نواز مودی ملاقات
بھارتی وزیر اعظم کی اس غیر متوقع آمد نے پاکستانی ذرایع ابلاغ میں پنڈورا بکس کھول دیا
KANDAHAR:
جمعہ25دسمبر ان پاکستانیوں کے لیے خوشگوار حیرت کا دن تھا،جو جنوبی ایشیاء کو امن کا گہوارہ دیکھنے کا خواب کئی دہائیوں سے اپنی آنکھوں میں سجائے بیٹھے ہیں، کیونکہ اس دن جب پاکستانی عوام کرسمس کے ساتھ بابائے قوم کا یوم ولادت بھی منارہے تھے کہ اچانک ان تک یہ بریکنگ نیوز پہنچی کہ کابل سے دہلی جاتے ہوئے، بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف سے ملاقات کرنے کی غرض سے چند گھنٹوں کے لیے پاکستان آرہے ہیں۔چونکہ وزیراعظم نواز شریف اپنی نجی مصروفیات کے سلسلے میں پنجاب کے صوبائی دارالحکومت میں تھے، اس لیے اسلام آباد کے بجائے وہ لاہور پہنچ گئے ہیں۔
بھارتی وزیر اعظم کی اس غیر متوقع آمد نے پاکستانی ذرایع ابلاغ میں پنڈورا بکس کھول دیا۔ان کی لاہور آمد اور پاکستانی وزیراعظم کی جانب سے انھیں اپنی رہائش گاہ لے جانے اورمذاکرات میں قومی سلامتی کے مشیروں کو مدعو نہ کرنے پر تبصرے شروع ہوگئے حالانکہ سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری ان ملاقاتوں کے دوران موجود رہے ، لیکن وہ حلقے جو بھارت کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کے کسی بھی طور حق میں نہیں ہیں، انھوں نے وزیراعظم میاں نواز شریف پر تنقید کے تیر برسانا شروع کردیے۔ کچھ نے کہا کہ بھارتی وزیر اعظم اور ان کا وفد بغیر ویزا لیے پاکستان میں داخل ہوگیا۔ کسی نے کہا کہ میاں صاحب کو ان کی آمد کا پہلے سے علم تھا اور قومی سلامتی کے اداروں کو دانستہ ان کی آمد سے بے خبر رکھا۔ کچھ لوگوں کے خیال میں اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس کے بجائے ذاتی رہائش گاہ پر مذاکرات کا مقصد کاروباری معاملات پر گفتگو کرنا تھا۔ ملکی مفادات سے اس ملاقات کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔
مگر کسی بھی حلقے نے اس پہلو پر توجہ دینے کی کوشش نہیں کی کہBJPکی حکومت قائم ہونے کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ اور تلخیوں کا جو گھمبیر ماحول پیدا ہوگیا تھا،اس میں اچانک کمی کیوں کر واقع ہونا شروع ہوئی ہے؟ وہ بھارتی حکومت جو کشمیر سمیت دیگر تنازعات کو تسلیم کرنے سے انکار کرتی رہی ہے، خطے میں دہشت گردی کی ذمے داری اور ممبئی حملوں کے منصوبہ سازوں کی سرپرستی کا الزام پاکستان کے سر تھوپتی رہی ہے،اچانک اس کے رویوں میں تبدیلیاں کیوں آنے لگی ہیں؟اسی طرح پاکستان جو سندھ اور بلوچستان میں بھارتی مداخلت کا الزام انتہائی شدومد سے عائد کرتا رہا ہے، اس کے طرز عمل میں حالیہ دنوں میں رونماء ہونے والی تبدیلی کے اسباب کیا ہیں؟ اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی کہ عالمی سطح پر اس خطے کے حوالے سے جو پیش رفت ہوئی ہے اس کے دونوں ممالک کے منصوبہ سازوں کی سوچ پرکیا اثرات مرتب ہوئے ہیں؟
اس تناظر میں نومبر سے دسمبر کے آخری ہفتے تک ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیں، تو مودی جی کی غیر متوقع آمد، وزیر خارجہ سشما سوراج کی پاکستان یاترا اور پھر خارجہ سیکریٹریوں کی سطح پر مذاکرات کی بحالی جیسے معاملات واضح ہوکر سامنے آتے ہیں۔ بھارت کی سرکار یہ سمجھتی رہی ہے اور اب بھی اس کا یہ موقف ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کا مقصد دراصل بھارت کے اقتصادی مفادات کومحدودکرنا ہے۔ اس کے خیال میں چین پاکستان کے راستے بحیرہ عرب میں داخل ہوکر مشرق وسطیٰ اور افریقہ کی منڈیوں تک رسائی حاصل کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ دوسری طرف وہ افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں کے راستے بحیرہ کیسپین سے یورپ کی منڈیوں تک پہنچنے کی منصوبہ سازی کررہا ہے۔بھارت کی نظر میں ان منصوبوںکا مقصد اس کے معاشی مفادات اور تجارتی پھیلاؤ کو محدود کر کے اس کی معاشی ترقی کو متاثرکرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت پاک چین اقتصادی راہداری پر مختلف نوعیت کے اعتراضات اٹھا رہا ہے حالانکہ چین ایک سے زائد مرتبہ یہ واضح کرچکا ہے کہ اس راہداری کا مقصد کسی بھی طور بھارت کے معاشی مفادات کو محدود کرنا نہیں ہے۔
صورتحال کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس وقت وسط ایشیائی ممالک میں تقریباً6.4ٹریلین ٹن تیل وگیس کے ذخائر ہیں جو چین، پاکستان اور بھارت کی توانائی کی ضروریات کوکئی دہائیوں تک پورا کرسکتے ہیں۔ حال ہی میں گیس پائپ لائن کے جس معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں، وہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یہ طے ہے کہ افغانستان میں دہشت گرد عناصر کی کمر ٹوٹ جانے کے نتیجے میں سیاسی استحکام آجاتا ہے، تو وسط ایشیا سے آنے والی گیس دونوں ممالک کی صنعتی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرسکے گی۔ اس صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے کابل میں پارلیمان کی نئی عمارت کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے، نریندر مودی کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت پاکستان کو افغانستان اور جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کے درمیان ایک طاقتور پل سمجھتی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ خطے کی معاشی ترقی اور استحکام افغانستان میں سیاسی استحکام سے مشروط ہے۔
اس وقت خطے میں جو تیز رفتار پیش رفت ہو رہی ہے وہ اس لحاظ سے خوش کن ہے کہ ایک طرف امریکا اور ایران کے تعلقات میں بہتری آجانے کے باعث افغانستان کے لیے ایران کی بندرگاہ چاہ بہار تک رسائی ممکن ہوگئی ہے جب کہ دوسری طرف روس کے ساتھ تعلقات میں آنے والی بہتری کے نتیجے میں پاکستان کے لیے بحیرہ کیسپین کے ذریعے مشرقی اور شمالی یورپ تک پہنچنا آسان ہوگیا ہے۔ جو ہمارے قبائلی علاقوں سے محض17سوکلومیٹر کی مسافت پر ہے۔ افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امن وامان کی صورتحال بہتر ہوجانے کے نتیجے میں اس راستے سے وسط ایشیاء کے علاوہ مشرقی اور شمالی یورپ تک رسائی کے باعث نئی اقتصادی راہداری کھل سکتی ہے۔ جو پاکستانی معیشت کو مزید استحکام بخشنے کا سبب بن سکتی ہے۔لہٰذا اگر پاکستان اپنی جغرافیائی و تزویراتی حیثیت کو احسن طور پر استعمال کرے تو اس کے لیے علاقائی اور بین الاقوامی تجارت کی کئی راہیں کھل سکتی ہیں۔
دوسری طرف چین نے پہلی بار کشمیر کے مسئلے کو ہانگ کانگ کی طرز پر حل کرنے کا مشورہ دے کر تنازعات کو حل کرنے کے حوالے سے ایک نئی سوچ دی ہے۔ چین کے علاوہ عالمی برادری بھی یہ سمجھتی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات کا کوئی ٹھوس اور پائیدار حل نکلنا چاہیے کیونکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کسی بھی وقت جوہری جنگ کا سبب بن سکتی ہے، جو پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔چنانچہ عالمی برادری سنجیدگی کے ساتھ دونوں ممالک کو اپنے تنازعات مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر مجبورکر رہی ہے۔ یہ عالمی دباؤ ہی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان اور بھارت اس کشیدہ ماحول کو خیرباد کہہ کر نئے سفرکا آغاز کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بھارت پاک چین اقتصادی راہداری کے خلاف عالمی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس لیے اب اس کی یہ کوشش ہے کہ وہ بھی کسی نہ کسی طور اس منصوبے کا حصہ بن جائے ۔ اس کے علاوہ بھارتی منصوبہ ساز اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر بھی مجبور ہوئے ہیں کہ پاکستان کو نظر انداز کر کے نہ تو اقتصادی ترقی کے اہداف حاصل کیے جاسکتے ہیں اور نہ ہی خطے میں سیاسی استحکام ممکن ہے۔ یوں خطے کی تبدیل ہوتی صورتحال اور عالمی سوچ کے حوالے سے مودی جی کی کابل کی گئی تقریر اور ان کی سرکار کی سوچ میں رونما ہونے والی تبدیلی کوباآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔
اس تناظر میں پاکستان میں جو حلقے سرد جنگ کی نفسیات کا شکار ہیں اور پاک بھارت تعلقات کو اسی دور کی عینک سے دیکھ رہے ہیں، وہ شدید غلطی پر ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے خوشگوار تعلقات نہ صرف اس پورے خطے کی معاشی ترقی کے لیے ضروری ہیں بلکہ امن و استحکام کے اہداف کے حصول کے لیے بھی نہایت ضروری ہیں۔ عوام کا عوام سے رابطہ ہی وہ واحد طریقہ ہے، جو پیچیدہ سے پیچیدہ تنازعات کو حل کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ آج بھارت بجا طور پر اپنی ریاست کے جمہوری ہونے پر فخر کر سکتا ہے جب کہ پاکستان میں بھی ریاستی اقتدار جمہوری قوتوں کے ہاتھوں میں ہے مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ دونوں ممالک کے معاشرے ہنوز صحیح معنی میں جمہوری نہیں بن سکے ہیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری آنے کی صورت میں جنگجویانہ ذہنیت کمزور پڑے اور امن کی خوگر قوتیں مضبوط ہوں۔ لہٰذا بھارتی وزیر اعظم نرندرمودی کی لاہور آمد کو متنازع بنانے اور اپنے وزیر اعظم پر بے جا تنقیدکرنے کے بجائے تنازعات کے پرامن حل کے ذریعے خطے سے غربت ، افلاس اور تنگ دستی کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششوں کی حمایت کی جانی چاہیے، تاکہ ہمارے معاشرے بھی آگے کی جانب قدم بڑھا سکیں۔
جمعہ25دسمبر ان پاکستانیوں کے لیے خوشگوار حیرت کا دن تھا،جو جنوبی ایشیاء کو امن کا گہوارہ دیکھنے کا خواب کئی دہائیوں سے اپنی آنکھوں میں سجائے بیٹھے ہیں، کیونکہ اس دن جب پاکستانی عوام کرسمس کے ساتھ بابائے قوم کا یوم ولادت بھی منارہے تھے کہ اچانک ان تک یہ بریکنگ نیوز پہنچی کہ کابل سے دہلی جاتے ہوئے، بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف سے ملاقات کرنے کی غرض سے چند گھنٹوں کے لیے پاکستان آرہے ہیں۔چونکہ وزیراعظم نواز شریف اپنی نجی مصروفیات کے سلسلے میں پنجاب کے صوبائی دارالحکومت میں تھے، اس لیے اسلام آباد کے بجائے وہ لاہور پہنچ گئے ہیں۔
بھارتی وزیر اعظم کی اس غیر متوقع آمد نے پاکستانی ذرایع ابلاغ میں پنڈورا بکس کھول دیا۔ان کی لاہور آمد اور پاکستانی وزیراعظم کی جانب سے انھیں اپنی رہائش گاہ لے جانے اورمذاکرات میں قومی سلامتی کے مشیروں کو مدعو نہ کرنے پر تبصرے شروع ہوگئے حالانکہ سیکریٹری خارجہ اعزاز چوہدری ان ملاقاتوں کے دوران موجود رہے ، لیکن وہ حلقے جو بھارت کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کے کسی بھی طور حق میں نہیں ہیں، انھوں نے وزیراعظم میاں نواز شریف پر تنقید کے تیر برسانا شروع کردیے۔ کچھ نے کہا کہ بھارتی وزیر اعظم اور ان کا وفد بغیر ویزا لیے پاکستان میں داخل ہوگیا۔ کسی نے کہا کہ میاں صاحب کو ان کی آمد کا پہلے سے علم تھا اور قومی سلامتی کے اداروں کو دانستہ ان کی آمد سے بے خبر رکھا۔ کچھ لوگوں کے خیال میں اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس کے بجائے ذاتی رہائش گاہ پر مذاکرات کا مقصد کاروباری معاملات پر گفتگو کرنا تھا۔ ملکی مفادات سے اس ملاقات کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔
مگر کسی بھی حلقے نے اس پہلو پر توجہ دینے کی کوشش نہیں کی کہBJPکی حکومت قائم ہونے کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ اور تلخیوں کا جو گھمبیر ماحول پیدا ہوگیا تھا،اس میں اچانک کمی کیوں کر واقع ہونا شروع ہوئی ہے؟ وہ بھارتی حکومت جو کشمیر سمیت دیگر تنازعات کو تسلیم کرنے سے انکار کرتی رہی ہے، خطے میں دہشت گردی کی ذمے داری اور ممبئی حملوں کے منصوبہ سازوں کی سرپرستی کا الزام پاکستان کے سر تھوپتی رہی ہے،اچانک اس کے رویوں میں تبدیلیاں کیوں آنے لگی ہیں؟اسی طرح پاکستان جو سندھ اور بلوچستان میں بھارتی مداخلت کا الزام انتہائی شدومد سے عائد کرتا رہا ہے، اس کے طرز عمل میں حالیہ دنوں میں رونماء ہونے والی تبدیلی کے اسباب کیا ہیں؟ اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی کہ عالمی سطح پر اس خطے کے حوالے سے جو پیش رفت ہوئی ہے اس کے دونوں ممالک کے منصوبہ سازوں کی سوچ پرکیا اثرات مرتب ہوئے ہیں؟
اس تناظر میں نومبر سے دسمبر کے آخری ہفتے تک ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیں، تو مودی جی کی غیر متوقع آمد، وزیر خارجہ سشما سوراج کی پاکستان یاترا اور پھر خارجہ سیکریٹریوں کی سطح پر مذاکرات کی بحالی جیسے معاملات واضح ہوکر سامنے آتے ہیں۔ بھارت کی سرکار یہ سمجھتی رہی ہے اور اب بھی اس کا یہ موقف ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کا مقصد دراصل بھارت کے اقتصادی مفادات کومحدودکرنا ہے۔ اس کے خیال میں چین پاکستان کے راستے بحیرہ عرب میں داخل ہوکر مشرق وسطیٰ اور افریقہ کی منڈیوں تک رسائی حاصل کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ دوسری طرف وہ افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں کے راستے بحیرہ کیسپین سے یورپ کی منڈیوں تک پہنچنے کی منصوبہ سازی کررہا ہے۔بھارت کی نظر میں ان منصوبوںکا مقصد اس کے معاشی مفادات اور تجارتی پھیلاؤ کو محدود کر کے اس کی معاشی ترقی کو متاثرکرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت پاک چین اقتصادی راہداری پر مختلف نوعیت کے اعتراضات اٹھا رہا ہے حالانکہ چین ایک سے زائد مرتبہ یہ واضح کرچکا ہے کہ اس راہداری کا مقصد کسی بھی طور بھارت کے معاشی مفادات کو محدود کرنا نہیں ہے۔
صورتحال کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس وقت وسط ایشیائی ممالک میں تقریباً6.4ٹریلین ٹن تیل وگیس کے ذخائر ہیں جو چین، پاکستان اور بھارت کی توانائی کی ضروریات کوکئی دہائیوں تک پورا کرسکتے ہیں۔ حال ہی میں گیس پائپ لائن کے جس معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں، وہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یہ طے ہے کہ افغانستان میں دہشت گرد عناصر کی کمر ٹوٹ جانے کے نتیجے میں سیاسی استحکام آجاتا ہے، تو وسط ایشیا سے آنے والی گیس دونوں ممالک کی صنعتی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرسکے گی۔ اس صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے کابل میں پارلیمان کی نئی عمارت کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے، نریندر مودی کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت پاکستان کو افغانستان اور جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کے درمیان ایک طاقتور پل سمجھتی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ خطے کی معاشی ترقی اور استحکام افغانستان میں سیاسی استحکام سے مشروط ہے۔
اس وقت خطے میں جو تیز رفتار پیش رفت ہو رہی ہے وہ اس لحاظ سے خوش کن ہے کہ ایک طرف امریکا اور ایران کے تعلقات میں بہتری آجانے کے باعث افغانستان کے لیے ایران کی بندرگاہ چاہ بہار تک رسائی ممکن ہوگئی ہے جب کہ دوسری طرف روس کے ساتھ تعلقات میں آنے والی بہتری کے نتیجے میں پاکستان کے لیے بحیرہ کیسپین کے ذریعے مشرقی اور شمالی یورپ تک پہنچنا آسان ہوگیا ہے۔ جو ہمارے قبائلی علاقوں سے محض17سوکلومیٹر کی مسافت پر ہے۔ افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امن وامان کی صورتحال بہتر ہوجانے کے نتیجے میں اس راستے سے وسط ایشیاء کے علاوہ مشرقی اور شمالی یورپ تک رسائی کے باعث نئی اقتصادی راہداری کھل سکتی ہے۔ جو پاکستانی معیشت کو مزید استحکام بخشنے کا سبب بن سکتی ہے۔لہٰذا اگر پاکستان اپنی جغرافیائی و تزویراتی حیثیت کو احسن طور پر استعمال کرے تو اس کے لیے علاقائی اور بین الاقوامی تجارت کی کئی راہیں کھل سکتی ہیں۔
دوسری طرف چین نے پہلی بار کشمیر کے مسئلے کو ہانگ کانگ کی طرز پر حل کرنے کا مشورہ دے کر تنازعات کو حل کرنے کے حوالے سے ایک نئی سوچ دی ہے۔ چین کے علاوہ عالمی برادری بھی یہ سمجھتی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات کا کوئی ٹھوس اور پائیدار حل نکلنا چاہیے کیونکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کسی بھی وقت جوہری جنگ کا سبب بن سکتی ہے، جو پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔چنانچہ عالمی برادری سنجیدگی کے ساتھ دونوں ممالک کو اپنے تنازعات مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر مجبورکر رہی ہے۔ یہ عالمی دباؤ ہی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان اور بھارت اس کشیدہ ماحول کو خیرباد کہہ کر نئے سفرکا آغاز کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بھارت پاک چین اقتصادی راہداری کے خلاف عالمی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس لیے اب اس کی یہ کوشش ہے کہ وہ بھی کسی نہ کسی طور اس منصوبے کا حصہ بن جائے ۔ اس کے علاوہ بھارتی منصوبہ ساز اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر بھی مجبور ہوئے ہیں کہ پاکستان کو نظر انداز کر کے نہ تو اقتصادی ترقی کے اہداف حاصل کیے جاسکتے ہیں اور نہ ہی خطے میں سیاسی استحکام ممکن ہے۔ یوں خطے کی تبدیل ہوتی صورتحال اور عالمی سوچ کے حوالے سے مودی جی کی کابل کی گئی تقریر اور ان کی سرکار کی سوچ میں رونما ہونے والی تبدیلی کوباآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔
اس تناظر میں پاکستان میں جو حلقے سرد جنگ کی نفسیات کا شکار ہیں اور پاک بھارت تعلقات کو اسی دور کی عینک سے دیکھ رہے ہیں، وہ شدید غلطی پر ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے خوشگوار تعلقات نہ صرف اس پورے خطے کی معاشی ترقی کے لیے ضروری ہیں بلکہ امن و استحکام کے اہداف کے حصول کے لیے بھی نہایت ضروری ہیں۔ عوام کا عوام سے رابطہ ہی وہ واحد طریقہ ہے، جو پیچیدہ سے پیچیدہ تنازعات کو حل کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ آج بھارت بجا طور پر اپنی ریاست کے جمہوری ہونے پر فخر کر سکتا ہے جب کہ پاکستان میں بھی ریاستی اقتدار جمہوری قوتوں کے ہاتھوں میں ہے مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ دونوں ممالک کے معاشرے ہنوز صحیح معنی میں جمہوری نہیں بن سکے ہیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری آنے کی صورت میں جنگجویانہ ذہنیت کمزور پڑے اور امن کی خوگر قوتیں مضبوط ہوں۔ لہٰذا بھارتی وزیر اعظم نرندرمودی کی لاہور آمد کو متنازع بنانے اور اپنے وزیر اعظم پر بے جا تنقیدکرنے کے بجائے تنازعات کے پرامن حل کے ذریعے خطے سے غربت ، افلاس اور تنگ دستی کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششوں کی حمایت کی جانی چاہیے، تاکہ ہمارے معاشرے بھی آگے کی جانب قدم بڑھا سکیں۔