مظہر کلیم ایم اے زندہ ہیں اُن کی قدر کیجیے
کیا کوئی اس بات سے انکار کرسکتا ہے کہ ابن صفی، اشتیاق احمد اور مظہر کلیم نے اپنی تحریروں سے نوجوانوں کی کردار سازی کی۔
یہ کم و بیش ربع صدی قبل کی بات ہے۔ ہم ان دنوں پانچویں کلاس کے طالب علم تھے۔ ہماری ناک کا آپریشن ہوا تھا۔ ہم اسپتال میں داخل تھے اور سارا دن بیزار بیٹھے رہتے تھے کہ کرنے کا کام تو تھا نہیں کوئی اور سکول کا نصاب پڑھنا ہمیں امتحان کےعلاوہ گوارا بھی نہیں تھا۔ بلکہ سچ کہئے تو امتحانات میں بھی مجبوراً ہی پڑھتے کہ کہیں دوبارہ ہی یہ نصاب نہ متھے لگ جائے۔ ایک دن ایسے ہی بیزاریت میں ہم نے اپنے بیڈ سے منسلک چھوٹی میز کو کھنگالنا شروع کردیا۔ اس میں ہمارا تولیہ، صابن، ٹوتھ برش اور ایک چائے کا کپ تھا جو ہمارے گھر والوں نے ہمارے آپریشن کے وقت رکھا تھا۔ دیکھا تو ایک کتاب تھی۔ جس کے ابتدائی صفحےغائب تھے۔ جب ہم نے کتاب پڑھنا شروع کی تو ہمیں دلچسپ لگی۔ اس میں عمران اور جولیا کے کردار تھے اور ہم نے انہی کے کرداروں والے پیراگراف پڑھے۔ کہانی ختم ہو گئی۔ مگر ہماری تشنگی ابھی باقی تھی تو باقی پیرا گراف بھی پڑھ ڈالے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ کہانی کا نام ''غدار جولیا'' تھا اور مصنف ''مظہر کلیم ایم اے'' تھے۔
ہم اس نام کے ساتھ ایم اے پر بہت حیران ہوئے کہ یہ کیسا نام ہوا؟ بہرحال یہ میرا عمران سیریز سے پہلا تعارف تھا۔ جلد ہی یہ تعارف عقیدت میں بدل گیا۔ ان دنوں عمران سیریز آسانی سے میسر نہیں ہوتی تھی۔ اٹک میں ایک ہی دوکان تھی اور وہاں بھی نئے ناول کی دو نقول آتی تھیں اور وہ صرف مظہر کلیم صاحب کی عمران سیریز ہوتی تھی۔ اس کو خرید بھی نہیں سکتے تھے کہ ایک سفید پوش گھرانے سے تعلق کی بنا پر ہم نے جیب خرچ جیسی عیاشی کبھی دیکھی ہی نہیں تھی۔ کبھی کسی دوست سے لے کر پڑھ لی اور کبھی کسی کے گھر مل گئی تو پڑھ لی۔ پھر جب ہم راولپنڈی آئے تو گھر کے پاس ایک پرانی کتب کی دکان تھی۔ اس کے پاس عمران سیریز تھیں اور وہ روز کے شاید ایک روپیہ کرایہ پر دیتا تھا۔ اس دور میں مظہر صاحب نے بے شمار خوبصورت ناول لکھے۔
وقت کے ساتھ ہمیں پتہ چلا کہ عمران سیریز کے موجد ''ابن صفی'' مرحوم تھے اور یہ ان کے کردار ہیں جن کو مظہر کلیم صاحب اب استعمال کر رہے ہیں۔ میرے خیال میں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ دنیا میں بیشتر ایجادات نیوٹن کے قوانین استعمال کرکے ہوئی ہیں۔ اب اگر ان سے مزید ترقی ہو رہی تو اس میں کیا حرج؟ کرکٹ کی مثال دیں تو جسے ریورس سوئنگ کہتے ہیں وہ سرفراز نواز نے ایجاد کی مگر اسے بامِ عروج پر وسیم اکرم اور وقار یونس نے پہنچایا۔ محترم ابن انشاء نے بھی میر کی پیروی کی اور اس کا وہ برملا اظہار بھی کرتے ہیں۔ سو ادب میں بھی یہ کچھ انہونا نہیں کہ آپ کسی کا انداز لیتے ہیں اور اسے اپنے رنگ میں ڈھالتے ہیں۔
چند دنوں پہلے مظہر کلیم صاحب کا انٹرویو شائع ہوا۔ اس میں کچھ باتیں مظہر صاحب کی قارئین کو پسند نہیں آئیں ان میں ہمیں بھی شامل رکھیں۔ بالخصوص ابن صفی سے متعلق۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ مظہر کلیم صاحب نے ابن صفی کی بہرحال تعریف کی مگر میرا خیال ہے کہ اُنہیں زیادہ وسعت قلبی کا مظاہرہ کرنا چاہئیے تھا۔ انہیں ابن صفی صاحب کو ہی عمران سیریز کا سہرا دینا چاہئیے تھا۔ ان کے ناولوں کو مقامی جرائم کے متعلق کہنا ہمیں بھی ناگوار گزرا۔ شاہ رخ کو عمران کے کردار کے لئے موزوں کہنا بھی کچھ اچھا نہیں لگا۔ انھیں تنویر زیادہ پسند اور مجھے بلیک زیرو مگر یہ ان کا حق ہے۔ ان کا یہ کہنا بھی سو فیصد درست نہیں کہ ان کے سب ناول ذو معنی جملوں سے پاک ہیں۔
اس انٹرویو کا جو ردِعمل آیا وہ زیادہ حیران کن بلکہ افسوس ناک ہے۔ 73 سال کے ایک بزرگ کو جس طرح تم اور تو کہہ کر مخاطب کیا گیا، کیا اس طرز کی گفتگو ہم اپنے بزرگوں کے لئے گوارا کریں گے؟ ہم لوگ یہ بھول گئے کہ وہ شخص 50 سال سے لکھ رہا ہے اور اتنی ہم میں سے کسی کی عمر نہیں اور ہم چلے ان پر تنقید کرنے۔ اگر ان پر تنقید فاروق سلیم، ارشاد العصر جعفری، ظہیر احمد یا کوئی اور جاسوسی ناول لکھنے والا کرتا تو مناسب بھی محسوس ہوتا۔ ہم لوگ کہ جنہوں نے خود 7 صفحے نہیں لکھے، کس حق سے ہم نے نصاب بر طرف اور اس شخص پر سنگ باری شروع کردی جو کہ قریب 6 سو صرف عمران سیریز کے ہی جاسوسی ناول لکھ چکا ہے۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ اب مظہر صاحب کا وہ معیار نہیں رہا جو پہلے تھا۔ مگر ہم میں سے کوئی آج کے ناول جیسا ہی لکھ دکھائے، تو مان لیں گے۔ اصل میں ہمارا مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہم لوگوں کو اب صرف تنقید کرنا اور اعتراض کرنا ہی آتا ہے۔
ہم نے اس بات کو بھی بھلا دیا کہ یہ ایک انٹرویو تھا۔ انٹرویو میں 60 فیصد سچ ہوتا ہے اور 40 فیصد جھوٹ۔ کیا ہم میں سے کبھی کسی نے غلط بیانی نہیں کی؟ ہم ان کے لئے ایسے سچ کی توفیق مانگ رہے جیسے ہم نے کبھی ایسا کچھ بھی نہ کیا ہو۔ کم از کم میں تو اس بات کا حلف نہیں دے سکتا۔
ہم اِس لحاظ سے انتہائی تنگ نظر ہیں کہ ہمیں کسی کی ایک بات نا پسند آئی اور ہم نے اس کے ساری زندگی میں کئے گئے کام بُھلا دیئے۔ وہ قابل سنگ زنی ٹھہرا اور جو ہمیں پسند آجائے اس پر 100 خون معاف۔ ابھی بھی ان کے ناول کی اشاعت میں تاخیر ہوجائے تو فوراً پوسٹ لگ جاتی ہے۔ اس فورم پر سب سے زیادہ ناول کس کے ہیں؟ اس کو چھوڑیئے، کسی بھی ویب سائٹ، کتب کی دکان یا لائبریری میں چلے جائیں اور دیکھیں کہ کس کی کتاب کیسے بک رہی ہے۔ ابن صفی، اشتیاق احمد اور مظہر کلیم کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے نوجوانوں کی کردار سازی کی۔ اول الذکر دونوں اصحاب تو دار فانی سے کوچ کرچکے، اللہ دونوں کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔ مظہر کلیم سلامت ہیں، ہمیں ان کی قدر کرنی چاہیئے ورنہ مرنے کے بعد تو ہم لوگ پاکستان توڑنے والوں کو بھی گارڈ آف آنر پیش کرتے رہتے ہیں۔ سو اگر ان کے بھی جانے کے بعد ہی یہ کام ہوا تو کیا ہوا۔
ہم تو وہ لوگ ہیں کہ جو مختلف ویب سائٹس پر ان کے ناول بغیر کسی معاوضے کے پڑھتے ہیں اور اس کے بعد نادم ہوئے بغیر ان کے کام اور مقام پر کیڑے نکالتے ہیں۔ یہ ہر شخص کا اپنا فیصلہ ہے کہ وہ کیا پڑھنا چاہتا ہے؟ کوئی کسی کو مجبور نہیں کرسکتا۔ ہمیں اپنا جائزہ لینے کی زیادہ ضرورت ہے جبھی کسی دوسرے پر تنقید کرتے اچھے بھی لگیں گے۔
[poll id="862"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
ہم اس نام کے ساتھ ایم اے پر بہت حیران ہوئے کہ یہ کیسا نام ہوا؟ بہرحال یہ میرا عمران سیریز سے پہلا تعارف تھا۔ جلد ہی یہ تعارف عقیدت میں بدل گیا۔ ان دنوں عمران سیریز آسانی سے میسر نہیں ہوتی تھی۔ اٹک میں ایک ہی دوکان تھی اور وہاں بھی نئے ناول کی دو نقول آتی تھیں اور وہ صرف مظہر کلیم صاحب کی عمران سیریز ہوتی تھی۔ اس کو خرید بھی نہیں سکتے تھے کہ ایک سفید پوش گھرانے سے تعلق کی بنا پر ہم نے جیب خرچ جیسی عیاشی کبھی دیکھی ہی نہیں تھی۔ کبھی کسی دوست سے لے کر پڑھ لی اور کبھی کسی کے گھر مل گئی تو پڑھ لی۔ پھر جب ہم راولپنڈی آئے تو گھر کے پاس ایک پرانی کتب کی دکان تھی۔ اس کے پاس عمران سیریز تھیں اور وہ روز کے شاید ایک روپیہ کرایہ پر دیتا تھا۔ اس دور میں مظہر صاحب نے بے شمار خوبصورت ناول لکھے۔
وقت کے ساتھ ہمیں پتہ چلا کہ عمران سیریز کے موجد ''ابن صفی'' مرحوم تھے اور یہ ان کے کردار ہیں جن کو مظہر کلیم صاحب اب استعمال کر رہے ہیں۔ میرے خیال میں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ دنیا میں بیشتر ایجادات نیوٹن کے قوانین استعمال کرکے ہوئی ہیں۔ اب اگر ان سے مزید ترقی ہو رہی تو اس میں کیا حرج؟ کرکٹ کی مثال دیں تو جسے ریورس سوئنگ کہتے ہیں وہ سرفراز نواز نے ایجاد کی مگر اسے بامِ عروج پر وسیم اکرم اور وقار یونس نے پہنچایا۔ محترم ابن انشاء نے بھی میر کی پیروی کی اور اس کا وہ برملا اظہار بھی کرتے ہیں۔ سو ادب میں بھی یہ کچھ انہونا نہیں کہ آپ کسی کا انداز لیتے ہیں اور اسے اپنے رنگ میں ڈھالتے ہیں۔
چند دنوں پہلے مظہر کلیم صاحب کا انٹرویو شائع ہوا۔ اس میں کچھ باتیں مظہر صاحب کی قارئین کو پسند نہیں آئیں ان میں ہمیں بھی شامل رکھیں۔ بالخصوص ابن صفی سے متعلق۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ مظہر کلیم صاحب نے ابن صفی کی بہرحال تعریف کی مگر میرا خیال ہے کہ اُنہیں زیادہ وسعت قلبی کا مظاہرہ کرنا چاہئیے تھا۔ انہیں ابن صفی صاحب کو ہی عمران سیریز کا سہرا دینا چاہئیے تھا۔ ان کے ناولوں کو مقامی جرائم کے متعلق کہنا ہمیں بھی ناگوار گزرا۔ شاہ رخ کو عمران کے کردار کے لئے موزوں کہنا بھی کچھ اچھا نہیں لگا۔ انھیں تنویر زیادہ پسند اور مجھے بلیک زیرو مگر یہ ان کا حق ہے۔ ان کا یہ کہنا بھی سو فیصد درست نہیں کہ ان کے سب ناول ذو معنی جملوں سے پاک ہیں۔
اس انٹرویو کا جو ردِعمل آیا وہ زیادہ حیران کن بلکہ افسوس ناک ہے۔ 73 سال کے ایک بزرگ کو جس طرح تم اور تو کہہ کر مخاطب کیا گیا، کیا اس طرز کی گفتگو ہم اپنے بزرگوں کے لئے گوارا کریں گے؟ ہم لوگ یہ بھول گئے کہ وہ شخص 50 سال سے لکھ رہا ہے اور اتنی ہم میں سے کسی کی عمر نہیں اور ہم چلے ان پر تنقید کرنے۔ اگر ان پر تنقید فاروق سلیم، ارشاد العصر جعفری، ظہیر احمد یا کوئی اور جاسوسی ناول لکھنے والا کرتا تو مناسب بھی محسوس ہوتا۔ ہم لوگ کہ جنہوں نے خود 7 صفحے نہیں لکھے، کس حق سے ہم نے نصاب بر طرف اور اس شخص پر سنگ باری شروع کردی جو کہ قریب 6 سو صرف عمران سیریز کے ہی جاسوسی ناول لکھ چکا ہے۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ اب مظہر صاحب کا وہ معیار نہیں رہا جو پہلے تھا۔ مگر ہم میں سے کوئی آج کے ناول جیسا ہی لکھ دکھائے، تو مان لیں گے۔ اصل میں ہمارا مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہم لوگوں کو اب صرف تنقید کرنا اور اعتراض کرنا ہی آتا ہے۔
ہم نے اس بات کو بھی بھلا دیا کہ یہ ایک انٹرویو تھا۔ انٹرویو میں 60 فیصد سچ ہوتا ہے اور 40 فیصد جھوٹ۔ کیا ہم میں سے کبھی کسی نے غلط بیانی نہیں کی؟ ہم ان کے لئے ایسے سچ کی توفیق مانگ رہے جیسے ہم نے کبھی ایسا کچھ بھی نہ کیا ہو۔ کم از کم میں تو اس بات کا حلف نہیں دے سکتا۔
ہم اِس لحاظ سے انتہائی تنگ نظر ہیں کہ ہمیں کسی کی ایک بات نا پسند آئی اور ہم نے اس کے ساری زندگی میں کئے گئے کام بُھلا دیئے۔ وہ قابل سنگ زنی ٹھہرا اور جو ہمیں پسند آجائے اس پر 100 خون معاف۔ ابھی بھی ان کے ناول کی اشاعت میں تاخیر ہوجائے تو فوراً پوسٹ لگ جاتی ہے۔ اس فورم پر سب سے زیادہ ناول کس کے ہیں؟ اس کو چھوڑیئے، کسی بھی ویب سائٹ، کتب کی دکان یا لائبریری میں چلے جائیں اور دیکھیں کہ کس کی کتاب کیسے بک رہی ہے۔ ابن صفی، اشتیاق احمد اور مظہر کلیم کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے نوجوانوں کی کردار سازی کی۔ اول الذکر دونوں اصحاب تو دار فانی سے کوچ کرچکے، اللہ دونوں کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔ مظہر کلیم سلامت ہیں، ہمیں ان کی قدر کرنی چاہیئے ورنہ مرنے کے بعد تو ہم لوگ پاکستان توڑنے والوں کو بھی گارڈ آف آنر پیش کرتے رہتے ہیں۔ سو اگر ان کے بھی جانے کے بعد ہی یہ کام ہوا تو کیا ہوا۔
ہم تو وہ لوگ ہیں کہ جو مختلف ویب سائٹس پر ان کے ناول بغیر کسی معاوضے کے پڑھتے ہیں اور اس کے بعد نادم ہوئے بغیر ان کے کام اور مقام پر کیڑے نکالتے ہیں۔ یہ ہر شخص کا اپنا فیصلہ ہے کہ وہ کیا پڑھنا چاہتا ہے؟ کوئی کسی کو مجبور نہیں کرسکتا۔ ہمیں اپنا جائزہ لینے کی زیادہ ضرورت ہے جبھی کسی دوسرے پر تنقید کرتے اچھے بھی لگیں گے۔
شرم آتی ہے کہ دشمن کسے سمجھیں محسن،
دشمنی کے بھی تو معیار ہوا کرتے ہیں
[poll id="862"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔