سال 2015ء میں پاکستانیوں پر موسم کی تباہ کاریاں

عین ممکن ہے کہ پاکستان میں اس سال بھی گرمی کی جان لیوا لہر آئے۔ بادل چند لمحوں میں ماحول کو جل تھل کرکے تباہی مچادیں۔

پاکستان میں آب و ہوا میں تبدیلی سے نمٹنے کے لئے اگر فوری طور پر منصوبہ بندی، معلومات کی ترویج اور نئے طریقوں کو نہیں اپنایا گیا تو حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں۔ فوٹو: فائل

محمد صفدر کی عمر 55 برس تھی اور وہ روزے سے تھا، لیکن نہ جانے دوپہر 12 بجے اسے غیر معمولی گرمی اور بے چینی کا احساس ہوا۔ اس نے سحری میں زیادہ پانی نہیں پیا تھا لیکن اب خون جلا دینے والا حبس اس کے حلق میں کانٹے پرورہا تھا۔ نمازِ ظہر کی واپسی پر وہ گلی کے نکڑ پر چکرا کر گرا۔ لوگ مدد کو دوڑے اور اسے پانی پیش کیا لیکن اس نے روزہ نہ توڑا، محمد صفدر کو اپنے اطراف لوگ گھومتے نظر آئے۔ پھر وہ بے ہوش ہوگیا اور دوبارہ کبھی ہوش میں نہ آیا۔

گذشتہ برس رمضان میں کراچی میں شدید گرمی اور حبس کا زور رہا۔ کسی نے اسے گرمی کی لہر کہا تو کسی نے کہا کہ شہر میں حبس کے جزیرے (ہیٹ آئی لینڈ) بن گئے تھے۔ لیکن جب مضمون نگار کو محکمہ موسمیات کے ایک ماہر نے بتایا کہ کراچی تک آنے والی سمندری ہوا کا قدرتی نظام کمزور ہوگیا ہے جس کے سبب حبس نے گرمی کو مزید ناقابلِ برداشت بلکہ ہلاکت خیز بنادیا۔ اس سانحے میں 40 ہزار افراد متاثر ہوئے اور 1200 کے قریب افراد لقمہ اجل بنے۔

اس ہلاکت خیز واقعے کے بعد پاکستان میں آب و ہوا میں تبدیلی (کلائمٹ چینج) کی بحث دوبارہ چھڑ گئی۔ عالمی ادارے جرمن واچ کے مطابق پہلے پاکستان ان 10 ممالک میں شامل تھا جو کلائمٹ چینج سے سب سے ذیادہ متاثر ہوں گے اور اس سال اسی ادارے نے پاکستان کو آٹھواں نمبر دیدیا ہے۔ لیکن آخر اس کی وجہ کیا ہے؟

اس کی سب اہم وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں لگ بھگ 900 کلومیٹر طویل ساحلی پٹی ہے۔ اس کے بالائی علاقوں میں ایک دو نہیں 5000 سے زائد بڑے گلیشیئرز ہیں جن کا پانی ہمارے دریاؤں کو بھرتا ہے۔ ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش (ایچ کے ایچ) کے 3 عظیم پہاڑی سلسلے بھی پاکستان میں ہیں اور یہ سب مل کر آب و ہوا کا ایک پیچیدہ نیٹ ورک بناتے ہیں جو گلوبل وارمنگ (عالمی تپش) سے براہِ راست متاثر ہوتا ہے۔

سمندر کو تو آب و ہوا کا جنریٹر کہا جاتا ہے جبکہ چھوٹے بڑے دریا، گلگت اور بلتستان کے سر سبزعلاقے، سندھ اور بلوچستان کے میدان اور نیم ریگستان اور سب سے بڑھ کر دنیا کا ساتواں بڑا ڈیلٹا بھی پاکستان میں ہے۔ ڈیلٹا اس علاقے کو کہتے ہیں جہاں دریا اور سمندر ملتے ہیں۔ یہ سرسبز ڈیلٹا اب دیکھتے ہی دیکھتے تباہی کا ایک گڑھ بن چکا ہے جس کا ذکر اگلے کسی بلاگ میں کیا جائے گا کیونکہ یہ موضوع خود ایک کتاب کا تقاضہ کرتا ہے۔
سال 2015 اور آب و ہوا میں تبدیلی

آب و ہوا میں تبدیلی، زمین، فضا، آبی ذخائر، فصلوں، جانوروں سمیت تمام ماحول کو متاثر کرتی ہے اور کررہی ہے۔ لیکن پہلی علامت خود موسم کا مزاج بگڑنا ہے جس میں موسم بھی شدت پسند ہوجاتے ہیں۔ لیکن پہلے ذرا غور کیجئے کہ صرف چند برسوں میں موسمیاتی شدت نے پاکستان میں کیا ستم ڈھائے ہیں۔

سال 2001 ،2003، 2007، 2008، 2009، 2010 اور 2011 میں شدید بارشیں دیکھی گئیں جن میں گویا بادل پھٹ پڑتے ہیں۔ انہیں ''کلاؤڈ برسٹ ایونٹس'' کہا جاتا ہے۔ سال 1999 سے 2002 یعنی 3 سال تک ملک کے مختلف حصوں میں شدید خشک سالی پھر 2010 کا تاریخی سیلاب کون بھول سکتا ہے جس میں ہزاروں افراد لقمہ اجل بنے تھے۔

پھر 1999، 2007، 2009، 2010 اور 2011 میں سمندری طوفان بپا ہوئے۔ جس کے بعد 2006، 2007، 2010، 2011 اور 2015 میں گرمی کی شدت (ہیٹ ویو) جن سے گندم کی پیداوار شدید متاثر ہوئی۔ لیکن کراچی میں گرمی کی لہر تو زندگیوں کا خراج لے گئی۔

2005، 2007 اور 2010 میں برفیلا سیلاب یعنی بارش کم ہوئی لیکن برف پگھلنے سے سیلاب آگیا اور اس سال بھی جو سیلاب آیا وہ بارشوں کی وجہ سے نہیں بلکہ اِس لیے آیا کہ چترال میں گلیشیئر پھٹ گئے تھے۔ گلیشیئر پر نظر رکھنے والے ایک ماہر زاہد حسین کے مطابق بندو گول کے علاقے میں ہنارچی گلیشیئر سے پانی پگھل کر آیا اور شدید تباہی پھیلائی۔ زاہد حسین نے یہ بھی بتایا کہ اس بار چترال کے آسمانوں پر غیر معمولی بجلی نظر آئی اور بجلی کڑکنے کے ایسے خوفناک مناظر پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے تھے۔ پھر گزشتہ چند برسوں سے خصوصاً پنجاب میں یہ ہورہا ہے کہ ایک ہفتے کی بارش ایک دن اور ایک دن کی بارش گویا چند گھنٹوں میں برس جاتی ہے۔


اگر کوئی اب بھی ان تمام واقعات کو آب و ہوا میں تبدیلی نہیں مانتا تو وہ قدرتی آفات کے عالمی ڈیٹا بیس کی ویب سائٹ پر پاکستان کو تلاش کرے۔ یہ ویب سائٹ پاکستان سمیت دنیا کے ہر ملک میں زلزلوں، سیلابوں، طوفانوں، تودے گرنے، گرمی اور سردی کی لہروں، بارشوں اور دیگر قدرتی آفات کا ریکارڈ رکھتی ہے۔ اس ویب سائٹ کے مطابق گذشتہ ایک صدی کے دوران پاکستان میں قدرتی آفات کا گراف اوپر جارہا ہے۔ ویب سائٹ کے مطابق 1948 سے 1990 تک پاکستان میں قدرتی آفات کی تعداد 79 تھی لیکن 1991 سے 2015 تک پاکستان میں قدرتی آفات کے 40 ہولناک واقعات رونما ہوئے جو تیزی سے بڑھتے ہوئے گراف کو ظاہر کرتے ہیں۔سپارکو کے سائنسداں ڈاکٹر ابرار الحسن اختر کے مطابق ان واقعات کا براہِ راست تعلق پاکستانی زراعت پر ہورہا ہے۔
قدرتی آفات اور زراعت

ابرارالحسن کے مطابق گذشتہ 6 برس میں قدرتی آفات سے کپاس کی 13 لاکھ ہیکٹر سے زائد، گنے کی 3 لاکھ 72 ہزار ہیکٹر اور چاول کی 13 لاکھ سے زائد ہیکٹر کی فصل تباہ ہوئی ہے۔ جس سے ملکی معیشت کو شدید نقصان پہنچا ہے اور دوسری جانب خوراک کے قلت کی خطرات پیدا ہو گئے ہیں۔

اب اس سال کا احوال بھی سن لیجئے، شدید موسمیاتی سرگرمیوں کی وجہ سے سوات میں شہد کی پیداوار شدید متاثر ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ کپاس، آم اور کینو کی فصلوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ پاکستان میں کپاس کی فصلوں کا تخمینہ لگانے والی کمیٹی (سی سی اے سی) کے مطابق اس سال 15 ملین گانٹھوں کے بجائے صرف 10 ملین سے کچھ زائد کپاس کی گانٹھیں پیدا ہوئی ہیں جو 30 فیصد کمی کو ظاہر کرتی ہیں۔

اس سال پنجاب میں 160 شدید بارشوں اور سفید مکھی اور گلابی کیڑے کی وجہ سے فصلیں تباہ ہوئی ہیں۔ کیونکہ کپاس اگانے والے علاقوں میں غیرمعمولی بارشوں نے کھڑی فصلوں کو ختم کردیا ہے۔ پھلوں کے بادشاہ ''آم'' کی قسمت بھی اس سال کچھ اچھی نہیں رہی۔ پھل اور سبزیاں برآمد کرنے والی پاکستانی تنظیم میں تحقیق و ترقی کے چیئرمین وحید احمد نے بتایا کہ اس سال پنجاب میں شدید آندھیوں، بارشوں اور موسمیاتی تبدیلیوں نے آموں کی فصل کو اس درجہ نقصان پہنچایا کہ ان کی پیداوار 60 سے 70 فیصد تک کم ہوئی اور برآمدات کے اہداف حاصل ہونے سے رہ گئے۔
اگلے چند برس

عین ممکن ہے کہ پاکستان میں اس سال بھی گرمی کی جان لیوا لہر آئے۔ بادل اپنی مرضی سے برسیں اور چند لمحوں میں ماحول کو جل تھل کرکے تباہی مچادیں یا موسم فصلوں اور خوراک کی پیداوار کو مزید نقصان پہنچائے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بلوچستان کا دہقان ابر کا انتظار کرتا رہ جائے اور سورج کی تپش اس کے فصل کے ننھے بیجوں کو جھلسا کر رکھ دے۔ عین ممکن ہے کہ فاٹا کا چرواہا سبزہ ختم ہونے کی وجہ سے اپنی بھیڑوں کا پیٹ نہ بھر سکے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان میں آب و ہوا میں تبدیلی سے نمٹنے کے لئے فوری طور پر منصوبہ بندی، معلومات کی ترویج اور نئے طریقوں کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں پاکستان کی کلائمٹ چینج پالیسی ایک اہم دستاویز ہے۔ جس پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔

[poll id="858"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
Load Next Story