قومی معیشت کے اتار چڑھاؤ
حکومت ِوقت 2015ء میں بھی گرادب کا شکار قومی معیشت کی کشتی کو کنارے تک نہ پہنچا سکی
انسان کو زندہ رہنے کی خاطر ہوا اور پانی کے بعد روٹی چاہیے۔ یہ بنیادی طلب پوری کرنے کے لیے انسان کام کاج کرنے لگا اور اس کی معیشت نے جنم لیا۔ آج فرد سے لے کر مملکت تک ہر کوئی اپنی معیشت رکھتا ہے۔ کامیاب معیشت کا زریں اصول ہے :'' چادر دیکھ کر پیر پھلاؤ۔'' افسوس وطن عزیز کے لیڈر اس مقولے پر عمل نہ کر سکے۔
ہماری شاہ خرچ اور نااہل حکومتوں کے باعث آج پاکستان کھربوں روپے کا مقروض ہو چکا۔پچھلے دنوں حکومت پاکستان نے دعویٰ کیا کہ قومی معیشت تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔درست کہ موجودہ سیاسی وعسکری قیادت کے مثبت اقدامات سے اس سال معیشت کے بعض پہلوؤںمیں بہتری آئی۔مثلاً کریڈٹ ریٹنگ بہتر ہوئی اور جولائی تا ستمبر غیر ملکی سرمایہ کاری بڑھی، مگر حقائق مختلف تصویر بھی دکھاتے ہیں۔ پہلا کڑوا سچ یہ ہے کہ حکومت عالمی مالیاتی اداروں اور مقامی بینکوں سے قرضے لے کر اپنے اخراجات پورے کر رہی ہے۔بڑھ چڑھ کر قرض لینا ہر پاکستانی حکومت کا طرہ امتیاز بن چکا ۔ لہٰذا آج کوئی پاکستانی بچہ جنم لے،تو وہ دنیا میں آتے ہی '' ایک لاکھ روپے'' سے زیادہ رقم کا مقروض بن جاتا ہے۔
وزیراعظم پاکستان اپنی ٹیم کے ساتھ قومی معیشت سنوارنے کی کوششیں کر رہے ہیں مگر مالیاتی اداروں سے قرضے لے کر خرچے پورے کرنے کی بدروش ہنوز جاری ہے۔ چناں چہ آج پاکستان پر ''140 ارب ڈالر'' سے زائد رقم کے قرضے چڑھ چکے۔ پاکستانی کرنسی میں یہ رقم 148 کھرب 40 ارب روپے بنتی ہے۔ گویا ہم قرضوں کے جال میں جکڑا پاکستان آنے والی پاکستانی نسلوں کے حوالے کریں گے۔ یہ ہماری حکومتوںکی نااہلی کا بڑا مایوس کن نتیجہ ہے۔
یاد رہے، درج بالا ''کُل قرضوں'' کی رقم بتائی گئی۔ اس میں وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کے علاوہ نجی شعبے کے قرضوں کی رقم بھی شامل ہے۔ وفاقی حکومت پاکستان پر 52.3 ارب ڈالر کا قرضہ ہے جو معمولی نہیں۔ یہ ''عوامی قرضہ'' (public debt) کہلاتا ہے۔ حکومت پاکستان ہر سال اپنے قرضوں کے صرف سود پر تقریباً ایک کھرب روپے ادا کرتی ہے۔ تازہ اعدادو شمار کی رو سے حکومت کی جو آمدن ہو، اس کا ''44 سے 47 فیصد'' حصّہ قرضے لوٹانے یا سود دینے پر لگ رہاہے۔
اسی واسطے عوام دوست ترقیاتی منصوبے انجام دینے کے لیے بہت کم رقم بچتی ہے۔حکومت کو مختلف ٹیکسوں سے آمدن ہوتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے، بہت سے پاکستانی ٹیکس نہیں دیتے۔ بعض پاکستانی بے ایمان ہیں' تو دوسرے ٹیکس نہ دینے کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ ان کی رقم سرکاری نظام میں مروج کرپشن کی نذر ہو جائے گی۔اعداد و شمار کی رو سے حکومت پاکستان کو ٹیکسوں کی مد میں ڈھائی کھرب روپے ملتے ہیں جبکہ پاکستا ن کی معیشت کا ''57 فیصد حصّہ'' ٹیکس نیٹ سے باہر ہے ۔ اگر یہ حصّہ بھی ٹیکس دینے لگے' تو حکومت کو تقریباً چار کھرب روپے حاصل ہوں گے۔ گویا تب اسے قرضے لینے کی ضرورت نہیں رہے گی اور ملک خود انحصاری کی روش پر چل نکلے گا۔
ٹیکسوں کا کم جمع ہونا قومی معیشت کا نہایت اہم منفی پہلو ہے۔ پچھلے دو برس سے نواز شریف حکومت ٹیکس کی رقم بڑھانے کے لیے کئی اقدامات کر چکی مگر اسے پوری کامیابی نصیب نہ ہوئی۔ اس ناکامی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ عوام کی فلاح و بہبود کے واسطے جاری سرکاری منصوبے رقم کی کمی کے باعث معطل ہو جاتے ہیں۔ ان کی معطلی سے بیروزگاری جنم لیتی اور ملک میں غربت بڑھتی ہے۔
اس سال قومی معیشت کو تیل کی کم قیمتوں اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی بھیجی گئی رقم نے سہارا دیئے رکھا۔ تیل کی گرتی قیمت کے باعث بیشتر اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں کمی دیکھی گئی اور یوں مہنگائی گھٹ گئی۔اس وقت بیرون ملک مقیم پاکستانی ہرماہ تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالر پاکستان بجھوا رہے ہیں ۔ یہ وطن عزیز سے ان کی محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ مظہر آشکاراکرتا ہے کہ انہیں مسلم لیگ (ن) حکومت پر اعتماد ہے۔بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے جذبہ حب الوطنی کی وجہ سے زرمبادلہ کے قومی ذخائر 20 ارب ڈالر تک پہنچ چکے ۔ گو ان کا کچھ حصّہ قرضوں کی رقم پر بھی مشتمل ہے۔انہی پاکستانیوں کی بدولت غیرملکی سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہوا۔
عالمی بینک اور سٹیٹ بینک کی رپورٹوں کے مطابق 2015ء میں پاکستان کی معاشی ترقی 4.2 فیصد رہی جو مناسب سمجھی گئی۔ اگلے سال یہ شرح5 فیصد تک پہنچنے کا امکان ہے۔ تاہم گرتی برآمدات یہ شرح ترقی کم کر سکتی ہیں ۔ماہرین کے مطابق بجلی نہ ہونے اور حکومتی نااہلی کے باعث برآمدات میں کمی کا رجحان ہے۔ فی الحال پاکستان ''25ارب ڈالر'' مالیت کی اشیا باہر بجھواتا ہے جبکہ بیرون ممالک سے ''41ارب ڈالر'' کی اشیا منگوارہا ہے۔ گویاپاکستان نے چادر سے پیر تو کیا دھڑتک باہر نکال لیا ہے۔
دفاع وسیکورٹی کے اخراجات اور قرضوں کی ادائیگی کے بعد پاکستانی حکومت کا تیسرا بڑا خرچ بجلی کی پیداوار سے متعلق ہے۔ حکومت بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو سبسڈی دیتی ہے تاکہ بجلی کی قیمت کم رہے۔ حکومت وقت کو 6.64ارب ڈالر کا قرضہ دینے والی عالمی مالیاتی تنظیم' آئی ایم ایف چاہتی ہے کہ یہ سبسڈی ختم کی جائے تاکہ حکومتی خسارہ کم ہو سکے۔ مگرحکومت کی امداد ختم ہونے سے عوام پہ مزید مالی بوجھ پڑ سکتا ہے۔
مزید براں بجلی کی نجی کمپنیوںکا بل یا سرکلر ڈیبٹ بھی حکومت کو دق کر رہا ہے ۔ یہ 600ارب روپے تک پہنچ چکا۔ سرکلر ڈیبٹ آشکار کرتا ہے کہ حکومت وقت گڈ گورنس نہیں دکھا پا رہی ۔رقم نہ ہونے سے ہی پاکستان اسٹیٹ آئل بھی مناسب تیل نہیں خرید پائی۔ چناں چہ چند ماہ قبل پورے پاکستان میں پٹرول کی عدم دستیابی کے زبردست بحران نے جنم لیا۔ پٹرول کی نایابی نے روزمرہ کام کاج کو بریک سی لگادی۔
ماہ نومبر میں حکومت نے آمدن بڑھانے کے لیے سیکڑوں درآمدی اشیا پر ٹیکس لگا دیا جن سے ان کی قیمت میں اضافہ ہوگیا۔ ان ٹیکسوں سے حکومت کو 140 ارب روپے کی آمدن ہوگی۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ درآمدی اشیا امیر طبقہ استعمال کرتا ہے، اس لیے نئے ٹیکسوں سے غریب اور متوسط طبقے متاثر نہیں ہوں گے۔
مگر ماہرین نے اسے ''منی بجٹ''قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ بلاواسطہ طور پر غریبوں پہ مالی بوجھ بڑھائے گا۔دنیا بھر میں تیل کی قیمتیں کم ہورہی ہیں مگر عام پاکستانی کو اس سے فائدہ نہیں ہوا کیونکہ حکومت نے اس کی درآمد پر ٹیکس کی شرح بڑھادی۔ اسی لیے پاکستان میں ڈیزل آئل بنگلہ دیش سے 46 فیصد، بھارت سے 29 فیصد اور سری لنکا سے 28 فیصد مہنگا ہے۔سامان کی نقل وحمل کی ذمے دار عام ٹرانسپورٹ ڈیزل سے چلتی ہے۔ لہذا پاکستان میں کھانے پینے کی بیشتر اشیا پڑوسی ممالک کی نسبت مہنگی ہیں۔
حکومت پاکستان اخراجات کم کرنے کی خاطر خصوصاً نقصان میں جانے والے سرکاری اداروں کی نج کاری کرنا چاہتی ہے۔ مگر اس ضمن میں اسے اداروں کے ملازمین کے پر زور احتجاج کا سامنا ہے۔ اس احتجاج کے سلسلے میں دو آرا ملتی ہیں۔ پہلی یہ کہ ملازمین اپنی نااہلی اور کرپشن چھپانے کے لیے اداروں کی نج کاری نہیں چاہتے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ یوں حکومت سرمایہ داروں کو ملازمین کا استحصال کرنے کی اجازت دے رہی ہے۔حکومت پی آئی اے، سٹیل ملز اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نج کاری چاہتی تھی، مگر اسے ملازمین کی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔
بعض ماہرین معاشیات کا دعویٰ ہے کہ حکومت آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے دباؤ پر ایسی معاشی پالیسیاں وضع کر رہی ہے جن سے صرف امرا کو فائدہ پہنچے گا۔ اسی لیے پاکستانی معاشرے میں دولت کی عدم مساوات تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ امیر پہلے سے زیادہ امیر جبکہ غریب مزید غریب ہورہا ہے۔ تاہم عدم مساوات کا یہ عجوبہ پوری دنیا میں جنم لے چکا۔ مشہور امریکی رسالے، فورس کی تازہ رپورٹ کے مطابق 2016ء کے آخر تک دنیا کے ''ایک فیصد'' اُمرا بقیہ ''ننانوے فیصد'' انسانوں سے زیادہ دولت کے مالک ہوں گے۔
بہرحال حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ عوام دوست معاشی پالیسیاں بنائے تاکہ ترقی و خوشحالی کے ثمرات سے غریب ترین پاکستانی بھی مستفید ہوسکیں اور ان کی زندگیوں میں انقلاب آئے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہر سال 30 لاکھ پاکستانی میدان عمل میں اتر رہے ہیں۔ اگر انہیں ملازمتیں نہ ملیں، تو بیروزگار جرائم حتیٰ کہ دہشت گردی کی سمت راغب ہوسکتے ہیں۔
وطن کی معاشی صورتحال فی الوقت یہ ہے کہ حکومت کو ٹیکسوں کی صورت پوری آمدن نہیں ہوتی۔ ادھر تجارتی خسارہ 21 ارب ڈالر تک پہنچ چکا۔ حکومت قرضوں کے پہاڑ تلے دبی ہوئی ہے۔ غیر ملکی و ملکی سرمایہ کاری کچھ بڑھی ہے مگر عالمی مالیاتی ادارے حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ قوم پر مزید ٹیکس لگائے جائیں۔
ان مایوس کن معاشی حالات میں حکومت قوم کو یہ خوشخبری سناتی نظر آتی ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری ''گیم چینجر'' ثابت ہوگی۔ یہ منصوبہ پاکستان کو معاشی طور پر علاقائی سپرپاور بنادے گا۔ اس میگا پروجیکٹ کی اہمیت اپنی جگہ مگر سّکے کا دوسرا رخ یہ ہے کہ مختلف منصوبوں کے لیے مختص 46 ارب ڈالر میں سے بیشتر رقم چین بطور قرض دے رہا ہے۔ گویا پاکستان پر قرضوں کا بوجھ بڑھ جائے گا اور انھیں اتارتے ہوئے حکومت کا خرچ بڑھے گا جو پہلے ہی ناک تک اخراجات کے سمندر میں ڈوبی ہوئی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بیش بہا قدرتی وسائل سے نواز رکھا ہے۔ افسوس پاکستانی قوم کو اہل، دیانت دار اور محب وطن حکمران طبقہ نصیب نہیں ہوسکا۔ وطن عزیز کو جو قدرتی وسائل میسر ہیں، ان سے فائدہ اٹھا کر اب بھی باصلاحیت قیادت پاکستان کو ملائشیا اور سنگاپور کی طرح ترقی یافتہ بناسکتی ہے۔ یہ منزل پانے کے لیے بس ذاتی و گروہی مفادات سے بلند ہوکر قومی مفاد مدنظر رکھنا پڑے گا۔
حالات بتاتے ہیں کہ 2016ء میں بھی مروجہ ٹیکس نظام میں زیادہ تبدیلی نہیں آئے گی جو ایک لحاظ سے عوام دشمن ہے۔پاکستان کے ٹیکس نظام کی ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ اس میں بلاواسطہ (Indirect tax) ٹیکسوں کی تعداد 70 فیصد ہے جبکہ براہ راست یا ڈائریکٹ ٹیکس صرف 30 فیصد ہیں۔حکومتیں بلاواسطہ ٹیکس اس لیے لگاتی ہیں تاکہ زیادہ آمدن ہو سکے۔
نیز ٹیکس چور بھی ٹیکس نیٹ ورک میں آ جائیں۔مسئلہ یہ ہے کہ بلاواسطہ ٹیکس غریبوں کے لیے وبال جان ثابت ہوتے ہیں۔مثال کے طور پر پاکستان میں چودہ کروڑ شہری موبائل فون استعمال کرنے پر 34.5 فیصد ٹیکس ادا کررہے ہیں۔ حالانکہ موبائل کے حامل لاکھوں لوگ غریب مزدور اور کسان ہیں جن پر اتنا بھاری ٹیکس لاگو کرنے کی تُک نہیں بنتی۔ دوسری طرف مشہور ماہر معاشیات ،ڈاکٹر عشرت حسین کا کہنا ہے ''ڈیڑھ کروڑ امیر اور ڈھائی کروڑ متوسط طبقے کے پاکستانیوں میں سے صرف دس لاکھ لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔''درج بالا حقائق سے عیاں ہے کہ پاکستان کا ٹیکس نظام خامیوں سے پُر ہے۔
یہ ضروری ہے کہ حکومت اس نظام میں براہ راست ٹیکسوں کی تعداد بڑھائے تاکہ جو لوگ زیادہ کماتے ہیں، وہی ٹیکس بھی زیادہ دیں۔ ابھی تو امیر و غریب کی تمیز کیے بغیر پاکستانی عوام پر نت نئے ٹیکس تھوپے جارہے ہیں۔ اس پالیسی کو قطعاً عوام دوست نہیں کہا جاسکتا۔
ہماری شاہ خرچ اور نااہل حکومتوں کے باعث آج پاکستان کھربوں روپے کا مقروض ہو چکا۔پچھلے دنوں حکومت پاکستان نے دعویٰ کیا کہ قومی معیشت تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔درست کہ موجودہ سیاسی وعسکری قیادت کے مثبت اقدامات سے اس سال معیشت کے بعض پہلوؤںمیں بہتری آئی۔مثلاً کریڈٹ ریٹنگ بہتر ہوئی اور جولائی تا ستمبر غیر ملکی سرمایہ کاری بڑھی، مگر حقائق مختلف تصویر بھی دکھاتے ہیں۔ پہلا کڑوا سچ یہ ہے کہ حکومت عالمی مالیاتی اداروں اور مقامی بینکوں سے قرضے لے کر اپنے اخراجات پورے کر رہی ہے۔بڑھ چڑھ کر قرض لینا ہر پاکستانی حکومت کا طرہ امتیاز بن چکا ۔ لہٰذا آج کوئی پاکستانی بچہ جنم لے،تو وہ دنیا میں آتے ہی '' ایک لاکھ روپے'' سے زیادہ رقم کا مقروض بن جاتا ہے۔
وزیراعظم پاکستان اپنی ٹیم کے ساتھ قومی معیشت سنوارنے کی کوششیں کر رہے ہیں مگر مالیاتی اداروں سے قرضے لے کر خرچے پورے کرنے کی بدروش ہنوز جاری ہے۔ چناں چہ آج پاکستان پر ''140 ارب ڈالر'' سے زائد رقم کے قرضے چڑھ چکے۔ پاکستانی کرنسی میں یہ رقم 148 کھرب 40 ارب روپے بنتی ہے۔ گویا ہم قرضوں کے جال میں جکڑا پاکستان آنے والی پاکستانی نسلوں کے حوالے کریں گے۔ یہ ہماری حکومتوںکی نااہلی کا بڑا مایوس کن نتیجہ ہے۔
یاد رہے، درج بالا ''کُل قرضوں'' کی رقم بتائی گئی۔ اس میں وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں کے علاوہ نجی شعبے کے قرضوں کی رقم بھی شامل ہے۔ وفاقی حکومت پاکستان پر 52.3 ارب ڈالر کا قرضہ ہے جو معمولی نہیں۔ یہ ''عوامی قرضہ'' (public debt) کہلاتا ہے۔ حکومت پاکستان ہر سال اپنے قرضوں کے صرف سود پر تقریباً ایک کھرب روپے ادا کرتی ہے۔ تازہ اعدادو شمار کی رو سے حکومت کی جو آمدن ہو، اس کا ''44 سے 47 فیصد'' حصّہ قرضے لوٹانے یا سود دینے پر لگ رہاہے۔
اسی واسطے عوام دوست ترقیاتی منصوبے انجام دینے کے لیے بہت کم رقم بچتی ہے۔حکومت کو مختلف ٹیکسوں سے آمدن ہوتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے، بہت سے پاکستانی ٹیکس نہیں دیتے۔ بعض پاکستانی بے ایمان ہیں' تو دوسرے ٹیکس نہ دینے کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ ان کی رقم سرکاری نظام میں مروج کرپشن کی نذر ہو جائے گی۔اعداد و شمار کی رو سے حکومت پاکستان کو ٹیکسوں کی مد میں ڈھائی کھرب روپے ملتے ہیں جبکہ پاکستا ن کی معیشت کا ''57 فیصد حصّہ'' ٹیکس نیٹ سے باہر ہے ۔ اگر یہ حصّہ بھی ٹیکس دینے لگے' تو حکومت کو تقریباً چار کھرب روپے حاصل ہوں گے۔ گویا تب اسے قرضے لینے کی ضرورت نہیں رہے گی اور ملک خود انحصاری کی روش پر چل نکلے گا۔
ٹیکسوں کا کم جمع ہونا قومی معیشت کا نہایت اہم منفی پہلو ہے۔ پچھلے دو برس سے نواز شریف حکومت ٹیکس کی رقم بڑھانے کے لیے کئی اقدامات کر چکی مگر اسے پوری کامیابی نصیب نہ ہوئی۔ اس ناکامی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ عوام کی فلاح و بہبود کے واسطے جاری سرکاری منصوبے رقم کی کمی کے باعث معطل ہو جاتے ہیں۔ ان کی معطلی سے بیروزگاری جنم لیتی اور ملک میں غربت بڑھتی ہے۔
اس سال قومی معیشت کو تیل کی کم قیمتوں اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی بھیجی گئی رقم نے سہارا دیئے رکھا۔ تیل کی گرتی قیمت کے باعث بیشتر اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں کمی دیکھی گئی اور یوں مہنگائی گھٹ گئی۔اس وقت بیرون ملک مقیم پاکستانی ہرماہ تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالر پاکستان بجھوا رہے ہیں ۔ یہ وطن عزیز سے ان کی محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ مظہر آشکاراکرتا ہے کہ انہیں مسلم لیگ (ن) حکومت پر اعتماد ہے۔بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے جذبہ حب الوطنی کی وجہ سے زرمبادلہ کے قومی ذخائر 20 ارب ڈالر تک پہنچ چکے ۔ گو ان کا کچھ حصّہ قرضوں کی رقم پر بھی مشتمل ہے۔انہی پاکستانیوں کی بدولت غیرملکی سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہوا۔
عالمی بینک اور سٹیٹ بینک کی رپورٹوں کے مطابق 2015ء میں پاکستان کی معاشی ترقی 4.2 فیصد رہی جو مناسب سمجھی گئی۔ اگلے سال یہ شرح5 فیصد تک پہنچنے کا امکان ہے۔ تاہم گرتی برآمدات یہ شرح ترقی کم کر سکتی ہیں ۔ماہرین کے مطابق بجلی نہ ہونے اور حکومتی نااہلی کے باعث برآمدات میں کمی کا رجحان ہے۔ فی الحال پاکستان ''25ارب ڈالر'' مالیت کی اشیا باہر بجھواتا ہے جبکہ بیرون ممالک سے ''41ارب ڈالر'' کی اشیا منگوارہا ہے۔ گویاپاکستان نے چادر سے پیر تو کیا دھڑتک باہر نکال لیا ہے۔
دفاع وسیکورٹی کے اخراجات اور قرضوں کی ادائیگی کے بعد پاکستانی حکومت کا تیسرا بڑا خرچ بجلی کی پیداوار سے متعلق ہے۔ حکومت بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو سبسڈی دیتی ہے تاکہ بجلی کی قیمت کم رہے۔ حکومت وقت کو 6.64ارب ڈالر کا قرضہ دینے والی عالمی مالیاتی تنظیم' آئی ایم ایف چاہتی ہے کہ یہ سبسڈی ختم کی جائے تاکہ حکومتی خسارہ کم ہو سکے۔ مگرحکومت کی امداد ختم ہونے سے عوام پہ مزید مالی بوجھ پڑ سکتا ہے۔
مزید براں بجلی کی نجی کمپنیوںکا بل یا سرکلر ڈیبٹ بھی حکومت کو دق کر رہا ہے ۔ یہ 600ارب روپے تک پہنچ چکا۔ سرکلر ڈیبٹ آشکار کرتا ہے کہ حکومت وقت گڈ گورنس نہیں دکھا پا رہی ۔رقم نہ ہونے سے ہی پاکستان اسٹیٹ آئل بھی مناسب تیل نہیں خرید پائی۔ چناں چہ چند ماہ قبل پورے پاکستان میں پٹرول کی عدم دستیابی کے زبردست بحران نے جنم لیا۔ پٹرول کی نایابی نے روزمرہ کام کاج کو بریک سی لگادی۔
ماہ نومبر میں حکومت نے آمدن بڑھانے کے لیے سیکڑوں درآمدی اشیا پر ٹیکس لگا دیا جن سے ان کی قیمت میں اضافہ ہوگیا۔ ان ٹیکسوں سے حکومت کو 140 ارب روپے کی آمدن ہوگی۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ درآمدی اشیا امیر طبقہ استعمال کرتا ہے، اس لیے نئے ٹیکسوں سے غریب اور متوسط طبقے متاثر نہیں ہوں گے۔
مگر ماہرین نے اسے ''منی بجٹ''قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ بلاواسطہ طور پر غریبوں پہ مالی بوجھ بڑھائے گا۔دنیا بھر میں تیل کی قیمتیں کم ہورہی ہیں مگر عام پاکستانی کو اس سے فائدہ نہیں ہوا کیونکہ حکومت نے اس کی درآمد پر ٹیکس کی شرح بڑھادی۔ اسی لیے پاکستان میں ڈیزل آئل بنگلہ دیش سے 46 فیصد، بھارت سے 29 فیصد اور سری لنکا سے 28 فیصد مہنگا ہے۔سامان کی نقل وحمل کی ذمے دار عام ٹرانسپورٹ ڈیزل سے چلتی ہے۔ لہذا پاکستان میں کھانے پینے کی بیشتر اشیا پڑوسی ممالک کی نسبت مہنگی ہیں۔
حکومت پاکستان اخراجات کم کرنے کی خاطر خصوصاً نقصان میں جانے والے سرکاری اداروں کی نج کاری کرنا چاہتی ہے۔ مگر اس ضمن میں اسے اداروں کے ملازمین کے پر زور احتجاج کا سامنا ہے۔ اس احتجاج کے سلسلے میں دو آرا ملتی ہیں۔ پہلی یہ کہ ملازمین اپنی نااہلی اور کرپشن چھپانے کے لیے اداروں کی نج کاری نہیں چاہتے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ یوں حکومت سرمایہ داروں کو ملازمین کا استحصال کرنے کی اجازت دے رہی ہے۔حکومت پی آئی اے، سٹیل ملز اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نج کاری چاہتی تھی، مگر اسے ملازمین کی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔
بعض ماہرین معاشیات کا دعویٰ ہے کہ حکومت آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے دباؤ پر ایسی معاشی پالیسیاں وضع کر رہی ہے جن سے صرف امرا کو فائدہ پہنچے گا۔ اسی لیے پاکستانی معاشرے میں دولت کی عدم مساوات تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ امیر پہلے سے زیادہ امیر جبکہ غریب مزید غریب ہورہا ہے۔ تاہم عدم مساوات کا یہ عجوبہ پوری دنیا میں جنم لے چکا۔ مشہور امریکی رسالے، فورس کی تازہ رپورٹ کے مطابق 2016ء کے آخر تک دنیا کے ''ایک فیصد'' اُمرا بقیہ ''ننانوے فیصد'' انسانوں سے زیادہ دولت کے مالک ہوں گے۔
بہرحال حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ عوام دوست معاشی پالیسیاں بنائے تاکہ ترقی و خوشحالی کے ثمرات سے غریب ترین پاکستانی بھی مستفید ہوسکیں اور ان کی زندگیوں میں انقلاب آئے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہر سال 30 لاکھ پاکستانی میدان عمل میں اتر رہے ہیں۔ اگر انہیں ملازمتیں نہ ملیں، تو بیروزگار جرائم حتیٰ کہ دہشت گردی کی سمت راغب ہوسکتے ہیں۔
وطن کی معاشی صورتحال فی الوقت یہ ہے کہ حکومت کو ٹیکسوں کی صورت پوری آمدن نہیں ہوتی۔ ادھر تجارتی خسارہ 21 ارب ڈالر تک پہنچ چکا۔ حکومت قرضوں کے پہاڑ تلے دبی ہوئی ہے۔ غیر ملکی و ملکی سرمایہ کاری کچھ بڑھی ہے مگر عالمی مالیاتی ادارے حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ قوم پر مزید ٹیکس لگائے جائیں۔
ان مایوس کن معاشی حالات میں حکومت قوم کو یہ خوشخبری سناتی نظر آتی ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری ''گیم چینجر'' ثابت ہوگی۔ یہ منصوبہ پاکستان کو معاشی طور پر علاقائی سپرپاور بنادے گا۔ اس میگا پروجیکٹ کی اہمیت اپنی جگہ مگر سّکے کا دوسرا رخ یہ ہے کہ مختلف منصوبوں کے لیے مختص 46 ارب ڈالر میں سے بیشتر رقم چین بطور قرض دے رہا ہے۔ گویا پاکستان پر قرضوں کا بوجھ بڑھ جائے گا اور انھیں اتارتے ہوئے حکومت کا خرچ بڑھے گا جو پہلے ہی ناک تک اخراجات کے سمندر میں ڈوبی ہوئی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بیش بہا قدرتی وسائل سے نواز رکھا ہے۔ افسوس پاکستانی قوم کو اہل، دیانت دار اور محب وطن حکمران طبقہ نصیب نہیں ہوسکا۔ وطن عزیز کو جو قدرتی وسائل میسر ہیں، ان سے فائدہ اٹھا کر اب بھی باصلاحیت قیادت پاکستان کو ملائشیا اور سنگاپور کی طرح ترقی یافتہ بناسکتی ہے۔ یہ منزل پانے کے لیے بس ذاتی و گروہی مفادات سے بلند ہوکر قومی مفاد مدنظر رکھنا پڑے گا۔
حالات بتاتے ہیں کہ 2016ء میں بھی مروجہ ٹیکس نظام میں زیادہ تبدیلی نہیں آئے گی جو ایک لحاظ سے عوام دشمن ہے۔پاکستان کے ٹیکس نظام کی ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ اس میں بلاواسطہ (Indirect tax) ٹیکسوں کی تعداد 70 فیصد ہے جبکہ براہ راست یا ڈائریکٹ ٹیکس صرف 30 فیصد ہیں۔حکومتیں بلاواسطہ ٹیکس اس لیے لگاتی ہیں تاکہ زیادہ آمدن ہو سکے۔
نیز ٹیکس چور بھی ٹیکس نیٹ ورک میں آ جائیں۔مسئلہ یہ ہے کہ بلاواسطہ ٹیکس غریبوں کے لیے وبال جان ثابت ہوتے ہیں۔مثال کے طور پر پاکستان میں چودہ کروڑ شہری موبائل فون استعمال کرنے پر 34.5 فیصد ٹیکس ادا کررہے ہیں۔ حالانکہ موبائل کے حامل لاکھوں لوگ غریب مزدور اور کسان ہیں جن پر اتنا بھاری ٹیکس لاگو کرنے کی تُک نہیں بنتی۔ دوسری طرف مشہور ماہر معاشیات ،ڈاکٹر عشرت حسین کا کہنا ہے ''ڈیڑھ کروڑ امیر اور ڈھائی کروڑ متوسط طبقے کے پاکستانیوں میں سے صرف دس لاکھ لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔''درج بالا حقائق سے عیاں ہے کہ پاکستان کا ٹیکس نظام خامیوں سے پُر ہے۔
یہ ضروری ہے کہ حکومت اس نظام میں براہ راست ٹیکسوں کی تعداد بڑھائے تاکہ جو لوگ زیادہ کماتے ہیں، وہی ٹیکس بھی زیادہ دیں۔ ابھی تو امیر و غریب کی تمیز کیے بغیر پاکستانی عوام پر نت نئے ٹیکس تھوپے جارہے ہیں۔ اس پالیسی کو قطعاً عوام دوست نہیں کہا جاسکتا۔