ہجری سن‘ چاند اور ہم
ہر مہینے اب ہم چاند کو اس طرح آسمان پر تلاش نہیں کرتے۔
پچھلے کالم کو پڑھ کر ایک دوست نے ہمیں فون کیا اور کہا کہ عیسوی کیلنڈر کا غلبہ اور ہماری عملی زندگی میں اس کی افادیت مسلم۔ لیکن کیا ہجری سن کا ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔
بیشک ہجری سن کا عمل دخل اب بھی ہے۔ عید پر رویت ہلال کے مسئلہ کو حکومت نے ہم سے پوچھے بغیر ایک کمیٹی کے سپرد کر دیا ہے۔ اور جو لوگ اپنی دانست میں بہت روشن خیال ہیں وہ کہتے ہیں کہ عید کے چاند کو آخر اس نئے سائنسی زمانے میں اپنی آنکھ سے دیکھنے پر اتنا اصرار کیوں ہے۔
کیا مضائقہ ہے اگر یہاں ڈی ایچ لارنس کا ایک حوالہ دیدیا جائے۔ کہتا تھا کہ میں ستاروں کو اس طرح دیکھنا' جاننا' چاہتا ہوں جیسے حضری عیسیٰ سے دو ہزار برس پہلے کلدانیوں نے ستاروں کو جانا تھا' ستاروں کو' سورج کو اور چاند کو۔ اس کی دانست میں یورپ والوں کے لیے چاند' سورج ستارے مر چکے ہیں۔
اور اس سے اپنا تصور اس زمانے تک جاتا ہے اور وہ زمانہ ابھی ابھی یاد ہے جس بزرگ' بچے' عورتیں اور مرد 29 رمضان کی شام کو چھتوں پر چڑھ کر زمین کو فراموش کر کے آسمان پر نظریں جما دیتے تھے۔ ان کی نظریں آسمان کی وسعتوں میں عید کے چاند کو تلاش میں منہمک ہو جاتی تھیں۔ چاند کو دیکھنے میں جب کامیاب ہو جاتیں تو کتنے پٹاخے چھوٹتے تھے۔ چاند رات ان دنوں عید سے ہٹ کر اپنی جگہ ایک تیوہار کا مرتبہ رکھتی تھی۔ زمانہ بہت بدل گیا ہے۔ مگر چاند رات آج بھی اپنی جگہ ایک تیوہار ہے۔ چاند ابھی تک ہمارے لیے ابھی تک کسی نہ کسی رنگ میں زندہ مخلوق ہے۔
ہر مہینے اب ہم چاند کو اس طرح آسمان پر تلاش نہیں کرتے۔ مگر سال میں ایک مرتبہ تو ایسا مبارک وقت آتا ہے۔ ویسے اپنے سب تیوہاروں کے لیے ہم چاند کے مرہون منت ہیں۔ حتیٰ کہ محرم کے چاند کے لیے بھی۔ اگرچہ اس شام وہ غم کا پیغام لے کر آتا ہے ؎
محرم کا جو دیکھا چاند روئی فاطمہ صغریٰ
پکاری ان دنوں لوگو مرے بابا وطن میں تھے
تیوہاروں کا ذکر نکلا ہے تو اب یاد آ رہا ہے کہ تیوہاروں کو گناتے ہوئے عید بقر عید شب برات کو گنا ڈالا مگر سب سے مقدس تیوہار کا تو ذکر رہ ہی گیا۔ وہ تیوہار جوعید میلاد النبیؐ کے طور پر جانا جاتا ہے۔
خطا شاید اس وجہ سے ہوئی کہ ہم نے جب ہوش سنبھالا تھا تو اس وقت اس تقریب کو بارہ وفات کہا جاتا تھا۔ یعنی ماہ ربیع الاول کے پہلے بارہ دن۔ بارہ دنوں سے بڑھ کر بارہ شبیں۔ ہر شب کو محفل میلاد کا انعقاد۔ عام بول چال میں مولود شریف کا انعقاد۔ گلاب اور کیوڑے سے مہکتی ہوئی مولود شریف کی محفل۔ اور ادھر سے آواز آنی شروع ہوئی' یا نبی سلام علیک' یا رسول سلام علیک۔ گلی گلی سے بچے دوڑتے ہوئے پہنچے کہ اب مولود شریف ختم ہونے کو ہے۔ یہاں پہنچ کر ثواب میں بھی شریک ہو جائیے اور تبرک حقدار بھی بن جائیے۔ اور تبرک کونسا' پیڑے یا لڈو یا نان ختائی۔ ہم فرما ہم ثواب۔
اور ایک زمانے میں تو یہ عالم تھا کہ ہر ہجری مہینے میں ایک تیوہار یا کوئی متبرک تقریب ہوتی تھی۔ مگر ان عربی مہینوں کو یاد کیسے رکھا جائے تو شاید یہ عورتوں کا سب سے بڑھ کر دلی کی بڑی بوڑھوں کے ذہن کی اختراع تھی کہ ان عربی مہینوں کو دیسی رنگ میں رنگ لیا۔
ربیع الاول کا بدل' بارہ وفات کا مہینہ۔ ربیع الثانی میراں جی کا مہینہ یا گیارھویں شریف کا مہینہ۔ رجب کا مہینہ معراج شریف کا مہینہ' شعبان کا مہینہ شب برات کا مہینہ۔ ذیقعد کے مہینے۔ میں کوئی تیج تیوہار نہیں۔ اس کا نام پڑ گیا خالی کا مہینہ۔ ارے ہاں ایک مہینہ شاہ مدار کا مہینہ کہلاتا تھا۔ کونسا مہینہ تھا یاد نہیں آ رہا۔ ہر مہینے کی 29 ویں شام کو چاند کی دید کا اہتمام اور جس 29 ویں کو عید کا پیغام لے کر آیا ہے' اس شام اس سے کچھ مکالمہ بھی ہو جائے۔ غالب کی زبان میں؎
ہاں مہ نو سنیں ہم اس کا نام
جس کو تو جھک کے کررہا ہے سلام
بارے دو دن کہاں رہا غائب
بندہ عاجز تھا گردش ایام
چھپ کے جاتا کہاں کہ تاروں کا
آسمان نے بچھا رکھا تھا حام
عذر میں تین دن نہ آنے کے
لے کے آیا ہے عید کا پیغام
خیر تاریخوں سے بیشک غرض نہ رکھیں مگر شادی بیاہ کے موقعوں پر پھر انھیں تاریخوں سے رجوع کرنا پڑتا ہے کہ کونسی تاریخ سعد کونسی تجسس ہے۔ نکاح کی رسم تو سعد تاریخ پر ادا ہو گی۔ مگر اس کے ساتھ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ کہیں اس تاریخ کو قمر در عقرب تو نہیں ہے۔
چاند مشکل میں ہو اور ہم خوشی منائیں۔ نہیں' ہر گز نہیں۔ آخر چاند ہماری ہر خوشی اور غمی میں شریک ہے ہمیں بھی تو اس کے دکھ سکھ میں شریک ہونا چاہیے۔ جب وہ کسی مشکل برج میں داخل ہوتا اور مشکل میں پھنس جاتا، بزرگ کس خضوع و خشوع کے ساتھ اس کی مشکل کے حل کے لیے دعا مانگا کرتے۔ جب اسے گہن لگتا تھا تو بس جانماز یہ بیٹھ جاتے ایسے موقع پر جو نماز پڑھنی چاہیے وہ نماز پڑھتے پھر دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے کہ اے خالق ارض و سما' اے شمس و قمر کے رکھوالے' قمر اس گھڑی مشکل میں ہے۔ اسے اس مشکل سے نکال۔
تو چاند' سورج ستارے ہمارے لیے زندہ مخلوق تھے۔ ان کے واسطے سے ہمارا آسمان سے رشتہ تھا۔ یعنی ہجری کیلنڈر ہمارے آسمان رشتوں کا امین تھا۔ اور زمین کے رشتے۔ ارے یہ جو بکرمی کیلنڈر ہے وہ ہمارے زمینی رشتوں کا نگہبان ہے۔ 'برکھارت' بسنت رت اور جاڑے کی رت ؎
سردی اب کے پڑی ہے اتنی شدید
صبح نکلے ہے کانپتا خورشید
ہمارے دنیا داری کے معاملات کی نگہبانی عیسوی کیلنڈر کے سپرد ہے۔
ایک چوتھا کیلنڈر بھی تھا جو ہماری زندگی میں داخل ہوتے ہوتے رہ گیا۔ فارسی کیلنڈر۔ فارسی کے واسطے سے بہار و خزاں تو ہمیں ازبر ہو گئے۔ مگر ان مہینوں کے نام بہت اجنبی تھے۔ ان کا اڑتا اڑتا ذکر اردو قصدوں میں آتا ہے۔ لیجیے سودا کا ایک شعر سن لیجیے ؎
اٹھ گیا بہمن و دمے کا چمنتاں سے عمل
تیغ اردی نے کیا ملک خزاں مستاسل
بیشک ہجری سن کا عمل دخل اب بھی ہے۔ عید پر رویت ہلال کے مسئلہ کو حکومت نے ہم سے پوچھے بغیر ایک کمیٹی کے سپرد کر دیا ہے۔ اور جو لوگ اپنی دانست میں بہت روشن خیال ہیں وہ کہتے ہیں کہ عید کے چاند کو آخر اس نئے سائنسی زمانے میں اپنی آنکھ سے دیکھنے پر اتنا اصرار کیوں ہے۔
کیا مضائقہ ہے اگر یہاں ڈی ایچ لارنس کا ایک حوالہ دیدیا جائے۔ کہتا تھا کہ میں ستاروں کو اس طرح دیکھنا' جاننا' چاہتا ہوں جیسے حضری عیسیٰ سے دو ہزار برس پہلے کلدانیوں نے ستاروں کو جانا تھا' ستاروں کو' سورج کو اور چاند کو۔ اس کی دانست میں یورپ والوں کے لیے چاند' سورج ستارے مر چکے ہیں۔
اور اس سے اپنا تصور اس زمانے تک جاتا ہے اور وہ زمانہ ابھی ابھی یاد ہے جس بزرگ' بچے' عورتیں اور مرد 29 رمضان کی شام کو چھتوں پر چڑھ کر زمین کو فراموش کر کے آسمان پر نظریں جما دیتے تھے۔ ان کی نظریں آسمان کی وسعتوں میں عید کے چاند کو تلاش میں منہمک ہو جاتی تھیں۔ چاند کو دیکھنے میں جب کامیاب ہو جاتیں تو کتنے پٹاخے چھوٹتے تھے۔ چاند رات ان دنوں عید سے ہٹ کر اپنی جگہ ایک تیوہار کا مرتبہ رکھتی تھی۔ زمانہ بہت بدل گیا ہے۔ مگر چاند رات آج بھی اپنی جگہ ایک تیوہار ہے۔ چاند ابھی تک ہمارے لیے ابھی تک کسی نہ کسی رنگ میں زندہ مخلوق ہے۔
ہر مہینے اب ہم چاند کو اس طرح آسمان پر تلاش نہیں کرتے۔ مگر سال میں ایک مرتبہ تو ایسا مبارک وقت آتا ہے۔ ویسے اپنے سب تیوہاروں کے لیے ہم چاند کے مرہون منت ہیں۔ حتیٰ کہ محرم کے چاند کے لیے بھی۔ اگرچہ اس شام وہ غم کا پیغام لے کر آتا ہے ؎
محرم کا جو دیکھا چاند روئی فاطمہ صغریٰ
پکاری ان دنوں لوگو مرے بابا وطن میں تھے
تیوہاروں کا ذکر نکلا ہے تو اب یاد آ رہا ہے کہ تیوہاروں کو گناتے ہوئے عید بقر عید شب برات کو گنا ڈالا مگر سب سے مقدس تیوہار کا تو ذکر رہ ہی گیا۔ وہ تیوہار جوعید میلاد النبیؐ کے طور پر جانا جاتا ہے۔
خطا شاید اس وجہ سے ہوئی کہ ہم نے جب ہوش سنبھالا تھا تو اس وقت اس تقریب کو بارہ وفات کہا جاتا تھا۔ یعنی ماہ ربیع الاول کے پہلے بارہ دن۔ بارہ دنوں سے بڑھ کر بارہ شبیں۔ ہر شب کو محفل میلاد کا انعقاد۔ عام بول چال میں مولود شریف کا انعقاد۔ گلاب اور کیوڑے سے مہکتی ہوئی مولود شریف کی محفل۔ اور ادھر سے آواز آنی شروع ہوئی' یا نبی سلام علیک' یا رسول سلام علیک۔ گلی گلی سے بچے دوڑتے ہوئے پہنچے کہ اب مولود شریف ختم ہونے کو ہے۔ یہاں پہنچ کر ثواب میں بھی شریک ہو جائیے اور تبرک حقدار بھی بن جائیے۔ اور تبرک کونسا' پیڑے یا لڈو یا نان ختائی۔ ہم فرما ہم ثواب۔
اور ایک زمانے میں تو یہ عالم تھا کہ ہر ہجری مہینے میں ایک تیوہار یا کوئی متبرک تقریب ہوتی تھی۔ مگر ان عربی مہینوں کو یاد کیسے رکھا جائے تو شاید یہ عورتوں کا سب سے بڑھ کر دلی کی بڑی بوڑھوں کے ذہن کی اختراع تھی کہ ان عربی مہینوں کو دیسی رنگ میں رنگ لیا۔
ربیع الاول کا بدل' بارہ وفات کا مہینہ۔ ربیع الثانی میراں جی کا مہینہ یا گیارھویں شریف کا مہینہ۔ رجب کا مہینہ معراج شریف کا مہینہ' شعبان کا مہینہ شب برات کا مہینہ۔ ذیقعد کے مہینے۔ میں کوئی تیج تیوہار نہیں۔ اس کا نام پڑ گیا خالی کا مہینہ۔ ارے ہاں ایک مہینہ شاہ مدار کا مہینہ کہلاتا تھا۔ کونسا مہینہ تھا یاد نہیں آ رہا۔ ہر مہینے کی 29 ویں شام کو چاند کی دید کا اہتمام اور جس 29 ویں کو عید کا پیغام لے کر آیا ہے' اس شام اس سے کچھ مکالمہ بھی ہو جائے۔ غالب کی زبان میں؎
ہاں مہ نو سنیں ہم اس کا نام
جس کو تو جھک کے کررہا ہے سلام
بارے دو دن کہاں رہا غائب
بندہ عاجز تھا گردش ایام
چھپ کے جاتا کہاں کہ تاروں کا
آسمان نے بچھا رکھا تھا حام
عذر میں تین دن نہ آنے کے
لے کے آیا ہے عید کا پیغام
خیر تاریخوں سے بیشک غرض نہ رکھیں مگر شادی بیاہ کے موقعوں پر پھر انھیں تاریخوں سے رجوع کرنا پڑتا ہے کہ کونسی تاریخ سعد کونسی تجسس ہے۔ نکاح کی رسم تو سعد تاریخ پر ادا ہو گی۔ مگر اس کے ساتھ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ کہیں اس تاریخ کو قمر در عقرب تو نہیں ہے۔
چاند مشکل میں ہو اور ہم خوشی منائیں۔ نہیں' ہر گز نہیں۔ آخر چاند ہماری ہر خوشی اور غمی میں شریک ہے ہمیں بھی تو اس کے دکھ سکھ میں شریک ہونا چاہیے۔ جب وہ کسی مشکل برج میں داخل ہوتا اور مشکل میں پھنس جاتا، بزرگ کس خضوع و خشوع کے ساتھ اس کی مشکل کے حل کے لیے دعا مانگا کرتے۔ جب اسے گہن لگتا تھا تو بس جانماز یہ بیٹھ جاتے ایسے موقع پر جو نماز پڑھنی چاہیے وہ نماز پڑھتے پھر دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے کہ اے خالق ارض و سما' اے شمس و قمر کے رکھوالے' قمر اس گھڑی مشکل میں ہے۔ اسے اس مشکل سے نکال۔
تو چاند' سورج ستارے ہمارے لیے زندہ مخلوق تھے۔ ان کے واسطے سے ہمارا آسمان سے رشتہ تھا۔ یعنی ہجری کیلنڈر ہمارے آسمان رشتوں کا امین تھا۔ اور زمین کے رشتے۔ ارے یہ جو بکرمی کیلنڈر ہے وہ ہمارے زمینی رشتوں کا نگہبان ہے۔ 'برکھارت' بسنت رت اور جاڑے کی رت ؎
سردی اب کے پڑی ہے اتنی شدید
صبح نکلے ہے کانپتا خورشید
ہمارے دنیا داری کے معاملات کی نگہبانی عیسوی کیلنڈر کے سپرد ہے۔
ایک چوتھا کیلنڈر بھی تھا جو ہماری زندگی میں داخل ہوتے ہوتے رہ گیا۔ فارسی کیلنڈر۔ فارسی کے واسطے سے بہار و خزاں تو ہمیں ازبر ہو گئے۔ مگر ان مہینوں کے نام بہت اجنبی تھے۔ ان کا اڑتا اڑتا ذکر اردو قصدوں میں آتا ہے۔ لیجیے سودا کا ایک شعر سن لیجیے ؎
اٹھ گیا بہمن و دمے کا چمنتاں سے عمل
تیغ اردی نے کیا ملک خزاں مستاسل