میٹروکے بعد اب اورنج لائن اورکراچی کے لیے…
اب ان کی زندگی جدید دور میں ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے میٹرو اورنج لائن ٹرین سے بھی آراستہ ہوجائے گی
لاہور میں پبلک ٹرانسپورٹ کے شعبے میں انقلابی تبدیلی میٹرو بس سروس کے بعد اب اورنج لائن ٹرین کے معاہدے پر بھی دستخط کر دیے گئے۔ لاہورکے شہری جو پہلے ہی میٹرو بس جیسی جدید، تیز رفتار اور باکفایت سواری سے استفادہ کر رہے تھے۔
اب ان کی زندگی جدید دور میں ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے میٹرو اورنج لائن ٹرین سے بھی آراستہ ہوجائے گی، لاہور بھی دنیا کے ان گنتی کے چند ترقی یافتہ شہروں نیویارک، لندن، پیرس، ٹوکیو وغیرہ کی صف میں شامل ہو جائے گا جہاں میٹرو ٹرینیں شہر میں تیزی سے ادھر سے اُدھر جسم میں خون کی مانند دوڑتی پھرتی ہیں۔ اورنج لائن ٹرین جیسی نایاب نعمت جو ترقی یافتہ ممالک کے بھی صرف بیالیس شہروں میں ہی دستیاب ہے، اب انشااللہ دو سال کے مختصر عرصے میں لاہور کے شہریوں کی زندگی کا بھی حصہ بن جائے گی۔
یقینا ان میگا پروجیکٹس کے خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے انتھک کام کرنے پر حکومت پنجاب اور وفاق دونوں ڈھیروں مبارکباد کے مستحق ہیں جن کی ذاتی دلچسپی اور لوگوں کی تکلیفوں کو محسوس کرنے کی وجہ سے ہی یہ منصوبے مکمل ہو سکے۔ میں لاہور کے شہریوں کو بھی میٹرو بس کے بعد اب اورنج لائن جیسی قیمتی، ناقابل یقین سہولت حاصل ہونے پر دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
انھیں یقینا اپنی اس ہمدرد، متحرک قیادت کی قدر اور اللہ کے بعد ان کا شکرگزار ہونا چاہیے۔مگر جہاں میں لاہور کے اپنے ان دوستوں کے لیے اس باوقار اورنج لائن ٹرین کے لیے بہت خوش ہوں، ان کے لیے نیک خواہشات دل میں رکھتا ہوں، وہیں ہم کراچی والوں کے دل میں اس کی تعمیرکے اعلان کے ساتھ ہی احساس محرومی میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ کراچی کے شہریوںکو یہ امید تھی کہ لاہور اور اسلام آباد کے بعد اب یقینا پہلے کراچی میں میٹرو بس چلے گی اس کے بعد کہیں اورکچھ ہو گا۔
لیکن ایسا نہ ہوا۔ پاکستان کے سب سے بڑے، گنجان آباد شہر ہونے کے ناتے یہاں کے شہریوں کو درپیش ٹرانسپورٹ کے گھمبیر مسائل کی بناء پر اب اس شہر کا یہ حق تھا کہ پہلے اس کی پبلک ٹرانسپورٹ کی مخدوش حالت کچھ سدھاری جاتی، اس کی مشکلات کچھ کم کی جاتیں، کم از کم اسے بھی لاہور اور اسلام آباد کے معیار کے برابر لایا جاتا مگر ایسا نہ ہوا۔ گھر کا سربراہ ہونے کے ناتے وزیر ِ اعظم کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اپنے تمام بچوں (شہروں) کے ساتھ برابری کا سلوک کریں، انھیں درپیش مشکلات کا ادراک کر کے ان کے حل کے لیے اقدامات کریں۔
یہ درست ہے کہ ان میگا پراجیکٹس کو عملی شکل دینے میں وزیراعلیٰ پنجاب کا بہت بڑا ہاتھ ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ اگر وزیراعظم چاہیں تو پنجاب کے علاوہ دوسرے صوبوں کے اہم شہروں کے لیے بھی بہت کچھ کرسکتے ہیں خصوصاً کراچی جیسے مسائل سے بھرے شہرکے لیے ۔
کہاں ایک طرف پنجاب کے خوش نصیب شہریوں کے قدموں میں دنیا کی جدید ترین پبلک ٹرانسپورٹ سروسز او کہاں ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ کی آبادی والے کاروباری سرگرمیوں سے بھر پور شہر کے لوگوں کے نصیب میں فقط صبح شام کے دھکے، عزتِ نفس مجروح کرنے والی سیاہ دھواں چھوڑتی، شور مچاتی، کھٹارا بسیں اور ان کے بد اخلاق، بدزبان ڈرائیور اور کنڈیکٹر۔ جن کے ہمراہ ہماری مائیں بہنیں، بیٹیاں غیر مہذب ماحول میں رنگ برنگے مردوں کی نگاہوں کو جھیلتے، ان سے ٹکراتے ہوئے سفرکرنے پر مجبور ہیں۔ کیا ٹرانسپورٹ مافیا کی دھونس دھمکیوں کا شکار، بسوں کی چھتوں پر سامان کی طرح لدے مجبورکراچی کے شہریوں کا کوئی پرسان ِ حال، کوئی ہمدرد نہیں؟ کیا ان کی تکلیف کو محسوس کرنے والا کوئی نہیں؟ کیا ان کا قصور صرف اتنا ہے کہ یہ پنجاب یا لاہور کے شہری نہیں...؟
کراچی، جہاں سفید پوش لوگ پہلے ہی ظلم و زیادتی کی چکی میں پسے ہوئے ہیں، جو اس مہنگائی کے دور میں زندہ رہنے کی خاطر پانی تک منہ مانگے داموں خریدنے پر مجبور ہیں، جن کے کئی گھنٹے روزانہ اور آمدنی کا بڑا حصہ اس تباہ حال ٹرانسپورٹ پر آمد و رفت پر ہی خرچ ہو جاتا ہے۔ جن کی نگاہیںکئی ماہ سے وزیرِ اعظم کی راہ تک رہی ہیں کہ کب وہ کراچی کے لیے بھی جدید سفری سہولیات مہیا کرنے کے لیے احکامات جاری کریں گے۔
2013ء کے انتخابات کی الیکشن مہم کے دوران شہباز شریف نے بھی کراچی آمد پر اعلان کیا تھا کہ ان کی حکومت آنے کے دو سال کے اندر کراچی میں میٹرو بس چلا دی جائے گی۔ مگر چلانا تو درکنار، ڈھائی سال گزرنے جانے کے باوجود اب تک اس کا تعمیراتی کام بھی شروع نہ ہو سکا۔
لاہور کے بعد کراچی کے بجائے راولپنڈی، اسلام آباد میٹروبس مکمل کرنے پر ساری توانائی صرف کر دی گئی، جس کی افتتاحی تقریب میں وزیر ِ اعظم نے ایک بار پھر اعلان کرتے ہوئے کراچی والوں کو دلاسا دیا کہ اب بہت جلد کراچی میں بھی میٹروبس چلائی جائے گی۔ اس بات کو بھی کئی ماہ گزر گئے مگر کراچی تو نہیں البتہ ملتان میں ضرور میٹرو بس کی تعمیر شروع کر دی گئی۔
کچھ عرصے بعد بجٹ کے موقعے پر اسحاق ڈار صاحب نے پھر یہ خوشخبری سنائی کہ کراچی میٹرو بس پر کام کا آغاز اگست 2015ء میں کر دیا جائے گا اور اسے دسمبر 2016ء تک مکمل کر لیا جائے گا۔ مگر اگست تو کیا دسمبر بھی گزر گیا، لیکن اس پر کام شروع نہ ہو سکا۔ اس دوران وزیراعظم کئی بار کراچی آئے، ہر بار لوگوں کی نگاہیں ان پر جمی رہیں کہ شاید اس بار وہ کراچی میٹرو بس کا سنگِ بنیاد رکھ دیں لیکن ان کے کان یہ سننے کو ترستے ہی رہ گئے اور اب کئی ماہ بعد انھیں اورنج لائن کی نوید سنائی گئی لیکن وہ بھی کراچی کے لیے نہیں لاہور کے لیے۔
میری حکومت سے درخواست ہے کہ وہ کراچی سے کیے کم از کم اپنے میٹرو بس کے وعدے کو پورا کرنے میں مزید تاخیر نہ کریں، اسے اولین ترجیح پر رکھیں۔ کراچی کی سڑکوں پر ٹریفک اژدھام کی صورت اختیار کر چکا ہے، لوگ گھنٹوں ٹریفک جام میں لاچار و بے بس کھڑے کبھی اپنے نصیب، کبھی حکومت، کبھی ملک کو کوستے رہتے ہیں۔ وہ روزانہ صبح و شام کے اس عذاب سے نجات پانے کے لیے میٹرو بس جیسے کسی متبادل کے شدت منتظر ہیں۔ اس بدحال پبلک ٹرانسپورٹ اور ٹریفک نظام کی وجہ سے ان کے اعصاب پر پڑنے والے دباؤ سے نفسیاتی مسائل میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، لوگ جسمانی اور ذہنی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں، وقت پر اسپتال نہ پہنچنے کے سبب مریض ایمبولینس میں ہی دم توڑ جاتے ہیں۔
کراچی کے عوام نے وزیرِ اعظم نوازشریف سے ان کی بہتر کارکردگی کی وجہ سے بہت سی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس حکومت نے دہشت گردی اور کراچی میں امن وامان قائم کرنے جیسے پیچیدہ اور دیرینہ مسائل حل کرنے میں حوصلہ افزاء کامیابی حاصل کی ہے، لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی کے جن کو بھی کافی حد تک قابو کیا ہے، اگر یہ حکومت کراچی کو درپیش ٹرانسپورٹ کے مسئلے کو بھی سنجیدگی سے حل کرنا چاہے تو یقینا یہاں میٹرو بس اور اورنج لائن جیسے منصوبے بھی تیزی سے پایہ تکمیل تک پہنچا سکتی ہے۔
یہاں کے شہری اب بھی ان سے یہ توقع رکھے ہوئے ہیں کہ وہ بہت جلد انھیں ٹوٹی پھوٹی، بھیڑ بکریوں کی طرح انسانوں سے بھری بسوں میں ذلت و خواری کے سفر سے نجات دلانے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں گے۔ لہٰذا حکومت لاہور کی طرح کراچی کو بھی ہنگامی بنیادوں پر جدید ٹرانسپورٹ سہولیات فراہم کرنے میں اب مزید کسی مصلحت کو آڑے نہ آنے دے، کہیں ایسا نہ ہو کراچی کے معصوم شہری انتظار کرتے کرتے، سردی گرمی میں سواری کے لیے رُلتے رُلتے اس حکومت کے لیے اپنی نیک خواہشات کھو بیٹھیں۔
کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود ِ پشیماں کا پشیماں ہونا
اب ان کی زندگی جدید دور میں ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے میٹرو اورنج لائن ٹرین سے بھی آراستہ ہوجائے گی، لاہور بھی دنیا کے ان گنتی کے چند ترقی یافتہ شہروں نیویارک، لندن، پیرس، ٹوکیو وغیرہ کی صف میں شامل ہو جائے گا جہاں میٹرو ٹرینیں شہر میں تیزی سے ادھر سے اُدھر جسم میں خون کی مانند دوڑتی پھرتی ہیں۔ اورنج لائن ٹرین جیسی نایاب نعمت جو ترقی یافتہ ممالک کے بھی صرف بیالیس شہروں میں ہی دستیاب ہے، اب انشااللہ دو سال کے مختصر عرصے میں لاہور کے شہریوں کی زندگی کا بھی حصہ بن جائے گی۔
یقینا ان میگا پروجیکٹس کے خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے انتھک کام کرنے پر حکومت پنجاب اور وفاق دونوں ڈھیروں مبارکباد کے مستحق ہیں جن کی ذاتی دلچسپی اور لوگوں کی تکلیفوں کو محسوس کرنے کی وجہ سے ہی یہ منصوبے مکمل ہو سکے۔ میں لاہور کے شہریوں کو بھی میٹرو بس کے بعد اب اورنج لائن جیسی قیمتی، ناقابل یقین سہولت حاصل ہونے پر دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
انھیں یقینا اپنی اس ہمدرد، متحرک قیادت کی قدر اور اللہ کے بعد ان کا شکرگزار ہونا چاہیے۔مگر جہاں میں لاہور کے اپنے ان دوستوں کے لیے اس باوقار اورنج لائن ٹرین کے لیے بہت خوش ہوں، ان کے لیے نیک خواہشات دل میں رکھتا ہوں، وہیں ہم کراچی والوں کے دل میں اس کی تعمیرکے اعلان کے ساتھ ہی احساس محرومی میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ کراچی کے شہریوںکو یہ امید تھی کہ لاہور اور اسلام آباد کے بعد اب یقینا پہلے کراچی میں میٹرو بس چلے گی اس کے بعد کہیں اورکچھ ہو گا۔
لیکن ایسا نہ ہوا۔ پاکستان کے سب سے بڑے، گنجان آباد شہر ہونے کے ناتے یہاں کے شہریوں کو درپیش ٹرانسپورٹ کے گھمبیر مسائل کی بناء پر اب اس شہر کا یہ حق تھا کہ پہلے اس کی پبلک ٹرانسپورٹ کی مخدوش حالت کچھ سدھاری جاتی، اس کی مشکلات کچھ کم کی جاتیں، کم از کم اسے بھی لاہور اور اسلام آباد کے معیار کے برابر لایا جاتا مگر ایسا نہ ہوا۔ گھر کا سربراہ ہونے کے ناتے وزیر ِ اعظم کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ اپنے تمام بچوں (شہروں) کے ساتھ برابری کا سلوک کریں، انھیں درپیش مشکلات کا ادراک کر کے ان کے حل کے لیے اقدامات کریں۔
یہ درست ہے کہ ان میگا پراجیکٹس کو عملی شکل دینے میں وزیراعلیٰ پنجاب کا بہت بڑا ہاتھ ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ اگر وزیراعظم چاہیں تو پنجاب کے علاوہ دوسرے صوبوں کے اہم شہروں کے لیے بھی بہت کچھ کرسکتے ہیں خصوصاً کراچی جیسے مسائل سے بھرے شہرکے لیے ۔
کہاں ایک طرف پنجاب کے خوش نصیب شہریوں کے قدموں میں دنیا کی جدید ترین پبلک ٹرانسپورٹ سروسز او کہاں ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ کی آبادی والے کاروباری سرگرمیوں سے بھر پور شہر کے لوگوں کے نصیب میں فقط صبح شام کے دھکے، عزتِ نفس مجروح کرنے والی سیاہ دھواں چھوڑتی، شور مچاتی، کھٹارا بسیں اور ان کے بد اخلاق، بدزبان ڈرائیور اور کنڈیکٹر۔ جن کے ہمراہ ہماری مائیں بہنیں، بیٹیاں غیر مہذب ماحول میں رنگ برنگے مردوں کی نگاہوں کو جھیلتے، ان سے ٹکراتے ہوئے سفرکرنے پر مجبور ہیں۔ کیا ٹرانسپورٹ مافیا کی دھونس دھمکیوں کا شکار، بسوں کی چھتوں پر سامان کی طرح لدے مجبورکراچی کے شہریوں کا کوئی پرسان ِ حال، کوئی ہمدرد نہیں؟ کیا ان کی تکلیف کو محسوس کرنے والا کوئی نہیں؟ کیا ان کا قصور صرف اتنا ہے کہ یہ پنجاب یا لاہور کے شہری نہیں...؟
کراچی، جہاں سفید پوش لوگ پہلے ہی ظلم و زیادتی کی چکی میں پسے ہوئے ہیں، جو اس مہنگائی کے دور میں زندہ رہنے کی خاطر پانی تک منہ مانگے داموں خریدنے پر مجبور ہیں، جن کے کئی گھنٹے روزانہ اور آمدنی کا بڑا حصہ اس تباہ حال ٹرانسپورٹ پر آمد و رفت پر ہی خرچ ہو جاتا ہے۔ جن کی نگاہیںکئی ماہ سے وزیرِ اعظم کی راہ تک رہی ہیں کہ کب وہ کراچی کے لیے بھی جدید سفری سہولیات مہیا کرنے کے لیے احکامات جاری کریں گے۔
2013ء کے انتخابات کی الیکشن مہم کے دوران شہباز شریف نے بھی کراچی آمد پر اعلان کیا تھا کہ ان کی حکومت آنے کے دو سال کے اندر کراچی میں میٹرو بس چلا دی جائے گی۔ مگر چلانا تو درکنار، ڈھائی سال گزرنے جانے کے باوجود اب تک اس کا تعمیراتی کام بھی شروع نہ ہو سکا۔
لاہور کے بعد کراچی کے بجائے راولپنڈی، اسلام آباد میٹروبس مکمل کرنے پر ساری توانائی صرف کر دی گئی، جس کی افتتاحی تقریب میں وزیر ِ اعظم نے ایک بار پھر اعلان کرتے ہوئے کراچی والوں کو دلاسا دیا کہ اب بہت جلد کراچی میں بھی میٹروبس چلائی جائے گی۔ اس بات کو بھی کئی ماہ گزر گئے مگر کراچی تو نہیں البتہ ملتان میں ضرور میٹرو بس کی تعمیر شروع کر دی گئی۔
کچھ عرصے بعد بجٹ کے موقعے پر اسحاق ڈار صاحب نے پھر یہ خوشخبری سنائی کہ کراچی میٹرو بس پر کام کا آغاز اگست 2015ء میں کر دیا جائے گا اور اسے دسمبر 2016ء تک مکمل کر لیا جائے گا۔ مگر اگست تو کیا دسمبر بھی گزر گیا، لیکن اس پر کام شروع نہ ہو سکا۔ اس دوران وزیراعظم کئی بار کراچی آئے، ہر بار لوگوں کی نگاہیں ان پر جمی رہیں کہ شاید اس بار وہ کراچی میٹرو بس کا سنگِ بنیاد رکھ دیں لیکن ان کے کان یہ سننے کو ترستے ہی رہ گئے اور اب کئی ماہ بعد انھیں اورنج لائن کی نوید سنائی گئی لیکن وہ بھی کراچی کے لیے نہیں لاہور کے لیے۔
میری حکومت سے درخواست ہے کہ وہ کراچی سے کیے کم از کم اپنے میٹرو بس کے وعدے کو پورا کرنے میں مزید تاخیر نہ کریں، اسے اولین ترجیح پر رکھیں۔ کراچی کی سڑکوں پر ٹریفک اژدھام کی صورت اختیار کر چکا ہے، لوگ گھنٹوں ٹریفک جام میں لاچار و بے بس کھڑے کبھی اپنے نصیب، کبھی حکومت، کبھی ملک کو کوستے رہتے ہیں۔ وہ روزانہ صبح و شام کے اس عذاب سے نجات پانے کے لیے میٹرو بس جیسے کسی متبادل کے شدت منتظر ہیں۔ اس بدحال پبلک ٹرانسپورٹ اور ٹریفک نظام کی وجہ سے ان کے اعصاب پر پڑنے والے دباؤ سے نفسیاتی مسائل میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، لوگ جسمانی اور ذہنی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں، وقت پر اسپتال نہ پہنچنے کے سبب مریض ایمبولینس میں ہی دم توڑ جاتے ہیں۔
کراچی کے عوام نے وزیرِ اعظم نوازشریف سے ان کی بہتر کارکردگی کی وجہ سے بہت سی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس حکومت نے دہشت گردی اور کراچی میں امن وامان قائم کرنے جیسے پیچیدہ اور دیرینہ مسائل حل کرنے میں حوصلہ افزاء کامیابی حاصل کی ہے، لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی کے جن کو بھی کافی حد تک قابو کیا ہے، اگر یہ حکومت کراچی کو درپیش ٹرانسپورٹ کے مسئلے کو بھی سنجیدگی سے حل کرنا چاہے تو یقینا یہاں میٹرو بس اور اورنج لائن جیسے منصوبے بھی تیزی سے پایہ تکمیل تک پہنچا سکتی ہے۔
یہاں کے شہری اب بھی ان سے یہ توقع رکھے ہوئے ہیں کہ وہ بہت جلد انھیں ٹوٹی پھوٹی، بھیڑ بکریوں کی طرح انسانوں سے بھری بسوں میں ذلت و خواری کے سفر سے نجات دلانے کے لیے ٹھوس اقدامات کریں گے۔ لہٰذا حکومت لاہور کی طرح کراچی کو بھی ہنگامی بنیادوں پر جدید ٹرانسپورٹ سہولیات فراہم کرنے میں اب مزید کسی مصلحت کو آڑے نہ آنے دے، کہیں ایسا نہ ہو کراچی کے معصوم شہری انتظار کرتے کرتے، سردی گرمی میں سواری کے لیے رُلتے رُلتے اس حکومت کے لیے اپنی نیک خواہشات کھو بیٹھیں۔
کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود ِ پشیماں کا پشیماں ہونا