جاتے جاتے 2015
بلوچستان میں وزیر اعلیٰ کی تبدیلی ہوئی خیبر پختونخوا میں لوگ پی ٹی آئی کے موعودہ نئے پاکستان کو تلاش کرتے رہے
وقت سے کون کہے' یار ذرا آہستہ
وقفہ خواب کے پابند ہیں
جب تک ہم ہیں
ہست اور نیست کے مابین اگر
خواب کا پل نہ رہے۔ کچھ نہ رہے
وقت سے کون کہے!
یار۔ ذرا آہستہ۔
کرائے کے مکان کے بارے میں کہا جاتا ہے اس کا مہینہ پندرہ دن میں ختم ہو جاتا ہے غور کیجیے تو یہ تصور ہر گزرتے ہوئے سال بلکہ تمام گزری ہوئی زندگی پر بھی صادق آتا ہے ابھی کل کی بات لگتی ہے کہ ہم نے 2014ء کی جگہ 2015ء لکھنا شروع کیا تھا اور آج اس کی مہلت بھی ختم ہو رہی ہے پرانے سال کے آخری اور نئے برس کے پہلے ہفتے میں عام طور پر ''کیا کھویا' کیا پایا'' کا تذکرہ بہت زیادہ ہوتا ہے کہ ایک طرف یادیں اور پچھتاوے قطاریں باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں اور دوسری طرف خواب اور خدشے ایک نئے جہان کی تعمیر میں مصروف ہوتے ہیں گئے وقت کی قسمت میں واپس لوٹنا اور آنے والے دنوں کے مقدر میں رکنا نہیں ہوتا سو اب جو 2015ء پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ ایک ایسی زنجیر کی کڑی کی طرح نظر آتا ہے جو ایک طرف تو ''حالات حاضرہ کو کئی سال ہو گئے'' کی مظہر ہے اور دوسری طرف ''دیکھئے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا'' کی منادی بھی کر رہا ہے اس میں 2014ء میں ہونے والے کچھ واقعات کی گونج بھی سنائی دے رہی ہے اور بیشتر شعبوں میں ایک مستقل اور بے نام قسم کی یکسانیت بھی۔ کہنے کو تو پنجاب میں (بالخصوص لاہور اور اسلام آباد کی حد تک) سڑکوں کی خوب توڑ پھوڑ ہوئی' سندھ میں رینجرز آپریشن کا زور شور رہا۔
بلوچستان میں وزیر اعلیٰ کی تبدیلی ہوئی خیبر پختونخوا میں لوگ پی ٹی آئی کے موعودہ نئے پاکستان کو تلاش کرتے رہے اور فاٹا میں ''ضرب عضب'' نے کئی اہم کامیابیاں حاصل کیں مگر تعلیم' صحت' مہنگائی' غربت کے خاتمے' امن و امان کی عمومی صورت حال' توانائی کے ذرایع کی مسلسل لوڈشیڈنگ اور میڈیا کی بیزار کن بریکنگ نیوز کے معاملات کم و بیش جوں کے توں رہے عالمی سطح پر داعش کی کارروائیوں' مودی کے پاکستان دشمنی بیانات اور بنگلہ دیش میں پاکستان دوست بزرگوں کی پھانسیوں کا سلسلہ جاری رہا اور مغربی دنیا میں مسلمان کسی نہ کسی حوالے اور بہانے سے ٹارگٹ ہوتے رہے اور چند جنونی یا سپانسرڈ دہشت گرد مسلمان نام رکھنے والوں کے اعمال کی سزا پوری مسلمان دنیا کو دی جاتی رہی جہاں تک مسلمان امہ کی عمومی حالت اور کارکردگی کا تعلق ہے تو میں برادر عزیز حسن نثار کے کئی خیالات اور بیانات سے اختلاف کے باوجود اس کے اس خیال کی تائید کرتا ہوں کہ عملی طور پر مسلم امہ اور بالخصوص مسلمان حکومتوں کا کردار حسب سابق انتہائی شرمناک رہا ہے۔
خارجہ معاملات کی حد تک سعودی عرب ایران' افغانستان اور بنگلہ دیش سے تعلقات میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور اندرونی طور پر اقربا پروری کے میدان میں میاں برادران کے زرداری روایت کو آگے بڑھانے کے مسلسل عمل نے ہر اہل فکر و نظر کو پریشان رکھا اور معاشی سطح پر عظیم ماہر معاشیات اسحق ڈار نے اس ایک سال کے دوران میں ہر پاکستانی پر قرضے کے بوجھ میں فی کس صرف دس ہزار کا اضافہ کیا اور قرضے واپس نہ کرنے والوں اور بل نادہندگان پر بس نہ چلنے کا بدلہ قانون پسند شہریوں سے لینے کے ساتھ ساتھ پوری کوشش کی کہ عالمی منڈی میں تیل کی گھٹتی ہوئی قیمتوں کا فیض ان تک نہ پہنچنے پائے اور حکومت مخالف میڈیا نے یہ ''انتہائی غیر مصدقہ'' پراپیگنڈہ بھی جاری رکھا کہ حکمران خاندان ملک کے پولٹری اور دودھ کے بزنس پر قبضہ کرنے کے بعد اب بھارتی کمپنیوں سے نئے تجارتی تعلقات استوار کر رہا ہے اور یہ کہ نریندر مودی اور اس کے ایک سو بیس حواری کس ویزے اور دعوت پر جاتی عمرہ آئے؟
اب مسئلہ یہ ہے کہ یہ کالم شروع کرتے وقت میرا ہر گز سیاست کی میٹرو بس پر سفر کا ارادہ نہیں تھا لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ بقول میر تقی میر ؔ یہ گلۂ حیات کرنا اب فرض سا ہو گیا ہے میں تو بات کرنا چاہ رہا تھا ان احباب کی جو اس برس اور اس مہینے یعنی دسمبر میں ہم سے جدا ہوئے جس کا آخری عشرہ بالخصوص پروین شاکر' منیر نیازی اور بے نظیر بھٹو کی یادیں ساتھ لے کر آتا ہے کہ یہ تینوں اپنے اپنے حوالے سے وطن عزیز کے منتخب لوگوں میں سے تھے اور ان کے دیکھے ہوئے خواب ان کے بعد بھی زندہ ہیں۔
دسمبر اور کسی بھی سال کے ختم ہونے پر دنیا کی ہر زبان میں شاعروں نے نظمیں لکھی ہیں کہ یہ موضوع بیک وقت دل و دماغ کو متاثر اور متوجہ کرتا ہے وقت کی روانی اور زندگی کی بے ثباتی کا احساس جس قدر اس مہینے میں انسان پر حملہ آور ہوتا ہے شاید باقی کے گیارہ مہینوں میں ملا کر بھی نہیں ہوتا میری ایک نظم ''ایک دن'' بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے جس کی فرمائشوں اور پسندیدگی کی تعداد گزشتہ ایک ہفتے میں 40 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے سو جاتے جاتے اسی کو قدرے ایڈٹ کر کے درج کیے دیتا ہوں
آخری چند دن دسمبر کے
ہر برس ہی گراں گزرتے ہیں
خواہشوں کے نگار خانے سے
کیسے کیسے گماں گزرتے ہیں
رفتگاں کے بکھرتے سایوں کی
ایک محفل سی دل میں سجتی ہے
فون کی ڈائری کے مضموں سے
کتنے نمبر پکارتے ہیں مجھے
جن سے مربوط بے نوا گھنٹی
اب فقط میرے دل میں بجتی ہے۔
...............
پھر دسمبر کے آخری دن ہیں
ہر برس کی طرح سے اب کے بھی
ڈائری اک سوال کرتی ہے
''کیا خبر اس برس کے آخر تک
میرے ان بے چراغ صفحوں سے
کتنے ہی نام کٹ گئے ہوں گے!
خاک کی ڈھیریوں کے دامن میں
کتنے طوفاں سمٹ گئے ہوں گے!
...............
ہر دسمبر میں سوچتا ہوں میں
ایک دن اس طرح بھی ہونا ہے
رنگ کو روشنی میں کھونا ہے
اپنے اپنے گھروں میں رکھی ہوئی
ڈائری دوست دیکھتے ہوں گے
ان کی آنکھوں کے خاک دانوں میں
ایک صحرا سا پھیلتا ہو گا
اور کچھ بے نشان صفحوں سے
نام میرا بھی کٹ گیا ہو گا!
وقفہ خواب کے پابند ہیں
جب تک ہم ہیں
ہست اور نیست کے مابین اگر
خواب کا پل نہ رہے۔ کچھ نہ رہے
وقت سے کون کہے!
یار۔ ذرا آہستہ۔
کرائے کے مکان کے بارے میں کہا جاتا ہے اس کا مہینہ پندرہ دن میں ختم ہو جاتا ہے غور کیجیے تو یہ تصور ہر گزرتے ہوئے سال بلکہ تمام گزری ہوئی زندگی پر بھی صادق آتا ہے ابھی کل کی بات لگتی ہے کہ ہم نے 2014ء کی جگہ 2015ء لکھنا شروع کیا تھا اور آج اس کی مہلت بھی ختم ہو رہی ہے پرانے سال کے آخری اور نئے برس کے پہلے ہفتے میں عام طور پر ''کیا کھویا' کیا پایا'' کا تذکرہ بہت زیادہ ہوتا ہے کہ ایک طرف یادیں اور پچھتاوے قطاریں باندھ کر کھڑے ہوتے ہیں اور دوسری طرف خواب اور خدشے ایک نئے جہان کی تعمیر میں مصروف ہوتے ہیں گئے وقت کی قسمت میں واپس لوٹنا اور آنے والے دنوں کے مقدر میں رکنا نہیں ہوتا سو اب جو 2015ء پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ ایک ایسی زنجیر کی کڑی کی طرح نظر آتا ہے جو ایک طرف تو ''حالات حاضرہ کو کئی سال ہو گئے'' کی مظہر ہے اور دوسری طرف ''دیکھئے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا'' کی منادی بھی کر رہا ہے اس میں 2014ء میں ہونے والے کچھ واقعات کی گونج بھی سنائی دے رہی ہے اور بیشتر شعبوں میں ایک مستقل اور بے نام قسم کی یکسانیت بھی۔ کہنے کو تو پنجاب میں (بالخصوص لاہور اور اسلام آباد کی حد تک) سڑکوں کی خوب توڑ پھوڑ ہوئی' سندھ میں رینجرز آپریشن کا زور شور رہا۔
بلوچستان میں وزیر اعلیٰ کی تبدیلی ہوئی خیبر پختونخوا میں لوگ پی ٹی آئی کے موعودہ نئے پاکستان کو تلاش کرتے رہے اور فاٹا میں ''ضرب عضب'' نے کئی اہم کامیابیاں حاصل کیں مگر تعلیم' صحت' مہنگائی' غربت کے خاتمے' امن و امان کی عمومی صورت حال' توانائی کے ذرایع کی مسلسل لوڈشیڈنگ اور میڈیا کی بیزار کن بریکنگ نیوز کے معاملات کم و بیش جوں کے توں رہے عالمی سطح پر داعش کی کارروائیوں' مودی کے پاکستان دشمنی بیانات اور بنگلہ دیش میں پاکستان دوست بزرگوں کی پھانسیوں کا سلسلہ جاری رہا اور مغربی دنیا میں مسلمان کسی نہ کسی حوالے اور بہانے سے ٹارگٹ ہوتے رہے اور چند جنونی یا سپانسرڈ دہشت گرد مسلمان نام رکھنے والوں کے اعمال کی سزا پوری مسلمان دنیا کو دی جاتی رہی جہاں تک مسلمان امہ کی عمومی حالت اور کارکردگی کا تعلق ہے تو میں برادر عزیز حسن نثار کے کئی خیالات اور بیانات سے اختلاف کے باوجود اس کے اس خیال کی تائید کرتا ہوں کہ عملی طور پر مسلم امہ اور بالخصوص مسلمان حکومتوں کا کردار حسب سابق انتہائی شرمناک رہا ہے۔
خارجہ معاملات کی حد تک سعودی عرب ایران' افغانستان اور بنگلہ دیش سے تعلقات میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور اندرونی طور پر اقربا پروری کے میدان میں میاں برادران کے زرداری روایت کو آگے بڑھانے کے مسلسل عمل نے ہر اہل فکر و نظر کو پریشان رکھا اور معاشی سطح پر عظیم ماہر معاشیات اسحق ڈار نے اس ایک سال کے دوران میں ہر پاکستانی پر قرضے کے بوجھ میں فی کس صرف دس ہزار کا اضافہ کیا اور قرضے واپس نہ کرنے والوں اور بل نادہندگان پر بس نہ چلنے کا بدلہ قانون پسند شہریوں سے لینے کے ساتھ ساتھ پوری کوشش کی کہ عالمی منڈی میں تیل کی گھٹتی ہوئی قیمتوں کا فیض ان تک نہ پہنچنے پائے اور حکومت مخالف میڈیا نے یہ ''انتہائی غیر مصدقہ'' پراپیگنڈہ بھی جاری رکھا کہ حکمران خاندان ملک کے پولٹری اور دودھ کے بزنس پر قبضہ کرنے کے بعد اب بھارتی کمپنیوں سے نئے تجارتی تعلقات استوار کر رہا ہے اور یہ کہ نریندر مودی اور اس کے ایک سو بیس حواری کس ویزے اور دعوت پر جاتی عمرہ آئے؟
اب مسئلہ یہ ہے کہ یہ کالم شروع کرتے وقت میرا ہر گز سیاست کی میٹرو بس پر سفر کا ارادہ نہیں تھا لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ بقول میر تقی میر ؔ یہ گلۂ حیات کرنا اب فرض سا ہو گیا ہے میں تو بات کرنا چاہ رہا تھا ان احباب کی جو اس برس اور اس مہینے یعنی دسمبر میں ہم سے جدا ہوئے جس کا آخری عشرہ بالخصوص پروین شاکر' منیر نیازی اور بے نظیر بھٹو کی یادیں ساتھ لے کر آتا ہے کہ یہ تینوں اپنے اپنے حوالے سے وطن عزیز کے منتخب لوگوں میں سے تھے اور ان کے دیکھے ہوئے خواب ان کے بعد بھی زندہ ہیں۔
دسمبر اور کسی بھی سال کے ختم ہونے پر دنیا کی ہر زبان میں شاعروں نے نظمیں لکھی ہیں کہ یہ موضوع بیک وقت دل و دماغ کو متاثر اور متوجہ کرتا ہے وقت کی روانی اور زندگی کی بے ثباتی کا احساس جس قدر اس مہینے میں انسان پر حملہ آور ہوتا ہے شاید باقی کے گیارہ مہینوں میں ملا کر بھی نہیں ہوتا میری ایک نظم ''ایک دن'' بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے جس کی فرمائشوں اور پسندیدگی کی تعداد گزشتہ ایک ہفتے میں 40 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے سو جاتے جاتے اسی کو قدرے ایڈٹ کر کے درج کیے دیتا ہوں
آخری چند دن دسمبر کے
ہر برس ہی گراں گزرتے ہیں
خواہشوں کے نگار خانے سے
کیسے کیسے گماں گزرتے ہیں
رفتگاں کے بکھرتے سایوں کی
ایک محفل سی دل میں سجتی ہے
فون کی ڈائری کے مضموں سے
کتنے نمبر پکارتے ہیں مجھے
جن سے مربوط بے نوا گھنٹی
اب فقط میرے دل میں بجتی ہے۔
...............
پھر دسمبر کے آخری دن ہیں
ہر برس کی طرح سے اب کے بھی
ڈائری اک سوال کرتی ہے
''کیا خبر اس برس کے آخر تک
میرے ان بے چراغ صفحوں سے
کتنے ہی نام کٹ گئے ہوں گے!
خاک کی ڈھیریوں کے دامن میں
کتنے طوفاں سمٹ گئے ہوں گے!
...............
ہر دسمبر میں سوچتا ہوں میں
ایک دن اس طرح بھی ہونا ہے
رنگ کو روشنی میں کھونا ہے
اپنے اپنے گھروں میں رکھی ہوئی
ڈائری دوست دیکھتے ہوں گے
ان کی آنکھوں کے خاک دانوں میں
ایک صحرا سا پھیلتا ہو گا
اور کچھ بے نشان صفحوں سے
نام میرا بھی کٹ گیا ہو گا!