وہ عظیم لوگ جو اِس برس ہم سے جدا ہوگئے
کیا ہم نے سود و زیاں کا دفتر کھول کر دیکھا ہے کہ جانے والے برس ہم نے کیا کھویا کیا پایا۔
PESHAWAR:
آمدِ دسمبر کے ساتھ ہی یادوں کے شجر پر دکھوں کے برگ اور مصائب کا بار اپنے رنگ دکھانے لگتا ہے جو اداسی و ویرانی دسمبر سے منسوب ہے کسی اور مہینے سے نہیں ہے۔ کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا کہ دسمبر کا ماہ تکالیف و آلام سے عبارت ہے کہ،
مگر پھر سوچتا ہوں کہ وقت تو سب خدا کا پیدا کردہ ہے۔ سب مہینے ہی خدا کے ہیں۔ پھر اس ایک مہینے سے اس قدر بیر کیوں؟ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح بڑے اداروں میں سال کے اختتام پر ''آڈٹ'' کیا جاتا ہے بالکل اسی طرح دسمبر بھی ہمارے لئے آڈٹ کا مہینہ ہے۔ یہ مہینہ خود بینی کا ہے اس میں اپنی ذات کا آڈٹ کیا جاتا ہے اور سال کا آخری سورج غروب ہونے تک جان یونہی صلیب پر لٹکی رہتی ہے۔ پورا سال کسی دیکھی، اَن دیکھی فلم کی طرح نظروں کے سامنے گھومنے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سال کی آخری گھڑیاں اُس سانپ کی معیت میں گزرتی ہیں جو تلخ و کڑوی، خوشگوار و یادگار یادوں کا روپ دھارے آن موجود ہوتا ہے اورپل پل ڈسنے لگتا ہے۔
اب دیگر سالوں کی طرح 2015ء اپنے اختتام کی جانب رواں دواں ہے۔ چند ہی ساعتوں میں 2016ء کا سورج طلوع ہو جائے گا، مگر عابیؔ مکھنوی کا یہ گلہ اپنی جگہ موجود رہے گا کہ،
محض ایک ہندسے کے فرق کو ہم زمین و آسمان کا فرق سمجھ لیتے ہیں۔ حالانکہ اس میں کچھ بھی نیا نہیں ہوتا۔ عمومی طور پر فیض احمد فیضؔ سے منسوب کی جانے والی فیضؔ لدھیانوی کی ایک نظم اس حوالے سے بہت بر محل ہے کہ،
جس سال کے آنے سے ہمارے شب و روز میں کوئی تبدیلی نہیں آنی پھر اس کی آمد پر اس قدر شادیانے کیوں بجائے جا رہے ہیں؟ کیا ہم نے سود و زیاں کا دفتر کھول کر دیکھا ہے کہ ہم نے کیا کھویا کیا پایا۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ یہ سال ہماری جھولی میں بہت سی خوشیاں بھی دے کر جارہا ہے مگر یہ ہم سے ایسی قیمتی چیزیں بھی چھین کر لے گیا کہ جن کا مداوا کبھی بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے کتنے ہی پیارے تھے جو چلے گئے، کتنی ہی اہم ادبی و اہم شخصیات ہمیں چھوڑ کر چلی گئیں کہ جن کا ہمیں کوئی اندازہ بھی نہیں۔ یہ لوگ جو چلے گئے ہمارے ملک کا وہ قیمتی سرمایہ تھے جنہیں کبھی نہیں بھلایا جاسکتا۔ جن کی کمی کبھی پوری نہیں کی جاسکتی۔
23 فروری کو اس سال ہم سے ایک انتہائی معتبر شخصیت جسٹس (ر) رانا بھگوان داس بچھڑ گئے۔ جسٹس رانا بھگوان داس پاکستان کے پہلے ہندو چیف جسٹس ہونے کے علاوہ ایک انتہائی اعلیٰ ادبی ذوق کی شخصیت کے حامل تھے۔ انتہائی سادہ مزاج انسان تھے۔
ان کے بارے میں مشہور تھا کہ اگرچہ وہ خود مسلمان نہیں تھے لیکن ہمیشہ دوسروں کے نماز روزے کا خیا ل رکھتے تھے۔ ان کی ایک نعت سرورکائنات صلی اللہ علیہ وآل وسلم سے ان کی عقیدت کا منہ بولتا ثبوت ہے ،
اس کے بعد اپریل کے مہینے میں ملک کی معروف اور بائیں بازو کے نظریات کی حامل ممتاز سماجی کارکن سبین محمود کو نہایت بے رحمی سے فائرنگ کر کے قتل کردیا گیا۔ اس کے چند روز بعد ہی وفاقی اردو یونیورسٹی اور جامعہ کراچی کے پروفیسر ڈاکٹر وحید الرحمان کو قتل کر دیا گیا۔ یہ دونوں افراد ان شخصیات میں سے تھے کہ جنہوں نے کبھی نظریاتی اختلاف کو شخصی اختلاف نہیں بننے دیا۔ یہ نہایت خاموشی سے اپنا کام کر رہے تھے مگر ظالموں کو یہ چراغ بھی برداشت نہ ہوئے اور ان دونوں کو یکے بعد دیگرے بے رحمی سے کراچی میں قتل کر دیا گیا۔
جولائی کے مہینے میں مشہور ناول نگار عبداللہ حسین کی رحلت نے پاکستان کی کئی نسلوں کو اداس کر دیا۔ عبداللہ حسین کا شمار ان ناول نگاروں میں ہوتا تھا۔ جنہوں نے بہت کم لیکن بہت اعلیٰ پائے کا کام کیا۔
اس کے بعد اگست کے مہینے میں ایک ایسی شخصیت ہم سے جدا ہوئی جو اگرچہ ادبی نہیں تھی مگر وہ کسی طور بھی ادبی شجر سے کم نہیں تھی اور یہ شخصیت جنرل (ر) حمید گل کی تھی جو سراپہ پاکستان تھے۔ جذبہ اسلام سے موجزن، وطن کی محبت سے سرشار جنرل صاحب اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔
اکتوبر کے مہینے میں جسٹس (ر) جاوید اقبال طویل علالت کے بعد اس دنیا کو خیر باد کہہ گئے۔ ریٹائرڈ جج اور سماجی سر گرمیوں کے علاوہ بھی آپ کی بہت سی خدمات ہیں اور علامہ اقبال کا فرزند ہونے کے علاوہ بھی آپ کے بہت سے حوالے تھے لیکن آپ کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ آپ کے نظریات سے اختلاف کیا جا سکتا تھا مگر آپ کی شخصیت سے نہیں۔
17 نومبر کو کراچی ایئر پورٹ پر جھنگ کا ایک بہت بڑا ادبی نام اشتیاق احمد صاحب اس جہاں سے رخصت ہوا۔
اس کے چند دن بعد ہی یعنی 23 نومبر کو عندلیبِ چمن پاکستان جمیل الدین عالی جو پاکستان کی آواز تھے، اپنے چاہنے والوں کو اداس چھوڑ گئے.
اورجاتے جاتے یہ سال آخر میں ہم سے کمال احمد رضوی صاحب ایسا باکمال فنکار بھی چھین کر لے گیا۔
یہ سال کی چند چیدہ چیدہ ادبی شخصیات کا ذکر ہے کہ جو اس سال میں ہم سے جدا ہو گئیں۔ مگر اب ذرا حساب کیجیئے کہ ہماری قبا پر مرصع یہ موتی اگر یونہی گرتے رہے تو ہم کل کو کیا کریں گے۔ اگرچہ اجل سے کسی کو مفر نہیں ہے، موت تو سب کو آکر رہنی ہے مگر کیا ہم نے کبھی سوچا کہ یہ سب مذکورہ شخصیات ایسی کیوں تھیں کہ جن پر یہ گمان ہوتا ہے کہ وہ اپنے اپنے قبیلے کے آخری فرد تھے۔ ان کے بعد ایسے لوگوں کا ملنا نا ممکن ہے۔ اگرچہ ابھی بھی کچھ بزرگ ہستیوں مثلاً بانو قدسیہ، مشتاق احمد یوسفی، فاطمہ ثریا بجیا، انتظار حسین، زہرا نگاہ، ظفر اقبال، انور مسعود اورانور مقصود کے باعث ہمارے چمن ادب میں کچھ بہار قائم ہے مگر ان ہستیوں کا ازالہ کسی طور بھی ممکن نہیں ہے۔
عبداللہ حسین کی وفات اس قوم کے لئے ایک بڑا ادبی حادثہ ہے مگر اصل سانحہ عبداللہ حسین کی تدفین میں گنتی کے 6 لوگو ں کی شمولیت ہے۔ المیہ یہ نہیں کہ اشتیاق احمد صاحب اس دنیا سے گذر گئے، المیہ تو یہ ہے کہ ملک کے سب سے بڑی جاسوسی ناول نگار نے ترکے میں کیا چھوڑا ہے؟
ہمارے زوال و انحطاط کی ایک بڑی وجہ اپنے اصل محسنوں اور ہیروز سے نا واقفیت ہے۔ خود ساختہ رہنماؤں کو ہم معبودیت کا درجہ دیتے بھی نہیں تھکتے۔ مگر اُن لوگوں کو جن پر بجا طور پر ناز کیا جاسکتا ہے۔ انہیں ہم گمنامی کے گڑھوں میں دھکیل دیتے ہیں، ان سے ایسا سلوک روا رکھتے ہیں کہ باقیوں کے لئے بھی نشان عبرت ہوتا ہے۔ اُس معاشرے میں زوال کے لئے اور کیا اتمامِ حجت ہو کہ جہاں پر ادیب کے گھر میں رات کو چولہا نہیں جلتا۔ لوگوں کے ذہنوں میں سوچ و فکر بھرنے والا اپنے گھرمیں گندم بھرنے سے عاجز رہتا ہے۔ 2014ء میں اپنے ناول کی پچاسویں سالگرہ پر عبداللہ حسین نے کہا تھا کہ،
جس معاشرے میں سیاست سب سے کامیاب اور ادب سب سے ناکام پیشہ ہو اس معاشرے کا حال یہی ہوتا ہے جو آج ہمارا ہے۔ اگر نااہل لوگ ہم پر مسلط ہیں تو محض اس سبب کہ ہم نے انہیں رستہ دیا۔ ہم نے اپنے ان مشاہیر کو جو ہماری رہبری کرسکتے تھے، پیچھے دھکیل دیا جس کے نتیجے میں یہ خلا مفاد پرستوں نے پورا کیا۔ ہمارے پاس اب گلہ کرنے کا کوئی جواز نہیں۔
ہمیں یہ تو پتہ ہوگا کہ کس سیاستدان کی کتنی جاگیر ہے۔ لیکن یہ نہیں علم ہوگا کہ کس شاعر، کس ادیب کا کل مال و متاع کتنا ہے۔ جنت سے جون ایلیا کا انور مقصود کے نام خط لکھتے ہوئے انور مقصود کا محض ایک جملہ ہی پوری پاکستانی قوم کے منہ پر ایک طمانچہ ہے کہ،
یہ جملہ ہی بتانے کو کافی ہے کہ ہمارے ہاں ادیبوں کو کس قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ شاید ہی کوئی خوش نصیب ادیب ہوگا کہ جسے اس کی کتابوں کی باقاعدہ اور مقررہ رائلٹی یکمشت ملتی ہوگی وگرنہ، نہ تو رائلٹی باقاعدہ ملتی ہے، نہ مقررہ ملتی ہے اور نہ ہی یکمشت ملتی ہے۔ اس معاشرے میں جالبؔ جیسے شاعر بھوکوں مرگئے، ساغرؔ کو کسی نے مڑ کو پوچھا تک نہیں، فیض ؔکو زندانوں میں دھکیل دیا گیا اور قصیدہ خوانوں کو ۔۔۔۔۔ ایک عہدے کے بعد دوسراعہدہ دے کر نوازا جاتا ہے۔ حقیقی قلمکاروں کو نہ معاشرے میں عزت ملتی ہے، نہ مقام ملتا ہے، نہ ان کا جائز حق ملتا ہے اور نہ ہی کسی قسم کی ان کی کوئی معاونت کی جاتی ہے۔معاشرے کو حقیقت کا آئینہ دکھانے والوں کو کبھی غدار اور کبھی ملحد کہا جاتا ہے۔ ایسے ہی موقع پر بھارت کی مشہور شاعرہ ڈاکٹر نزہت انجم نے کہا تھا کہ،
کوئی بھی ادیبوں، قلمکاروں کے غم میں شریک ہونے کو نہیں آتا، ان فاقہ کشوں کی بھوک کوئی نہیں مٹاتا مگر ان پر تنقید کے نشتر برسانے، ان پر پتھر اٹھانے کے لئے سب تیار رہتے ہیں۔ اس قوم کے پاس اتنی فرصت نہیں تھی کہ وہ عبداللہ حسین کے جنازے کو کاندھا دے سکے۔ مگر میں ابھی دعوے سے کہتا ہوں کہ اگلے سال دیکھیئے گا، عبداللہ حسین کی برسی پوری دھوم دھام سے منائی جائے گی۔ ہر کوئی انہیں خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لئے بیتاب نظر آئے گا کہ جسے قبر میں اتارنے کے لئے چار ذاتی ملازموں کے سوا کوئی نہ تھا۔
مجھے کہنے دیجئے کہ ہم بحیثیت مجموعی قبر پرست اور مردہ پرست قوم ہیں۔ اب بھی ہمارے دامن میں جو لعل و گوہر ہیں ہم ان کی قدر نہیں کریں گے مگر جب وہ اس دنیا میں نہیں رہیں گے، ہم ان کے وفات کو ایک بڑا المیہ کہیں گے، ان پر نوحے کہیں گے مگر ان کی زندگی میں انہیں مقام نہیں دیں گے۔ نجانے کیوں مجھے لگتا ہے کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ جب ایک فاقہ زدہ ادیب کی برسی منائی جا رہی ہوگی تو پسِ پشت ڈالی گئی اپنی قدِ آدم تصویر سے نکل کر وہ اس قوم سے سوال کرے گا کہ
[poll id="855"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
آمدِ دسمبر کے ساتھ ہی یادوں کے شجر پر دکھوں کے برگ اور مصائب کا بار اپنے رنگ دکھانے لگتا ہے جو اداسی و ویرانی دسمبر سے منسوب ہے کسی اور مہینے سے نہیں ہے۔ کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا کہ دسمبر کا ماہ تکالیف و آلام سے عبارت ہے کہ،
د:دکھ
س:سرگشتگی
م:مصائب
ب:بلیات
ر:رنج
مگر پھر سوچتا ہوں کہ وقت تو سب خدا کا پیدا کردہ ہے۔ سب مہینے ہی خدا کے ہیں۔ پھر اس ایک مہینے سے اس قدر بیر کیوں؟ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح بڑے اداروں میں سال کے اختتام پر ''آڈٹ'' کیا جاتا ہے بالکل اسی طرح دسمبر بھی ہمارے لئے آڈٹ کا مہینہ ہے۔ یہ مہینہ خود بینی کا ہے اس میں اپنی ذات کا آڈٹ کیا جاتا ہے اور سال کا آخری سورج غروب ہونے تک جان یونہی صلیب پر لٹکی رہتی ہے۔ پورا سال کسی دیکھی، اَن دیکھی فلم کی طرح نظروں کے سامنے گھومنے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سال کی آخری گھڑیاں اُس سانپ کی معیت میں گزرتی ہیں جو تلخ و کڑوی، خوشگوار و یادگار یادوں کا روپ دھارے آن موجود ہوتا ہے اورپل پل ڈسنے لگتا ہے۔
اب دیگر سالوں کی طرح 2015ء اپنے اختتام کی جانب رواں دواں ہے۔ چند ہی ساعتوں میں 2016ء کا سورج طلوع ہو جائے گا، مگر عابیؔ مکھنوی کا یہ گلہ اپنی جگہ موجود رہے گا کہ،
نتیجہ پھر وہی ہوگا، سنا ہے چال بدلے گا
پرندے بھی وہی ہونگے، شکاری جال بدلے گا
محض ایک ہندسے کے فرق کو ہم زمین و آسمان کا فرق سمجھ لیتے ہیں۔ حالانکہ اس میں کچھ بھی نیا نہیں ہوتا۔ عمومی طور پر فیض احمد فیضؔ سے منسوب کی جانے والی فیضؔ لدھیانوی کی ایک نظم اس حوالے سے بہت بر محل ہے کہ،
اے نئے سال بتا تجھ میں نیا پن کیا ہے
ہر طرف خلق نے کیوں شور مچا رکھا ہے
روشنی دن کی وہی، تاروں بھری رات وہی
آج ہم کو نظر آتی ہے ہر اک بات وہی
آسمان بدلا پے افسوس، نہ بدلی ہے زمین
ایک ہندسے کا بدلنا کوئی جدت تو نہیں
اگلے برس کی طرح ہوں گے قرینے تیرے
کسے معلوم نہیں بارہ مہینے تیرے
جنوری، فروری اور مارچ میں پڑے گی سردی
اور اپریل، مئی، جون میں ہو گی گرمی
انسان دھر میں کچھ کھوئے گا کچھ پائے گا
اپنی معیاد ختم کر کے چلا جائے گا
تو نیا ہے تو دکھلا صبح نئی شام نئی
ورنہ ان آنکھوں نے دیکھے ہیں نئے سال کئی
بے سبب دیتے ہیں کیوں لوگ مبارکبادیں
غالباً بھول گئے ہیں وقت کی کڑوی یادیں
تیری آمد سے گھٹے عمر جہاں میں سب کی
فیضؔ نے لکھی ہے یہ نظم نرالے ڈھب کی
جس سال کے آنے سے ہمارے شب و روز میں کوئی تبدیلی نہیں آنی پھر اس کی آمد پر اس قدر شادیانے کیوں بجائے جا رہے ہیں؟ کیا ہم نے سود و زیاں کا دفتر کھول کر دیکھا ہے کہ ہم نے کیا کھویا کیا پایا۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ یہ سال ہماری جھولی میں بہت سی خوشیاں بھی دے کر جارہا ہے مگر یہ ہم سے ایسی قیمتی چیزیں بھی چھین کر لے گیا کہ جن کا مداوا کبھی بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے کتنے ہی پیارے تھے جو چلے گئے، کتنی ہی اہم ادبی و اہم شخصیات ہمیں چھوڑ کر چلی گئیں کہ جن کا ہمیں کوئی اندازہ بھی نہیں۔ یہ لوگ جو چلے گئے ہمارے ملک کا وہ قیمتی سرمایہ تھے جنہیں کبھی نہیں بھلایا جاسکتا۔ جن کی کمی کبھی پوری نہیں کی جاسکتی۔
- جسٹس (ر) رانا بھگوان داس
23 فروری کو اس سال ہم سے ایک انتہائی معتبر شخصیت جسٹس (ر) رانا بھگوان داس بچھڑ گئے۔ جسٹس رانا بھگوان داس پاکستان کے پہلے ہندو چیف جسٹس ہونے کے علاوہ ایک انتہائی اعلیٰ ادبی ذوق کی شخصیت کے حامل تھے۔ انتہائی سادہ مزاج انسان تھے۔
ان کے بارے میں مشہور تھا کہ اگرچہ وہ خود مسلمان نہیں تھے لیکن ہمیشہ دوسروں کے نماز روزے کا خیا ل رکھتے تھے۔ ان کی ایک نعت سرورکائنات صلی اللہ علیہ وآل وسلم سے ان کی عقیدت کا منہ بولتا ثبوت ہے ،
نبی مکرم شنہشاہ عالیﷺ
بہ اوصافِ ذاتی و شانِ کمالی
جمالِ دو عالم تری ذاتِ عالی
دو عالم کی رونق تری خوش جمالی
خدا کا جو نائب ہوا ہے یہ انساں
یہ سب کچھ ہے تیری ستودہ خصالی
- سبین محمود
اس کے بعد اپریل کے مہینے میں ملک کی معروف اور بائیں بازو کے نظریات کی حامل ممتاز سماجی کارکن سبین محمود کو نہایت بے رحمی سے فائرنگ کر کے قتل کردیا گیا۔ اس کے چند روز بعد ہی وفاقی اردو یونیورسٹی اور جامعہ کراچی کے پروفیسر ڈاکٹر وحید الرحمان کو قتل کر دیا گیا۔ یہ دونوں افراد ان شخصیات میں سے تھے کہ جنہوں نے کبھی نظریاتی اختلاف کو شخصی اختلاف نہیں بننے دیا۔ یہ نہایت خاموشی سے اپنا کام کر رہے تھے مگر ظالموں کو یہ چراغ بھی برداشت نہ ہوئے اور ان دونوں کو یکے بعد دیگرے بے رحمی سے کراچی میں قتل کر دیا گیا۔
- عبداللہ حسین
جولائی کے مہینے میں مشہور ناول نگار عبداللہ حسین کی رحلت نے پاکستان کی کئی نسلوں کو اداس کر دیا۔ عبداللہ حسین کا شمار ان ناول نگاروں میں ہوتا تھا۔ جنہوں نے بہت کم لیکن بہت اعلیٰ پائے کا کام کیا۔
- حمید گل
اس کے بعد اگست کے مہینے میں ایک ایسی شخصیت ہم سے جدا ہوئی جو اگرچہ ادبی نہیں تھی مگر وہ کسی طور بھی ادبی شجر سے کم نہیں تھی اور یہ شخصیت جنرل (ر) حمید گل کی تھی جو سراپہ پاکستان تھے۔ جذبہ اسلام سے موجزن، وطن کی محبت سے سرشار جنرل صاحب اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔
- جسٹس (ر) جاوید اقبال
اکتوبر کے مہینے میں جسٹس (ر) جاوید اقبال طویل علالت کے بعد اس دنیا کو خیر باد کہہ گئے۔ ریٹائرڈ جج اور سماجی سر گرمیوں کے علاوہ بھی آپ کی بہت سی خدمات ہیں اور علامہ اقبال کا فرزند ہونے کے علاوہ بھی آپ کے بہت سے حوالے تھے لیکن آپ کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ آپ کے نظریات سے اختلاف کیا جا سکتا تھا مگر آپ کی شخصیت سے نہیں۔
- اشتیاق احمد
17 نومبر کو کراچی ایئر پورٹ پر جھنگ کا ایک بہت بڑا ادبی نام اشتیاق احمد صاحب اس جہاں سے رخصت ہوا۔
- جمیل الدین عالی
اس کے چند دن بعد ہی یعنی 23 نومبر کو عندلیبِ چمن پاکستان جمیل الدین عالی جو پاکستان کی آواز تھے، اپنے چاہنے والوں کو اداس چھوڑ گئے.
- کمال احمد رضوی
اورجاتے جاتے یہ سال آخر میں ہم سے کمال احمد رضوی صاحب ایسا باکمال فنکار بھی چھین کر لے گیا۔
یہ سال کی چند چیدہ چیدہ ادبی شخصیات کا ذکر ہے کہ جو اس سال میں ہم سے جدا ہو گئیں۔ مگر اب ذرا حساب کیجیئے کہ ہماری قبا پر مرصع یہ موتی اگر یونہی گرتے رہے تو ہم کل کو کیا کریں گے۔ اگرچہ اجل سے کسی کو مفر نہیں ہے، موت تو سب کو آکر رہنی ہے مگر کیا ہم نے کبھی سوچا کہ یہ سب مذکورہ شخصیات ایسی کیوں تھیں کہ جن پر یہ گمان ہوتا ہے کہ وہ اپنے اپنے قبیلے کے آخری فرد تھے۔ ان کے بعد ایسے لوگوں کا ملنا نا ممکن ہے۔ اگرچہ ابھی بھی کچھ بزرگ ہستیوں مثلاً بانو قدسیہ، مشتاق احمد یوسفی، فاطمہ ثریا بجیا، انتظار حسین، زہرا نگاہ، ظفر اقبال، انور مسعود اورانور مقصود کے باعث ہمارے چمن ادب میں کچھ بہار قائم ہے مگر ان ہستیوں کا ازالہ کسی طور بھی ممکن نہیں ہے۔
عبداللہ حسین کی وفات اس قوم کے لئے ایک بڑا ادبی حادثہ ہے مگر اصل سانحہ عبداللہ حسین کی تدفین میں گنتی کے 6 لوگو ں کی شمولیت ہے۔ المیہ یہ نہیں کہ اشتیاق احمد صاحب اس دنیا سے گذر گئے، المیہ تو یہ ہے کہ ملک کے سب سے بڑی جاسوسی ناول نگار نے ترکے میں کیا چھوڑا ہے؟
ہمارے زوال و انحطاط کی ایک بڑی وجہ اپنے اصل محسنوں اور ہیروز سے نا واقفیت ہے۔ خود ساختہ رہنماؤں کو ہم معبودیت کا درجہ دیتے بھی نہیں تھکتے۔ مگر اُن لوگوں کو جن پر بجا طور پر ناز کیا جاسکتا ہے۔ انہیں ہم گمنامی کے گڑھوں میں دھکیل دیتے ہیں، ان سے ایسا سلوک روا رکھتے ہیں کہ باقیوں کے لئے بھی نشان عبرت ہوتا ہے۔ اُس معاشرے میں زوال کے لئے اور کیا اتمامِ حجت ہو کہ جہاں پر ادیب کے گھر میں رات کو چولہا نہیں جلتا۔ لوگوں کے ذہنوں میں سوچ و فکر بھرنے والا اپنے گھرمیں گندم بھرنے سے عاجز رہتا ہے۔ 2014ء میں اپنے ناول کی پچاسویں سالگرہ پر عبداللہ حسین نے کہا تھا کہ،
''جب سے اداس نسلیں لکھا گیا ہے، اس وقت سے اس ناول کی خوش قسمتی، مگر ہماری بدقسمتی کہ ہر نسل اداس سے اداس تر ہوتی جا رہی ہے''۔
جس معاشرے میں سیاست سب سے کامیاب اور ادب سب سے ناکام پیشہ ہو اس معاشرے کا حال یہی ہوتا ہے جو آج ہمارا ہے۔ اگر نااہل لوگ ہم پر مسلط ہیں تو محض اس سبب کہ ہم نے انہیں رستہ دیا۔ ہم نے اپنے ان مشاہیر کو جو ہماری رہبری کرسکتے تھے، پیچھے دھکیل دیا جس کے نتیجے میں یہ خلا مفاد پرستوں نے پورا کیا۔ ہمارے پاس اب گلہ کرنے کا کوئی جواز نہیں۔
ہمیں یہ تو پتہ ہوگا کہ کس سیاستدان کی کتنی جاگیر ہے۔ لیکن یہ نہیں علم ہوگا کہ کس شاعر، کس ادیب کا کل مال و متاع کتنا ہے۔ جنت سے جون ایلیا کا انور مقصود کے نام خط لکھتے ہوئے انور مقصود کا محض ایک جملہ ہی پوری پاکستانی قوم کے منہ پر ایک طمانچہ ہے کہ،
''میں اردو ادب کی تاریخ کا وہ واحد شاعر ہوں جو 80 لاکھ کیش چھوڑ کے یہاں آیا ہوں''۔
یہ جملہ ہی بتانے کو کافی ہے کہ ہمارے ہاں ادیبوں کو کس قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ شاید ہی کوئی خوش نصیب ادیب ہوگا کہ جسے اس کی کتابوں کی باقاعدہ اور مقررہ رائلٹی یکمشت ملتی ہوگی وگرنہ، نہ تو رائلٹی باقاعدہ ملتی ہے، نہ مقررہ ملتی ہے اور نہ ہی یکمشت ملتی ہے۔ اس معاشرے میں جالبؔ جیسے شاعر بھوکوں مرگئے، ساغرؔ کو کسی نے مڑ کو پوچھا تک نہیں، فیض ؔکو زندانوں میں دھکیل دیا گیا اور قصیدہ خوانوں کو ۔۔۔۔۔ ایک عہدے کے بعد دوسراعہدہ دے کر نوازا جاتا ہے۔ حقیقی قلمکاروں کو نہ معاشرے میں عزت ملتی ہے، نہ مقام ملتا ہے، نہ ان کا جائز حق ملتا ہے اور نہ ہی کسی قسم کی ان کی کوئی معاونت کی جاتی ہے۔معاشرے کو حقیقت کا آئینہ دکھانے والوں کو کبھی غدار اور کبھی ملحد کہا جاتا ہے۔ ایسے ہی موقع پر بھارت کی مشہور شاعرہ ڈاکٹر نزہت انجم نے کہا تھا کہ،
سچ کو سچ کہہ دیا تھا اسی پر
میرے پیچھے زمانہ پڑا ہے
کوئی بھی ادیبوں، قلمکاروں کے غم میں شریک ہونے کو نہیں آتا، ان فاقہ کشوں کی بھوک کوئی نہیں مٹاتا مگر ان پر تنقید کے نشتر برسانے، ان پر پتھر اٹھانے کے لئے سب تیار رہتے ہیں۔ اس قوم کے پاس اتنی فرصت نہیں تھی کہ وہ عبداللہ حسین کے جنازے کو کاندھا دے سکے۔ مگر میں ابھی دعوے سے کہتا ہوں کہ اگلے سال دیکھیئے گا، عبداللہ حسین کی برسی پوری دھوم دھام سے منائی جائے گی۔ ہر کوئی انہیں خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لئے بیتاب نظر آئے گا کہ جسے قبر میں اتارنے کے لئے چار ذاتی ملازموں کے سوا کوئی نہ تھا۔
مجھے کہنے دیجئے کہ ہم بحیثیت مجموعی قبر پرست اور مردہ پرست قوم ہیں۔ اب بھی ہمارے دامن میں جو لعل و گوہر ہیں ہم ان کی قدر نہیں کریں گے مگر جب وہ اس دنیا میں نہیں رہیں گے، ہم ان کے وفات کو ایک بڑا المیہ کہیں گے، ان پر نوحے کہیں گے مگر ان کی زندگی میں انہیں مقام نہیں دیں گے۔ نجانے کیوں مجھے لگتا ہے کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ جب ایک فاقہ زدہ ادیب کی برسی منائی جا رہی ہوگی تو پسِ پشت ڈالی گئی اپنی قدِ آدم تصویر سے نکل کر وہ اس قوم سے سوال کرے گا کہ
کریدتے ہو جو اب راکھ، جستجو کیا ہے؟
[poll id="855"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔