پی سی بی کے معاملات کرکٹرز سے بہتر کوئی نہیں چلا سکتا
محمد عامر بڑا کھلاڑی ہے تاہم پی سی بی کو دوہرا معیار نہیں اپنانا چاہیے، عبدالقادر
کہتے ہیں کہ سچ بڑا کڑوا ہوتا ہے، ایمانداری، خودداری اور انصاف کے راستوں کا انتخاب کرنے والوں کو قدم قدم پر مصیبتوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن اگر جذبے سچے ہوں تو اللہ بھی اپنے بندوں کے لیے آسانیاں پیدا کر دیتا ہے، مٹی کو سونا بنا دیتا اور کوئلے کی کان میں سے ہیرا نکال دیتا ہے۔
اس کی ایک مثال سابق ٹیسٹ کرکٹرو چیف سلیکٹر عبدالقادر کی شخصیت بھی ہے۔ ایک مذہبی گھرانے میں آنکھ کھولنے والا لڑکا دنیا کے نامی گرامی بیٹسمینوںکو تگنی کا ناچ نچا کر ''میجک بوائے'' کا خطاب پائے گاکسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا، مگر دھرمپورہ لاہور کی تنگ و تاریک گلیوں سے کھیل کا آغاز کرنے والے منفرد اسٹائل کے لیگ اسپنر نے سچی لگن سے عالمی سطح اپنی الگ پہچان بنائی،آج بھی کرکٹ کھیلنے والے ملکوں کے سلو بولرز انھیں اپنا آئیڈیل مانتے ہیں۔
اپنی ''گگلی'' سے کروڑوں شائقین کے دلوں میں بس جانے والے اس کرکٹر کو اللہ تعالی نے18سالہ کیریئر کے دوران بہت نوازا، پرائیڈ آف پرفارمنس، لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ کے ساتھ گوروں نے بھی کئی تنظیموں کی لائف ممبرشپ دی، سنڈے ٹائمز نے ایک ہزار سالہ کھیلوں کی تاریخ میں سے100 عظیم کھلاڑیوں کے نام منتخب کیے تو ان کا نام چوتھے نمبر پر رکھا۔ ''ایکسپریس'' نے ماضی کے عظیم کرکٹر کے ساتھ ملکی کرکٹ کے اہم امور پر بات چیت کی جس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
ایکسپریس:کیا آپ پاکستان کرکٹ بورڈ کی موجودہ کارکردگی سے مطمئن ہیں؟کہا جاتا ہے کہ ایک کرکٹر اچھا ایڈمنسٹریٹر نہیں بن سکتا، کیا آپ اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟
عبدالقادر:گذشتہ 30 برسوں سے سنتا آ رہا تھا کہ ایڈمنسٹریشن اور کرکٹ دو الگ الگ شعبے ہیں مگر میں نے اس تھیوری سے کبھی اتفاق نہیں کیا، موجودہ بورڈ کی نااہلی نے بھی میری رائے سچ کر دکھائی، میں سمجھتا ہوں کہ 70 سے 80فیصد تک معاملات کھیل کے متعلق ہی ہوتے ہیں جو ایک کرکٹر ہی بہتر انداز میں انجام دے سکتا ہے، باقی20 فیصد انتظامی امور ہوتے ہیں، موجودہ کرکٹ بورڈ جس طرح چلایا جا رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے، ورلڈ کپ سے پہلے معین خان کو ذلیل کیا گیا، قوم کو بتایا گیا کہ اس نے جرم کیا ہے، اسی جرم کی پاداش میں اسے وطن واپس بلایا گیا اور پھر معاف بھی کر دیا گیا، عمر اکمل، شاہد آفریدی، محمد حفیظ، سعید اجمل کو شوکاز نوٹس جاری کیے گئے، اپنے چہیتے کھلاڑیوں کے لیے کوئی قاعدہ قانون نہیں ہے۔
نجم سیٹھی، شہریارخان کے ساتھ بھارت گئے مگر جب وہاں کے لوگوں نے پاک بھارت سیریز کیخلاف جلوس نکالا تو81سالہ چیئرمین کو وہاں چھوڑ کر دبئی چلے گئے،اگر یہی مینجمنٹ ہے تو اللہ تعالی ہمیں اس سے دور ہی رکھے۔ کہا جاتا ہے کہ بدترین جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہوتی ہے، اس طرح میں بھی کہتا آ رہا ہوں کہ کہ پی سی بی کرکٹرز کی جاگیر ہے اور انہی کو اس میں کام کرنا چاہیے۔
ایکسپریس:کیا آپ سمجھتے ہیں کہ بھارت کی ''میں نہ مانوں'' کی رٹ کے باوجود پی سی بی کو سیریز کے لیے اصرار کرنا چاہیے تھا؟
عبدالقادر:میں ہمیشہ پاک بھارت مقابلوں کا حامی رہا ہوں، میری رائے میں روایتی حریفوں کے درمیان سیریز ایشز سے بھی بڑی ہے، اب بھی دونوں ملکوں کی ٹیموں کو ایکشن میں دکھائی دینا چاہیے لیکن جس طرح چیئرمین پی سی بی بھارت کے ساتھ سیریز کے لیے منت سماجت کرتے رہے وہ عمل درست نہیں تھا، بی سی سی آئی کی طرف سے خط، فیکس یا ای میل بھی آ جائے تو وہ بھارت بھاگے چلے جاتے ہیں، شہریار خان کے اس اقدامات سے پاکستانیوں کی عزت پر حرف آتا ہے،انھیں ایسے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے۔
ایکسپریس:زمبابوے کی ٹیم پاکستان میں سونے گراؤنڈز آباد کر چکی، ایسے میں پی ایس ایل کو کیا یو اے ای میں کرانا درست ہے؟
عبدالقادر:پی سی بی ہمیشہ قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی پالیسی پر عمل کرتا آیا ہے، ورلڈ کپ میں ناکامی کے بعد گرین شرٹس بنگلہ دیش کے خلاف بھی بری طرح ناکام رہے، بڑی شکستوں پر عوام کا غصہ ٹالنے کے لیے زمبابوے سے ہوم سیریز کا پلان بنایا گیا، کیا ایک شہر میں سیریز کرانے کے بعد یہ سمجھ لیا جائے کہ ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ بحال ہو گئی؟ اگر سیریز کا انعقاد ناگزیر ہی تھا تو کراچی، پشاور، فیصل آباد اور دیگر شہروں میں بھی میچز ہونے چاہیے تھے، اگر بورڈ زمبابوے کے ٹور کو کامیاب سمجھتا ہے تو پاکستان سپر لیگ متحدہ عرب امارات میں کیوں کرائی جا رہی ہے؟
ایکسپریس:پاکستان سپر لیگ کے شیڈول اور مقام کو فائنل کرنے کے بعد کھلاڑیوں کی نیلامی کا عمل بھی مکمل ہو چکا، کیا سمجھتے ہیں کہ اس لیگ کا فائدہ ملکی کرکٹ کو بھی ہوگا؟
عبدالقادر:مجھے تو پی ایس ایل نیوٹرل مقام پر ہی کرانے پر اعتراض ہے، آپریشن ''ضرب عضب'' کامیابی سے جاری ہے،جہاں اتنا عرصہ انتظار کیا گیا، وہاں کچھ دیر اور صبر کرلیا جاتا ، پی ایس ایل کو پاکستان میں ہی ہونا چاہیے تھا، مجھے یہ لیگ ہوتی نظر نہیں آتی،اگر ہو بھی گئی تو اس کی وقعت شاید ویسٹ انڈیز کے ڈومیسٹک مقابلوں جیسی ہو۔
آپ300 سے زائد کرکٹرز کا اعلان کرتے ہیں، ایمرجنگ پلیئرز کے نام پر 38، 39 سال کے کھلاڑیوں کو شامل کر لیتے ہیں، اپنے چہیتوں کو مختلف ٹیموں کے ساتھ کوچ مقرر کر دیا جاتا ہے، میں وقار یونس کی بڑی عزت کرتا ہوں تاہم وہ اتنے ہی اچھے کوچ ہیں تو لیگ کی کسی ٹیم نے ان کی خدمات کیوں نہ حاصل کیں۔ اگر میں پی ایس ایل کا آرگنائزر ہوتا توہر ٹیم میں3 انٹرنیشنل،3 پاکستانی، 7 ڈومیسٹک اور 2بہترین فیلڈرز کو شامل کرتا، اس سے پاکستان کو 45بہترین کرکٹرز میسر آ جاتے۔
ایکسپریس:شہریار خان دوسری بار پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بنے،آپ کی رائے میں 81سال کی عمر میں انھیں دوسری اننگز کھیلنی چاہیے تھی؟
عبدالقادر:شہریار خان ہم سب کے بڑے میں ، میں ان کی دل سے عزت کرتا ہوں لیکن جب وہ دوسری بار چیئرمین بنے تو میں نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ نجم سیٹھی کے ہوتے ہوئے ان کے ماضی کے کارناموں پر بھی پانی پھر جائے گا، ان کی نیک بُری طرح متاثر ہو گی، آپ خود دیکھ لیں، اختیارات کا سرچشمہ تو نجم سیٹھی کی ذات میں ہے، شہریارتو بس ڈمی چیئرمین ہیں۔
ایکسپریس:پی سی بی میں ڈاؤن سائزنگ کے حوالے سے آپ کیا کہیں گے؟
عبدالقادر:کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ بورڈ میں15 سے30 ہزار تک کی تنخواہ لینے والوں کو تو ملازمتوں سے فارغ جبکہ من پسند افراد کو لاکھوں روپے میں بھرتی کیا جا رہا ہے، بورڈ نے وسیم باری اور جاوید میاندادکو نکال دیا حالانکہ وہ کرکٹرزکی ہی بدولت ہے، عہدیداروں کی شان و شوکت، بڑی بڑی گاڑیاں، غیر ملکی دورے، وی آئی پی پروٹوکول، پُرکشش تنخواہیں اور دیگر مراعات یہ سب کھلاڑیوں کے دم سے ہیں لیکن ماضی کے عظیم کرکٹرزکے ساتھ کیا سلوک ہوا یہ سب کے سامنے ہے۔
ملک وقوم کی نیک نامی کے لیے اپنا خون پسینہ ایک کرنے والوں کو ہی بے روزگار کر دیا، ان کے گھروں کے چولہے بجھا دیے گئے، آپ نے اتنا بڑا قدم اٹھا تو لیا اب میری گزارش ہے کہ خدارا قذافی اسٹیڈیم میں ہمارے نام سے منسوب انکلوژرز کو بھی ختم کرکے وہاں پر اپنے چہتوں کے نام لکھوا لیں کیونکہ ہمیں شو پیس بننے کا کوئی شوق نہیں ہے۔
ایکسپریس:اسپاٹ فکسنگ کیس میں سزا یافتہ محمد عامر کی انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی ہو گئی، پی سی بی کے اس اقدام کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟
عبدالقادر:محمد عامر بڑا کھلاڑی ہے تاہم پی سی بی کو دوہرا معیار نہیں اپنانا چاہیے، اگر چھوڑنا ہے تو سب کو چھوڑا جائے اور اگر سزا دینی ہے تو سب کودی جائے، جسٹس قیوم کمیشن میں قصور قرار دیے گئے کرکٹرز کو کیسے اعلیٰ عہدوں پر فائز کر دیا گیا؟ میں تو کہتا ہوں کہ دانش کنیریا کے لیے بھی انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے کھول دینے چاہیئں، وہ جب پکڑا گیا تو پاکستان کی طرف سے نہیں بلکہ کاؤنٹی کرکٹ کھیل رہا تھا، ہمارا مذہب بھی معاف کرنے کا درس دیتا ہے۔
ایکسپریس:لیگ اسپنر یاسر شاہ کا ڈوپ ٹیسٹ مثبت آیا، آپ کسے ذمہ دار سمجھتے ہیں؟
عبدالقادر:اس کیس سے پاکستان کی ایک بار پھر بدنامی ہوئی، مستقبل میں اس طرح کے واقعات سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ یاسرشاہ پر کرکٹ کھیلنے کی تاحیات پابندی لگائی جائے، ایسا کرنے سے کوئی قیامت نہیں آ جائے گی، ڈیڑھ سال پہلے یاسر کو کوئی پوچھتا تک نہ تھا، ہماری کرکٹ اس وقت بھی چل رہی تھی اور آگے بھی چلتی رہے گی، شہریار خان نے خود کہاکہ تمام کھلاڑیوں کو ڈوپنگ معاملات کا ترجمہ انگلش سے اردو میں بھی کرا کے دیا گیا ، اس کے باوجود کوئی کھلاڑی ممنوعہ ادویات کا استعمال کیسے کر سکتا ہے؟
انگلینڈ کے خلاف پہلے ٹیسٹ میں یاسر شاہ ٹریننگ کیمپ میں کمر کے درد میں مبتلا ہوئے، 2کھلاڑی انھیں سہارا دے کر گراؤنڈ سے باہر لائے، اپنے40 سالہ تجربے کی بنیاد پر کہتا ہوں کہ اس طرح کی انجری میں لیگ اسپنر 4سے6 ہفتے تک ٹھیک نہیں ہوسکتا لیکن یاسر کو اگلا ٹیسٹ کھلانے کے لیے ممنوعہ ادویات کا استعمال کرایا گیا، معاملے کی انکوائری کرائی جائے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔
ایکسپریس:آپ نے لیگ اسپن کے شعبے کو پروان چڑھایا، پاکستان میں یہ آرٹ ختم ہوتا جا رہا ہے،اس کے اسباب کیا ہیں؟
عبدالقادر:اس بارے میں مجھ سے زیادہ شہریار خان اور نجم سیٹھی ہی بہتر بتا سکتے ہیں، کتنے افسوس کی بات ہے کہ میرے شاگرد مشتاق احمد کوتو بلا لیا گیا لیکن مجھے خط تک لکھنے کی زحمت نہ کی گئی۔ عبدالقادر کوئی معمولی کھلاڑی نہیں بلکہ دنیا اسے پروفیسروں کے پروفیسر کے نام سے جانتی ہے۔
دنیا بھر کے کئی کھلاڑی کچھ سیکھنے کے لیے گھر آئے، شین وارن نے ایک شام میرے ساتھ گزاری۔ اس نے مجھے بتایا کہ میرے گھر میں ایک الگ حصہ ہے جس میں آپ کی ساری ریکارڈنگ کی ویڈیوز موجود ہیں، ان کو دیکھ کر میں نے کرکٹ سیکھی، ہمیں آج تک سمجھ نہیں آیا کہ گیند اتنی تیزی سے اندر کیسے آتی ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ جب تم اپنے گھر پر ہو تو مالٹا یا سیب اپنی انگلیوں میں رکھنا اور اسے ہوا میں اچھالنا، پھر پکڑ لینا، اگر تمہاری کلائی میں درد ہو تو سمجھنا ایکسرسائز ٹھیک ہے، وہ ہوٹل میں جا کر پریکٹس کرتا رہا اور اگلے ہی روز میچ میں اس نے دھوم مچا دی۔ اسی طرح انیل کمبلے نے خصوصی طور پر ملاقات کر کے ٹپس لیں، نریندر ہروانیاور بلوندر سنگھ تو میرے پاؤں میں گر پڑے تھے۔
ایکسپریس:آپ خود بھی چیف سلیکٹر رہے،کیا آپ سمجھتے ہیں کہ کھلاڑیوں کا انتخاب میرٹ پر ہوتا ہے، اگر ایسا ہے توماضی کے عظیم کرکٹرز کی طرح باصلاحیت پلیئرز آگے کیوں نہیں آ رہے؟
عبدالقادر:پی سی بی میں ربڑ اسٹیمپ سلیکشن کمیٹیز بنتی اور بڑے بڑے لوگوں کی لاٹریاں نکلتی رہیں، بعض اوقات تو وہ چیف سلیکٹر بھی بن گئے جو اس عہدے کے اہل بھی نہ تھے، ایسے کھلاڑیوں کو قیادت سونپی گئی جو اگر وہ ہمارے دور میں ہوتے تو انھیں پانی پلانے والوں میں بھی شامل نہ کیا جاتا۔ اعجاز بٹ نے مجھے سلیکشن کمیٹی کا سربراہ بنانے کی پیشکش کی تو میں نے عہدہ قبول کرنے کی2 شرائط رکھیں،ان میں سے ایک یہ تھی کہ میرے کام میں مداخلت نہیں کی جائے گی اور جب ایسا ہوا تو میں نے عہدے کو خیر باد کہہ دیا۔ کیا ہارون رشید میں یہ جرات ہے کہ وہ چیئرمین سے ایساکہہ سکیں؟ مجھے فخر ہے کہ میرے انتخاب کیے ہوئے کھلاڑی اب بھی قومی ٹیم کا حصہ ہیں، اظہر علی انٹرنیشنل کرکٹ سے دور تھے میں انھیں واپس لے کر آیا، احمد شہزاد کو ٹیم کا حصہ بنانے کے لیے چیف سلیکٹر کا عہدہ تک داؤ پر لگا دیا کیونکہ میں میرٹ کی بات کر رہا تھا۔ 2009ء میں 20 کھلاڑیوں کی ٹیم بنائی تھی اب بھی ان میں سے قومی ٹیموں کا انتخاب ہوتا ہے۔
ایکسپریس:آپ کے داماد عمر اکمل تسلسل کے ساتھ ڈسپلن کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں، اس کی وجہ کیا ہے؟
عبدالقادر:قانون سے بڑا کوئی نہیں ہوتا، عمر اکمل ہو یا کوئی اور اگر جرم کیا ہے تو اس کی اسے ضرور سزا ملنی چاہیے، ہمارے ہاں بگاڑ کی وجہ بھی یہی ہے کہ اپنوں کے لیے اور قانون ہوتا ہے اور غیروں کے لیے الگ، میرا تمام نوجوان کھلاڑیوں کو پیغام ہے کہ وہ اپنی کارکردگی پر توجہ دیں، اگر ان کی پر فارمنس لاجواب ہوگی تو بڑے سے بڑا عہدیدار بھی بال تک بیکا نہیں کر سکے گا،اگر پرفارمنس نہ ہوئی تو گیڈر بھی شیر ہو جائیں گے۔
ایکسپریس:اپنی ابتدائی زندگی کے حوالے سے کچھ کہیں گے، قومی ٹیم تک کا سفر کیسے طے کیا؟
عبدالقادر:میں نے عام بچوں کی طرح کرکٹ گلی محلے سے شروع کی،کوئی خاص لگاؤنہ تھا، بس اللہ کو مہربانیاں کرنا تھیں،کرکٹ ذریعہ بن گئی۔ والد صاحب حافظ قرآن تھے، میں اس وقت کے بچوں کی طرح محلے میں گولیاں، ڈبیاں اور دیگر کھیل کھیلا کرتا اوران کا بڑا چیمپئن تھا۔ایک دن میرے محلے کی ٹیم میں سے دوست میرے پاس آیا اور کہا کہ ہمارے ساتھ میچ کھیلنے چلو ایک لڑکا کم ہے، میں نے میچ میں انتہائی اچھی کارکردگی دکھائی، پھر اتنا حوصلہ بڑھا کہ باقاعدگی سے کھیلنا شروع کر دیا مگر گھر کے حالات ایسے تھے کہ صبح کھانا ہوتا تو شام کا پتہ نہ ہوتا، اس لیے میں سامان خرید نہیں سکتا تھا، ہمارے گھر کے پاس ایک ٹال ہوتا تھا ، میں نے حل یہ نکالا کہ وہاں سے ایک لکڑی چوری کی اور اس سے بیٹ بنا لیا، پھر گیند کیسے بنائی اس کی بھی ایک الگ کہانی ہے۔
ایک گول سا پتھر لیا اور اس پر کپڑا چڑھا کر لڑکے سے کہا کہ مجھے بولنگ کراؤ، وہ گیند میری طرف پھینکتا اور میں بڑے اسٹائل سے اس کی موومنٹ کے مطابق اسٹروک کھیل دیتا،آج بھی وہ وقت یاد کر کے حیرت ہوتی ہے کہ اس خطرناک گیند کو کیسے کھیلتا تھا اور کیسے میرے اندر یہ طاقت آجاتی تھی۔ 1982ء میں ہمارے ہاں لیگ سپن دم توڑ رہی تھی اور فاسٹ بولرز کا دور شروع ہو چکا تھا، پاکستان کو عمران خان اور سرفرازنواز کی خدمات حاصل تھیں، ڈینس للی، تھامسن، کپیل وغیرہ شاندار پیسرز تھے۔ اگر اس دور کے سارے اسپنر اکھٹے کیے جائیں تو ایک بھی ایسا نظر نہیں آئے گا کہ مستقل ٹیم کے لیے کھیلا ہو۔
اللہ تعالی کا کرم تھا کہ میں مسلسل ٹیم میں شامل رہا اور فاسٹ بولنگ کے دور میں 250 کے قریب کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ زندگی میں 2 ورلڈ کپ کھیلے اور ان دونوں میں مجھے کسی بولر نے آؤٹ نہیں کیا، اننگز بھی ساری کھیلی ہیں، اللہ نے بڑا نوازا، پرائیڈ آف پرفارمنس، لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ، کئی تنظیموں کی لائف ممبر شپ بھی گوروں نے دی، اتنے ایوارڈز جیتنے کے باوجود مجھے کوئی خوشی نہیں ہوئی کیونکہ ان سے میرے بچوں کی فیسیں جاتی ہیں اور نہ ہی میرے گھر میں آٹا آتا ہے۔ سنڈے ٹائمز نے گزشتہ ایک ہزار سالہ کھیلوں کی تاریخ میں سے 100 عظیم کھلاڑیوں کے نام منتخب کیے میرا نام ان میں چوتھے نمبر پر دیا گیا، اس کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ میں عمران خان سے بڑا کھلاڑی نہیں تھا۔
اس کی ایک مثال سابق ٹیسٹ کرکٹرو چیف سلیکٹر عبدالقادر کی شخصیت بھی ہے۔ ایک مذہبی گھرانے میں آنکھ کھولنے والا لڑکا دنیا کے نامی گرامی بیٹسمینوںکو تگنی کا ناچ نچا کر ''میجک بوائے'' کا خطاب پائے گاکسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا، مگر دھرمپورہ لاہور کی تنگ و تاریک گلیوں سے کھیل کا آغاز کرنے والے منفرد اسٹائل کے لیگ اسپنر نے سچی لگن سے عالمی سطح اپنی الگ پہچان بنائی،آج بھی کرکٹ کھیلنے والے ملکوں کے سلو بولرز انھیں اپنا آئیڈیل مانتے ہیں۔
اپنی ''گگلی'' سے کروڑوں شائقین کے دلوں میں بس جانے والے اس کرکٹر کو اللہ تعالی نے18سالہ کیریئر کے دوران بہت نوازا، پرائیڈ آف پرفارمنس، لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ کے ساتھ گوروں نے بھی کئی تنظیموں کی لائف ممبرشپ دی، سنڈے ٹائمز نے ایک ہزار سالہ کھیلوں کی تاریخ میں سے100 عظیم کھلاڑیوں کے نام منتخب کیے تو ان کا نام چوتھے نمبر پر رکھا۔ ''ایکسپریس'' نے ماضی کے عظیم کرکٹر کے ساتھ ملکی کرکٹ کے اہم امور پر بات چیت کی جس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔
ایکسپریس:کیا آپ پاکستان کرکٹ بورڈ کی موجودہ کارکردگی سے مطمئن ہیں؟کہا جاتا ہے کہ ایک کرکٹر اچھا ایڈمنسٹریٹر نہیں بن سکتا، کیا آپ اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟
عبدالقادر:گذشتہ 30 برسوں سے سنتا آ رہا تھا کہ ایڈمنسٹریشن اور کرکٹ دو الگ الگ شعبے ہیں مگر میں نے اس تھیوری سے کبھی اتفاق نہیں کیا، موجودہ بورڈ کی نااہلی نے بھی میری رائے سچ کر دکھائی، میں سمجھتا ہوں کہ 70 سے 80فیصد تک معاملات کھیل کے متعلق ہی ہوتے ہیں جو ایک کرکٹر ہی بہتر انداز میں انجام دے سکتا ہے، باقی20 فیصد انتظامی امور ہوتے ہیں، موجودہ کرکٹ بورڈ جس طرح چلایا جا رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے، ورلڈ کپ سے پہلے معین خان کو ذلیل کیا گیا، قوم کو بتایا گیا کہ اس نے جرم کیا ہے، اسی جرم کی پاداش میں اسے وطن واپس بلایا گیا اور پھر معاف بھی کر دیا گیا، عمر اکمل، شاہد آفریدی، محمد حفیظ، سعید اجمل کو شوکاز نوٹس جاری کیے گئے، اپنے چہیتے کھلاڑیوں کے لیے کوئی قاعدہ قانون نہیں ہے۔
نجم سیٹھی، شہریارخان کے ساتھ بھارت گئے مگر جب وہاں کے لوگوں نے پاک بھارت سیریز کیخلاف جلوس نکالا تو81سالہ چیئرمین کو وہاں چھوڑ کر دبئی چلے گئے،اگر یہی مینجمنٹ ہے تو اللہ تعالی ہمیں اس سے دور ہی رکھے۔ کہا جاتا ہے کہ بدترین جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہوتی ہے، اس طرح میں بھی کہتا آ رہا ہوں کہ کہ پی سی بی کرکٹرز کی جاگیر ہے اور انہی کو اس میں کام کرنا چاہیے۔
ایکسپریس:کیا آپ سمجھتے ہیں کہ بھارت کی ''میں نہ مانوں'' کی رٹ کے باوجود پی سی بی کو سیریز کے لیے اصرار کرنا چاہیے تھا؟
عبدالقادر:میں ہمیشہ پاک بھارت مقابلوں کا حامی رہا ہوں، میری رائے میں روایتی حریفوں کے درمیان سیریز ایشز سے بھی بڑی ہے، اب بھی دونوں ملکوں کی ٹیموں کو ایکشن میں دکھائی دینا چاہیے لیکن جس طرح چیئرمین پی سی بی بھارت کے ساتھ سیریز کے لیے منت سماجت کرتے رہے وہ عمل درست نہیں تھا، بی سی سی آئی کی طرف سے خط، فیکس یا ای میل بھی آ جائے تو وہ بھارت بھاگے چلے جاتے ہیں، شہریار خان کے اس اقدامات سے پاکستانیوں کی عزت پر حرف آتا ہے،انھیں ایسے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے۔
ایکسپریس:زمبابوے کی ٹیم پاکستان میں سونے گراؤنڈز آباد کر چکی، ایسے میں پی ایس ایل کو کیا یو اے ای میں کرانا درست ہے؟
عبدالقادر:پی سی بی ہمیشہ قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی پالیسی پر عمل کرتا آیا ہے، ورلڈ کپ میں ناکامی کے بعد گرین شرٹس بنگلہ دیش کے خلاف بھی بری طرح ناکام رہے، بڑی شکستوں پر عوام کا غصہ ٹالنے کے لیے زمبابوے سے ہوم سیریز کا پلان بنایا گیا، کیا ایک شہر میں سیریز کرانے کے بعد یہ سمجھ لیا جائے کہ ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ بحال ہو گئی؟ اگر سیریز کا انعقاد ناگزیر ہی تھا تو کراچی، پشاور، فیصل آباد اور دیگر شہروں میں بھی میچز ہونے چاہیے تھے، اگر بورڈ زمبابوے کے ٹور کو کامیاب سمجھتا ہے تو پاکستان سپر لیگ متحدہ عرب امارات میں کیوں کرائی جا رہی ہے؟
ایکسپریس:پاکستان سپر لیگ کے شیڈول اور مقام کو فائنل کرنے کے بعد کھلاڑیوں کی نیلامی کا عمل بھی مکمل ہو چکا، کیا سمجھتے ہیں کہ اس لیگ کا فائدہ ملکی کرکٹ کو بھی ہوگا؟
عبدالقادر:مجھے تو پی ایس ایل نیوٹرل مقام پر ہی کرانے پر اعتراض ہے، آپریشن ''ضرب عضب'' کامیابی سے جاری ہے،جہاں اتنا عرصہ انتظار کیا گیا، وہاں کچھ دیر اور صبر کرلیا جاتا ، پی ایس ایل کو پاکستان میں ہی ہونا چاہیے تھا، مجھے یہ لیگ ہوتی نظر نہیں آتی،اگر ہو بھی گئی تو اس کی وقعت شاید ویسٹ انڈیز کے ڈومیسٹک مقابلوں جیسی ہو۔
آپ300 سے زائد کرکٹرز کا اعلان کرتے ہیں، ایمرجنگ پلیئرز کے نام پر 38، 39 سال کے کھلاڑیوں کو شامل کر لیتے ہیں، اپنے چہیتوں کو مختلف ٹیموں کے ساتھ کوچ مقرر کر دیا جاتا ہے، میں وقار یونس کی بڑی عزت کرتا ہوں تاہم وہ اتنے ہی اچھے کوچ ہیں تو لیگ کی کسی ٹیم نے ان کی خدمات کیوں نہ حاصل کیں۔ اگر میں پی ایس ایل کا آرگنائزر ہوتا توہر ٹیم میں3 انٹرنیشنل،3 پاکستانی، 7 ڈومیسٹک اور 2بہترین فیلڈرز کو شامل کرتا، اس سے پاکستان کو 45بہترین کرکٹرز میسر آ جاتے۔
ایکسپریس:شہریار خان دوسری بار پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بنے،آپ کی رائے میں 81سال کی عمر میں انھیں دوسری اننگز کھیلنی چاہیے تھی؟
عبدالقادر:شہریار خان ہم سب کے بڑے میں ، میں ان کی دل سے عزت کرتا ہوں لیکن جب وہ دوسری بار چیئرمین بنے تو میں نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ نجم سیٹھی کے ہوتے ہوئے ان کے ماضی کے کارناموں پر بھی پانی پھر جائے گا، ان کی نیک بُری طرح متاثر ہو گی، آپ خود دیکھ لیں، اختیارات کا سرچشمہ تو نجم سیٹھی کی ذات میں ہے، شہریارتو بس ڈمی چیئرمین ہیں۔
ایکسپریس:پی سی بی میں ڈاؤن سائزنگ کے حوالے سے آپ کیا کہیں گے؟
عبدالقادر:کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ بورڈ میں15 سے30 ہزار تک کی تنخواہ لینے والوں کو تو ملازمتوں سے فارغ جبکہ من پسند افراد کو لاکھوں روپے میں بھرتی کیا جا رہا ہے، بورڈ نے وسیم باری اور جاوید میاندادکو نکال دیا حالانکہ وہ کرکٹرزکی ہی بدولت ہے، عہدیداروں کی شان و شوکت، بڑی بڑی گاڑیاں، غیر ملکی دورے، وی آئی پی پروٹوکول، پُرکشش تنخواہیں اور دیگر مراعات یہ سب کھلاڑیوں کے دم سے ہیں لیکن ماضی کے عظیم کرکٹرزکے ساتھ کیا سلوک ہوا یہ سب کے سامنے ہے۔
ملک وقوم کی نیک نامی کے لیے اپنا خون پسینہ ایک کرنے والوں کو ہی بے روزگار کر دیا، ان کے گھروں کے چولہے بجھا دیے گئے، آپ نے اتنا بڑا قدم اٹھا تو لیا اب میری گزارش ہے کہ خدارا قذافی اسٹیڈیم میں ہمارے نام سے منسوب انکلوژرز کو بھی ختم کرکے وہاں پر اپنے چہتوں کے نام لکھوا لیں کیونکہ ہمیں شو پیس بننے کا کوئی شوق نہیں ہے۔
ایکسپریس:اسپاٹ فکسنگ کیس میں سزا یافتہ محمد عامر کی انٹرنیشنل کرکٹ میں واپسی ہو گئی، پی سی بی کے اس اقدام کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟
عبدالقادر:محمد عامر بڑا کھلاڑی ہے تاہم پی سی بی کو دوہرا معیار نہیں اپنانا چاہیے، اگر چھوڑنا ہے تو سب کو چھوڑا جائے اور اگر سزا دینی ہے تو سب کودی جائے، جسٹس قیوم کمیشن میں قصور قرار دیے گئے کرکٹرز کو کیسے اعلیٰ عہدوں پر فائز کر دیا گیا؟ میں تو کہتا ہوں کہ دانش کنیریا کے لیے بھی انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے کھول دینے چاہیئں، وہ جب پکڑا گیا تو پاکستان کی طرف سے نہیں بلکہ کاؤنٹی کرکٹ کھیل رہا تھا، ہمارا مذہب بھی معاف کرنے کا درس دیتا ہے۔
ایکسپریس:لیگ اسپنر یاسر شاہ کا ڈوپ ٹیسٹ مثبت آیا، آپ کسے ذمہ دار سمجھتے ہیں؟
عبدالقادر:اس کیس سے پاکستان کی ایک بار پھر بدنامی ہوئی، مستقبل میں اس طرح کے واقعات سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ یاسرشاہ پر کرکٹ کھیلنے کی تاحیات پابندی لگائی جائے، ایسا کرنے سے کوئی قیامت نہیں آ جائے گی، ڈیڑھ سال پہلے یاسر کو کوئی پوچھتا تک نہ تھا، ہماری کرکٹ اس وقت بھی چل رہی تھی اور آگے بھی چلتی رہے گی، شہریار خان نے خود کہاکہ تمام کھلاڑیوں کو ڈوپنگ معاملات کا ترجمہ انگلش سے اردو میں بھی کرا کے دیا گیا ، اس کے باوجود کوئی کھلاڑی ممنوعہ ادویات کا استعمال کیسے کر سکتا ہے؟
انگلینڈ کے خلاف پہلے ٹیسٹ میں یاسر شاہ ٹریننگ کیمپ میں کمر کے درد میں مبتلا ہوئے، 2کھلاڑی انھیں سہارا دے کر گراؤنڈ سے باہر لائے، اپنے40 سالہ تجربے کی بنیاد پر کہتا ہوں کہ اس طرح کی انجری میں لیگ اسپنر 4سے6 ہفتے تک ٹھیک نہیں ہوسکتا لیکن یاسر کو اگلا ٹیسٹ کھلانے کے لیے ممنوعہ ادویات کا استعمال کرایا گیا، معاملے کی انکوائری کرائی جائے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔
ایکسپریس:آپ نے لیگ اسپن کے شعبے کو پروان چڑھایا، پاکستان میں یہ آرٹ ختم ہوتا جا رہا ہے،اس کے اسباب کیا ہیں؟
عبدالقادر:اس بارے میں مجھ سے زیادہ شہریار خان اور نجم سیٹھی ہی بہتر بتا سکتے ہیں، کتنے افسوس کی بات ہے کہ میرے شاگرد مشتاق احمد کوتو بلا لیا گیا لیکن مجھے خط تک لکھنے کی زحمت نہ کی گئی۔ عبدالقادر کوئی معمولی کھلاڑی نہیں بلکہ دنیا اسے پروفیسروں کے پروفیسر کے نام سے جانتی ہے۔
دنیا بھر کے کئی کھلاڑی کچھ سیکھنے کے لیے گھر آئے، شین وارن نے ایک شام میرے ساتھ گزاری۔ اس نے مجھے بتایا کہ میرے گھر میں ایک الگ حصہ ہے جس میں آپ کی ساری ریکارڈنگ کی ویڈیوز موجود ہیں، ان کو دیکھ کر میں نے کرکٹ سیکھی، ہمیں آج تک سمجھ نہیں آیا کہ گیند اتنی تیزی سے اندر کیسے آتی ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ جب تم اپنے گھر پر ہو تو مالٹا یا سیب اپنی انگلیوں میں رکھنا اور اسے ہوا میں اچھالنا، پھر پکڑ لینا، اگر تمہاری کلائی میں درد ہو تو سمجھنا ایکسرسائز ٹھیک ہے، وہ ہوٹل میں جا کر پریکٹس کرتا رہا اور اگلے ہی روز میچ میں اس نے دھوم مچا دی۔ اسی طرح انیل کمبلے نے خصوصی طور پر ملاقات کر کے ٹپس لیں، نریندر ہروانیاور بلوندر سنگھ تو میرے پاؤں میں گر پڑے تھے۔
ایکسپریس:آپ خود بھی چیف سلیکٹر رہے،کیا آپ سمجھتے ہیں کہ کھلاڑیوں کا انتخاب میرٹ پر ہوتا ہے، اگر ایسا ہے توماضی کے عظیم کرکٹرز کی طرح باصلاحیت پلیئرز آگے کیوں نہیں آ رہے؟
عبدالقادر:پی سی بی میں ربڑ اسٹیمپ سلیکشن کمیٹیز بنتی اور بڑے بڑے لوگوں کی لاٹریاں نکلتی رہیں، بعض اوقات تو وہ چیف سلیکٹر بھی بن گئے جو اس عہدے کے اہل بھی نہ تھے، ایسے کھلاڑیوں کو قیادت سونپی گئی جو اگر وہ ہمارے دور میں ہوتے تو انھیں پانی پلانے والوں میں بھی شامل نہ کیا جاتا۔ اعجاز بٹ نے مجھے سلیکشن کمیٹی کا سربراہ بنانے کی پیشکش کی تو میں نے عہدہ قبول کرنے کی2 شرائط رکھیں،ان میں سے ایک یہ تھی کہ میرے کام میں مداخلت نہیں کی جائے گی اور جب ایسا ہوا تو میں نے عہدے کو خیر باد کہہ دیا۔ کیا ہارون رشید میں یہ جرات ہے کہ وہ چیئرمین سے ایساکہہ سکیں؟ مجھے فخر ہے کہ میرے انتخاب کیے ہوئے کھلاڑی اب بھی قومی ٹیم کا حصہ ہیں، اظہر علی انٹرنیشنل کرکٹ سے دور تھے میں انھیں واپس لے کر آیا، احمد شہزاد کو ٹیم کا حصہ بنانے کے لیے چیف سلیکٹر کا عہدہ تک داؤ پر لگا دیا کیونکہ میں میرٹ کی بات کر رہا تھا۔ 2009ء میں 20 کھلاڑیوں کی ٹیم بنائی تھی اب بھی ان میں سے قومی ٹیموں کا انتخاب ہوتا ہے۔
ایکسپریس:آپ کے داماد عمر اکمل تسلسل کے ساتھ ڈسپلن کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں، اس کی وجہ کیا ہے؟
عبدالقادر:قانون سے بڑا کوئی نہیں ہوتا، عمر اکمل ہو یا کوئی اور اگر جرم کیا ہے تو اس کی اسے ضرور سزا ملنی چاہیے، ہمارے ہاں بگاڑ کی وجہ بھی یہی ہے کہ اپنوں کے لیے اور قانون ہوتا ہے اور غیروں کے لیے الگ، میرا تمام نوجوان کھلاڑیوں کو پیغام ہے کہ وہ اپنی کارکردگی پر توجہ دیں، اگر ان کی پر فارمنس لاجواب ہوگی تو بڑے سے بڑا عہدیدار بھی بال تک بیکا نہیں کر سکے گا،اگر پرفارمنس نہ ہوئی تو گیڈر بھی شیر ہو جائیں گے۔
ایکسپریس:اپنی ابتدائی زندگی کے حوالے سے کچھ کہیں گے، قومی ٹیم تک کا سفر کیسے طے کیا؟
عبدالقادر:میں نے عام بچوں کی طرح کرکٹ گلی محلے سے شروع کی،کوئی خاص لگاؤنہ تھا، بس اللہ کو مہربانیاں کرنا تھیں،کرکٹ ذریعہ بن گئی۔ والد صاحب حافظ قرآن تھے، میں اس وقت کے بچوں کی طرح محلے میں گولیاں، ڈبیاں اور دیگر کھیل کھیلا کرتا اوران کا بڑا چیمپئن تھا۔ایک دن میرے محلے کی ٹیم میں سے دوست میرے پاس آیا اور کہا کہ ہمارے ساتھ میچ کھیلنے چلو ایک لڑکا کم ہے، میں نے میچ میں انتہائی اچھی کارکردگی دکھائی، پھر اتنا حوصلہ بڑھا کہ باقاعدگی سے کھیلنا شروع کر دیا مگر گھر کے حالات ایسے تھے کہ صبح کھانا ہوتا تو شام کا پتہ نہ ہوتا، اس لیے میں سامان خرید نہیں سکتا تھا، ہمارے گھر کے پاس ایک ٹال ہوتا تھا ، میں نے حل یہ نکالا کہ وہاں سے ایک لکڑی چوری کی اور اس سے بیٹ بنا لیا، پھر گیند کیسے بنائی اس کی بھی ایک الگ کہانی ہے۔
ایک گول سا پتھر لیا اور اس پر کپڑا چڑھا کر لڑکے سے کہا کہ مجھے بولنگ کراؤ، وہ گیند میری طرف پھینکتا اور میں بڑے اسٹائل سے اس کی موومنٹ کے مطابق اسٹروک کھیل دیتا،آج بھی وہ وقت یاد کر کے حیرت ہوتی ہے کہ اس خطرناک گیند کو کیسے کھیلتا تھا اور کیسے میرے اندر یہ طاقت آجاتی تھی۔ 1982ء میں ہمارے ہاں لیگ سپن دم توڑ رہی تھی اور فاسٹ بولرز کا دور شروع ہو چکا تھا، پاکستان کو عمران خان اور سرفرازنواز کی خدمات حاصل تھیں، ڈینس للی، تھامسن، کپیل وغیرہ شاندار پیسرز تھے۔ اگر اس دور کے سارے اسپنر اکھٹے کیے جائیں تو ایک بھی ایسا نظر نہیں آئے گا کہ مستقل ٹیم کے لیے کھیلا ہو۔
اللہ تعالی کا کرم تھا کہ میں مسلسل ٹیم میں شامل رہا اور فاسٹ بولنگ کے دور میں 250 کے قریب کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ زندگی میں 2 ورلڈ کپ کھیلے اور ان دونوں میں مجھے کسی بولر نے آؤٹ نہیں کیا، اننگز بھی ساری کھیلی ہیں، اللہ نے بڑا نوازا، پرائیڈ آف پرفارمنس، لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ، کئی تنظیموں کی لائف ممبر شپ بھی گوروں نے دی، اتنے ایوارڈز جیتنے کے باوجود مجھے کوئی خوشی نہیں ہوئی کیونکہ ان سے میرے بچوں کی فیسیں جاتی ہیں اور نہ ہی میرے گھر میں آٹا آتا ہے۔ سنڈے ٹائمز نے گزشتہ ایک ہزار سالہ کھیلوں کی تاریخ میں سے 100 عظیم کھلاڑیوں کے نام منتخب کیے میرا نام ان میں چوتھے نمبر پر دیا گیا، اس کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ میں عمران خان سے بڑا کھلاڑی نہیں تھا۔