے ہیں کیونکہ انھیں اپنی جان پر کھیل کر جنگ لڑنی ہوتی ہے اس کے تماشے نہیں دیکھنے ہوتے اور نہ ہی اس کی داستانیں سننی ہوتی ہیں۔
اس لیے وہ پوری کوشش کرتے ہیں کہ زندگی کی اس سب سے بڑی آزمائش سے دوچار نہ ہوں اور کسی نہ کسی طرح باعزت طریقے سے اس سے بچ جائیں۔ دشمن کے ساتھ معاملات میں وہ براہ راست ملوث نہیں ہوتے یہ کام سفارتی شعبوں کا ہوتا ہے لیکن وہ باہر رہ کر پوری کوشش کرتے ہیں کہ ان کی دشمن کے ساتھ جنگ کی نوبت نہ آئے۔اس وقت بھارت اور پاکستان کے حالات بظاہر میل جول والے خوشگوار ہیں لیکن دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کی تاریخ اس سے بالکل مختلف ہے۔ وہ کئی خونریز جنگیں لڑ چکے ہیں۔
ان جنگوں کے کتنے ہی نشان حیدر ہر سال ہم سے خراج تحسین وصول کرتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دشمن بھارت کے خلاف کسی جنگ میں حد سے زیادہ جان فروشی اور جاں بازی کی مثال پیش کی ہے اور کسی محاذ پر دشمن کو رسوا کر دیا ہے اس میں وہ اس حد تک چلے گئے کہ اپنی جان تک کی پروا نہ کی۔ قوم نے ان مجاہدوں کو سب سے بڑا فوجی اعزاز نشان حیدر دیا اور اس کے ساتھ اپنی محبت عقیدت اور اعتراف کا اعزاز بھی۔ان مجاہدوں کے ساتھ قوم کی ایسی دائمی شیفتگی بھی ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گی۔ فوج کے یہ وہ جانباز ہیں جو جان لیوا جنگ کو سخت نا پسند کرتے ہیں مگر جب یہ مرحلہ آ جائے تو پھر وہ اس میں سرخرو ہونے کی آخری حد تک کوشش کرتے ہیں۔
ہم پاکستانی ان دنوں ایک ایسے دشمن کے سامنے ایک بار پھر کھڑے ہیں جو ہمارے لیے انتہائی بے رحم اور سچا دشمن ہے اور اس وقت بھارت کا وزیراعظم بذات خود مسلم دشمنی میں مشہور ہے۔ وزارت عظمیٰ سے پہلے وہ بھارت کے ایک صوبے گجرات کا وزیراعلیٰ تھا جہاں مسلمانوں پر زندگی دشوار کر دی گئی بھارتیوں نے اس کی مسلم دشمنی کے اعتراف میں اپنے اس ہیرو کو ووٹ دے کر وزیراعظم بنا دیا اور یہ بھارتی ہندو موقف کے عین مطابق تھا۔
اسی الیکشن میں ہمارے بھی ایک سیاستدان کو قوم نے بھاری مینڈیٹ دیا گویا وزیراعظم ہی بنا دیا اور الیکشن میں واضح ہو گیا کہ وہ ہمارے وزیراعظم ہوں گے چنانچہ ہمارے متوقع وزیراعظم نے منتخب ہونے کے بعد اعلان کیا کہ قوم نے اس قدر بھاری تعداد میں مجھے ووٹ دے کر دراصل بھارت کے ساتھ دوستی کے تعلقات قائم کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے بہر کیف ان انتخابات میں بھارت اور پاکستان دونوں کے کامیاب جو لیڈر وزارت عظمیٰ پر پہنچے ہیں ان دنوں ان کے درمیان ایسی ملاقاتیں رہتی ہیں جو اپنی مخصوص رازداری یا سیاسی و سفارتی معمول سے ہٹ کر ہوتی ہیں اور طرح طرح کی قیاس آرائیوں کا سبب بنتی ہیں۔
'اچانک' ہونے والی یہ ملاقاتیں کچھ لوگوں کے لیے خوش کن ہوتی ہیں اور بعض لوگوں کو ان میں چھپے ہوئے خطروں کے نشان ملتے ہیں کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی تاریخ ہر گز خوشگوار اور دوستانہ نہیں ہے اور ہمارے اور بھارتی لیڈروں کی پالیسیاں کچھ بھی ہوں ان سے دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان پرانی تلخیاں کم نہیں ہوتیں اور کسی بھی ناگوار مرحلے پر جنگ کا امکان پیدا ہو سکتا ہے۔
جنگ کے اس اندیشے کے پیش نظر سیاسی لیڈر باہمی تعلقات کو خوشگوار بنانے میں کوشاں ہیں تا کہ جنگ کے کسی بھی امکان سے بچا جا سکے اور ان کی یہ کوشش بالکل بجا ہے۔ ہمیں اس ضمن میں ایک اور کوشش کا پتہ بھی چلتا ہے کہ ہماری فوج جنگ کے امکانات کو ختم کرنے میں خاصی سرگرم ہے۔ پاکستانی سپہ سالار کی سرگرمیاں فوج کی روایات سے ذرا ہٹ کر ہیں اور وہ اپنی فوج کو جنگ سے بچانا چاہتے ہیں۔
ان دنوں فوج اور سول کی قیادت کے درمیان رابطے اور تعلق کا کام کوئی سیاستدان یا سفارت کار نہیں ایک ریٹائر جنرل ناصر جنجوعہ سر انجام دے رہے ہیں جو کامیاب جا رہے ہیں کیونکہ دونوں طرف کسی میں بھی نیت کا فتور نہیں ہے اور دونوں کے درمیان مزاج اور برتاؤ کا جو فرق ہوتا ہے اسے ہموار کرنے کے لیے یہ جنرل صاحب بڑا کام کر رہے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ دونوں ملک اب کسی جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ سابقہ جنگوں کا زمانہ گزر گیا جب بالعموم کوئی ایک فوجی برتری رکھتا تھا۔
اب دونوں خوفناک جنگی اسلحہ رکھتے ہیں دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں بلاشبہ پاکستان کا ایٹم بم فنی اعتبار سے بہتر ہے لیکن کوئی بھی ایٹم بم شریف نہیں ہوتا اور تباہی مچانے میں کسی سے کم نہیں ہوتا اس لیے اب کسی ایک فریق کی برتری کا زمانہ گزر گیا اور خدانخواستہ جنگ ہوئی تو اس کی تباہی کا تصور بھی آسان نہیں۔ اس لیے جنگ کوئی بھی نہیں چاہتا کہ اس کے نتائج سے کوئی بھی بے خبر نہیں ہے لیکن ایک خلش پرانے پاکستانیوں کے خیال میں موجود ہے کہ بھارت کی قیادت پاکستان سے حقیقی مفاہمت نہیں چاہتی اس لیے ہمیں خبردار رہنا بہت ضروری ہے۔ یہ کاروباری شراکت اور میل جول جنگ کے خطرات کو ختم نہیں کر سکتا البتہ موخر یا نرم ضرور کر سکتا ہے۔
جنگ چھوٹی ہو یا بڑی اس سے سب سے زیادہ خوفزدہ فوج کے جرنیل ہوتے ہیں کیونکہ انھیں اپنی جان پر کھیل کر جنگ لڑنی ہوتی ہے اس کے تماشے نہیں دیکھنے ہوتے اور نہ ہی اس کی داستانیں سننی ہوتی ہیں۔
اس لیے وہ پوری کوشش کرتے ہیں کہ زندگی کی اس سب سے بڑی آزمائش سے دوچار نہ ہوں اور کسی نہ کسی طرح باعزت طریقے سے اس سے بچ جائیں۔ دشمن کے ساتھ معاملات میں وہ براہ راست ملوث نہیں ہوتے یہ کام سفارتی شعبوں کا ہوتا ہے لیکن وہ باہر رہ کر پوری کوشش کرتے ہیں کہ ان کی دشمن کے ساتھ جنگ کی نوبت نہ آئے۔اس وقت بھارت اور پاکستان کے حالات بظاہر میل جول والے خوشگوار ہیں لیکن دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کی تاریخ اس سے بالکل مختلف ہے۔ وہ کئی خونریز جنگیں لڑ چکے ہیں۔
ان جنگوں کے کتنے ہی نشان حیدر ہر سال ہم سے خراج تحسین وصول کرتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دشمن بھارت کے خلاف کسی جنگ میں حد سے زیادہ جان فروشی اور جاں بازی کی مثال پیش کی ہے اور کسی محاذ پر دشمن کو رسوا کر دیا ہے اس میں وہ اس حد تک چلے گئے کہ اپنی جان تک کی پروا نہ کی۔ قوم نے ان مجاہدوں کو سب سے بڑا فوجی اعزاز نشان حیدر دیا اور اس کے ساتھ اپنی محبت عقیدت اور اعتراف کا اعزاز بھی۔ان مجاہدوں کے ساتھ قوم کی ایسی دائمی شیفتگی بھی ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گی۔ فوج کے یہ وہ جانباز ہیں جو جان لیوا جنگ کو سخت نا پسند کرتے ہیں مگر جب یہ مرحلہ آ جائے تو پھر وہ اس میں سرخرو ہونے کی آخری حد تک کوشش کرتے ہیں۔
ہم پاکستانی ان دنوں ایک ایسے دشمن کے سامنے ایک بار پھر کھڑے ہیں جو ہمارے لیے انتہائی بے رحم اور سچا دشمن ہے اور اس وقت بھارت کا وزیراعظم بذات خود مسلم دشمنی میں مشہور ہے۔ وزارت عظمیٰ سے پہلے وہ بھارت کے ایک صوبے گجرات کا وزیراعلیٰ تھا جہاں مسلمانوں پر زندگی دشوار کر دی گئی بھارتیوں نے اس کی مسلم دشمنی کے اعتراف میں اپنے اس ہیرو کو ووٹ دے کر وزیراعظم بنا دیا اور یہ بھارتی ہندو موقف کے عین مطابق تھا۔
اسی الیکشن میں ہمارے بھی ایک سیاستدان کو قوم نے بھاری مینڈیٹ دیا گویا وزیراعظم ہی بنا دیا اور الیکشن میں واضح ہو گیا کہ وہ ہمارے وزیراعظم ہوں گے چنانچہ ہمارے متوقع وزیراعظم نے منتخب ہونے کے بعد اعلان کیا کہ قوم نے اس قدر بھاری تعداد میں مجھے ووٹ دے کر دراصل بھارت کے ساتھ دوستی کے تعلقات قائم کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے بہر کیف ان انتخابات میں بھارت اور پاکستان دونوں کے کامیاب جو لیڈر وزارت عظمیٰ پر پہنچے ہیں ان دنوں ان کے درمیان ایسی ملاقاتیں رہتی ہیں جو اپنی مخصوص رازداری یا سیاسی و سفارتی معمول سے ہٹ کر ہوتی ہیں اور طرح طرح کی قیاس آرائیوں کا سبب بنتی ہیں۔
'اچانک' ہونے والی یہ ملاقاتیں کچھ لوگوں کے لیے خوش کن ہوتی ہیں اور بعض لوگوں کو ان میں چھپے ہوئے خطروں کے نشان ملتے ہیں کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی تاریخ ہر گز خوشگوار اور دوستانہ نہیں ہے اور ہمارے اور بھارتی لیڈروں کی پالیسیاں کچھ بھی ہوں ان سے دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان پرانی تلخیاں کم نہیں ہوتیں اور کسی بھی ناگوار مرحلے پر جنگ کا امکان پیدا ہو سکتا ہے۔
جنگ کے اس اندیشے کے پیش نظر سیاسی لیڈر باہمی تعلقات کو خوشگوار بنانے میں کوشاں ہیں تا کہ جنگ کے کسی بھی امکان سے بچا جا سکے اور ان کی یہ کوشش بالکل بجا ہے۔ ہمیں اس ضمن میں ایک اور کوشش کا پتہ بھی چلتا ہے کہ ہماری فوج جنگ کے امکانات کو ختم کرنے میں خاصی سرگرم ہے۔ پاکستانی سپہ سالار کی سرگرمیاں فوج کی روایات سے ذرا ہٹ کر ہیں اور وہ اپنی فوج کو جنگ سے بچانا چاہتے ہیں۔
ان دنوں فوج اور سول کی قیادت کے درمیان رابطے اور تعلق کا کام کوئی سیاستدان یا سفارت کار نہیں ایک ریٹائر جنرل ناصر جنجوعہ سر انجام دے رہے ہیں جو کامیاب جا رہے ہیں کیونکہ دونوں طرف کسی میں بھی نیت کا فتور نہیں ہے اور دونوں کے درمیان مزاج اور برتاؤ کا جو فرق ہوتا ہے اسے ہموار کرنے کے لیے یہ جنرل صاحب بڑا کام کر رہے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ دونوں ملک اب کسی جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ سابقہ جنگوں کا زمانہ گزر گیا جب بالعموم کوئی ایک فوجی برتری رکھتا تھا۔
اب دونوں خوفناک جنگی اسلحہ رکھتے ہیں دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں بلاشبہ پاکستان کا ایٹم بم فنی اعتبار سے بہتر ہے لیکن کوئی بھی ایٹم بم شریف نہیں ہوتا اور تباہی مچانے میں کسی سے کم نہیں ہوتا اس لیے اب کسی ایک فریق کی برتری کا زمانہ گزر گیا اور خدانخواستہ جنگ ہوئی تو اس کی تباہی کا تصور بھی آسان نہیں۔ اس لیے جنگ کوئی بھی نہیں چاہتا کہ اس کے نتائج سے کوئی بھی بے خبر نہیں ہے لیکن ایک خلش پرانے پاکستانیوں کے خیال میں موجود ہے کہ بھارت کی قیادت پاکستان سے حقیقی مفاہمت نہیں چاہتی اس لیے ہمیں خبردار رہنا بہت ضروری ہے۔ یہ کاروباری شراکت اور میل جول جنگ کے خطرات کو ختم نہیں کر سکتا البتہ موخر یا نرم ضرور کر سکتا ہے۔