مفلسی کی زبان
پوری دنیا نے فوری طور پر پیمانہ کو اٹھایا اور اسی عدسہ سے ملکوں کو دیکھنا شروع کر دیا۔
ملکی ترقی کا مطلب کیا ہے۔ اگر یہ بتایاجاتاہے کہ کوئی بھی ملک تیزی سے ترقی کے میدان میں سرپٹ گھوڑے کی مانند دوڑ رہا ہے تو اس سے کیا معنی کشید کیے جا سکتے ہیں۔ کیا معیشت کی برق رفتار ترقی واقعی طے شدہ اصولوں کے مطابق انسانی ترقی ہی کے زمرے میں آتی ہے۔ تمام سوالات کا جواب انتہائی آسان ہے۔ اگرعام لوگ کسی بھی طور سے ابھرتی ہوئی معیشت سے فیضیاب نہیں ہوتے۔ اگر ان کے مسائل جوں کے توں رہتے ہیں۔
اگر وہ بھوک، افلاس اور بیماری کے سمندر میں غوطے کھاتے رہتے ہیں تو وہ ریاست کسی بھی صورت میںکامیابی کے زینہ پر اوپر نہیں چڑھ رہی۔ یہ سب کچھ ایچ۔ ڈی۔ آئی(Human Development Index) کے مفہوم میں مقیدکر دیا گیا ہے۔ یہ قیمتی پیمانہ کسی اور نے نہیں ترتیب دیا۔ اس میں پاکستانی ماہر اقتصادیات، ڈاکٹر محبوب الحق کی محنت اور ریاضت شامل ہے۔ معاشیات کے میدان میںH.D.I اور انسانی ترقی کو آپس میں منسلک کرنا اسی شخص کاکام ہے۔
پوری دنیا نے فوری طور پر پیمانہ کو اٹھایا اور اسی عدسہ سے ملکوں کو دیکھنا شروع کر دیا۔ مگر پاکستان میں محض لفاظی کے علاوہ اس نایاب نسخہ پرقطعاًتوجہ نہیں دی گئی۔آج تک عملی طورپرصورتحال جوں کی توں ہے۔غربت اورغریب آدمی کی زبوں حالی قیامت کی رفتارسے بڑھ رہی ہے۔اگریہی لفظی تقریری مقابلے اورمناظرے ہوتے رہے تو غربت کا سیلاب داعش، طالبان یا القاعدہ کی صورت میں ہمارے ملک کو مکمل لپیٹ میں لے سکتا ہے۔
دنیا میں کوئی طاقت بھی غربت کے طوفان سے نہیں لڑ سکتی۔ اس سے لڑنا صرف ایک طرح سے ممکن ہے کہ دولت کے ارتکاز کو کسی حد تک کم کر کے عام لوگوں کی زندگی کو بامعنی بنایا جائے۔ بدقسمتی سے مجھے پاکستان میں یہ سب کچھ ہوتانظرنہیں آ رہا۔ بلکہ دور دور تک نظر نہیں آ رہا۔میرے سامنے یواین ڈی پی (U.N.D.P)کی 2015ء کی شایع شدہ رپورٹ پڑی ہوئی ہے۔
یہ ایک ایسے ادارہ نے شایع کی ہے جسکی ہمارے ملک سے کوئی دشمنی نہیں۔ ادارہ کی تحقیق میں آپ مذہبی یا علاقائی عصبیت کا شائبہ بھی تلاش نہیں کر سکتے۔ یہ تمام ملکوں کو عام لوگوں کی ترقی کے پیمانے سے ناپتی ہے۔ تمام ممالک کے لوگوں کا تقابلی جائزہ لیتی ہے کہ کیا حقیقت میں ترقی کے ثمرات ان تک پہنچ بھی پائے ہیں یا نہیں۔ کیا غریب کی حالت میں کوئی فرق بھی آیا ہے یاترقی کے پھٹے ہوئے ڈھول کو پروپیگنڈے کے زور پر سر ِبازار پیٹا جا رہا ہے۔
دنیاکے تمام ممالک کو چار درجوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ سب سے بالائی درجے میں وہ خوش قسمت ممالک شامل ہیں جو بہت زیادہ ترقی(Very High Development) کے زمرے میں آتے ہیں۔ پھر (High Development)یعنی زیادہ ترقی والی ریاستیں آتیں ہیں۔ اس کے بعد معتدل ترقی والےMedium Human Development والے ممالک آتے ہیں۔ آخری اور شرمناک درجہ بندی میں وہ بدقسمت ریاستیں آتیں ہیں جنھیں نچلی سطح کی ترقی والے(Low Human Development) زمرے میں رکھا گیا ہے۔
اس بدقسمت فہرست میں صرف اور صرف 43 ممالک ہیں۔ پاکستان اس فہرست میں شامل ہے۔ دنیا کے188 ممالک کی فہرست میں ہمارا عظیم ملک 147 نمبر پر لڑکھڑا رہا ہے بلکہ ڈول رہا ہے۔ قیامت کی بات یہ ہے کہ نیپال اورکینیاجیسے ممالک ہمارے سے اوپر ہیں۔ ہمارے بعد میانمیر (برما) آتا ہے۔ یہ فہرست نائجر(Niger) پر ختم ہو جاتی ہے۔ اس کا نمبر188ہے یعنی یہ انسانی ترقی کے میدان میں سب سے آخر میں ہے۔
یواین ڈی پی کی یہ ضخیم رپورٹ دسمبر2015ء میں شایع ہوئی ہے۔ یعنی 2015ء تک پاکستان میں مجموعی انسانی ترقی کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے۔ بے لاگ تحقیق کے مطابق ہم لوگ دنیاکے لیے محض ایک مذاق کی حیثیت رکھتے ہیں۔147 نمبر کسی بھی طرح اطمینان بخش نہیں بلکہ ڈوب مرنے کامقام ہے۔ کیونکہ ہم شرمندہ ہونے کی صلاحیت سے بھی آزاد ہو چکے ہیں، لہذا تمام مقتدر حلقوں نے اس پر چپ سادھ لی ہے۔
ناروے اس فہرست میں اول نمبر پر ہے۔ میں ناروے کے ملحقہ ملک سویڈن میں کئی بار گیا ہوں۔ سویڈن چودھویں نمبر پر ہے۔ سویڈن کی انسانی ترقی کو دیکھ کر انسان ششدر رہ جاتا ہے۔ وہاں کی حکومتیں جوسہولتیں اپنی رعایا کو مہیا کرتی ہیں، وہ مسلمان صرف اور صرف جنت کی حدتک سوچ سکتے ہیں۔ اسٹاک ہولم کے نزدیک ایک جنگل میں اپنے ایک سویڈین دوست کے گھر ٹھہرا ہوا تھا۔ چھوٹا ساگھر ایک جھیل کے کنارے پر واقع تھا۔
اسطرح کی ہزاروں جھیلیں پورے خطے میں جابجا موجودہیں۔ میرا دوست موٹروے انجینئرتھا۔ سعودی عرب کی اکثر سڑکیں اس کی کمپنی نے تعمیر کی تھیں۔ اس سے پوچھنے کی کوشش کی کہ اس جنگل میں آپ لوگ پانی کہاں سے پیتے ہو۔ کیونکہ نزدیک نزدیک تک کوئی حکومتی یاغیرحکومتی پانی کی فراہمی کے آثار نہیں تھے۔ سوال سن کروہ کافی دیر ہنستا رہا۔ مجھے جھیل کے کنارے لے گیا۔ ایک معمولی سی مشین سے جھیل سے پانی نکالا اور پینے لگ گیا۔
میں حیران رہ گیاکیونکہ تصوربھی نہیں کرسکتاتھاکہ گھرسے ملحقہ جھیل کاپانی پینے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس نے مجھے بھی پانی گلاس میں ڈال کر دیا۔ میں نے پینے سے انکارکر دیا۔ انکار پر وہ جلدی سے اپنے گھر گیا اور ایک فائل لے آیا۔ اس میں لوکل کونسل کی طرف سے پانی کے نمونوں کے نتائج لگے ہوئے تھے۔ جھیل کے پانی کو انسانی استعمال کے لیے درست قرار دیا گیا تھا۔ کہنے لگاکہ ہرمہینہ لوکل کونسل کی جانب سے لوگ آتے ہیں۔ پانی کاتجزیہ کرتے ہیں اور ایک سرٹیفکیٹ دے جاتے ہیںکہ آپ اپنے گھر کے ساتھ والی جھیل کا پانی پی سکتے ہیں۔ میں نے سرٹیفکیٹ دیکھا اور آرام سے پانی پی لیا۔ یاد رہے میں سویڈن کی عرض کر رہا ہوں جو چودھویں نمبر پر ہے۔
آپ انسانی عمرکی طرف آئیے۔ ناروے میں انسان کی عمومی عمر اکیاسی(81) برس ہے۔ یعنی عام آدمی اچھی آب و ہوا اور جدید طبی سہولیات کی بدولت بڑے آرام سے81 برس تک زندہ رہ سکتاہے۔یہ عمومی عمرہے ورنہ وہاں آپکو نوے اور پچانوے سال کے بزرگ مرد اور خواتین ہر طرف نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں عمومی عمر66 برس ہے۔ طویل عمری اور کم عمری کایہ فرق دراصل اس کلیہ کاامتحان ہے کہ حکومت اپنے لوگوں کومعیاری سہولتیں دینے میں کامیاب ہے یامکمل ناکام ہو چکی ہے۔
یہ انتہائی نازک نکتہ ہے۔ اس سے کسی بھی حکومت کی دستار سر ِبازار اچھل سکتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں حکومتی عزت اور بے عزتی کے پیمانے تک میں کوئی فرق نہیں۔ لہذا یہاں یہ سب کچھ محض ایک عددی ہندسہ ہے۔81 برس بنام 66 برس کا یہاںکوئی مطلب نہیں، کچھ بھی نہیں۔
تعلیم کے میدان کارِزار میں آ جائیے۔ ناروے میں ہر بچہ سترہ سال تک پڑھتا ہے۔ عمومی طور(Mean years of Schooling) سے ہر بچہ بارہ سال تک زیرِ تعلیم رہتا ہے۔ ہمارے عظیم ملک میں یہ اعداد بارہ اور چار سال ہیں۔ یعنی ایک بچہ عمومی طور پر صرف اور صرف چار سال زیر ِتعلیم رہتا ہے۔کانگو جیسے ملک میں ہر بچہ چھ سال کے لیے زیرِتعلیم رہتا ہے۔حد تو یہ ہے کہ کمبوڈیا اور گھانا جیسے ممالک بھی تعلیمی دوڑ میں ہم سے کافی آگے ہیں۔ ہر چیز کو چھوڑ دیجیے۔
ہر پیمانے سے صرفِ نظر کر لیجیے۔ مجموعی طور پرH.D.I کے مکمل تخمینہ میں ہم 1990ء سے لے کر 2015ء تک قابل رحم حدتک پیچھے رہ چکے ہیں۔2000ء سے 2014/15ء تک اس رپورٹ کے مطابق ہم نےH.D.I کے مجموعی خانے میں صفر (0) مثبت ترقی کی ہے۔ برما ہم سے آگے بڑھ چکا ہے۔ دنیا میں سب سے پیچھے رہ جانے والا ملک، نائجر (Niger) اور ہم ایک ہی منصب پر انتہائی شان سے براجمان ہیں۔
یو این ڈی پی کی اس رپورٹ کے آخر میں سولہ تقابلی جائزے لگے ہوئے ہیں۔ تمام ملکوں کا ہر طرح سے احاطہ کرتے ہیں۔ دولت کے ارتکاز اور تفاوت سے لے کر بین الاقوامی رابطوں (Integration)تک۔ غربت سے لے کر لوگوں کے خوش رہنے کے رجحان تک۔ روزگارکی دستیابی سے لے کرانسانی جان کی حفاظت تک۔ ہم زندہ قوموں کے اس تقابلی مقابلے میں ہر طرح سے پیچھے ہیں۔ میں اپنامقابلہ ناروے اورآسٹریلیا جیسے ممالک سے کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ فہرست کے آخرمیں دیکھتاہوں تو یہ گمان ہونے لگتاہے کہ کہیں چند سالوں میں ہم 143 نمبر سے188 نمبر پر نہ پہنچ جائیں۔
تکلیف ہوتی ہے جب گھانا، زمبیا ہنڈوراس اور نیپال جیسے ممالک کو اپنے آپ سے بہتر مقام پر پاتا ہوں۔ تکلیف صدمہ میں بدل جاتی ہے جب ترقی کے زبردست نعرے اور دعوؤں کو سنتا ہوں۔ اخبار پڑھ کر ایسے لگتا ہے کہ ہم چند ماہ میں ناروے سے بہتر ملک ہو جائینگے۔ ٹی وی پراشتہاردیکھ کرمعلوم ہوتاہے کہ سوئٹرزلینڈ جیسا ملک ترقی کاسبق ہم سے حاصل کرنے کے لیے سرنگوں بیٹھاہو گا۔ آسٹریلیاکی حکومت ہمارے حکمرانوں کے زانومیں بیٹھ کربے مثال ترقی کے اسباب پوچھ رہی ہو گی۔
حقیقت میںجہالت اور غربت کی مہیب خاموشی میں مجھے ترقی کا کوئی نعرہ سنائی نہیں دے رہا۔ جس دن غربت کی اس خاموشی نے بولنے کی طاقت حاصل کر لی، اسی لمحے فرضی ترقی کے تمام نعرے شہرِ خموشاں میں مقید ہو جا ئینگے۔ مفلسی کی اس طاقت ور زبان کا منتظر ہوں۔
اگر وہ بھوک، افلاس اور بیماری کے سمندر میں غوطے کھاتے رہتے ہیں تو وہ ریاست کسی بھی صورت میںکامیابی کے زینہ پر اوپر نہیں چڑھ رہی۔ یہ سب کچھ ایچ۔ ڈی۔ آئی(Human Development Index) کے مفہوم میں مقیدکر دیا گیا ہے۔ یہ قیمتی پیمانہ کسی اور نے نہیں ترتیب دیا۔ اس میں پاکستانی ماہر اقتصادیات، ڈاکٹر محبوب الحق کی محنت اور ریاضت شامل ہے۔ معاشیات کے میدان میںH.D.I اور انسانی ترقی کو آپس میں منسلک کرنا اسی شخص کاکام ہے۔
پوری دنیا نے فوری طور پر پیمانہ کو اٹھایا اور اسی عدسہ سے ملکوں کو دیکھنا شروع کر دیا۔ مگر پاکستان میں محض لفاظی کے علاوہ اس نایاب نسخہ پرقطعاًتوجہ نہیں دی گئی۔آج تک عملی طورپرصورتحال جوں کی توں ہے۔غربت اورغریب آدمی کی زبوں حالی قیامت کی رفتارسے بڑھ رہی ہے۔اگریہی لفظی تقریری مقابلے اورمناظرے ہوتے رہے تو غربت کا سیلاب داعش، طالبان یا القاعدہ کی صورت میں ہمارے ملک کو مکمل لپیٹ میں لے سکتا ہے۔
دنیا میں کوئی طاقت بھی غربت کے طوفان سے نہیں لڑ سکتی۔ اس سے لڑنا صرف ایک طرح سے ممکن ہے کہ دولت کے ارتکاز کو کسی حد تک کم کر کے عام لوگوں کی زندگی کو بامعنی بنایا جائے۔ بدقسمتی سے مجھے پاکستان میں یہ سب کچھ ہوتانظرنہیں آ رہا۔ بلکہ دور دور تک نظر نہیں آ رہا۔میرے سامنے یواین ڈی پی (U.N.D.P)کی 2015ء کی شایع شدہ رپورٹ پڑی ہوئی ہے۔
یہ ایک ایسے ادارہ نے شایع کی ہے جسکی ہمارے ملک سے کوئی دشمنی نہیں۔ ادارہ کی تحقیق میں آپ مذہبی یا علاقائی عصبیت کا شائبہ بھی تلاش نہیں کر سکتے۔ یہ تمام ملکوں کو عام لوگوں کی ترقی کے پیمانے سے ناپتی ہے۔ تمام ممالک کے لوگوں کا تقابلی جائزہ لیتی ہے کہ کیا حقیقت میں ترقی کے ثمرات ان تک پہنچ بھی پائے ہیں یا نہیں۔ کیا غریب کی حالت میں کوئی فرق بھی آیا ہے یاترقی کے پھٹے ہوئے ڈھول کو پروپیگنڈے کے زور پر سر ِبازار پیٹا جا رہا ہے۔
دنیاکے تمام ممالک کو چار درجوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ سب سے بالائی درجے میں وہ خوش قسمت ممالک شامل ہیں جو بہت زیادہ ترقی(Very High Development) کے زمرے میں آتے ہیں۔ پھر (High Development)یعنی زیادہ ترقی والی ریاستیں آتیں ہیں۔ اس کے بعد معتدل ترقی والےMedium Human Development والے ممالک آتے ہیں۔ آخری اور شرمناک درجہ بندی میں وہ بدقسمت ریاستیں آتیں ہیں جنھیں نچلی سطح کی ترقی والے(Low Human Development) زمرے میں رکھا گیا ہے۔
اس بدقسمت فہرست میں صرف اور صرف 43 ممالک ہیں۔ پاکستان اس فہرست میں شامل ہے۔ دنیا کے188 ممالک کی فہرست میں ہمارا عظیم ملک 147 نمبر پر لڑکھڑا رہا ہے بلکہ ڈول رہا ہے۔ قیامت کی بات یہ ہے کہ نیپال اورکینیاجیسے ممالک ہمارے سے اوپر ہیں۔ ہمارے بعد میانمیر (برما) آتا ہے۔ یہ فہرست نائجر(Niger) پر ختم ہو جاتی ہے۔ اس کا نمبر188ہے یعنی یہ انسانی ترقی کے میدان میں سب سے آخر میں ہے۔
یواین ڈی پی کی یہ ضخیم رپورٹ دسمبر2015ء میں شایع ہوئی ہے۔ یعنی 2015ء تک پاکستان میں مجموعی انسانی ترقی کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے۔ بے لاگ تحقیق کے مطابق ہم لوگ دنیاکے لیے محض ایک مذاق کی حیثیت رکھتے ہیں۔147 نمبر کسی بھی طرح اطمینان بخش نہیں بلکہ ڈوب مرنے کامقام ہے۔ کیونکہ ہم شرمندہ ہونے کی صلاحیت سے بھی آزاد ہو چکے ہیں، لہذا تمام مقتدر حلقوں نے اس پر چپ سادھ لی ہے۔
ناروے اس فہرست میں اول نمبر پر ہے۔ میں ناروے کے ملحقہ ملک سویڈن میں کئی بار گیا ہوں۔ سویڈن چودھویں نمبر پر ہے۔ سویڈن کی انسانی ترقی کو دیکھ کر انسان ششدر رہ جاتا ہے۔ وہاں کی حکومتیں جوسہولتیں اپنی رعایا کو مہیا کرتی ہیں، وہ مسلمان صرف اور صرف جنت کی حدتک سوچ سکتے ہیں۔ اسٹاک ہولم کے نزدیک ایک جنگل میں اپنے ایک سویڈین دوست کے گھر ٹھہرا ہوا تھا۔ چھوٹا ساگھر ایک جھیل کے کنارے پر واقع تھا۔
اسطرح کی ہزاروں جھیلیں پورے خطے میں جابجا موجودہیں۔ میرا دوست موٹروے انجینئرتھا۔ سعودی عرب کی اکثر سڑکیں اس کی کمپنی نے تعمیر کی تھیں۔ اس سے پوچھنے کی کوشش کی کہ اس جنگل میں آپ لوگ پانی کہاں سے پیتے ہو۔ کیونکہ نزدیک نزدیک تک کوئی حکومتی یاغیرحکومتی پانی کی فراہمی کے آثار نہیں تھے۔ سوال سن کروہ کافی دیر ہنستا رہا۔ مجھے جھیل کے کنارے لے گیا۔ ایک معمولی سی مشین سے جھیل سے پانی نکالا اور پینے لگ گیا۔
میں حیران رہ گیاکیونکہ تصوربھی نہیں کرسکتاتھاکہ گھرسے ملحقہ جھیل کاپانی پینے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس نے مجھے بھی پانی گلاس میں ڈال کر دیا۔ میں نے پینے سے انکارکر دیا۔ انکار پر وہ جلدی سے اپنے گھر گیا اور ایک فائل لے آیا۔ اس میں لوکل کونسل کی طرف سے پانی کے نمونوں کے نتائج لگے ہوئے تھے۔ جھیل کے پانی کو انسانی استعمال کے لیے درست قرار دیا گیا تھا۔ کہنے لگاکہ ہرمہینہ لوکل کونسل کی جانب سے لوگ آتے ہیں۔ پانی کاتجزیہ کرتے ہیں اور ایک سرٹیفکیٹ دے جاتے ہیںکہ آپ اپنے گھر کے ساتھ والی جھیل کا پانی پی سکتے ہیں۔ میں نے سرٹیفکیٹ دیکھا اور آرام سے پانی پی لیا۔ یاد رہے میں سویڈن کی عرض کر رہا ہوں جو چودھویں نمبر پر ہے۔
آپ انسانی عمرکی طرف آئیے۔ ناروے میں انسان کی عمومی عمر اکیاسی(81) برس ہے۔ یعنی عام آدمی اچھی آب و ہوا اور جدید طبی سہولیات کی بدولت بڑے آرام سے81 برس تک زندہ رہ سکتاہے۔یہ عمومی عمرہے ورنہ وہاں آپکو نوے اور پچانوے سال کے بزرگ مرد اور خواتین ہر طرف نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں عمومی عمر66 برس ہے۔ طویل عمری اور کم عمری کایہ فرق دراصل اس کلیہ کاامتحان ہے کہ حکومت اپنے لوگوں کومعیاری سہولتیں دینے میں کامیاب ہے یامکمل ناکام ہو چکی ہے۔
یہ انتہائی نازک نکتہ ہے۔ اس سے کسی بھی حکومت کی دستار سر ِبازار اچھل سکتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں حکومتی عزت اور بے عزتی کے پیمانے تک میں کوئی فرق نہیں۔ لہذا یہاں یہ سب کچھ محض ایک عددی ہندسہ ہے۔81 برس بنام 66 برس کا یہاںکوئی مطلب نہیں، کچھ بھی نہیں۔
تعلیم کے میدان کارِزار میں آ جائیے۔ ناروے میں ہر بچہ سترہ سال تک پڑھتا ہے۔ عمومی طور(Mean years of Schooling) سے ہر بچہ بارہ سال تک زیرِ تعلیم رہتا ہے۔ ہمارے عظیم ملک میں یہ اعداد بارہ اور چار سال ہیں۔ یعنی ایک بچہ عمومی طور پر صرف اور صرف چار سال زیر ِتعلیم رہتا ہے۔کانگو جیسے ملک میں ہر بچہ چھ سال کے لیے زیرِتعلیم رہتا ہے۔حد تو یہ ہے کہ کمبوڈیا اور گھانا جیسے ممالک بھی تعلیمی دوڑ میں ہم سے کافی آگے ہیں۔ ہر چیز کو چھوڑ دیجیے۔
ہر پیمانے سے صرفِ نظر کر لیجیے۔ مجموعی طور پرH.D.I کے مکمل تخمینہ میں ہم 1990ء سے لے کر 2015ء تک قابل رحم حدتک پیچھے رہ چکے ہیں۔2000ء سے 2014/15ء تک اس رپورٹ کے مطابق ہم نےH.D.I کے مجموعی خانے میں صفر (0) مثبت ترقی کی ہے۔ برما ہم سے آگے بڑھ چکا ہے۔ دنیا میں سب سے پیچھے رہ جانے والا ملک، نائجر (Niger) اور ہم ایک ہی منصب پر انتہائی شان سے براجمان ہیں۔
یو این ڈی پی کی اس رپورٹ کے آخر میں سولہ تقابلی جائزے لگے ہوئے ہیں۔ تمام ملکوں کا ہر طرح سے احاطہ کرتے ہیں۔ دولت کے ارتکاز اور تفاوت سے لے کر بین الاقوامی رابطوں (Integration)تک۔ غربت سے لے کر لوگوں کے خوش رہنے کے رجحان تک۔ روزگارکی دستیابی سے لے کرانسانی جان کی حفاظت تک۔ ہم زندہ قوموں کے اس تقابلی مقابلے میں ہر طرح سے پیچھے ہیں۔ میں اپنامقابلہ ناروے اورآسٹریلیا جیسے ممالک سے کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ فہرست کے آخرمیں دیکھتاہوں تو یہ گمان ہونے لگتاہے کہ کہیں چند سالوں میں ہم 143 نمبر سے188 نمبر پر نہ پہنچ جائیں۔
تکلیف ہوتی ہے جب گھانا، زمبیا ہنڈوراس اور نیپال جیسے ممالک کو اپنے آپ سے بہتر مقام پر پاتا ہوں۔ تکلیف صدمہ میں بدل جاتی ہے جب ترقی کے زبردست نعرے اور دعوؤں کو سنتا ہوں۔ اخبار پڑھ کر ایسے لگتا ہے کہ ہم چند ماہ میں ناروے سے بہتر ملک ہو جائینگے۔ ٹی وی پراشتہاردیکھ کرمعلوم ہوتاہے کہ سوئٹرزلینڈ جیسا ملک ترقی کاسبق ہم سے حاصل کرنے کے لیے سرنگوں بیٹھاہو گا۔ آسٹریلیاکی حکومت ہمارے حکمرانوں کے زانومیں بیٹھ کربے مثال ترقی کے اسباب پوچھ رہی ہو گی۔
حقیقت میںجہالت اور غربت کی مہیب خاموشی میں مجھے ترقی کا کوئی نعرہ سنائی نہیں دے رہا۔ جس دن غربت کی اس خاموشی نے بولنے کی طاقت حاصل کر لی، اسی لمحے فرضی ترقی کے تمام نعرے شہرِ خموشاں میں مقید ہو جا ئینگے۔ مفلسی کی اس طاقت ور زبان کا منتظر ہوں۔