جب برسی آگ کراچی میں
گرمی کی لہر 1200زندگیاں جلا کر راکھ کرگئی
جون کے مہینے میں شہر قائد میں قیامت خیز گرمی، بجلی کی بدترین لوڈ شیڈنگ اور پانی کی قلت نے محض تین دن میں 1200سے زاید شہریوں کو لقمۂ اجل بنادیا اور اس کے بعد بھی گرمی کے باعث اموات کا سلسلہ کئی روز تک جاری رہا۔ زندگی اور موت کا یہ کھیل متعلقہ حکام کی سنگین اور مجرمانہ غفلت کی وجہ سے پیش آیا۔ بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کے باعث شہر کے مردہ خانوں میں لاشیں رکھنے کے لیے جگہ کم پڑ گئی۔ دوسری طرف مرنے والوں کے لواحقین ذہنی اذیت سے دوچار رہے، کیوں کہ اپنے پیارے کی میت کو غسل دینے کے لیے پانی ندارد۔
یہ رمضان کے دن تھے۔ کراچی میں آگ برساتے سورج اور کے الیکٹرک کی 'مہربانی' سے ہلاک ہونے والے زیادہ تر افراد روزے سے تھے، جن کی موت حبس، لو لگنے اور ہیٹ اسٹروک کی وجہ سے ہوئی۔ اسپتالوں کے ذرائع کے مطابق ہسپتال لائے جانے والے زیادہ تر افراد نمکیات اور پانی کی شدید کمی کا شکار تھے، جن میں سے کچھ ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی اور کچھ دوران علاج دم توڑ گئے۔ گرمی کی شدت سے مرنے والے زیادہ تر افراد کی عمر 50 سال یا اُس سے زاید تھی۔
جناح اسپتال کی سربراہ ڈاکٹر سیمی جمالی کے مطابق اسپتال لائے جانے والے تمام افراد کو بے ہوشی کی حالت میں لایا گیا، جو شدید بخار میں مبتلا تھے اور ان کے جسم میں نمکیات اور پانی کی شدید کمی کی وجہ سے خون کی روانی نہ ہونے کے برابر تھی۔موسم کی شدت کے ساتھ کے الیکٹرک اور واٹربورڈ شہریوں کی ہلاکتوں میں برابر کے ذمے دار ہیں۔
ماہ صیام کے دوسرے دن کراچی میں گرمی کے ستائے شہریوں کی سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی۔ 20جون2015 کو کراچی میں سال کا گرم ترین دن ریکارڈ کیا گیا، جب پارہ 45 ڈگری سیلسیئس تک جا پہنچا، جب کہ جیکب آباد، لاڑکانہ اور سکھر میں درجۂ حرارت 48 ڈگری سیلسیئس ریکارڈ کیا گیا۔ اس سے قبل کراچی میں سب سے زیادہ گرمی 9 مئی 1938 کو پڑی تھی اور زیادہ سے زیادہ درجۂ حرارت 48 ڈگری سیلسیئس ریکارڈ کیا گیا تھا۔
گرمی کی اس لہر سے ہلاک ہونے والوں میں سے زیادہ تر افراد کا تعلق غریب اور متوسط طبقے سے تھا۔ گو کہ ہر سال کی طرح اس بار بھی ماہ رمضان میں حکومت کی جانب سے سحر اور افطار میں لوڈشیڈنگ نہ کرنے کا اعلان کیا گیا تھا، لیکن ہمیشہ کی طرح یہ وعدہ بھی وعدہ ہی رہا۔ شدید گرمی کے باوجود کراچی کے باسیوں نے سحری اور افطاری اندھیرے اور شدید گرمی میں ہی کی۔
ازلی بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکم رانوں نے بارہ سو سے زاید قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کی ذمے داری ایک دوسرے پر ڈالنے کی کوشش کی، صوبائی حکومت نے بجلی نہ دینے پر وفاق کو ذمے دار ٹھیرایا۔ وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی خواجہ محمد آصف نے شارٹ فال کا رونا روتے ہوئے سارا ملبہ کے الیکٹرک انتظامیہ پر ڈال دیا۔ اس بارے میں ان کا کچھ یوں کہنا تھا،'ملک بھر میں بجلی کا شارٹ فال 4 ہزار 5سو میگاواٹ تک ہے۔
اس وقت بجلی کی طلب 20 ہزار میگاواٹ اور پیداوار 15ہزار 5 سو میگاواٹ ہے، جس کی وجہ سے آٹھ سے دس گھنٹے لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے۔ لیکن ہم (وفاقی حکومت) معاہدہ ختم ہونے کے باوجود کے الیکٹرک کو 650 میگاواٹ فراہم کر رہے ہیں۔' خواجہ محمد آ صف نے انسانی جانوں کے ضیاع پر اظہار افسوس کے بجائے نادہندگان کو بجلی فراہم نہیں کرنے کا عندیہ بھی دے دیا ۔ انہوں نے عوام سے درخواست کی کہ وہ برقی آلات کے استعمال میں احتیاط کریں تو 4000 سے 5000 میگاواٹ تک بجلی کی بچت کی جاسکتی ہے اور لوڈشیڈنگ کے دورانیے میں کمی آ سکتی ہے۔
لیکن تمام تر دعووں اور وعدوں کے باوجود شہر قائد میں بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری رہا۔ ماہ رمضان کے آغاز سے ہی متعدد علاقوں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بڑھا دیا گیا۔ وولٹیج میں کمی بیشی کی وجہ سے شہریوں کے قیمتی برقی آلات جل کر راکھ ہوتے رہے۔ نیوکراچی، ناظم آباد، لیاقت آباد، بلال کالونی، پاک کالونی، سائٹ، پی آئی بی کالونی، جمشید روڈ، مشرف کالونی، شومارکیٹ، لیاری، کیماڑی، شیریں جناح کالونی، ملیر، لائنزایریا، کھوکھراپار، شاہ فیصل کالونی، گرین ٹاؤن، سرجانی ٹاؤن، منگھوپیر، بھٹائی کالونی، کورنگی، گارڈن ویسٹ، سولجر بازار، بلدیہ ٹاؤن، قائدآباد اور بنارس سمیت دیگر علاقے بجلی کی بندش کا سب سے زیادہ نشانہ بنے۔ ہلاکتوں کی شرح بھی ان علاقوں میں زیادہ رہی۔
اربابِ اقتدار عملی اقدامات کے بجائے ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر الزام تراشیوں اور سیاسی بیانات دینے میں مصروف رہے۔لوگ جلتے، جھلستے جانیں گنواتے رہے اور اقتدار والوں کی حویلیاں چین کی بانسری بجا رہی ہیں۔ وہ کہتے رہے،''آسمان آگ اگل رہا ہے۔ ہوا بھی نڈھال ہے۔ قدرت کے معاملات ہیں، انہیں کون روک سکتا ہیَ؟''
اقتدار والوں، اختیار والوں کی جیبیں ریڈی میڈ تاویلات سے بھری ہوتی ہیں۔ لوگ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتے ہیں اور یہ ایک مشینی بیان جاری کرکے چین کی بانسری بجاتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے، لوگ ذرا سا شور مچائیں گے اور پھر تھک ہارکر چپ ہو جائیں گے۔ مصلحت کا تقاضا ہے، دوچار ہم دردی کے الفاظ بولو، ٹھنڈی سانسیں بھرتے ہوئے اپنے وسائل کا رونا روؤ۔ ہو سکے تو آنکھ میچ میچ کر ایک آدھ آنسو بر آمد کرو، لوگ پسیج جائیں گے، وہ ہمیشہ یہی کرتے ہیں۔ اور ہم بھی ہر بار ایک جیسی اداکاری کرتے ہیں۔
اور کر بھی کیا سکتے ہیں، وسائل کم ہیں، آبادی زیادہ ہے، اور یہ عوام الناس بھی غیر ذمے دار ہیں۔ بجلی ضایع کرتے ہیں، پانی ضایع کرتے ہیں، باہر نکلتے ہوئے احتیاط نہیں کرتے، درست غذا استعمال نہیں کرتے۔ اسٹروک کا شکار ہوجاتے ہیں، جسم میں نمکیات کم ہو جاتی ہیں، موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ موت کا ایک دن معین ہے۔ ہونی کو کون ٹال سکتا ہے؟ قسمت کا لکھا پورا ہو کر رہتا ہے۔ ہم بھی بے بس ہیں، موت کے آگے۔''
کوئی ان سے پوچھے، اگر ہر معاملے میں مشینی بیانات کے لچھے اپنے حلق سے نکالتے رہو گے، مسائل حل نہیں کروگے تو تمہاری بازی گری کب تک تمہیں بچا سکتی ہے؟
صرف مشینی بیانات سے لوگوں کا پیٹ بھرنا چاہتے ہو؟ ہاں، اس کے علاوہ تمہیں آتا بھی کیا ہے؟ دردمندی کا جذبہ تمہارے سینوں میں کیسے امڈ سکتا ہے۔ جب تم آگ میں نہیں جلو گے تو اس کی تپش کا عذاب کیسے محسوس کروگے۔ اونچے طبقوں کے اونچے لوگ ہو۔ تمہاری حویلیوں میں بڑے بڑے جنریٹر ہیں، جنریٹروں کو چلانے کے لیے نوٹوں کی گڈیاں ہیں۔ لمبی لمبی کاروں میں ہیوی ایر کنڈیشنر ہیں۔ منرل واٹر سے نہاتے ہو، تاکہ تمہارے نازک جسم جراثیم سے محفوظ رہیں۔
بارہ سو لوگ مر گئے، بارہ ہزار بھی ہوتے تو یہ اسی طرح اداکاری کرتے، مشینی بیانات جاری کرکے بے بس لوگوںٕ کا مذاق اڑاتے۔ انہیں معلوم ہے، کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ ان کا راج برقرار رہے گا، تاج برقرار رہے گا، ان کی لچکیلے جسموں والی کاریں برقرار رہیں گی، بے خودی میں رقص کرتی ان کی حویلیاں برقرار رہیں گی۔ وہ برقرار رہیں گے، ان کی خوشیاں برقرار رہیں گی۔پھر ذرا سی اداکاری کرنے میں کیا حرج ہے۔
سندھ اسمبلی کے اجلاس میں بھی بجٹ کے بجائے کراچی میں ہلاکتوں کا سبب بننے والی بدترین لوڈشیڈنگ موضوعِ بحث بنی رہی۔ متحدہ قومی موومنٹ کے راہ نما اور اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہارالحسن نے کے الیکٹرک کی انتظامیہ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ایوان کی ٹھنڈک دیکھ کر شدید دکھ ہورہا ہے اور ہم کسی ایک محکمے یا فرد کو ذمے دار قرار دے کر بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے پانی کا بحران بھی بدترین ہوچکا ہے، وفاقی وزیرپانی وبجلی خواجہ آصف اور عابد شیر علی کو بجلی کی الف ب کا بھی علم نہیں ہے۔ دوسری جانب تحریک انصاف کے رکن خرم شیرزمان نے لوڈشیڈنگ اور گرمی کی شدت سے مرنے والے افراد کے قتل کی ایف آئی آر کے الیکٹرک اور سندھ حکومت کے خلاف درج کرنے کا مطالبہ پیش کیا۔
پاک فوج کی جانب سے گرمی سے متاثرہ افراد کو فوری طبی امداد دینے کے لیے ہیٹ اسٹروک سینٹر قائم کیے گئے۔ لیکن شہر میں ہیٹ اسٹروک اور اسہال کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ریا۔ شہر کے بیشتر اسپتالوں میں اسٹریچر اور بستر کم پڑگئے۔ بہت سے مریضوں کو ایمبولینس میں ہی طبی امداد فراہم کی جاتی رہی۔
صرف جناح اسپتال میں ہی چار دن میں 3 ہزار سے زائد مریض لائے گئے۔ ڈاکٹر سیمی جمالی کے مطابق لو اور دستوں کی وجہ سے پہلے ہی دن 55 ہلاکتیں ہوئیں جب کہ 1900مریضوں کو طبی امداد فراہم کی گئی۔ سب سے زیادہ ہلاکتیں جناح اسپتال میں ہوئی۔ چار دن میں 329 افراد جناؑح اسپتال، کراچی میونسپل کارپوریشن کے زیرِانتظام چلنے والے اسپتالوں میں 213 افراد، عباسی شہید اسپتال میں 164، سول اسپتال کراچی میں123، لیاقت نیشنل اسپتال میں 73، ادارہ برائے امراض قلب میں51، ادارہ برائے اطفال میں 12جب کہ دیگر نجی اسپتالوں میں تقریباً200 سے زاید افراد ہلاک ہوئے۔ ہیٹ انڈیکس بڑھنے سے پیدا ہونے والی گرمی کی لہر نے کراچی کے چالیس ہزار سے زاید افراد کو متاثر کیا۔
12سو قیمتی انسانوں جانوں کے ضیاع سے بھی کے الیکٹرک کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی اور اُس نے روایتی بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ جاری رکھا۔ ہر سانحے کی طرح ہم اس سانحے کو بھی بھول گئے، تحقیقات اور ذمے دارو ں کے تعین کے لیے بنائی گئیں ضخیم فائلیں گرد چاٹ رہی ہیں، اور ہم ایک بار پھر منتظر ہیں آنے والے کسی سانحے کے، مرنے والوں کی لاشوں پر سیاست کے، کیوں کہ بہ حیثیت قوم، عوام اور حکم راں دونوں ہی بے حس ہوچکے ہیں۔ ہم اُن واقعات پر اُس وقت تک دھیان نہیں دیتے جب تک مرنے والوں کی تعداد درجنوں جانوں سے عبور نہ کرجائے۔
دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان بھی ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے ممالک میں سے ایک ہے۔ ہماری ساحلی بستیاں سمندر بُرد ہورہی ہیں، لیکن افسوس صد افسوس کے ہم اس خطرے کی تباہ کاریوں سے آگاہ ہونے کے باوجود حفاظتی اقدامات کرنے کے بجائے مزید لاشیں گرنے کے منتظر ہیں۔
اہل اقتدار کو سیاست چمکانے کے لیے لاشوں کی ضرورت ہے، چاہے وہ کراچی باسیوں کی ہو یا لاہور باسیوں کی، چاہے مرنے والے گرمی کی شدت سے جان جان ِ آفریں کے سپرد کریں، یا زلزلے کے جھٹکے چند لمحوں میں انہیں موت کا ذائقہ چکھائیں۔ حکومتی سطح پر ماحولیاتی تبدیلیوں قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے بنائے گئے ہنگامی مدد کے اداروں کو فعال بنانے کی کوشش کسی سطح پر نظر نہیں آرہی، جو یقیناً ہم سب کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔
یہ رمضان کے دن تھے۔ کراچی میں آگ برساتے سورج اور کے الیکٹرک کی 'مہربانی' سے ہلاک ہونے والے زیادہ تر افراد روزے سے تھے، جن کی موت حبس، لو لگنے اور ہیٹ اسٹروک کی وجہ سے ہوئی۔ اسپتالوں کے ذرائع کے مطابق ہسپتال لائے جانے والے زیادہ تر افراد نمکیات اور پانی کی شدید کمی کا شکار تھے، جن میں سے کچھ ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی اور کچھ دوران علاج دم توڑ گئے۔ گرمی کی شدت سے مرنے والے زیادہ تر افراد کی عمر 50 سال یا اُس سے زاید تھی۔
جناح اسپتال کی سربراہ ڈاکٹر سیمی جمالی کے مطابق اسپتال لائے جانے والے تمام افراد کو بے ہوشی کی حالت میں لایا گیا، جو شدید بخار میں مبتلا تھے اور ان کے جسم میں نمکیات اور پانی کی شدید کمی کی وجہ سے خون کی روانی نہ ہونے کے برابر تھی۔موسم کی شدت کے ساتھ کے الیکٹرک اور واٹربورڈ شہریوں کی ہلاکتوں میں برابر کے ذمے دار ہیں۔
ماہ صیام کے دوسرے دن کراچی میں گرمی کے ستائے شہریوں کی سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی۔ 20جون2015 کو کراچی میں سال کا گرم ترین دن ریکارڈ کیا گیا، جب پارہ 45 ڈگری سیلسیئس تک جا پہنچا، جب کہ جیکب آباد، لاڑکانہ اور سکھر میں درجۂ حرارت 48 ڈگری سیلسیئس ریکارڈ کیا گیا۔ اس سے قبل کراچی میں سب سے زیادہ گرمی 9 مئی 1938 کو پڑی تھی اور زیادہ سے زیادہ درجۂ حرارت 48 ڈگری سیلسیئس ریکارڈ کیا گیا تھا۔
گرمی کی اس لہر سے ہلاک ہونے والوں میں سے زیادہ تر افراد کا تعلق غریب اور متوسط طبقے سے تھا۔ گو کہ ہر سال کی طرح اس بار بھی ماہ رمضان میں حکومت کی جانب سے سحر اور افطار میں لوڈشیڈنگ نہ کرنے کا اعلان کیا گیا تھا، لیکن ہمیشہ کی طرح یہ وعدہ بھی وعدہ ہی رہا۔ شدید گرمی کے باوجود کراچی کے باسیوں نے سحری اور افطاری اندھیرے اور شدید گرمی میں ہی کی۔
ازلی بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکم رانوں نے بارہ سو سے زاید قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کی ذمے داری ایک دوسرے پر ڈالنے کی کوشش کی، صوبائی حکومت نے بجلی نہ دینے پر وفاق کو ذمے دار ٹھیرایا۔ وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی خواجہ محمد آصف نے شارٹ فال کا رونا روتے ہوئے سارا ملبہ کے الیکٹرک انتظامیہ پر ڈال دیا۔ اس بارے میں ان کا کچھ یوں کہنا تھا،'ملک بھر میں بجلی کا شارٹ فال 4 ہزار 5سو میگاواٹ تک ہے۔
اس وقت بجلی کی طلب 20 ہزار میگاواٹ اور پیداوار 15ہزار 5 سو میگاواٹ ہے، جس کی وجہ سے آٹھ سے دس گھنٹے لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے۔ لیکن ہم (وفاقی حکومت) معاہدہ ختم ہونے کے باوجود کے الیکٹرک کو 650 میگاواٹ فراہم کر رہے ہیں۔' خواجہ محمد آ صف نے انسانی جانوں کے ضیاع پر اظہار افسوس کے بجائے نادہندگان کو بجلی فراہم نہیں کرنے کا عندیہ بھی دے دیا ۔ انہوں نے عوام سے درخواست کی کہ وہ برقی آلات کے استعمال میں احتیاط کریں تو 4000 سے 5000 میگاواٹ تک بجلی کی بچت کی جاسکتی ہے اور لوڈشیڈنگ کے دورانیے میں کمی آ سکتی ہے۔
لیکن تمام تر دعووں اور وعدوں کے باوجود شہر قائد میں بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا سلسلہ جاری رہا۔ ماہ رمضان کے آغاز سے ہی متعدد علاقوں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بڑھا دیا گیا۔ وولٹیج میں کمی بیشی کی وجہ سے شہریوں کے قیمتی برقی آلات جل کر راکھ ہوتے رہے۔ نیوکراچی، ناظم آباد، لیاقت آباد، بلال کالونی، پاک کالونی، سائٹ، پی آئی بی کالونی، جمشید روڈ، مشرف کالونی، شومارکیٹ، لیاری، کیماڑی، شیریں جناح کالونی، ملیر، لائنزایریا، کھوکھراپار، شاہ فیصل کالونی، گرین ٹاؤن، سرجانی ٹاؤن، منگھوپیر، بھٹائی کالونی، کورنگی، گارڈن ویسٹ، سولجر بازار، بلدیہ ٹاؤن، قائدآباد اور بنارس سمیت دیگر علاقے بجلی کی بندش کا سب سے زیادہ نشانہ بنے۔ ہلاکتوں کی شرح بھی ان علاقوں میں زیادہ رہی۔
اربابِ اقتدار عملی اقدامات کے بجائے ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر الزام تراشیوں اور سیاسی بیانات دینے میں مصروف رہے۔لوگ جلتے، جھلستے جانیں گنواتے رہے اور اقتدار والوں کی حویلیاں چین کی بانسری بجا رہی ہیں۔ وہ کہتے رہے،''آسمان آگ اگل رہا ہے۔ ہوا بھی نڈھال ہے۔ قدرت کے معاملات ہیں، انہیں کون روک سکتا ہیَ؟''
اقتدار والوں، اختیار والوں کی جیبیں ریڈی میڈ تاویلات سے بھری ہوتی ہیں۔ لوگ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتے ہیں اور یہ ایک مشینی بیان جاری کرکے چین کی بانسری بجاتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے، لوگ ذرا سا شور مچائیں گے اور پھر تھک ہارکر چپ ہو جائیں گے۔ مصلحت کا تقاضا ہے، دوچار ہم دردی کے الفاظ بولو، ٹھنڈی سانسیں بھرتے ہوئے اپنے وسائل کا رونا روؤ۔ ہو سکے تو آنکھ میچ میچ کر ایک آدھ آنسو بر آمد کرو، لوگ پسیج جائیں گے، وہ ہمیشہ یہی کرتے ہیں۔ اور ہم بھی ہر بار ایک جیسی اداکاری کرتے ہیں۔
اور کر بھی کیا سکتے ہیں، وسائل کم ہیں، آبادی زیادہ ہے، اور یہ عوام الناس بھی غیر ذمے دار ہیں۔ بجلی ضایع کرتے ہیں، پانی ضایع کرتے ہیں، باہر نکلتے ہوئے احتیاط نہیں کرتے، درست غذا استعمال نہیں کرتے۔ اسٹروک کا شکار ہوجاتے ہیں، جسم میں نمکیات کم ہو جاتی ہیں، موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ موت کا ایک دن معین ہے۔ ہونی کو کون ٹال سکتا ہے؟ قسمت کا لکھا پورا ہو کر رہتا ہے۔ ہم بھی بے بس ہیں، موت کے آگے۔''
کوئی ان سے پوچھے، اگر ہر معاملے میں مشینی بیانات کے لچھے اپنے حلق سے نکالتے رہو گے، مسائل حل نہیں کروگے تو تمہاری بازی گری کب تک تمہیں بچا سکتی ہے؟
صرف مشینی بیانات سے لوگوں کا پیٹ بھرنا چاہتے ہو؟ ہاں، اس کے علاوہ تمہیں آتا بھی کیا ہے؟ دردمندی کا جذبہ تمہارے سینوں میں کیسے امڈ سکتا ہے۔ جب تم آگ میں نہیں جلو گے تو اس کی تپش کا عذاب کیسے محسوس کروگے۔ اونچے طبقوں کے اونچے لوگ ہو۔ تمہاری حویلیوں میں بڑے بڑے جنریٹر ہیں، جنریٹروں کو چلانے کے لیے نوٹوں کی گڈیاں ہیں۔ لمبی لمبی کاروں میں ہیوی ایر کنڈیشنر ہیں۔ منرل واٹر سے نہاتے ہو، تاکہ تمہارے نازک جسم جراثیم سے محفوظ رہیں۔
بارہ سو لوگ مر گئے، بارہ ہزار بھی ہوتے تو یہ اسی طرح اداکاری کرتے، مشینی بیانات جاری کرکے بے بس لوگوںٕ کا مذاق اڑاتے۔ انہیں معلوم ہے، کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ ان کا راج برقرار رہے گا، تاج برقرار رہے گا، ان کی لچکیلے جسموں والی کاریں برقرار رہیں گی، بے خودی میں رقص کرتی ان کی حویلیاں برقرار رہیں گی۔ وہ برقرار رہیں گے، ان کی خوشیاں برقرار رہیں گی۔پھر ذرا سی اداکاری کرنے میں کیا حرج ہے۔
سندھ اسمبلی کے اجلاس میں بھی بجٹ کے بجائے کراچی میں ہلاکتوں کا سبب بننے والی بدترین لوڈشیڈنگ موضوعِ بحث بنی رہی۔ متحدہ قومی موومنٹ کے راہ نما اور اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہارالحسن نے کے الیکٹرک کی انتظامیہ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ایوان کی ٹھنڈک دیکھ کر شدید دکھ ہورہا ہے اور ہم کسی ایک محکمے یا فرد کو ذمے دار قرار دے کر بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے پانی کا بحران بھی بدترین ہوچکا ہے، وفاقی وزیرپانی وبجلی خواجہ آصف اور عابد شیر علی کو بجلی کی الف ب کا بھی علم نہیں ہے۔ دوسری جانب تحریک انصاف کے رکن خرم شیرزمان نے لوڈشیڈنگ اور گرمی کی شدت سے مرنے والے افراد کے قتل کی ایف آئی آر کے الیکٹرک اور سندھ حکومت کے خلاف درج کرنے کا مطالبہ پیش کیا۔
پاک فوج کی جانب سے گرمی سے متاثرہ افراد کو فوری طبی امداد دینے کے لیے ہیٹ اسٹروک سینٹر قائم کیے گئے۔ لیکن شہر میں ہیٹ اسٹروک اور اسہال کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ریا۔ شہر کے بیشتر اسپتالوں میں اسٹریچر اور بستر کم پڑگئے۔ بہت سے مریضوں کو ایمبولینس میں ہی طبی امداد فراہم کی جاتی رہی۔
صرف جناح اسپتال میں ہی چار دن میں 3 ہزار سے زائد مریض لائے گئے۔ ڈاکٹر سیمی جمالی کے مطابق لو اور دستوں کی وجہ سے پہلے ہی دن 55 ہلاکتیں ہوئیں جب کہ 1900مریضوں کو طبی امداد فراہم کی گئی۔ سب سے زیادہ ہلاکتیں جناح اسپتال میں ہوئی۔ چار دن میں 329 افراد جناؑح اسپتال، کراچی میونسپل کارپوریشن کے زیرِانتظام چلنے والے اسپتالوں میں 213 افراد، عباسی شہید اسپتال میں 164، سول اسپتال کراچی میں123، لیاقت نیشنل اسپتال میں 73، ادارہ برائے امراض قلب میں51، ادارہ برائے اطفال میں 12جب کہ دیگر نجی اسپتالوں میں تقریباً200 سے زاید افراد ہلاک ہوئے۔ ہیٹ انڈیکس بڑھنے سے پیدا ہونے والی گرمی کی لہر نے کراچی کے چالیس ہزار سے زاید افراد کو متاثر کیا۔
12سو قیمتی انسانوں جانوں کے ضیاع سے بھی کے الیکٹرک کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی اور اُس نے روایتی بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لوڈ شیڈنگ کا سلسلہ جاری رکھا۔ ہر سانحے کی طرح ہم اس سانحے کو بھی بھول گئے، تحقیقات اور ذمے دارو ں کے تعین کے لیے بنائی گئیں ضخیم فائلیں گرد چاٹ رہی ہیں، اور ہم ایک بار پھر منتظر ہیں آنے والے کسی سانحے کے، مرنے والوں کی لاشوں پر سیاست کے، کیوں کہ بہ حیثیت قوم، عوام اور حکم راں دونوں ہی بے حس ہوچکے ہیں۔ ہم اُن واقعات پر اُس وقت تک دھیان نہیں دیتے جب تک مرنے والوں کی تعداد درجنوں جانوں سے عبور نہ کرجائے۔
دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان بھی ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے ممالک میں سے ایک ہے۔ ہماری ساحلی بستیاں سمندر بُرد ہورہی ہیں، لیکن افسوس صد افسوس کے ہم اس خطرے کی تباہ کاریوں سے آگاہ ہونے کے باوجود حفاظتی اقدامات کرنے کے بجائے مزید لاشیں گرنے کے منتظر ہیں۔
اہل اقتدار کو سیاست چمکانے کے لیے لاشوں کی ضرورت ہے، چاہے وہ کراچی باسیوں کی ہو یا لاہور باسیوں کی، چاہے مرنے والے گرمی کی شدت سے جان جان ِ آفریں کے سپرد کریں، یا زلزلے کے جھٹکے چند لمحوں میں انہیں موت کا ذائقہ چکھائیں۔ حکومتی سطح پر ماحولیاتی تبدیلیوں قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے بنائے گئے ہنگامی مدد کے اداروں کو فعال بنانے کی کوشش کسی سطح پر نظر نہیں آرہی، جو یقیناً ہم سب کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔