پاک افغان سرحد پر غیر قانونی آمدورفت تشویشناک
پاکستان کی جانب سے اپنی سرحد پر قائم 650 چوکیوں میں باقاعدہ طور پر اہلکار موجود ہوتے ہیں
اخباری اطلاعات کے مطابق پاک افغان سرحد سے روزانہ کی بنیاد پر 40 سے 50 ہزار افراد کی آمدورفت ہوتی ہے تاہم افغانستان کی جانب سے سرحدی دفاع کے لیے فقط 60 چوکیاں ہیں جو ناکافی ہیں۔ ملک میں جاری دہشتگردوں کے خلاف آپریشن اور امن و امان کی صورتحال کے تناظر میں یہ اعداد و شمار نہایت تشویش کے حامل ہیں۔
حیرت ہے اتنے بڑے پیمانے پر غیر قانونی آمدورفت کی جانکاری ہونے کے باوجود اب تک کوئی موثر کارروائی اور لائحہ عمل کیوں اختیار نہیں کیا گیا۔ واضح رہے پاکستان کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اپنے حالیہ دورۂ افغانستان میں افغان حکام سے ہونے والی ملاقاتوں میں سرحدی نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت پر بات کی تھی۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاعی پیداوار کے چیئرمین جنرل (ر) عبدالقیوم نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاک افغان سرحد پر تین چوکیاں ہیں جن میں خیبر، چمن اور انگوراڈہ شامل ہیں تاہم درجنوں ایسے مقامات ہیں جہاں سے غیر قانونی طور پر دونوں جانب رہنے والوں کی آمدورفت جاری رہتی ہے۔
پاکستان کی جانب سے اپنی سرحد پر قائم 650 چوکیوں میں باقاعدہ طور پر اہلکار موجود ہوتے ہیں تاہم سرحد کے اس پار افغانستان میں صورتحال مختلف ہے۔ جنرل (ر) عبدالقیوم کا کہنا تھا کہ ایریل سرویلنس تو ہے لیکن پاکستان کے پاس لوگوں کے پیچھا کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔
اس خامی کے اقرار کے بعد صورتحال کی سنگینی کم نہیں ہوجاتی، اس ضمن میں موثر حکمت عملی مرتب کرتے ہوئے لائحہ عمل طے کرنا چاہیے۔ سرحدی پابندیاں اور امیگریشن کے قانون کا اطلاق ہر سمت لازم ہونا چاہیے۔ کراچی میں بھی افغانیوں کو شناختی کارڈ جاری کرنے متحدہ نے احتجاج کیا ہے۔غیر قانونی آمدورفت رکھنے والوں میں دہشت گرد و شرپسند عناصر بھی شامل ہوسکتے ہیں۔ان پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
حیرت ہے اتنے بڑے پیمانے پر غیر قانونی آمدورفت کی جانکاری ہونے کے باوجود اب تک کوئی موثر کارروائی اور لائحہ عمل کیوں اختیار نہیں کیا گیا۔ واضح رہے پاکستان کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اپنے حالیہ دورۂ افغانستان میں افغان حکام سے ہونے والی ملاقاتوں میں سرحدی نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت پر بات کی تھی۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاعی پیداوار کے چیئرمین جنرل (ر) عبدالقیوم نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاک افغان سرحد پر تین چوکیاں ہیں جن میں خیبر، چمن اور انگوراڈہ شامل ہیں تاہم درجنوں ایسے مقامات ہیں جہاں سے غیر قانونی طور پر دونوں جانب رہنے والوں کی آمدورفت جاری رہتی ہے۔
پاکستان کی جانب سے اپنی سرحد پر قائم 650 چوکیوں میں باقاعدہ طور پر اہلکار موجود ہوتے ہیں تاہم سرحد کے اس پار افغانستان میں صورتحال مختلف ہے۔ جنرل (ر) عبدالقیوم کا کہنا تھا کہ ایریل سرویلنس تو ہے لیکن پاکستان کے پاس لوگوں کے پیچھا کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔
اس خامی کے اقرار کے بعد صورتحال کی سنگینی کم نہیں ہوجاتی، اس ضمن میں موثر حکمت عملی مرتب کرتے ہوئے لائحہ عمل طے کرنا چاہیے۔ سرحدی پابندیاں اور امیگریشن کے قانون کا اطلاق ہر سمت لازم ہونا چاہیے۔ کراچی میں بھی افغانیوں کو شناختی کارڈ جاری کرنے متحدہ نے احتجاج کیا ہے۔غیر قانونی آمدورفت رکھنے والوں میں دہشت گرد و شرپسند عناصر بھی شامل ہوسکتے ہیں۔ان پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔