سندھ کا ایاز

صدیوں کا قصہ چند لفظوں میں بیان کیسے ہو؟ چٹکی ہوئی چاندنی کی تعریف کے لیے لفظ کہاں سے لائیں

صدیوں کا قصہ چند لفظوں میں بیان کیسے ہو؟ چٹکی ہوئی چاندنی کی تعریف کے لیے لفظ کہاں سے لائیں؟ سورج جیسے چمکتے سچ کو اور نکھارکیسے دیں۔ عشق کی گہرائی ناپنے کا کوئی پیمانہ بھلا ہو سکتا ہے؟ عشق جو ہمہ جہت اور ہمہ گیر ہو اسے سمیٹنے کے لیے صدیوں کا سہارا بھی ناکافی ہوتا ہے۔ فکر کی وسعت کو کیسے سمیٹیں؟ ہاں! ہمارا ایاز ایسا ہی ہے۔

ایسا ہیرا جسے صراف جتنا تراشیں اتنے نئے نئے رنگ نکھرتے جائیں۔شیخ ایاز سندھ کا وہ عظیم فلسفی ہے جو اپنی تحریرکے ہر رنگ میں نمایاں ہے، اس کی ہر سطر میں سندھ جھلکتا ہے۔ اپنی زبان اپنی دھرتی سے عشق کا دعویٰ کرنے والا ایاز، منصورکی طرح نعرہ لگاتا ہے۔ علی الاعلان سچ کا اظہارکرتا ہے۔ بیسویں صدی کے سارے اتار چڑھاؤ ایازکی تحریر میں موجود ہیں۔

ایاز نے کہانیاں بھی لکھیں، شاعری بھی کی، نثر بھی لکھا، اعلیٰ پایے کے مضامین لکھے، صحافت سے بھی منسلک رہے۔ ہر روپ میں وہ بات آزادی کی شعور کی کرتے ہیں۔ سیاسی ماحول، سیاسی نظام پر نکتہ چینی ان کی تحریرکا نمایاں رنگ ہے۔ حمایت علی شاعر ان کے لیے لکھتے ہیں کہ:

''ایازکی شاعری کا ٹھنڈے دل سے مطالعہ کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ تاریخ زندہ لفظوں میں بول رہی ہے۔ کوئی لمحہ کوئی قدر اور کوئی حقیقت وقت کی گرد میں دفن ہوکر فنا نہیں ہوتی بلکہ ایک ابدی زندگی کے خواب کی طرح اس کے اشعار میں آنکھیں کھولے ہوئے ہے اور ایاز ان کو نئے لفظ نئے جہد اور نئے روپ میں آباد کرتا جا رہا ہے اور انھیں اپنے عہدکی آگہی دے رہا ہے۔'' (حمایت علی، 2010، ص 324)

ایازکے چاہنے والے، ایازکے عاشق، ایازکی دھنوں پر جھومنے والے ہمیشہ یہ چاہتے ہیں کہ ایاز کو سمجھا جائے۔ ایاز کو جاننے والے بہت ہوں گے لیکن ایاز کو پہچاننے والے کم کم ہی ہوں گے۔ ''ایاز شناسی'' کی آرزو لے کر خانہ بدوش رائیزس کیفے کے منتظمین نے ''ایاز میلہ'' منعقدکیا۔ ''جشن ایاز'' کی دھوم ساری سندھ نے سنی اور سندھ سے عشاق کے قافلے جوق درجوق حیدرآباد شہر میں آنے لگے۔

پیروں فقیروں کے میلوں کا سننے والے حیران رہ گئے۔ایک شاعرکا میلہ تاریخ نے پہلی بار دیکھا۔ خانہ بدوش رائیزس کیفے کی روح رواں امر سندھو اور ان کے ساتھیوں خدا بخش، اظہارسومرو، علی آکاش، تاج جویو، نسیم جلبانی، عرفانہ ملاح اورراقم الحروف نے میلے کا ادبی رنگ 8 دن تک جمائے رکھا۔ پہلا دن، پہلا تعارف 18دسمبر کی شام سندھ میوزیم کے ظفرکاظمی ہال میں ہوا۔ ایازکی تصویری نمائش کا انعقاد کیا گیا۔نوجوان نسل نے بھرپور شرکت کی اور حیدرآباد کی مشہور سماجی، علمی ادبی شخصیات نے بھی اس اقدام کو سراہا۔

میلے کا دوسرا دن 19 دسمبر شیخ ایازکی شاعری پڑھنے کا سیشن رکھا گیا۔ مشہور ادیبوں اورشاعروں نے اپنے محبوب شاعر کی شاعری پڑھ کر ان کو خراج تحسین پیش کیا۔ 20 دسمبر ایاز کے خاندان سے ملاقات کا سیشن تھا۔ یہ سیشن جذبات کے رنگوں سے بھرپور تھا۔ غیر رسمی سیشن جس میں ڈاکٹر عرفانہ ملاح اور اظہار سومرو نے ہلکے پھلکے انداز میں ایاز کے بچوں سے بات چیت جاری رکھی۔ تقریب کا رنگ بہت جذباتی تھا۔

شیخ ایاز کی دو بیویوں کی اولاد برسوں بعد آمنے سامنے آئیں اور بچپن کی یادیں کھرچتے کھرچتے ایک دوسرے کا درد سمجھنے لگے اور قریب آتے گئے۔ اسی سیشن میں حیدرآبادکی مشہور سیاسی اور سماجی شخصیات نے شرکت کی۔ شام کو محفل ایاز سجی تو پورا پنڈال نوجوان لڑکے لڑکیوں، خواتین اور مرد حضرات سے بھرگیا۔ 21 دسمبر کو مشاعرے کا انعقاد کیا گیا، جس میں 50 شعرا نے شرکت کی۔ صدارت سندھ کے مشہور شاعر امداد حسینی نے کی اور مہمان خاص سید افضال احمد تھے۔

تنویر انجم، عطیہ داؤد، سحر امداد، ڈاکٹر رخسانہ پریت، روبینہ ابڑو، علی آکاش، اظہار سومرو، جمیل سومرو، تاج جویو، مشتاق پھل، سرفراز راجڑ اور بہت سے دوسرے مشہور شعرا نے اپنا کلام پیش کیا۔ یہ مشاعرہ ایاز کے نام کیا گیا تھا۔ ادب کی کہکشاں سی اترآئی تھی خانہ دوش ہال میں۔ ہر عمر کے لوگ اس میلے میں دلچسپی لے رہے تھے، روزانہ 500 کے قریب لوگ آ رہے تھے۔ 22 دسمبر خانہ دوش کے ہال میں مشہور ادیبہ، شاعرہ، ترجمہ نگار فہمیدہ ریاض کا ایاز پر لیکچر تھا۔فہمیدہ ریاض نے بہت خوبصورتی سے ایازکی شاعری کا ترجمہ کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہ ترجمہ نہیں ایازخود بول رہا ہے۔

''کیوں بیٹھا پیر پسارے اٹھ،کٹ رستے سارے جائیں گے

اس دریا میں جو دہشت ہے،اک دن محشر بن جائے گی

تو اور میں بس سندھو میں اک لہر ابھارے جائیں گے

مرنا ہے ہر اک انسان کو، پر یوں نہ مریں گے ہم ساتھ

کوئی لگا، شعلے بھڑکا، اک نئے کنارے جائیں گے


فہمیدہ ریاض نے کہا کہ فیض اور شیخ ایاز ایک ہی عہد کے شاعر تھے، لیکن ایازکے جذبوں میں سندھ کے لوگ اس کے ساتھ شامل ہیں، لیکن فیض کے ساتھ پورا پنجاب ساتھ نہیں۔ یہ کسی شاعر کی کامیابی ہی تو ہے کہ وہ جن لوگوں کے لیے لکھتا ہو وہ اس کے ساتھ ہوں۔ ایازکا شعور صرف سندھ تک محدود نہیں ہے، ایاز بین الاقوامی حیثیت کا شاعر ہے۔ اس نے اپنی شاعری میں دنیا کی تاریخ کو سمویا ہے۔

فہمیدہ ریاض نے اپنی ترجمہ کی ہوئی نظمیں پڑھیں اور یہ بھی کہا کہ ایازکی شاعری کو ہندی میں بھی ترجمہ ہونا چاہیے۔ اس کے بعد ایازکی ڈاکومنٹری اور ویڈیو دکھائی گئی۔ شام میں حسب روایت محفل ایاز سجائی گئی۔

23 دسمبر کی شام حیدرآباد کی مدھر ہواؤں نے سندھ کی بیٹی سہائی ابڑوکا شاندار استقبال کیا۔ سہائی کی نرت کلا نے سب پر سحر سا طاری کردیا۔ سیف سمیموکی آواز اور سہائی ابڑو کی نرت نے سیکڑوں لوگوں پر سکتہ طاری کردیا۔ الن فقیر کی گائی ہوئی شیخ ایازکی وائی کو دوبارہ سیف سمیمو نے جدید رنگ دے کر نوجوانوں سے متعارف کروایا ہے۔

''جب ڈالیوں پر سرخ گلاب کھلیں گے

تب ملیں گے''

وائی پر بھی سوہائی ابڑو نے رقص پیش کرکے داد وصول کی۔ ممتاز مرزا آڈیٹوریم پورا بھرا ہوا تھا اور لوگ کھڑے ہوکر مسلسل تالیاں بجا کر داد دے رہے تھے۔ سہائی ابڑو مشہور آرٹسٹ خدابخش ابڑو اور شاعرہ عطیہ داؤد کی بیٹی ہے۔ اس میلے کی ساری ڈیزائننگ، پوسٹرکی ڈرافٹنگ خدا بخش ابڑو نے کی تھی۔

24 دسمبر کو ''ایاز نامہ'' کے عنوان کے تحت سیشن ہوا، جس میں مشہور اسکالرز نے مقالے پڑھے اور ادیبوں نے تقاریر بھی کیں۔ ایاز کی فکر کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا۔ مقالہ نگار ڈاکٹر ریحانہ نظیر نے ''شیخ ایاز بحیثیت کہانی نویس'' اپنا مقالہ پڑھا۔ فکر ایاز پر ممتاز فلاسفر جاوید بھاتو نے فکر انگیز گفتگو کی۔ نور احمد جھنجی نے ایاز کی شاعری میں تھر کے ذکر پہ مقالہ پڑھا، ان کے علاوہ ڈاکٹر فہمیدہ حسین، ڈاکٹر ادل سومرو، شیخ گل، شوکت شورو، تاج جویو، مونس ایاز، ارباب نیک محمد بلوچستان سے آئے ہوئے پناہ بلوچ، ذوالفقار ہالیپوٹو، فہمیدہ ریاض، نعیم عباس چانڈیو نے بھی تقاریر کیں۔ پروگرام کی کمپیئرنگ کے فرائض ڈاکٹر عرفانہ ملاح نے انجام دیے۔ اظہار سومرو نے اپنی نظم ایاز کے نام پیش کی۔ علی آکاش نے پروگرام کے پس منظر کے بارے میں بتایا اور ایاز میلہ کے سارے پروگرام کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کیا۔

میلے کی آخری دھمال 25 دسمبر کو ہوئی جس میں مشہور گلوکاروں نے ایاز کو گایا۔ شیخ ایاز کی مشہور نظم: ''میں مجرم ہوں، ہاں میں مجرم ہوں'' پر لوگ مستانہ وار رقص کرتے رہے۔ شیخ فقیر، ذوالفقار اور مظہر حسین، سیف سمیجو، رجب فقیر، نزاکت فقیر، خرم بخش مہرانوی نے اپنی آواز کا جادو جگایا۔ میڈیا پر اس پروگرام کو لائیو دکھایا گیا تھا۔

ایاز میلے میں خواتین اور نوجوانوں نے بھرپور شرکت کی، اکثر و بیشتر ادیبوں کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا حیدر آباد کی ماضی کی فضا واپس آرہی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے مفکروں اور فلاسفروں کو قیدی بنایا گیا ہے۔ پابندیوں نے شعور کو پھیلنے ہی نہیں دیا۔ محترم جی ایم سید، ابراہیم جویو اور شیخ ایاز کی تحریر یں ہمارے تعلیمی نصاب میں شامل ہی نہیں ہیں، لیکن ہمارے نوجوان اب شعور کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

ہاں!

ایاز سندھ کی آواز ہے

آواز کوکوئی نہیں مار سکتا

آواز امر ہوتی ہے

سندھ کو ایاز پر فخر ہے
Load Next Story