ورنہ یہ سب کام نہیں آئے گا
یہاں لوگ نظام میں بہتری کے بجائے ایک نیا معرکہ کھول کر مسئلے کو مزید الجھا دیتے ہیں۔
یہاں لوگ نظام میں بہتری کے بجائے ایک نیا معرکہ کھول کر مسئلے کو مزید الجھا دیتے ہیں۔ صرف چہرے پر رنگ ڈال دینے سے جسم تبدیل نہیں ہوجاتا۔ چھوٹے چھوٹے پراجیکٹ شروع کرکے یہ بتایا جاتا ہے کہ پورا نظام ٹھیک ہوچکا ہے۔ پھٹے ہوئے کپڑوں کو بدلنے کے بجائے بس اس میں پیوند لگا کر اپنی دکان چلائی جاتی ہے۔
یہ بات ہمارے حکمران سمجھ ہی نہیں پاتے کہ پراجیکٹ اور پالیسی میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ وہ ایک دو پراجیکٹ کو دکھا کر اپنی جیت اور عوام سے ہمدردی کا رونا روتے ہیں۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ اس سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ اس میں اور پیچیدگی آجائے گی۔ بہت بے مثالی کام کیا ہے کہ حکومت نے جو قومی صحت کے حوالے سے اعلان کیا ہے۔ لیکن اصل وجہ اور مسئلے پر ہاتھ رکھنے کے بجائے ایک مصنوعی اور عارضی سانس دے دیا گیا ہے اور حیرت انگیز طور پر پراجیکٹ کو صرف 15 اضلاع سے شروع کرنے کا اعلان ہوا ہے۔
آئیے اس امدادی اسکیم سے پہلے صحت کا مسئلہ تو سمجھ لیجیے۔ پاکستان میں عموماً چھوٹے امراض وقت پر مناسب علاج نا ہونے کی وجہ سے سنگین مرض کی طرف منتقل ہوتے ہیں۔ پاکستان کی 90 فیصد آبادی کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس بنیادی صحت کے مراکز نہیں ہیں، یعنی سرکاری سطح پر ان کے پاس کوئی سہولت موجود نہیں ہے۔
ابتدائی طور پر دیہی صحت کے مراکز، بنیادی صحت کے مراکز جوکہ سیکڑوں نہیں ہزاروں کی تعداد میں ملک میں موجود ہیں، وہ مکمل طور پر کام نہیں کررہے ہیں۔ اس وقت کے اعداد و شمار کے مطابق 50 فیصد سے زائد یہ مراکز اکثر بند ہی رہتے ہیں، جہاں پر نا تو ڈاکٹر ہوتا ہے اور نا ہی اسٹاف کا کوئی عملہ موجود ہوتا ہے۔
یہاں کی اکثریت میں دوائیں موجود نہیں ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ ان کا بجٹ نہیں بلکہ کاغذات میں اربوں روپے یہ بنیادی صحت کے مراکز یا پھر دیہی مراکز استعمال کرچکے ہیں۔ دیہاتوں میں یہ کسی کی اوطاق کے طور پر چل رہے ہیں۔ سب سے اہم مسئلہ ان مراکز کو فعال بنانے کا ہے۔ جب چھوٹے امراض کی وقت پر تشخیص اور علاج نہیں ہوپاتا ہے تو پھر یہ کسی سیکنڈری اسپتال کا رخ کرتے ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم بنیادی صحت کے مراکز، سیکنڈری مراکز کے بجائے تیسرے درجے کے بڑے اسپتالوں اور امراض پر پیسہ خرچ کرتے ہیں، اور اس کا حاصل کچھ بھی نہیں ہوتا ہے۔
جس طرح یہاں ہزاروں سرکاری اسکول ہیں۔ مگر ان کی حالت زار سب کے سامنے موجود ہیں۔ سندھ کے 49 ہزار اسکولوں میں سے آدھے سے زائد ایسے ہیں جہاں بنیادی سہولت تک موجود نہیں ہیں۔ اکثر میں بچوں کے ٹوائلٹ کی سہولت نہیں ہے۔ یہ ہی حال پنجاب کے سرکاری اسکولوں کا ہے۔ جہاں آدھے سے زائد عمارتوں میں سہولیات موجود نہیں ہیں۔ بلوچستان میں اکثر اسکولوں میں اساتذہ ہی موجود نہیں ہیں۔ ایسے میں کبھی روشنی اسکول، دانش اسکول یا پھر کوئی اور پڑھا لکھا پراجیکٹ شروع کردیا جاتا ہے۔
ان سرکاری اسکولوں کے انتظامات بہتر کرنے پر توجہ مرکوز نہیں کی جاتی ہے۔ حاصل کیا ہوتا ہے؟ بس تھوڑی سی واہ واہ۔ اور اس کے بعد وہ پراجیکٹ ڈبے میں گول ہوجاتا ہے۔ اس وقت پورے پاکستان کے اندر سرکاری اسکولوں کا ایک جال بچھا ہوا ہے۔ اس کے انتظامات کو بہتر کرنے کے بجائے نام نہاد پراجیکٹس شروع کردیے جاتے ہیں۔ ایسے میں ہی صحت کی بنیادی سہولیات کو بہتر کرنے کے بجائے لوگوں کو فنڈ کے حصول میں لگادیا گیا ہے۔
اس طرح سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ اور پیچیدہ ہوجائے گا۔ ہم ڈاکٹرز بنانے پر پیسہ خرچ زیادہ کرتے ہیں لیکن نرس بنانے پر توجہ نہیں دیتے ہیں۔ لوگوں کو روزگار کے مواقعے دینے کے بجائے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام جیسے پراجیکٹ دے دیے گئے ہیں۔ یہ بات ہم سمجھ نہیں پا رہے ہیں کہ لوگوں کی مالی مدد کے بجائے انھیں ایک نظام کیوں نہیں دے دیا جاتا۔ آئیے ایک چھوٹی سی مثال لیتے ہیں۔ کراچی میں ادیب رضوی صاحب کا ادارہ siut بھی قائم ہے۔
وہ کسی کی مالی مدد نہیں کرتا۔ لیکن کوئی بھی شخص چاہے وہ غریب ہو یا امیر اس کا علاج مفت ہوجاتا ہے۔ اسے ایک عام سرکاری ادارے میں جس طرح ذلیل ہونا پڑتا ہے ویسا وہاں نظام نہیں ہے۔ اس کی ایک چھوٹی سی سائنس ہے کہ انھوں نے وہاں ایک نظام بنادیا۔ ایسا نظام کہ جس میں لوگوں کا علاج خود بخود ہوجاتا ہے۔ وہاں کسی کو سفارش کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے تحت کسی بھی ملک کے بجٹ کا کم از کم 6 فیصد صحت پر خرچ ہونا چاہیے۔ لیکن اس ملک کے مسائل ہی اتنے ہیں کہ وہ اپنی صحت اور تعلیم پر سب سے کم خرچ کرتی ہے۔ تمام تر دعوؤں کے باوجود ہم اپنے بجٹ کا ایک فیصد کے قریب صحت پر خرچ کرتے ہیں۔ یہ ہی حال ایک عام آدمی کا ہے۔
بڑھتی ہوئی غربت کی وجہ سے ایک عام خاندان اپنی صحت پر زیادہ پیسہ خرچ نہیں کرسکتا۔ جہاں دو وقت کی روٹی ایک بہت بڑا اور سنگین مسئلہ ہو۔ وہاں ایک عام آدمی صحت پر کتنی رقم خرچ کرسکتا ہے۔ وہ چھوٹے موٹے امراض کا بھی علاج دیسی ٹوٹکوں کے ذریعے کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسے میں حکومت انھیں بنیادی صحت کے مراکز بھی نہیں دیتی ہے۔ جو ایک فیصد حکومت اپنے بجٹ کا حصہ صحت کے لیے رکھتی ہے اس میں سے بھی 80 فیصد سے زیادہ محکمے کی تنخواہوں پر خرچ ہوجاتا ہے۔
پاکستان میں لوگ دہشت گردی کی وجہ سے اتنے نہیں مرے جتنی حکومتی لاپرواہی کی وجہ سے مرچکے ہیں۔ یہاں روزانہ کی بنیاد پر سیکڑوں لوگ ڈائریا، ٹائیفائیڈ اور ہیپاٹائٹس A کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ اور اس کی چھوٹی سی وجہ یہ ہے کہ ہماری حکومت انھیں صاف پینے کا پانی اور صفائی کا نظام نہیں دے سکی ہے۔ پاکستان میں صحت کا معاملہ اس وقت تک حل نہیں ہوسکتا ہے جب تک سیاسی بلوغت کے ساتھ قدم نہیں اٹھایا جاتا ہے۔ یہاں پانچ سال سے کم عمر بچوں کی ہلاکت بہت زیادہ ہے اور اس کی وجہ کوئی بہت بڑا فنڈ نہیں بلکہ بہتر بنیادی سہولیات کا نا ہونا ہے۔ اقوام متحدہ کا میلینئم گول ڈبے میں گول ہوچکا ہے۔
جس پر ہم نے ساری جان ماری ہوئی ہے وہ پولیو بھی ہم ختم نہیں کرسکے ہیں۔ اسے تو چھوڑیں تھوڑی سی محنت کرکے یہ تو معلوم کیجیے کہ پاکستان سے کتنے ڈاکٹر باہر جارہے ہیں۔ کراچی میں ڈاکٹرز کی ٹارگٹ کلنگ تو ایک مسئلہ رہی ہی ہے لیکن آپ تھوڑی سی جاسوسی کرکے معلوم کیجیے کہ پاکستان سے بڑی تعداد میں ڈاکٹر جاچکے ہیں، ہم انھیں یہاں روکنے میں ناکام ہورہے ہیں۔ لوگوں کو پیسے دینے کے بجائے ایک نظام دے دیجیے تاکہ بنیادی مسائل حل ہوسکیں۔ آپ کچھ مت کیجیے، پہلی فرصت میں لوگوں کو صاف پانی کی فراہمی یقینی بنادیجیے جو کہ پاکستان کے آئین کیمطابق ان کا حق ہے۔
کراچی جیسے شہر میں صاف پانی تو بہت دور کی بات ہے لوگوں کو نہانے کے لیے پانی نہیں ملتا ہے۔ بلوچستان کے اکثر علاقوں میں لوگوں کو کئی کئی کلومیٹر چلنے کے بعد پانی نصیب ہوتا ہے۔ صاف پینے کا پانی فراہم کرنے کے بعد آپ کے آدھے سے زائد صحت کے مسائل حل ہوجائیں گے۔ دوم لوگوں کو بنیادی صحت کے مراکز دیجیے۔ جو پیسہ آپ لوگوں کو دینے میں صرف کر رہے ہیں اسے ایک اچھا نظام بنانے پر لگائیے۔ سیکنڈری اسپتال کی صورتحال پر غور کیجیے۔
ڈاکٹرز جو اس ملک کو چھوڑ کر جارہے ہیں انھیں روکنے کے لیے کوئی حکمت عملی بنائیے۔ اور تیسری بات یہ کہ نرسز کی تعداد میں اضافہ کیجیے۔ چھوٹے موٹے پراجیکٹ لانے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ ایک عام آدمی کو اتنا یقین دلائیں کہ وہ آپ کے پاس آکر علاج کرائیں۔ اس ملک میں ایسے بہت سے لوگ اور ادارے موجود ہیں۔ جنھوں نے سرکاری چھتری کے نیچے رہتے ہوئے ہی لوگوں کو بہتر نظام دیا ہے۔ خدارا چھوٹے موٹے پراجیکٹ کے ذریعے اپنی واہ واہ کرانے سے بہتر ہے کہ اس ملک کے لوگوں کو ایک مضبوط اور مربوط نظام دیجیے، ورنہ یہ پبلسٹی کسی کام نہیں آئے گی۔
یہ بات ہمارے حکمران سمجھ ہی نہیں پاتے کہ پراجیکٹ اور پالیسی میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ وہ ایک دو پراجیکٹ کو دکھا کر اپنی جیت اور عوام سے ہمدردی کا رونا روتے ہیں۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ اس سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ اس میں اور پیچیدگی آجائے گی۔ بہت بے مثالی کام کیا ہے کہ حکومت نے جو قومی صحت کے حوالے سے اعلان کیا ہے۔ لیکن اصل وجہ اور مسئلے پر ہاتھ رکھنے کے بجائے ایک مصنوعی اور عارضی سانس دے دیا گیا ہے اور حیرت انگیز طور پر پراجیکٹ کو صرف 15 اضلاع سے شروع کرنے کا اعلان ہوا ہے۔
آئیے اس امدادی اسکیم سے پہلے صحت کا مسئلہ تو سمجھ لیجیے۔ پاکستان میں عموماً چھوٹے امراض وقت پر مناسب علاج نا ہونے کی وجہ سے سنگین مرض کی طرف منتقل ہوتے ہیں۔ پاکستان کی 90 فیصد آبادی کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس بنیادی صحت کے مراکز نہیں ہیں، یعنی سرکاری سطح پر ان کے پاس کوئی سہولت موجود نہیں ہے۔
ابتدائی طور پر دیہی صحت کے مراکز، بنیادی صحت کے مراکز جوکہ سیکڑوں نہیں ہزاروں کی تعداد میں ملک میں موجود ہیں، وہ مکمل طور پر کام نہیں کررہے ہیں۔ اس وقت کے اعداد و شمار کے مطابق 50 فیصد سے زائد یہ مراکز اکثر بند ہی رہتے ہیں، جہاں پر نا تو ڈاکٹر ہوتا ہے اور نا ہی اسٹاف کا کوئی عملہ موجود ہوتا ہے۔
یہاں کی اکثریت میں دوائیں موجود نہیں ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ ان کا بجٹ نہیں بلکہ کاغذات میں اربوں روپے یہ بنیادی صحت کے مراکز یا پھر دیہی مراکز استعمال کرچکے ہیں۔ دیہاتوں میں یہ کسی کی اوطاق کے طور پر چل رہے ہیں۔ سب سے اہم مسئلہ ان مراکز کو فعال بنانے کا ہے۔ جب چھوٹے امراض کی وقت پر تشخیص اور علاج نہیں ہوپاتا ہے تو پھر یہ کسی سیکنڈری اسپتال کا رخ کرتے ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم بنیادی صحت کے مراکز، سیکنڈری مراکز کے بجائے تیسرے درجے کے بڑے اسپتالوں اور امراض پر پیسہ خرچ کرتے ہیں، اور اس کا حاصل کچھ بھی نہیں ہوتا ہے۔
جس طرح یہاں ہزاروں سرکاری اسکول ہیں۔ مگر ان کی حالت زار سب کے سامنے موجود ہیں۔ سندھ کے 49 ہزار اسکولوں میں سے آدھے سے زائد ایسے ہیں جہاں بنیادی سہولت تک موجود نہیں ہیں۔ اکثر میں بچوں کے ٹوائلٹ کی سہولت نہیں ہے۔ یہ ہی حال پنجاب کے سرکاری اسکولوں کا ہے۔ جہاں آدھے سے زائد عمارتوں میں سہولیات موجود نہیں ہیں۔ بلوچستان میں اکثر اسکولوں میں اساتذہ ہی موجود نہیں ہیں۔ ایسے میں کبھی روشنی اسکول، دانش اسکول یا پھر کوئی اور پڑھا لکھا پراجیکٹ شروع کردیا جاتا ہے۔
ان سرکاری اسکولوں کے انتظامات بہتر کرنے پر توجہ مرکوز نہیں کی جاتی ہے۔ حاصل کیا ہوتا ہے؟ بس تھوڑی سی واہ واہ۔ اور اس کے بعد وہ پراجیکٹ ڈبے میں گول ہوجاتا ہے۔ اس وقت پورے پاکستان کے اندر سرکاری اسکولوں کا ایک جال بچھا ہوا ہے۔ اس کے انتظامات کو بہتر کرنے کے بجائے نام نہاد پراجیکٹس شروع کردیے جاتے ہیں۔ ایسے میں ہی صحت کی بنیادی سہولیات کو بہتر کرنے کے بجائے لوگوں کو فنڈ کے حصول میں لگادیا گیا ہے۔
اس طرح سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ اور پیچیدہ ہوجائے گا۔ ہم ڈاکٹرز بنانے پر پیسہ خرچ زیادہ کرتے ہیں لیکن نرس بنانے پر توجہ نہیں دیتے ہیں۔ لوگوں کو روزگار کے مواقعے دینے کے بجائے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام جیسے پراجیکٹ دے دیے گئے ہیں۔ یہ بات ہم سمجھ نہیں پا رہے ہیں کہ لوگوں کی مالی مدد کے بجائے انھیں ایک نظام کیوں نہیں دے دیا جاتا۔ آئیے ایک چھوٹی سی مثال لیتے ہیں۔ کراچی میں ادیب رضوی صاحب کا ادارہ siut بھی قائم ہے۔
وہ کسی کی مالی مدد نہیں کرتا۔ لیکن کوئی بھی شخص چاہے وہ غریب ہو یا امیر اس کا علاج مفت ہوجاتا ہے۔ اسے ایک عام سرکاری ادارے میں جس طرح ذلیل ہونا پڑتا ہے ویسا وہاں نظام نہیں ہے۔ اس کی ایک چھوٹی سی سائنس ہے کہ انھوں نے وہاں ایک نظام بنادیا۔ ایسا نظام کہ جس میں لوگوں کا علاج خود بخود ہوجاتا ہے۔ وہاں کسی کو سفارش کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے تحت کسی بھی ملک کے بجٹ کا کم از کم 6 فیصد صحت پر خرچ ہونا چاہیے۔ لیکن اس ملک کے مسائل ہی اتنے ہیں کہ وہ اپنی صحت اور تعلیم پر سب سے کم خرچ کرتی ہے۔ تمام تر دعوؤں کے باوجود ہم اپنے بجٹ کا ایک فیصد کے قریب صحت پر خرچ کرتے ہیں۔ یہ ہی حال ایک عام آدمی کا ہے۔
بڑھتی ہوئی غربت کی وجہ سے ایک عام خاندان اپنی صحت پر زیادہ پیسہ خرچ نہیں کرسکتا۔ جہاں دو وقت کی روٹی ایک بہت بڑا اور سنگین مسئلہ ہو۔ وہاں ایک عام آدمی صحت پر کتنی رقم خرچ کرسکتا ہے۔ وہ چھوٹے موٹے امراض کا بھی علاج دیسی ٹوٹکوں کے ذریعے کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسے میں حکومت انھیں بنیادی صحت کے مراکز بھی نہیں دیتی ہے۔ جو ایک فیصد حکومت اپنے بجٹ کا حصہ صحت کے لیے رکھتی ہے اس میں سے بھی 80 فیصد سے زیادہ محکمے کی تنخواہوں پر خرچ ہوجاتا ہے۔
پاکستان میں لوگ دہشت گردی کی وجہ سے اتنے نہیں مرے جتنی حکومتی لاپرواہی کی وجہ سے مرچکے ہیں۔ یہاں روزانہ کی بنیاد پر سیکڑوں لوگ ڈائریا، ٹائیفائیڈ اور ہیپاٹائٹس A کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ اور اس کی چھوٹی سی وجہ یہ ہے کہ ہماری حکومت انھیں صاف پینے کا پانی اور صفائی کا نظام نہیں دے سکی ہے۔ پاکستان میں صحت کا معاملہ اس وقت تک حل نہیں ہوسکتا ہے جب تک سیاسی بلوغت کے ساتھ قدم نہیں اٹھایا جاتا ہے۔ یہاں پانچ سال سے کم عمر بچوں کی ہلاکت بہت زیادہ ہے اور اس کی وجہ کوئی بہت بڑا فنڈ نہیں بلکہ بہتر بنیادی سہولیات کا نا ہونا ہے۔ اقوام متحدہ کا میلینئم گول ڈبے میں گول ہوچکا ہے۔
جس پر ہم نے ساری جان ماری ہوئی ہے وہ پولیو بھی ہم ختم نہیں کرسکے ہیں۔ اسے تو چھوڑیں تھوڑی سی محنت کرکے یہ تو معلوم کیجیے کہ پاکستان سے کتنے ڈاکٹر باہر جارہے ہیں۔ کراچی میں ڈاکٹرز کی ٹارگٹ کلنگ تو ایک مسئلہ رہی ہی ہے لیکن آپ تھوڑی سی جاسوسی کرکے معلوم کیجیے کہ پاکستان سے بڑی تعداد میں ڈاکٹر جاچکے ہیں، ہم انھیں یہاں روکنے میں ناکام ہورہے ہیں۔ لوگوں کو پیسے دینے کے بجائے ایک نظام دے دیجیے تاکہ بنیادی مسائل حل ہوسکیں۔ آپ کچھ مت کیجیے، پہلی فرصت میں لوگوں کو صاف پانی کی فراہمی یقینی بنادیجیے جو کہ پاکستان کے آئین کیمطابق ان کا حق ہے۔
کراچی جیسے شہر میں صاف پانی تو بہت دور کی بات ہے لوگوں کو نہانے کے لیے پانی نہیں ملتا ہے۔ بلوچستان کے اکثر علاقوں میں لوگوں کو کئی کئی کلومیٹر چلنے کے بعد پانی نصیب ہوتا ہے۔ صاف پینے کا پانی فراہم کرنے کے بعد آپ کے آدھے سے زائد صحت کے مسائل حل ہوجائیں گے۔ دوم لوگوں کو بنیادی صحت کے مراکز دیجیے۔ جو پیسہ آپ لوگوں کو دینے میں صرف کر رہے ہیں اسے ایک اچھا نظام بنانے پر لگائیے۔ سیکنڈری اسپتال کی صورتحال پر غور کیجیے۔
ڈاکٹرز جو اس ملک کو چھوڑ کر جارہے ہیں انھیں روکنے کے لیے کوئی حکمت عملی بنائیے۔ اور تیسری بات یہ کہ نرسز کی تعداد میں اضافہ کیجیے۔ چھوٹے موٹے پراجیکٹ لانے سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ ایک عام آدمی کو اتنا یقین دلائیں کہ وہ آپ کے پاس آکر علاج کرائیں۔ اس ملک میں ایسے بہت سے لوگ اور ادارے موجود ہیں۔ جنھوں نے سرکاری چھتری کے نیچے رہتے ہوئے ہی لوگوں کو بہتر نظام دیا ہے۔ خدارا چھوٹے موٹے پراجیکٹ کے ذریعے اپنی واہ واہ کرانے سے بہتر ہے کہ اس ملک کے لوگوں کو ایک مضبوط اور مربوط نظام دیجیے، ورنہ یہ پبلسٹی کسی کام نہیں آئے گی۔