استقبالِ سالِ نو…معرکۂ بیم و رجا
ظاہر ہے کہ ہر آنے والے سال سے اچھی اور خوشگوار امیدیں باندھی جاتی ہیں
لیجیے 2015ء کا آخری سورج بھی غروب ہوا، لگتا ہے کہ کل ہی کی تو بات ہے جب ہم نے غمزدہ دل اور اشک بار آنکھوں سے اس سال کے آفتاب کو طلوع ہوتے دیکھا تھا۔ نئے سال کی آمد عموماً خوشی، کامیابی و کامرانی کی امید سے عبارت ہوتی ہے۔ مگر 2015ء اپنے دامن پر آرمی پبلک اسکول کے معصوم طلبا کے خون ناحق کے دھبے لے کر نمودار ہوا۔ جس طرح ہر سال رات بارہ بجے ہمیشہ ٹیلیفون کی گھنٹی بجنے کا سلسلہ سال نو کی مبارکباد دینے کے لیے شروع ہوتا تھا، گزرے سال کی پہلی رات یہ سلسلہ جاری نہ رہ سکا، کچھ فون آئے ضرور مگر مبارک باد میں سر خوشی کا احساس کم بلکہ ہچکیوں کا ارتعاش زیادہ شامل تھا۔
ظاہر ہے کہ ہر آنے والے سال سے اچھی اور خوشگوار امیدیں باندھی جاتی ہیں، مگر اس سال کے آغاز پر ہر کسی کا دل ان ماؤں کے درد میں برابر کا شریک تھا، جن سے ان کی عمر بھرکی خوشیاں پل بھر میں چھین لی گئی تھیں۔ جنھوں نے اپنے جگرکے ٹکڑوں کو خود اپنے ہاتھوں سے آراستہ کر کے مقتل کی طرف روانہ کیا تھا مگر انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی بے شمار نعمتوں میں سے ایک نعمت یہ بھی عطا کی ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو اس قدر مضبوط اور حوصلہ مند بنایا کہ عام حالات میں انسان جن سانحات کے تصور سے ہی کانپ جائے وہ جب ایک بھیانک حقیقت بن کر سامنے آ جائیں تو وہ اس حقیقت کو نہ صرف تسلیم کرتا ہے بلکہ بسا اوقات اپنے حواس بھی مجتمع رکھتا ہے۔
رب العزت خود فرماتے ہیں کہ ''اگر ہم اس قرآن کو پہاڑ پر نازل کرتے تو تم دیکھتے کہ وہ خوف خدا سے جھکا اور پھٹا جا رہا ہے۔'' (سورہ الحشر، آیت21)۔ مگر یہ قلب رسولؐ تھا جو اس قرآن کو اٹھا سکا۔ تو یہ ہے انسانی دل کی مضبوطی وہ ہر ابتلا پر خود کو پہلے سے زیادہ مضبوط اور طاقتور بنا لیتا ہے۔
اس کا ذریعہ بھی خدا وند تعالیٰ اپنے کلام بلاغت نظام میں اپنے بندوں کو تعلیم فرما رہا ہے کہ ''نماز اور صبر سے اپنے رب سے مدد طلب کرو۔'' (ترجمہ) چنانچہ مومن کی جبلت ہے کہ وہ غم و اندوہ کے بحر بیکراں میں بھی اپنے رب کے کرم سے مایوس نہیں ہوتا، وہ رضائے الٰہی پر راضی برضا رہتا ہے اگرچہ غم کسی کوہ گراں سے بھی بھاری ہو وہ اپنے رب کی امانت (زندگی) کی حفاظت کرتا ہے اور جب وہ اپنے اللہ سے نماز کے ذریعے مدد طلب کرتا ہے تو ان کا خالق انھیں دولت صبر عطا فرماتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان اپنے جگر کے ٹکڑوں، آنکھوں کی ٹھنک، زندہ رہنے کے جواز پر اپنے پیاروں کے غم میں مر نہیں جاتا۔
سال گزشتہ کے آغاز پر ہم سب (خصوصاً شہدائے آر پی ایس کے لواحقین) کے ساتھ یہی کچھ ہوا، اشکبار آنکھوں میں نئے خواب سجائے، دل شکستہ میں نئے ارماں بسائے، آنے والے سال سے بے شمار امیدیں اور توقعات وابستہ کیے اس امید پر کہ اب اس سال ہم پر کوئی ایسا المیہ، ایسا سانحہ نہیں گزرے گا۔ یہ امیدیں ہی تو ہیں جو پھر سے جینے کا جواز پیدا کرتی ہیں۔
آرمی پبلک اسکول (پشاور) کے ننھے ننھے اور عنفوان شباب کی سرحد پر قدم رکھنے والے شہدا نے قوم کو ایک بار جھنجھوڑ ڈالا اور تمام اختلافات پس پشت ڈال کر متحد ہونے کا ایک موقع دیا، اور ایسا ہوا بھی آپریشن ضرب عضب تیزی سے کامیابی سے ہمکنار ہونے لگا۔ ملک کے مختلف شہروں میں دہشت گردوں پر ہاتھ ڈالا گیا اور پاتال تک ان کا پیچھا کیا گیا، کالعدم تنظیموں کے قاتلوں پر گرفت مضبوط کی گئی۔ قوم کو امید ہوچلی کہ اس سال کے بعد ملک میں امن بحال ہو جائے گا۔ اب کسی ماں سے اس کا لال،کسی بہن کا بھائی،کسی سہاگن سے اس کا سہاگ اور کسی بیٹی سے اس کا باپ بزور دہشت گردی جدا نہ کیا جائے گا۔
ملک میں امن ہو گا تو ترقی و خوشحالی کے دروازے از خود کھل جائیں گے۔ بلاشبہ ایسا کسی حد تک ہوا بھی، جرائم میں کمی ہوئی ہی نہیں ہوتی نظر بھی آئی۔ قاتل، بھتہ خور، اغوا برائے تاوان کے ذمے داروں کی بڑی تعداد یا تو مقابلوں میں ماری گئی یا پھرگرفتار ہوئی۔ سربراہ مسلح افواج نے واضح کیا کہ ہم نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی۔ دہشت گردوں کا خوف ختم کر دیا۔ جنرل راحیل شریف نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ قوم کے بہتر مستقبل کے لیے تعلیم پر سرمایہ کاری کرنا بے حد اہم ہے۔ یعنی انھوں نے قوم کو اور اس مخصوص طبقے کو جو تعلیم عام کرنے کے مخالف ہیں (تا کہ ان کی رعیت ان ہی کے رحم و کرم پر رہے) کو باور کراتے ہوئے واضح پیغام دیا کہ دہشت گردی سے زیادہ بڑا دشمن ملک کے لیے ناخواندگی ہے کہ جہالت ہی گمراہی کا ذریعہ اور دہشت گردی میں سادہ لوح عوام کو ملوث کرنے کا باعث ہے۔
پاک افواج نے اس عفریت کے خلاف خلوص اور جانفشانی سے قابو پانے کی بھرپورکوشش کی مگر صد فی صد کامیابی اس صورت میں اتنی جلدی ممکن ہی نہیں ہو سکتی تھی کہ جب وطن عزیز دہشت گردوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانا خاصا مشکل تھا کیونکہ قومی اداروں، انتہا پسند مذہبی گروہوں کے علاوہ تعلیمی اداروں اور معاشرے کے دیگر شعبوں میں دہشت گردوں کے سہولت کاروں کی موجودگی کے باعث یہ کام اتنا آسان اور اتنی جلدی مکمل ہونا انتہائی مشکل تھا۔
پاک فوج کی کامیابیاں جاری ہیں اور اچھے نتائج بھی حاصل ہو رہے ہیں مگر عسکری قیادت کے ساتھ سول قیادت بھی اس کارخیر میں اتنی ہی مخلص اور فعال ہوتی تو امید کی جا سکتی تھی کہ آپریشن ضرب عضب بہت جلد پایہ تکمیل تک پہنچ جاتا، مگر ہماری جمہوری قیادت نے اقتدار سنبھالنے سے قبل شاید کوئی پیپر ورک کر ہی نہیں رکھا تھا۔ اس لیے ملک کے کئی اہم شعبوں میں خاص پیش رفت نہ ہو سکی، ان میں تعلیم، صحت اور عوامی بہبود کے کئی ادارے شامل ہیں، حتیٰ کہ وزارت خارجہ جیسی اہم وزارت کو موجودہ حکومت کے ڈھائی سال مکمل ہونے کے باوجود کوئی وزیر خارجہ میسر نہ آ سکا۔
حکومت کی بے اعتنائی دیکھ کر عسکری حلقوں کی جانب سے (بطور تنبیہ) انھیں گڈگورننس اختیار کرنے کا مشورہ بھی دیا گیا۔ جس کے جواب میں کام توکچھ نہ ہوا البتہ حکمراں اور وفاقی وزرا نے عسکری کامیابیوں کا سہرا اپنے سر باندھنے اور کثیر سرمایے سے جاری کردہ ایسے بڑے بڑے منصوبوں کا شور مچانا شروع کر دیا جو عوام سے زیادہ خواص کے لیے سودمند ہیں۔
گزرے سال کے اختتام پر دنیا بھر میں بڑھتی دہشت گردی اور حکومتوں کی بہتر کارکردگی، عوام کے تحفظ پر توجہ میں اضافے کا رجحان پروان چڑھا۔ تمام بڑی طاقتیں دنیا میں قیام امن کے لیے کوشاں ہیں اور ہماری حکومت نے اپنے ہی ملک کے صوبوں میں سیاسی توازن کو متاثر کرنا شروع کر دیا جس کی واضح مثال صوبہ سندھ اور وفاق کے درمیان کشیدگی برقرار رہنے کی ہے۔سال گزشتہ نے جاتے جاتے اس بار پھر دہشت گردی کا ایک سانحہ ثبت کر دیا، جو کے پی کے کے شہر مردان میں نادرا آفس پر خودکش حملے کی صورت میں پیش آیا جس میں ابتدائی اطلاعات کیمطابق 26 افراد شہید اور 56 شدید زخمی ہوئے۔
خدشہ ہے کہ اموات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ یہ سانحہ آرمی پبلک اسکول کے ذمے داروں کی پھانسی کا ردعمل ہے، اگرچہ ایک کالعدم جماعت نے اس واقعے کی ذمے داری قبول کر لی ہے جب کہ طالبان نے اس حملے کی مذمت کی ہے۔ بہرحال سال نو کی آمد پر ایک بار پھر کئی گھروں میں صف ماتم بچھ گئی، قوم میں خدشات نے ایک بار پھر سر ابھارا ہے۔ غرض اس نئے سال کا استقبال بھی قوم دکھے دل کے ساتھ کرے گی۔ ساتھ ہی نئے سال سے ایک بار پھر امن و سکون کی امیدیں وابستہ کی جائیں گی کہ امید پہ دنیا قائم ہے اور مایوسی کفر ہے۔ خدا سے یہی دعا کی جا سکتی ہے کہ یہ سال واقعی امن و خوشحالی کا سال ثابت ہو۔ آمین ثم آمین۔
اے خاصۂ خاصانِ رُسل وقتِ دعا ہے
امت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے
ظاہر ہے کہ ہر آنے والے سال سے اچھی اور خوشگوار امیدیں باندھی جاتی ہیں، مگر اس سال کے آغاز پر ہر کسی کا دل ان ماؤں کے درد میں برابر کا شریک تھا، جن سے ان کی عمر بھرکی خوشیاں پل بھر میں چھین لی گئی تھیں۔ جنھوں نے اپنے جگرکے ٹکڑوں کو خود اپنے ہاتھوں سے آراستہ کر کے مقتل کی طرف روانہ کیا تھا مگر انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی بے شمار نعمتوں میں سے ایک نعمت یہ بھی عطا کی ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو اس قدر مضبوط اور حوصلہ مند بنایا کہ عام حالات میں انسان جن سانحات کے تصور سے ہی کانپ جائے وہ جب ایک بھیانک حقیقت بن کر سامنے آ جائیں تو وہ اس حقیقت کو نہ صرف تسلیم کرتا ہے بلکہ بسا اوقات اپنے حواس بھی مجتمع رکھتا ہے۔
رب العزت خود فرماتے ہیں کہ ''اگر ہم اس قرآن کو پہاڑ پر نازل کرتے تو تم دیکھتے کہ وہ خوف خدا سے جھکا اور پھٹا جا رہا ہے۔'' (سورہ الحشر، آیت21)۔ مگر یہ قلب رسولؐ تھا جو اس قرآن کو اٹھا سکا۔ تو یہ ہے انسانی دل کی مضبوطی وہ ہر ابتلا پر خود کو پہلے سے زیادہ مضبوط اور طاقتور بنا لیتا ہے۔
اس کا ذریعہ بھی خدا وند تعالیٰ اپنے کلام بلاغت نظام میں اپنے بندوں کو تعلیم فرما رہا ہے کہ ''نماز اور صبر سے اپنے رب سے مدد طلب کرو۔'' (ترجمہ) چنانچہ مومن کی جبلت ہے کہ وہ غم و اندوہ کے بحر بیکراں میں بھی اپنے رب کے کرم سے مایوس نہیں ہوتا، وہ رضائے الٰہی پر راضی برضا رہتا ہے اگرچہ غم کسی کوہ گراں سے بھی بھاری ہو وہ اپنے رب کی امانت (زندگی) کی حفاظت کرتا ہے اور جب وہ اپنے اللہ سے نماز کے ذریعے مدد طلب کرتا ہے تو ان کا خالق انھیں دولت صبر عطا فرماتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان اپنے جگر کے ٹکڑوں، آنکھوں کی ٹھنک، زندہ رہنے کے جواز پر اپنے پیاروں کے غم میں مر نہیں جاتا۔
سال گزشتہ کے آغاز پر ہم سب (خصوصاً شہدائے آر پی ایس کے لواحقین) کے ساتھ یہی کچھ ہوا، اشکبار آنکھوں میں نئے خواب سجائے، دل شکستہ میں نئے ارماں بسائے، آنے والے سال سے بے شمار امیدیں اور توقعات وابستہ کیے اس امید پر کہ اب اس سال ہم پر کوئی ایسا المیہ، ایسا سانحہ نہیں گزرے گا۔ یہ امیدیں ہی تو ہیں جو پھر سے جینے کا جواز پیدا کرتی ہیں۔
آرمی پبلک اسکول (پشاور) کے ننھے ننھے اور عنفوان شباب کی سرحد پر قدم رکھنے والے شہدا نے قوم کو ایک بار جھنجھوڑ ڈالا اور تمام اختلافات پس پشت ڈال کر متحد ہونے کا ایک موقع دیا، اور ایسا ہوا بھی آپریشن ضرب عضب تیزی سے کامیابی سے ہمکنار ہونے لگا۔ ملک کے مختلف شہروں میں دہشت گردوں پر ہاتھ ڈالا گیا اور پاتال تک ان کا پیچھا کیا گیا، کالعدم تنظیموں کے قاتلوں پر گرفت مضبوط کی گئی۔ قوم کو امید ہوچلی کہ اس سال کے بعد ملک میں امن بحال ہو جائے گا۔ اب کسی ماں سے اس کا لال،کسی بہن کا بھائی،کسی سہاگن سے اس کا سہاگ اور کسی بیٹی سے اس کا باپ بزور دہشت گردی جدا نہ کیا جائے گا۔
ملک میں امن ہو گا تو ترقی و خوشحالی کے دروازے از خود کھل جائیں گے۔ بلاشبہ ایسا کسی حد تک ہوا بھی، جرائم میں کمی ہوئی ہی نہیں ہوتی نظر بھی آئی۔ قاتل، بھتہ خور، اغوا برائے تاوان کے ذمے داروں کی بڑی تعداد یا تو مقابلوں میں ماری گئی یا پھرگرفتار ہوئی۔ سربراہ مسلح افواج نے واضح کیا کہ ہم نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی۔ دہشت گردوں کا خوف ختم کر دیا۔ جنرل راحیل شریف نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ قوم کے بہتر مستقبل کے لیے تعلیم پر سرمایہ کاری کرنا بے حد اہم ہے۔ یعنی انھوں نے قوم کو اور اس مخصوص طبقے کو جو تعلیم عام کرنے کے مخالف ہیں (تا کہ ان کی رعیت ان ہی کے رحم و کرم پر رہے) کو باور کراتے ہوئے واضح پیغام دیا کہ دہشت گردی سے زیادہ بڑا دشمن ملک کے لیے ناخواندگی ہے کہ جہالت ہی گمراہی کا ذریعہ اور دہشت گردی میں سادہ لوح عوام کو ملوث کرنے کا باعث ہے۔
پاک افواج نے اس عفریت کے خلاف خلوص اور جانفشانی سے قابو پانے کی بھرپورکوشش کی مگر صد فی صد کامیابی اس صورت میں اتنی جلدی ممکن ہی نہیں ہو سکتی تھی کہ جب وطن عزیز دہشت گردوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانا خاصا مشکل تھا کیونکہ قومی اداروں، انتہا پسند مذہبی گروہوں کے علاوہ تعلیمی اداروں اور معاشرے کے دیگر شعبوں میں دہشت گردوں کے سہولت کاروں کی موجودگی کے باعث یہ کام اتنا آسان اور اتنی جلدی مکمل ہونا انتہائی مشکل تھا۔
پاک فوج کی کامیابیاں جاری ہیں اور اچھے نتائج بھی حاصل ہو رہے ہیں مگر عسکری قیادت کے ساتھ سول قیادت بھی اس کارخیر میں اتنی ہی مخلص اور فعال ہوتی تو امید کی جا سکتی تھی کہ آپریشن ضرب عضب بہت جلد پایہ تکمیل تک پہنچ جاتا، مگر ہماری جمہوری قیادت نے اقتدار سنبھالنے سے قبل شاید کوئی پیپر ورک کر ہی نہیں رکھا تھا۔ اس لیے ملک کے کئی اہم شعبوں میں خاص پیش رفت نہ ہو سکی، ان میں تعلیم، صحت اور عوامی بہبود کے کئی ادارے شامل ہیں، حتیٰ کہ وزارت خارجہ جیسی اہم وزارت کو موجودہ حکومت کے ڈھائی سال مکمل ہونے کے باوجود کوئی وزیر خارجہ میسر نہ آ سکا۔
حکومت کی بے اعتنائی دیکھ کر عسکری حلقوں کی جانب سے (بطور تنبیہ) انھیں گڈگورننس اختیار کرنے کا مشورہ بھی دیا گیا۔ جس کے جواب میں کام توکچھ نہ ہوا البتہ حکمراں اور وفاقی وزرا نے عسکری کامیابیوں کا سہرا اپنے سر باندھنے اور کثیر سرمایے سے جاری کردہ ایسے بڑے بڑے منصوبوں کا شور مچانا شروع کر دیا جو عوام سے زیادہ خواص کے لیے سودمند ہیں۔
گزرے سال کے اختتام پر دنیا بھر میں بڑھتی دہشت گردی اور حکومتوں کی بہتر کارکردگی، عوام کے تحفظ پر توجہ میں اضافے کا رجحان پروان چڑھا۔ تمام بڑی طاقتیں دنیا میں قیام امن کے لیے کوشاں ہیں اور ہماری حکومت نے اپنے ہی ملک کے صوبوں میں سیاسی توازن کو متاثر کرنا شروع کر دیا جس کی واضح مثال صوبہ سندھ اور وفاق کے درمیان کشیدگی برقرار رہنے کی ہے۔سال گزشتہ نے جاتے جاتے اس بار پھر دہشت گردی کا ایک سانحہ ثبت کر دیا، جو کے پی کے کے شہر مردان میں نادرا آفس پر خودکش حملے کی صورت میں پیش آیا جس میں ابتدائی اطلاعات کیمطابق 26 افراد شہید اور 56 شدید زخمی ہوئے۔
خدشہ ہے کہ اموات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ یہ سانحہ آرمی پبلک اسکول کے ذمے داروں کی پھانسی کا ردعمل ہے، اگرچہ ایک کالعدم جماعت نے اس واقعے کی ذمے داری قبول کر لی ہے جب کہ طالبان نے اس حملے کی مذمت کی ہے۔ بہرحال سال نو کی آمد پر ایک بار پھر کئی گھروں میں صف ماتم بچھ گئی، قوم میں خدشات نے ایک بار پھر سر ابھارا ہے۔ غرض اس نئے سال کا استقبال بھی قوم دکھے دل کے ساتھ کرے گی۔ ساتھ ہی نئے سال سے ایک بار پھر امن و سکون کی امیدیں وابستہ کی جائیں گی کہ امید پہ دنیا قائم ہے اور مایوسی کفر ہے۔ خدا سے یہی دعا کی جا سکتی ہے کہ یہ سال واقعی امن و خوشحالی کا سال ثابت ہو۔ آمین ثم آمین۔
اے خاصۂ خاصانِ رُسل وقتِ دعا ہے
امت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے