ریلوے مزید توجہ کی ضرورت
جس کی کارگردگی میں ان ڈھائی برسوں کے دوران خاصی حد تک بہتری آئی ہے۔
جدید دنیا میں اچھی حکمرانی کے چھ کلیدی اوصاف بیان کیے جاتے ہیں۔ اول، منصوبہ بندی کی ہر سطح پرعوام کی بالواسطہ یا بلاواسطہ شرکت پر یقین۔ دوئم، تزویراتی بصیرت (Strategic vision)۔ سوئم، تمام اقدامات اور فیصلوں میں شفافیت۔ چہارم، فیصلوں اور اقدامات میں فعالیت اور موثریت۔ جوابدہی کے لیے ہر لمحہ تیار رہنا۔ پنجم، احساس ذمے داری اور ردعمل کی صلاحیت (Responsiveness)۔ ششم، جوابدہی (Accountability) کے لیے ہر لمحہ تیار رہنا۔
اچھی حکمرانی لازمی طور پر جمہوری نظم حکمرانی سے مشروط ہوتی ہے۔ ایک اچھی جمہوری حکومت اپنے فیصلوں اور اقدامات سے عوام کو آگاہ رکھنے کے لیے وقتاً فوقتاً پارلیمان اور ذرایع ابلاغ میں اپنی کارکردگی پیش کرکے عوام کو باخبر رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت کے بارے میں کسی طور یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اچھی حکمرانی کی نظیر پیش کررہی ہے۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نہ تو وزیراعظم اور ان کے بیشتر وزرا قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں میں شرکت کی زحمت گوارا کرتے ہیں اور نہ ہی اچھی حکمرانی کے نکات پر کوئی واضح عملدرآمد نظر آرہا ہے۔ البتہ چند وزارتیں اپنی کارکردگی کو پارلیمان کے علاوہ سیمیناروں اور ذرایع ابلاغ کے ساتھ مشاورتی نشستوں کے ذریعے پیش کرنے کی کوشش ضرور کرتی رہتی ہیں۔ ساتھ ہی ہر تلخ وشیریں سوال کا تحمل کے ساتھ جواب دینے کے کلچر کو فروغ دینے کی بھی کوشش کی جارہی ہے، جو جمہوریت اور جمہوری کلچر کے پھیلاؤ میں معاون ثابت ہوگا۔
گزشتہ بدھ اسلام آباد میں وزارت اطلاعات نے چار وزارتوں کا Appraisal پیش کیا۔ ہر وفاقی سیکریٹری نے اپنے متعلقہ محکمہ کی کارکردگی اور مستقبل کا منصوبہ پیش کیا، جن میں توانائی کے شعبے میں پانی اور بجلی، پٹرولیم اور قدرتی وسائل، مواصلات، ریلوے اور نجکاری کی وزارتیں شامل تھیں۔ ان میں سے کئی وزارتوں کی کارکردگی پر چونکہ عوامی تحفظات ہیں اور خود ذرایع ابلاغ بھی مطمئن نہیں، اس لیے ان پر تفصیلی بحث کو اگلے کسی اظہاریے تک موخر کرتے ہوئے صرف ریلوے پر گفتگو کرنا چاہیں گے۔
جس کی کارگردگی میں ان ڈھائی برسوں کے دوران خاصی حد تک بہتری آئی ہے۔ ہم نے گزشتہ کئی برسوں سے ریلوے کا سفر خراب سروس کی وجہ سے ترک کردیا تھا۔ مگر ایک ہفتہ قبل جب لاہور کے لیے سفر کیا تو یہ دیکھ کرحیرت کی انتہا نہیں رہی کہ ٹرین نے بروقت پلیٹ فارم چھوڑا، جب کہ لاہور پہنچنے میں صرف نصف گھنٹے کی تاخیر ہوئی، جو مسافروں کے لیے قابل برداشت ہے۔
ریلوے دنیا کا وہ واحد ذریعہ نقل وحمل ہے، جو سستا اور آرام دہ ہونے کے علاوہ ماحول دوست بھی ہے۔ صرف ایک انجن دھواں چھوڑتا ہے اور 20 کے قریب مسافر اور 80 کے قریب مال گاڑی کے ڈبے کھینچتا ہے۔ کہاوت ہے کہ انگریز نے ریل (Rail)، میل (Mail) اور جیل (Jail) کی مدد سے اتنے بڑے ہندوستان پر سو سال حکومت کی۔ برٹش انڈیا میں پہلی مسافر ٹرین 1853 میں بمبئی سے تھانے (مہا راشٹر کا شہر) تک چلی۔ اس کے بعد پورے ہندوستان میں ریلوے ٹریک بچھانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ 1929 تک پورے ہندوستان میں تقریباً 68 ہزار کلومیٹر ریلوے ٹریک بچھایا جاچکا تھا۔
اس کے بعد ریلوے ٹریک میں مختلف وجوہات کی وجہ سے اضافہ نہیں کیا جاسکا۔ جس کے اسباب میں جنگ عظیم اول میں ہونے والے مالیاتی نقصانات بھی شامل ہیں۔ 1947 میں تقسیم ہند کے نتیجے میں کل ٹریک کا 40 فیصد حصہ پاکستان کے حصے میں آیا۔ جو ٹریک پاکستان کے حصے میں آیا، اس کا 45 فیصد مشرقی حصے میں جب کہ 55 فیصد مغربی حصہ میں تھا۔
بدقسمتی سے پاکستان میں قائم ہونے والی کسی بھی حکومت نے ریلوے کو ترقی دینے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ حکومتی عدم توجہی کے باعث ریلوے مختلف نوعیت کی بدعنوانیوں کا شکار ہوتی چلی گئی، جن میں مالیاتی کرپشن، سیاسی بنیادوں پر غیر پیشہ ور افراد کی ضرورت سے زیادہ تقرری وغیرہ شامل تھی۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی نے جہاں باقی ماندہ پاکستان میں جمہوری کلچر کو شدید نقصان پہنچایا وہیں مختلف شعبہ جات کی ادارہ جاتی کارکردگی بھی بری طرح متاثر ہوئی۔
گو بھٹو مرحوم کے دور میں ریلوے کی ترقی کے لیے کئی اقدامات کیے گئے، لیکن ان کے بعد زوال ریلوے کا مقدر بن گیا۔ حکمران اشرافیہ کی نااہلی اور عدم توجہی کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ 68 برس گزر جانے کے باوجود لودھراں سے لاہور تک سنگل ٹریک کو ڈبل نہیں کیا جاسکا۔ 2004 میں اس سلسلے میں کسی حد تک کوششوں کا آغاز ہوا۔ مگر صرف لودھراں سے ملتان اور خانیوال تک پٹری کو ڈبل کیا جاسکا ہے، جب کہ خانیوال سے رائے ونڈ تک 246 کلومیٹر پر ابھی تک سنگل ٹریک پر میل ٹرینیں چلتی ہیں۔ جب کہ شاہدرہ باغ سے لالہ موسیٰ تک ٹریک کو ڈبل کیا جانا اگلی کئی دہائیوں تک ممکن نظر نہیں آرہا۔
2008 سے 2013 کے دوران پانچ برس کا عرصہ ریلوے کی تاریخ کا بدترین دور ثابت ہوا۔ جس میں محسوس ہونے لگا تھا کہ شاید ریلوے ہمیشہ کے لیے بند ہوکر قصہ پارینہ بن جائے گی۔ اس دور میں مال گاڑیاں تقریباً بند ہوگئیں۔ کئی اہم مسافر ٹرینیں بھی بند کردی گئیں۔ ریلوے کا سالانہ مالیاتی خسارہ اس دوران اربوںتک جا پہنچا۔ مگر خسارے کے باوجود سیاسی بنیادوں پر تقرریوں اور مختلف نوعیت کی دیگر بدعنوانیاں کا سلسلہ بھی زور و شور سے جاری رہا۔
اسی زمانے میں ریلوے انتظامہ نے چین سے جو انجن خریدے تھے، ان میں سے 85 فیصد چند برسوں میں ناکارہ ہوکر کھڑے ہوگئے۔ نااہلی اور بدانتظامی کے باعث مسافر ٹرینیں کئی کئی گھنٹے تاخیر سے روانہ ہوتیں اور راستہ میں انجن فیل ہونے کے باعث مزید کئی گھنٹے تاخیر سے منزل مقصود تک پہنچتیں، جس کی وجہ سے مسافر دیگر ذرایع نقل وحمل استعمال کرنے پر مجبور ہونے لگے تھے۔ اسٹیشن سنسان ہونے لگے اور مسافروں کی تعداد میں کمی کے باعث ٹرینوں کے مالیاتی نقصان میں مزید اضافہ ہونے لگا تھا۔
لہٰذا متذکرہ بالا سیمینار میں جب ریلوے کی سیکریٹری نے اپنے محکمہ کے بارے میں Presentation دی، تو ان کے بیان کردہ اعدادوشمار کو سبھی شرکا نے تسلیم کیا۔ ان کے مطابق ریلوے کا کل ٹریک 11 ہزار 8 سو 81 کلومیٹر طویل ہے۔ پورے پاکستان میں 527 اسٹیشن ہیں۔ 452 لوکو موٹیو انجن اور تقریباً 11 سو کے قریب مسافر بوگیوںکے ساتھ سروس فراہم کی جارہی ہے۔ جب کہ مال گاڑی کے ڈبے اس کے علاوہ ہیں۔ اس وقت 106 مسافر ٹرینیں مختلف سیکشنوں پر چل رہی ہیں۔
مال گاڑیاں، جو سابقہ دور حکومت میں تقریباً بند کردی گئی تھیں، وہ بھی آہستہ آہستہ بحال ہورہی ہیں۔ وفاقی سیکریٹری کی رپورٹ کے مطابق مسافر ٹرینوں سے مالی سال 2014-15 کے دوران 19.27 بلین روپے اور مال گاڑیوں سے 8.35 بلین روپے کی آمدنی ہوئی۔ متفرق مدوں میں 4.3 بلین کی آمدنی ہوئی۔ جو ماضی کے مقابلے میں قابل ذکر اضافہ ہے۔ اس سال ایندھن پر 19 فیصد، ملازمین کی تنخواہوں، الاؤنسز اور پنشن پر 66 فیصد، مرمت اور مینٹی ننس پر 7 فیصد جب کہ آپریشنل اخراجات 8 فیصد رہے۔ انھوں نے بتایا کہ ریلوے کی Depoliticisation، قانون اور اطلاعاتی ٹیکنالوجی کے شعبہ جات کے قیام کے علاوہ اختیارات کی عدم مرکزیت قائم کرنے پر کام کیا جارہا ہے، جو اگلے چند برسوں کے دوران مکمل ہوجائے گا۔
آج ریلوے میں جو بہتری کی رمق نظر آرہی ہے، اس میں بلاشبہ وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کی انتھک اور شبانہ روز محنت کا بہت بڑا دخل ہے، جس کا کھلے دل سے اعتراف کیا جانا چاہیے۔ اگر یہ کہا جائے کہ میاں نواز شریف کی پوری کابینہ میں سب سے عمدہ اور نظر آنے والی کارکردگی کا مظاہر ان ڈھائی برسوں کے دوران خواجہ سعد رفیق نے کیا ہے، تو غلط نہ ہوگا۔ کیونکہ یہ ان کی اسی محنت اور پیشہ ورانہ مہارت کا نتیجہ ہے کہ ریلوے میں بہتری کے واضح آثار نمایاں ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ اگر انھیں مزید وقت ملتا ہے اور وہ اسی دلجمعی سے کام کرتے رہے، تو کوئی شبہ نہیں کہ ریلوے جلد ہی نہ صرف اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرلے اور اس کا شمار ایشیا کی چند بہترین ریلوے سروسز میں ہونے لگے۔
ہمارے منصوبہ سازوں کو اس پہلو پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ معاشی ترقی کے اہداف کے حصول میں ریلوے کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ کراچی سے گوادر اور گوادر کو کوئٹہ سے ریلوے ٹریک کے ذریعے ملانے کے کام کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کیا جائے۔ یہ ذریعہ نقل وحمل پاک چین اقتصادی راہداری کے اہداف کے حصول میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔
اس منصوبے کی بروقت تکمیل اور ریلوے ٹریک کو جدید بنانے سے معاشی ترقی کی رفتار میں کئی گنا اضافہ ہوسکتا ہے۔ ہمیں ذہن میں رکھنا چاہیے کہ انگریز نے اپنے تجارتی اور فوجی مفادات کے حصول کے لیے پورے ہندوستان میں ریلوے کا جو ٹریک بچھایا تھا، اس نے اس کے اقتدار کو مضبوط کرنے میں کس قدر نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ اس لیے ہمیں اپنی معاشی اور سماجی ترقی کے لیے ریلوے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ لہٰذا قومی ترقی کے اہداف کے حصول میں ریلوے کو نظر انداز کرنا کسی طور دانش مندی نہیں ہے۔
اچھی حکمرانی لازمی طور پر جمہوری نظم حکمرانی سے مشروط ہوتی ہے۔ ایک اچھی جمہوری حکومت اپنے فیصلوں اور اقدامات سے عوام کو آگاہ رکھنے کے لیے وقتاً فوقتاً پارلیمان اور ذرایع ابلاغ میں اپنی کارکردگی پیش کرکے عوام کو باخبر رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت کے بارے میں کسی طور یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اچھی حکمرانی کی نظیر پیش کررہی ہے۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نہ تو وزیراعظم اور ان کے بیشتر وزرا قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں میں شرکت کی زحمت گوارا کرتے ہیں اور نہ ہی اچھی حکمرانی کے نکات پر کوئی واضح عملدرآمد نظر آرہا ہے۔ البتہ چند وزارتیں اپنی کارکردگی کو پارلیمان کے علاوہ سیمیناروں اور ذرایع ابلاغ کے ساتھ مشاورتی نشستوں کے ذریعے پیش کرنے کی کوشش ضرور کرتی رہتی ہیں۔ ساتھ ہی ہر تلخ وشیریں سوال کا تحمل کے ساتھ جواب دینے کے کلچر کو فروغ دینے کی بھی کوشش کی جارہی ہے، جو جمہوریت اور جمہوری کلچر کے پھیلاؤ میں معاون ثابت ہوگا۔
گزشتہ بدھ اسلام آباد میں وزارت اطلاعات نے چار وزارتوں کا Appraisal پیش کیا۔ ہر وفاقی سیکریٹری نے اپنے متعلقہ محکمہ کی کارکردگی اور مستقبل کا منصوبہ پیش کیا، جن میں توانائی کے شعبے میں پانی اور بجلی، پٹرولیم اور قدرتی وسائل، مواصلات، ریلوے اور نجکاری کی وزارتیں شامل تھیں۔ ان میں سے کئی وزارتوں کی کارکردگی پر چونکہ عوامی تحفظات ہیں اور خود ذرایع ابلاغ بھی مطمئن نہیں، اس لیے ان پر تفصیلی بحث کو اگلے کسی اظہاریے تک موخر کرتے ہوئے صرف ریلوے پر گفتگو کرنا چاہیں گے۔
جس کی کارگردگی میں ان ڈھائی برسوں کے دوران خاصی حد تک بہتری آئی ہے۔ ہم نے گزشتہ کئی برسوں سے ریلوے کا سفر خراب سروس کی وجہ سے ترک کردیا تھا۔ مگر ایک ہفتہ قبل جب لاہور کے لیے سفر کیا تو یہ دیکھ کرحیرت کی انتہا نہیں رہی کہ ٹرین نے بروقت پلیٹ فارم چھوڑا، جب کہ لاہور پہنچنے میں صرف نصف گھنٹے کی تاخیر ہوئی، جو مسافروں کے لیے قابل برداشت ہے۔
ریلوے دنیا کا وہ واحد ذریعہ نقل وحمل ہے، جو سستا اور آرام دہ ہونے کے علاوہ ماحول دوست بھی ہے۔ صرف ایک انجن دھواں چھوڑتا ہے اور 20 کے قریب مسافر اور 80 کے قریب مال گاڑی کے ڈبے کھینچتا ہے۔ کہاوت ہے کہ انگریز نے ریل (Rail)، میل (Mail) اور جیل (Jail) کی مدد سے اتنے بڑے ہندوستان پر سو سال حکومت کی۔ برٹش انڈیا میں پہلی مسافر ٹرین 1853 میں بمبئی سے تھانے (مہا راشٹر کا شہر) تک چلی۔ اس کے بعد پورے ہندوستان میں ریلوے ٹریک بچھانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ 1929 تک پورے ہندوستان میں تقریباً 68 ہزار کلومیٹر ریلوے ٹریک بچھایا جاچکا تھا۔
اس کے بعد ریلوے ٹریک میں مختلف وجوہات کی وجہ سے اضافہ نہیں کیا جاسکا۔ جس کے اسباب میں جنگ عظیم اول میں ہونے والے مالیاتی نقصانات بھی شامل ہیں۔ 1947 میں تقسیم ہند کے نتیجے میں کل ٹریک کا 40 فیصد حصہ پاکستان کے حصے میں آیا۔ جو ٹریک پاکستان کے حصے میں آیا، اس کا 45 فیصد مشرقی حصے میں جب کہ 55 فیصد مغربی حصہ میں تھا۔
بدقسمتی سے پاکستان میں قائم ہونے والی کسی بھی حکومت نے ریلوے کو ترقی دینے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ حکومتی عدم توجہی کے باعث ریلوے مختلف نوعیت کی بدعنوانیوں کا شکار ہوتی چلی گئی، جن میں مالیاتی کرپشن، سیاسی بنیادوں پر غیر پیشہ ور افراد کی ضرورت سے زیادہ تقرری وغیرہ شامل تھی۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی نے جہاں باقی ماندہ پاکستان میں جمہوری کلچر کو شدید نقصان پہنچایا وہیں مختلف شعبہ جات کی ادارہ جاتی کارکردگی بھی بری طرح متاثر ہوئی۔
گو بھٹو مرحوم کے دور میں ریلوے کی ترقی کے لیے کئی اقدامات کیے گئے، لیکن ان کے بعد زوال ریلوے کا مقدر بن گیا۔ حکمران اشرافیہ کی نااہلی اور عدم توجہی کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ 68 برس گزر جانے کے باوجود لودھراں سے لاہور تک سنگل ٹریک کو ڈبل نہیں کیا جاسکا۔ 2004 میں اس سلسلے میں کسی حد تک کوششوں کا آغاز ہوا۔ مگر صرف لودھراں سے ملتان اور خانیوال تک پٹری کو ڈبل کیا جاسکا ہے، جب کہ خانیوال سے رائے ونڈ تک 246 کلومیٹر پر ابھی تک سنگل ٹریک پر میل ٹرینیں چلتی ہیں۔ جب کہ شاہدرہ باغ سے لالہ موسیٰ تک ٹریک کو ڈبل کیا جانا اگلی کئی دہائیوں تک ممکن نظر نہیں آرہا۔
2008 سے 2013 کے دوران پانچ برس کا عرصہ ریلوے کی تاریخ کا بدترین دور ثابت ہوا۔ جس میں محسوس ہونے لگا تھا کہ شاید ریلوے ہمیشہ کے لیے بند ہوکر قصہ پارینہ بن جائے گی۔ اس دور میں مال گاڑیاں تقریباً بند ہوگئیں۔ کئی اہم مسافر ٹرینیں بھی بند کردی گئیں۔ ریلوے کا سالانہ مالیاتی خسارہ اس دوران اربوںتک جا پہنچا۔ مگر خسارے کے باوجود سیاسی بنیادوں پر تقرریوں اور مختلف نوعیت کی دیگر بدعنوانیاں کا سلسلہ بھی زور و شور سے جاری رہا۔
اسی زمانے میں ریلوے انتظامہ نے چین سے جو انجن خریدے تھے، ان میں سے 85 فیصد چند برسوں میں ناکارہ ہوکر کھڑے ہوگئے۔ نااہلی اور بدانتظامی کے باعث مسافر ٹرینیں کئی کئی گھنٹے تاخیر سے روانہ ہوتیں اور راستہ میں انجن فیل ہونے کے باعث مزید کئی گھنٹے تاخیر سے منزل مقصود تک پہنچتیں، جس کی وجہ سے مسافر دیگر ذرایع نقل وحمل استعمال کرنے پر مجبور ہونے لگے تھے۔ اسٹیشن سنسان ہونے لگے اور مسافروں کی تعداد میں کمی کے باعث ٹرینوں کے مالیاتی نقصان میں مزید اضافہ ہونے لگا تھا۔
لہٰذا متذکرہ بالا سیمینار میں جب ریلوے کی سیکریٹری نے اپنے محکمہ کے بارے میں Presentation دی، تو ان کے بیان کردہ اعدادوشمار کو سبھی شرکا نے تسلیم کیا۔ ان کے مطابق ریلوے کا کل ٹریک 11 ہزار 8 سو 81 کلومیٹر طویل ہے۔ پورے پاکستان میں 527 اسٹیشن ہیں۔ 452 لوکو موٹیو انجن اور تقریباً 11 سو کے قریب مسافر بوگیوںکے ساتھ سروس فراہم کی جارہی ہے۔ جب کہ مال گاڑی کے ڈبے اس کے علاوہ ہیں۔ اس وقت 106 مسافر ٹرینیں مختلف سیکشنوں پر چل رہی ہیں۔
مال گاڑیاں، جو سابقہ دور حکومت میں تقریباً بند کردی گئی تھیں، وہ بھی آہستہ آہستہ بحال ہورہی ہیں۔ وفاقی سیکریٹری کی رپورٹ کے مطابق مسافر ٹرینوں سے مالی سال 2014-15 کے دوران 19.27 بلین روپے اور مال گاڑیوں سے 8.35 بلین روپے کی آمدنی ہوئی۔ متفرق مدوں میں 4.3 بلین کی آمدنی ہوئی۔ جو ماضی کے مقابلے میں قابل ذکر اضافہ ہے۔ اس سال ایندھن پر 19 فیصد، ملازمین کی تنخواہوں، الاؤنسز اور پنشن پر 66 فیصد، مرمت اور مینٹی ننس پر 7 فیصد جب کہ آپریشنل اخراجات 8 فیصد رہے۔ انھوں نے بتایا کہ ریلوے کی Depoliticisation، قانون اور اطلاعاتی ٹیکنالوجی کے شعبہ جات کے قیام کے علاوہ اختیارات کی عدم مرکزیت قائم کرنے پر کام کیا جارہا ہے، جو اگلے چند برسوں کے دوران مکمل ہوجائے گا۔
آج ریلوے میں جو بہتری کی رمق نظر آرہی ہے، اس میں بلاشبہ وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کی انتھک اور شبانہ روز محنت کا بہت بڑا دخل ہے، جس کا کھلے دل سے اعتراف کیا جانا چاہیے۔ اگر یہ کہا جائے کہ میاں نواز شریف کی پوری کابینہ میں سب سے عمدہ اور نظر آنے والی کارکردگی کا مظاہر ان ڈھائی برسوں کے دوران خواجہ سعد رفیق نے کیا ہے، تو غلط نہ ہوگا۔ کیونکہ یہ ان کی اسی محنت اور پیشہ ورانہ مہارت کا نتیجہ ہے کہ ریلوے میں بہتری کے واضح آثار نمایاں ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ اگر انھیں مزید وقت ملتا ہے اور وہ اسی دلجمعی سے کام کرتے رہے، تو کوئی شبہ نہیں کہ ریلوے جلد ہی نہ صرف اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرلے اور اس کا شمار ایشیا کی چند بہترین ریلوے سروسز میں ہونے لگے۔
ہمارے منصوبہ سازوں کو اس پہلو پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ معاشی ترقی کے اہداف کے حصول میں ریلوے کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ کراچی سے گوادر اور گوادر کو کوئٹہ سے ریلوے ٹریک کے ذریعے ملانے کے کام کو ترجیحی بنیادوں پر مکمل کیا جائے۔ یہ ذریعہ نقل وحمل پاک چین اقتصادی راہداری کے اہداف کے حصول میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔
اس منصوبے کی بروقت تکمیل اور ریلوے ٹریک کو جدید بنانے سے معاشی ترقی کی رفتار میں کئی گنا اضافہ ہوسکتا ہے۔ ہمیں ذہن میں رکھنا چاہیے کہ انگریز نے اپنے تجارتی اور فوجی مفادات کے حصول کے لیے پورے ہندوستان میں ریلوے کا جو ٹریک بچھایا تھا، اس نے اس کے اقتدار کو مضبوط کرنے میں کس قدر نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ اس لیے ہمیں اپنی معاشی اور سماجی ترقی کے لیے ریلوے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ لہٰذا قومی ترقی کے اہداف کے حصول میں ریلوے کو نظر انداز کرنا کسی طور دانش مندی نہیں ہے۔