امریکی کانگریس کے نمایندوں کی دھمکی
آج جس دہشت گردی کا مسلم ملک سامنا کر رہے ہیں اس میں فقہی عنصر بنیادی کردار ادا کر رہا ہے۔
امریکا کی دونوں سیاسی جماعتوں کے اعلیٰ قانون سازوں نے پاکستان کی امداد بند کرنے کی دھمکی دے دی ہے اور اس کا جواز یہ بتایا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے اور تیسری بڑی ایٹمی قوت بننے کی ڈگر پر جا رہا ہے۔
اراکین کانگریس نے کہا ہے کہ پاکستان کے چھوٹے جوہری ہتھیار دنیا کے لیے زیادہ تشویش کا باعث ہیں، ایوان نمایندگان کی کمیٹی برائے خارجہ امور کے چیئرمین ایڈروٹس کا کہنا ہے کہ پاکستان سب سے زیادہ جوہری ہتھیار رکھنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک بننے کی راہ پر چل رہا ہے۔
اس کے چھوٹے جوہری ہتھیار اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل دنیا کے لیے زیادہ تشویش کا باعث ہیں۔ پاکستان اپنے ملک کے بجٹ کا بڑا حصہ فوج کے لیے مختص کرتا ہے جب کہ تعلیم کا بجٹ ڈھائی فیصد سے بھی کم ہے۔ کمیٹی کے ڈیموکریٹک اور ری پبلکن ارکان نے امریکا کی طرف سے ستمبر 2001ء کے بعد سے پاکستان کو دی گئی 30 ارب ڈالر کی فوجی اور اقتصادی امداد پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد کی حکومت اب بھی دہشت گردوں کے نیٹ ورک کی حمایت کر رہی ہے۔
ڈیموکریٹک نمایندے بریڈ شرین نے افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکا کے نمایندہ خصوصی رچرڈ اولسن سے کہا ہے کہ وہ پاکستانی حکام کو یہ پیغام پہنچا دیں کہ پاکستان کو ایک سچے شراکت دار کے طور پر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے بصورت دیگر کانگریس کے بعض اراکین پاکستان کے لیے تمام امریکی امداد بند کرنے پر زور دے سکتے ہیں۔ امریکا کی خارجہ پالیسی ہمیشہ اصولوں سے زیادہ اپنے قومی مفادات کے گرد گھومتی ہے اور بدقسمتی سے اس میں امتیازات کا پہلو نمایاں رہتا ہے۔
امریکا کے سیاسی مشیر اس قدر نالائق ثابت ہوتے رہے ہیں کہ ان کی نالائقی سے امریکا کو جہاں کھربوں ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے، وہیں امریکی صدر کو برملا اپنی خارجہ اور دفاعی پالیسیوں کی ناکامی کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ افغانستان میں دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر جو فوجی مداخلت کی گئی اس کے غلط ہونے کا اعتراف امریکی صدر اوباما کو کرنا پڑا اسی طرح عراق میں صدام حسین کے خلاف جن الزامات کے تحت فوجی مداخلت کی گئی ان الزامات کو خود امریکا کے نامور خفیہ اداروں نے غلط قرار دے کر بالواسطہ طور پر عراق میں فوجی مداخلت کی مذمت کی۔
امریکی کانگریس کے نمایندوں نے پاکستان کی فوجی اور اقتصادی امداد بند کرنے کی جو دھمکی دی ہے، یہ دھمکی دو الزامات کے حوالے سے دی گئی ہے اول یہ کہ پاکستان اب بھی دہشت گردوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے دوسرا الزام یہ ہے کہ پاکستان دنیا کی تیسری بڑی ایٹمی قوت بننے کی راہ پر چل رہا ہے پاکستان کے چھوٹے جوہری ہتھیار دنیا کے لیے خطرہ بن رہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان دہشت گردوں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ بنا رہا ہے، جس کا اندازہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی طویل عرصے تک موجودگی سے کیا جا سکتا ہے لیکن اہل دانش بجا طور پر یہ سوال کرتے ہیں کہ اسامہ بن لادن کس کی تخلیق تھا اور اسامہ اور اس کی تنظیم القاعدہ کو کون اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتا رہا۔
افغانستان میں روس کی آمد سے پہلے پاکستان دہشت گردی سے پاک ایک پرامن ملک تھا افغانستان سے روس کو نکالنا امریکا کی سیاسی ضرورت تھی اور اس سیاسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے امریکا نے ضیا الحق کی مدد سے مسلم ملکوں کے مذہبی انتہا پسندوں کو افغانستان میں بھرپور طریقے سے استعمال کیا اور کامیاب بھی رہا لیکن روس کو افغانستان سے نکالنے کے بعد امریکا مذہبی انتہا پسندوں کو ان کے حال پر چھوڑ کر دوسرے مسائل میں مصروف رہا۔ یہی بے یار و مددگار مذہبی انتہا پسند امریکا کی اس بے اعتنائی سے مایوس ہو کر اس راہ پر چل نکلے جو 9/11 کے سانحے کا محرک بنی اور پھر مذہبی انتہا پسندی خودکش حملوں اور بارودی گاڑیوں سے لیس ہو کر اس طرح پھلتی پھولتی رہی کہ آج دنیا کا کوئی ملک اس سے محفوظ نہیں۔
پاکستان بلاشبہ دہشت گردوں کی آماجگاہ بن گیا لیکن اس کا سب سے بڑا نقصان یعنی 50 ہزار سے زیادہ پاکستانیوں کی ہلاکت پاکستان ہی کو برداشت کرنا پڑا۔ پاکستان میں دہشت گرد طالبان سمیت کئی دھڑوں میں موجود ہیں، لیکن ان کی تخلیق اور پرورش کی ذمے داری امریکا ہی پر عائد ہوتی ہے دہشت گردوں کی اہم قیادت آج بھی افغانستان میں موجود ہے اور پاکستان کے خلاف وہیں سے کارروائیاں بھی کر رہی ہے کیا امریکا ان سے لاعلم ہے؟
دہشت گردوں کے ہاتھوں جب بے گناہ 50 ہزار پاکستانی مارے جا رہے تھے تو نہ امریکا کو دہشت گردوں سے ایسی تشویش لاحق تھی جو آج دیکھنے میں آ رہی ہے نہ اس وقت امریکا کو یہ شکایت تھی کہ پاکستان دہشت گردوں کی آماجگاہ بن گیا ہے۔ پاکستان میں فقہی انتہا پسندوں کو امریکا خود براہ راست مدد دیتا رہا اور اپنے پٹھوؤں کے ذریعے بھی ان کی بے تحاشا مدد کرتا رہا۔ آج جس دہشت گردی کا مسلم ملک سامنا کر رہے ہیں اس میں فقہی عنصر بنیادی کردار ادا کر رہا ہے۔ امریکا کو آج دہشت گردی کی سنگینی کا اس قدر شدید احساس اس لیے ہو رہا ہے کہ اب امریکا سمیت کئی مغربی ملک براہ راست دہشت گردی کا شکار ہو رہے ہیں اور اس کے چند لوگ دہشت گردی کا شکار ہو گئے ہیں۔
امریکا کی دوسری شکایت پاکستان کی بڑھتی ہوئی ایٹمی طاقت سے ہے خاص طور پر چھوٹے پاکستانی جوہری ہتھیاروں کو امریکا کے نمایندے دنیا کے لیے بڑا خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ ایٹمی ہتھیار خواہ وہ بڑے ہوں یا چھوٹے خواہ وہ کسی ملک کے پاس ہوں دنیا کے لیے ایک سنگین خطرہ ہی ہیں، لیکن شرم کی بات یہ ہے کہ امریکی نمایندوں کو پاکستان کے ایٹمی ہتھیار تو نظر آتے ہیں لیکن اسے اسرائیل کے ایٹمی ہتھیار نظر آتے ہیں نہ اسے بھارت کے ایٹمی ہتھیاروں سے اتنی تشویش لاحق ہوتی ہے کہ وہ بھارت کو فوجی اور اقتصادی امداد بند کرنے کی دھمکی دے۔ امریکا کیا اس حقیقت سے ناواقف ہے کہ پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے کے پیچھے بھارت کی فوجی طاقت اور ایٹمی ہتھیاروں کا خوف ہے۔
کیا امریکا اس حقیقت سے ناواقف ہے کہ مسئلہ کشمیر ہی دونوں پسماندہ ترین ملکوں میں ایٹمی اور روایتی ہتھیاروں کی خطرناک دوڑ کا باعث بنا ہوا ہے؟ کیا امریکا مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اپنی اور اپنے مغربی اتحادیوں کی طرف سے بھارت پر دباؤ نہیں ڈال سکتا؟ یہ ایسے سوال ہیں جنھیں سامنے رکھ کر امریکا کو پاکستان کے خلاف الزام تراشی کرنا چاہیے۔ بہ ایں ہمہ ایٹمی ہتھیار اور دہشت گردی ساری دنیا کے سر پر تلوار کی طرح لٹک رہے ہیں اور ان کا خاتمہ ضروری ہے لیکن یہ کام بلاامتیاز ہی کیا جا سکتا ہے۔ امتیازات کے ساتھ ایٹمی ہتھیار اور دہشت گردی کا خاتمہ کسی صورت ممکن نہیں۔
اراکین کانگریس نے کہا ہے کہ پاکستان کے چھوٹے جوہری ہتھیار دنیا کے لیے زیادہ تشویش کا باعث ہیں، ایوان نمایندگان کی کمیٹی برائے خارجہ امور کے چیئرمین ایڈروٹس کا کہنا ہے کہ پاکستان سب سے زیادہ جوہری ہتھیار رکھنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک بننے کی راہ پر چل رہا ہے۔
اس کے چھوٹے جوہری ہتھیار اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل دنیا کے لیے زیادہ تشویش کا باعث ہیں۔ پاکستان اپنے ملک کے بجٹ کا بڑا حصہ فوج کے لیے مختص کرتا ہے جب کہ تعلیم کا بجٹ ڈھائی فیصد سے بھی کم ہے۔ کمیٹی کے ڈیموکریٹک اور ری پبلکن ارکان نے امریکا کی طرف سے ستمبر 2001ء کے بعد سے پاکستان کو دی گئی 30 ارب ڈالر کی فوجی اور اقتصادی امداد پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام آباد کی حکومت اب بھی دہشت گردوں کے نیٹ ورک کی حمایت کر رہی ہے۔
ڈیموکریٹک نمایندے بریڈ شرین نے افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکا کے نمایندہ خصوصی رچرڈ اولسن سے کہا ہے کہ وہ پاکستانی حکام کو یہ پیغام پہنچا دیں کہ پاکستان کو ایک سچے شراکت دار کے طور پر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے بصورت دیگر کانگریس کے بعض اراکین پاکستان کے لیے تمام امریکی امداد بند کرنے پر زور دے سکتے ہیں۔ امریکا کی خارجہ پالیسی ہمیشہ اصولوں سے زیادہ اپنے قومی مفادات کے گرد گھومتی ہے اور بدقسمتی سے اس میں امتیازات کا پہلو نمایاں رہتا ہے۔
امریکا کے سیاسی مشیر اس قدر نالائق ثابت ہوتے رہے ہیں کہ ان کی نالائقی سے امریکا کو جہاں کھربوں ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے، وہیں امریکی صدر کو برملا اپنی خارجہ اور دفاعی پالیسیوں کی ناکامی کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ افغانستان میں دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر جو فوجی مداخلت کی گئی اس کے غلط ہونے کا اعتراف امریکی صدر اوباما کو کرنا پڑا اسی طرح عراق میں صدام حسین کے خلاف جن الزامات کے تحت فوجی مداخلت کی گئی ان الزامات کو خود امریکا کے نامور خفیہ اداروں نے غلط قرار دے کر بالواسطہ طور پر عراق میں فوجی مداخلت کی مذمت کی۔
امریکی کانگریس کے نمایندوں نے پاکستان کی فوجی اور اقتصادی امداد بند کرنے کی جو دھمکی دی ہے، یہ دھمکی دو الزامات کے حوالے سے دی گئی ہے اول یہ کہ پاکستان اب بھی دہشت گردوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے دوسرا الزام یہ ہے کہ پاکستان دنیا کی تیسری بڑی ایٹمی قوت بننے کی راہ پر چل رہا ہے پاکستان کے چھوٹے جوہری ہتھیار دنیا کے لیے خطرہ بن رہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان دہشت گردوں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ بنا رہا ہے، جس کا اندازہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی طویل عرصے تک موجودگی سے کیا جا سکتا ہے لیکن اہل دانش بجا طور پر یہ سوال کرتے ہیں کہ اسامہ بن لادن کس کی تخلیق تھا اور اسامہ اور اس کی تنظیم القاعدہ کو کون اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتا رہا۔
افغانستان میں روس کی آمد سے پہلے پاکستان دہشت گردی سے پاک ایک پرامن ملک تھا افغانستان سے روس کو نکالنا امریکا کی سیاسی ضرورت تھی اور اس سیاسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے امریکا نے ضیا الحق کی مدد سے مسلم ملکوں کے مذہبی انتہا پسندوں کو افغانستان میں بھرپور طریقے سے استعمال کیا اور کامیاب بھی رہا لیکن روس کو افغانستان سے نکالنے کے بعد امریکا مذہبی انتہا پسندوں کو ان کے حال پر چھوڑ کر دوسرے مسائل میں مصروف رہا۔ یہی بے یار و مددگار مذہبی انتہا پسند امریکا کی اس بے اعتنائی سے مایوس ہو کر اس راہ پر چل نکلے جو 9/11 کے سانحے کا محرک بنی اور پھر مذہبی انتہا پسندی خودکش حملوں اور بارودی گاڑیوں سے لیس ہو کر اس طرح پھلتی پھولتی رہی کہ آج دنیا کا کوئی ملک اس سے محفوظ نہیں۔
پاکستان بلاشبہ دہشت گردوں کی آماجگاہ بن گیا لیکن اس کا سب سے بڑا نقصان یعنی 50 ہزار سے زیادہ پاکستانیوں کی ہلاکت پاکستان ہی کو برداشت کرنا پڑا۔ پاکستان میں دہشت گرد طالبان سمیت کئی دھڑوں میں موجود ہیں، لیکن ان کی تخلیق اور پرورش کی ذمے داری امریکا ہی پر عائد ہوتی ہے دہشت گردوں کی اہم قیادت آج بھی افغانستان میں موجود ہے اور پاکستان کے خلاف وہیں سے کارروائیاں بھی کر رہی ہے کیا امریکا ان سے لاعلم ہے؟
دہشت گردوں کے ہاتھوں جب بے گناہ 50 ہزار پاکستانی مارے جا رہے تھے تو نہ امریکا کو دہشت گردوں سے ایسی تشویش لاحق تھی جو آج دیکھنے میں آ رہی ہے نہ اس وقت امریکا کو یہ شکایت تھی کہ پاکستان دہشت گردوں کی آماجگاہ بن گیا ہے۔ پاکستان میں فقہی انتہا پسندوں کو امریکا خود براہ راست مدد دیتا رہا اور اپنے پٹھوؤں کے ذریعے بھی ان کی بے تحاشا مدد کرتا رہا۔ آج جس دہشت گردی کا مسلم ملک سامنا کر رہے ہیں اس میں فقہی عنصر بنیادی کردار ادا کر رہا ہے۔ امریکا کو آج دہشت گردی کی سنگینی کا اس قدر شدید احساس اس لیے ہو رہا ہے کہ اب امریکا سمیت کئی مغربی ملک براہ راست دہشت گردی کا شکار ہو رہے ہیں اور اس کے چند لوگ دہشت گردی کا شکار ہو گئے ہیں۔
امریکا کی دوسری شکایت پاکستان کی بڑھتی ہوئی ایٹمی طاقت سے ہے خاص طور پر چھوٹے پاکستانی جوہری ہتھیاروں کو امریکا کے نمایندے دنیا کے لیے بڑا خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ ایٹمی ہتھیار خواہ وہ بڑے ہوں یا چھوٹے خواہ وہ کسی ملک کے پاس ہوں دنیا کے لیے ایک سنگین خطرہ ہی ہیں، لیکن شرم کی بات یہ ہے کہ امریکی نمایندوں کو پاکستان کے ایٹمی ہتھیار تو نظر آتے ہیں لیکن اسے اسرائیل کے ایٹمی ہتھیار نظر آتے ہیں نہ اسے بھارت کے ایٹمی ہتھیاروں سے اتنی تشویش لاحق ہوتی ہے کہ وہ بھارت کو فوجی اور اقتصادی امداد بند کرنے کی دھمکی دے۔ امریکا کیا اس حقیقت سے ناواقف ہے کہ پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے کے پیچھے بھارت کی فوجی طاقت اور ایٹمی ہتھیاروں کا خوف ہے۔
کیا امریکا اس حقیقت سے ناواقف ہے کہ مسئلہ کشمیر ہی دونوں پسماندہ ترین ملکوں میں ایٹمی اور روایتی ہتھیاروں کی خطرناک دوڑ کا باعث بنا ہوا ہے؟ کیا امریکا مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اپنی اور اپنے مغربی اتحادیوں کی طرف سے بھارت پر دباؤ نہیں ڈال سکتا؟ یہ ایسے سوال ہیں جنھیں سامنے رکھ کر امریکا کو پاکستان کے خلاف الزام تراشی کرنا چاہیے۔ بہ ایں ہمہ ایٹمی ہتھیار اور دہشت گردی ساری دنیا کے سر پر تلوار کی طرح لٹک رہے ہیں اور ان کا خاتمہ ضروری ہے لیکن یہ کام بلاامتیاز ہی کیا جا سکتا ہے۔ امتیازات کے ساتھ ایٹمی ہتھیار اور دہشت گردی کا خاتمہ کسی صورت ممکن نہیں۔