نیا سیاسی اتحاد پرانے مقاصد
کوئی اتحاد ولی عہدی نظام کے خاتمے کے لیے نہیں بنایا گیا جو آنے والی کئی نسلوں کو غلام رکھنے کی تیاری کررہا ہے
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کئی اتحاد بنے اور ٹوٹے لیکن ان اتحادوں کا مقصد سوائے حکمرانوں کو حکومت سے الگ کرنے کے کچھ نہ رہا، کوئی اتحاد اس 68 سالہ کرپٹ نظام کی تبدیلی کے لیے نہیں بنایا گیا، کوئی اتحاد اس ملک کے سب سے اہم مسئلے جاگیردارانہ نظام کو ختم کرنے کے لیے نہیں بنایا گیا، کوئی اتحاد نامنصفانہ انتخابی نظام کی تبدیلی کے لیے نہیں بنایا گیا، کوئی اتحاد کرپشن کے خاتمے کے لیے نہیں بنایا گیا، جو ملک کی جڑوں میں دیمک کی طرح بیٹھا ہوا ہے۔
کوئی اتحاد ولی عہدی نظام کے خاتمے کے لیے نہیں بنایا گیا جو آنے والی کئی نسلوں کو غلام رکھنے کی تیاری کررہا ہے، کوئی اتحاد سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کے فروغ کے لیے نہیں بنایا گیا، کوئی اتحاد سیاسی جماعتوں پر اشرافیہ کی اجارہ داری ختم کرنے کے لیے نہیں بنایا گیا، کوئی اتحاد مہنگائی، بھوک، غربت کے خاتمے کے لیے تشکیل نہیں دیا گیا، کوئی اتحاد مزدوروں پر ہونے والے مظالم کے خلاف نہیں بنایاگیا، کوئی اتحاد ہاریوں، کسانوں کو وڈیروں، جاگیرداروں کی غلامی سے آزادی دلانے کے لیے نہیں بنایا گیا، کوئی اتحاد دہرے نظام تعلیم کے خلاف نہیں بنایا گیا جو غریب طبقات کے بچوں کو آگے بڑھنے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے روکتا ہے۔
کوئی اتحاد قانون اور انصاف کے شعبوں سے کرپشن ختم کرنے کے لیے نہیں بنایا گیا، کوئی اتحاد عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لینے کے خلاف نہیں بنایا گیا، کوئی اتحاد پاکستانی سیاست میں امریکی مداخلت کے لیے نہیں بنایا گیا، کوئی اتحاد نصاب تعلیم کو جدید عہد کے تقاضوں کے مطابق بنانے کے لیے نہیں بنایا گیا، کوئی اتحاد سرمایہ دارانہ نظام کی ضرورت نجکاری روکنے کے لیے نہیں بنایا گیا، کوئی اتحاد ملک کی نصف سے زیادہ آبادی خواتین کے حقوق کے حصول کے لیے نہیں بنایا گیا۔
کوئی اتحاد ملک میں 68 سال سے جاری چائلڈ لیبر کے خلاف نہیں بنایا گیا جس سے لاکھوں بچوں کا مستقبل تباہ ہورہا ہے، کوئی اتحاد خواتین پر مردوں کی بالادستی کے خلاف نہیں بنایا گیا، کوئی اتحاد بینکوں سے کھربوں کے قرض لے کر معاف کرالینے والی اشرافیہ کے خلاف نہیں بنایا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ سیاسی اتحاد بناتے ہیں ان کا عوامی اور قومی مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، ہر اتحاد سیاسی مفادات کے لیے بنایاجاتا ہے۔
تازہ اتحاد گرینڈ الائنس کے نام پر پیر پگارا کی سرپرستی میں بنایا جارہا ہے اور اس حوالے سے جن اکابرین کے نام سامنے آرہے ہیں یہ سارے سابق حکمران یا حکمرانوں کے اتحادی رہے ہیں۔ اس اتحاد کا مقصد پیپلزپارٹی کو دیوار سے لگانا بتایا جارہا ہے، یہ اتحاد سندھ تک اس لیے محدود ہوگا کہ اس اتحاد میں کوئی ایسا لیڈر نظر نہیں آتا جسے قومی سطح کا لیڈر کہا جاسکے۔ 1977 میں PNA کے نام سے پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا اتحاد بنا تھا، اس کا واحد مقصد ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سے ہٹانا تھا۔
بھٹو حکومت پر الزام یہ تھا کہ اس نے الیکشن میں دھاندلی کی۔ یہ بات سارے سیاست دان تسلیم کرتے ہیں کہ پیپلزپارٹی انتخابات جیت چکی تھی اور دھاندلی کے الزامات پنجاب کی چند سیٹوں کے حوالے سے لگائے جارہے تھا۔ اس اتحاد کا اصل مقصد جمہوری قدروں کا تحفظ تھا لیکن اصل مسئلہ چونکہ بھٹو کو اقتدار سے ہٹانا تھا اور یہی مقصد امریکا کا بھی تھا، وہ ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری روکنا چاہتا تھا اور بھٹو امریکی سرکار کا یہ حکم ماننے کے لیے تیار نہ تھا۔
امریکا بھٹو کی اس حکم عدولی کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہ تھا اور بھٹو کو عبرت ناک سزا دینا چاہتا تھا، جس کا اعلان امریکا کے وزیر خارجہ ہنری کیسنجر نے کیا تھا۔ امریکا کے اس مقصد کی تکمیل اس وقت کے اتحاد پی این اے نے دانستہ یا نادانستہ کی۔ پاکستان کے قوم سیاست دان جنھیں انتخابات میں مبینہ طور پر چھوٹی موٹی بدعنوانی منظور نہ تھی اور وہ جمہوریت کا بول بالا چاہتے تھے بھٹو کی منتخب حکومت کو گراکر اس فوجی حکمران کی حکومت کا حصہ بن گئے، جس نے بھٹو کو قتل کرادیا اور جمہوریت کو یرغمال بنالیا۔
ان سیاست دانوں نے ضیا الحق کی فوجی آمریت کے خلاف کوئی بڑا اتحاد نہیں بنایا، صرف سندھ کی حد تک ایک اتحاد بنا، جسے ضیا الحق نے ریاستی طاقت کے ذریعے کچل دیا۔ ہمارے سیاست دان 11 سال تک ضیا الحق کو برداشت کرتے رہے، اگر ضیا الحق فضائی حادثے کا شکار ہوکر موت کے منہ میں نہ جاتا تو ہمارے سیاست دان شاید تاحیات ضیا الحق کے اقتدار کو قبول کرلیتے۔ یہ ہے ہمارے سیاست دانوں کی جمہوریت پسندی اور سیاسی اخلاقیات۔
پاکستان کی سیاست میں پیپلزپارٹی کی مقبولیت کی وجہ مرحوم بھٹو کی عوامی سیاست تھی۔ بھٹو کا تعلق اگرچہ ایک بڑے جاگیردار گھرانے سے تھا لیکن بھٹو نے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک نئی روایت کی ابتدا کی، وہ روایت تھی عوام کو متحرک کرکے ان میں سیاسی شعور پیدا کرنا۔ بھٹو اپنے اس مشن میں بڑی حد تک کامیاب رہے لیکن جن سیاسی رہنماؤں نے بھٹو کو عوامی سیاست کی راہ پر ڈالا اور روٹی کپڑا اور مکان جیسے پرکشش معاشی نعرے اور ایک ترقی پسندانہ پارٹی منشور دیا، بھٹو نے بہت جلد ان محسنوں کو پارٹی چھوڑنے پر اس لیے مجبور کردیا کہ اس ترقی پسند پارٹی پر بہت جلد وڈیروں اور جاگیرداروں نے قبضہ کرلیا اور پارٹی کا رخ عوامی سیاست سے وڈیرہ شاہی سیاست کی طرف موڑ دیا۔ یوں بھٹو کی سیاست، بھٹو کی پارٹی اشرافیہ کی سیاست اور اشرافیہ کی پارٹی میں بدل گئی۔
اس تبدیلی نے عوام کو اس قدر تبدیل کردیا کہ بھٹو کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے دور دراز ریلوے اسٹیشنوں پر پڑے رہنے والے عوام اس حد تک بھٹو سے لا تعلق ہوگئے کہ ضیا الحق نے بھٹو کو تختہ دار پر لٹکادیا اور عوام ٹس سے مس نہیں ہوئے۔
2008 میں پیپلزپارٹی کو عوام نے بوجوہ ایک اور موقع دیا لیکن بھٹو کے نام لیواؤں نے یہ سنہری موقع گنوادیا اور کرپشن کے حوالے سے اس قدر بدنام ہوئے کہ پارٹی عملاً ختم ہوگئی، جس کا ثبوت 2013 کے الیکشن تھے۔ 2008 سے 2013 تک پیپلزپارٹی کی حمایت کرنے والی مسلم لیگ (ن) آہستہ آہستہ پیپلزپارٹی سے دور ہوتی چلی گئی اور اب صورتحال یہ ہے کہ سندھ میں تازہ تشکیل پذیر اتحاد گرینڈ الائنس کے پیچھے بھی باخبر حلقے مسلم لیگ (ن) عرف نواز شریف کا ہاتھ دیکھ رہے ہیں۔
ان حلقوں کا خیال ہے کہ پیپلزپارٹی بلاول کو آگے لاکر عوام کو دوبارہ اپنی طرف متوجہ کرنے کی جو کوشش کررہی ہے اسے خطرہ بننے سے پہلے ہی روک دیا جائے۔ میاں صاحب پیپلزپارٹی سے اسٹیبلشمنٹ کی ناراضی کا فائدہ بھی اٹھانا چاہتے ہیں، یہ تاثرات خواہ غلط ہوں یا صحیح اس حقیقت یہ ہے کہ سیاسی اتحاد کبھی نہ عوامی مسائل پر بنے نہ عوامی مفادات کے لیے بنے۔ سیاسی اتحاد ہمیشہ ایک سیاسی بازی گری رہے اور ان کا واحد مقصد اپنے سیاسی رقیبوں کو نقصان پہنچانا رہا، چونکہ دونوں ہی فریق اپنی اصل میں عوام دشمن رہے ہیں، لہٰذا ان اتحادوں کو سیاسی شعبدہ بازی ہی کہا جا سکتا ہے۔
کوئی اتحاد ولی عہدی نظام کے خاتمے کے لیے نہیں بنایا گیا جو آنے والی کئی نسلوں کو غلام رکھنے کی تیاری کررہا ہے، کوئی اتحاد سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کے فروغ کے لیے نہیں بنایا گیا، کوئی اتحاد سیاسی جماعتوں پر اشرافیہ کی اجارہ داری ختم کرنے کے لیے نہیں بنایا گیا، کوئی اتحاد مہنگائی، بھوک، غربت کے خاتمے کے لیے تشکیل نہیں دیا گیا، کوئی اتحاد مزدوروں پر ہونے والے مظالم کے خلاف نہیں بنایاگیا، کوئی اتحاد ہاریوں، کسانوں کو وڈیروں، جاگیرداروں کی غلامی سے آزادی دلانے کے لیے نہیں بنایا گیا، کوئی اتحاد دہرے نظام تعلیم کے خلاف نہیں بنایا گیا جو غریب طبقات کے بچوں کو آگے بڑھنے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے روکتا ہے۔
کوئی اتحاد قانون اور انصاف کے شعبوں سے کرپشن ختم کرنے کے لیے نہیں بنایا گیا، کوئی اتحاد عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لینے کے خلاف نہیں بنایا گیا، کوئی اتحاد پاکستانی سیاست میں امریکی مداخلت کے لیے نہیں بنایا گیا، کوئی اتحاد نصاب تعلیم کو جدید عہد کے تقاضوں کے مطابق بنانے کے لیے نہیں بنایا گیا، کوئی اتحاد سرمایہ دارانہ نظام کی ضرورت نجکاری روکنے کے لیے نہیں بنایا گیا، کوئی اتحاد ملک کی نصف سے زیادہ آبادی خواتین کے حقوق کے حصول کے لیے نہیں بنایا گیا۔
کوئی اتحاد ملک میں 68 سال سے جاری چائلڈ لیبر کے خلاف نہیں بنایا گیا جس سے لاکھوں بچوں کا مستقبل تباہ ہورہا ہے، کوئی اتحاد خواتین پر مردوں کی بالادستی کے خلاف نہیں بنایا گیا، کوئی اتحاد بینکوں سے کھربوں کے قرض لے کر معاف کرالینے والی اشرافیہ کے خلاف نہیں بنایا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ سیاسی اتحاد بناتے ہیں ان کا عوامی اور قومی مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، ہر اتحاد سیاسی مفادات کے لیے بنایاجاتا ہے۔
تازہ اتحاد گرینڈ الائنس کے نام پر پیر پگارا کی سرپرستی میں بنایا جارہا ہے اور اس حوالے سے جن اکابرین کے نام سامنے آرہے ہیں یہ سارے سابق حکمران یا حکمرانوں کے اتحادی رہے ہیں۔ اس اتحاد کا مقصد پیپلزپارٹی کو دیوار سے لگانا بتایا جارہا ہے، یہ اتحاد سندھ تک اس لیے محدود ہوگا کہ اس اتحاد میں کوئی ایسا لیڈر نظر نہیں آتا جسے قومی سطح کا لیڈر کہا جاسکے۔ 1977 میں PNA کے نام سے پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا اتحاد بنا تھا، اس کا واحد مقصد ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سے ہٹانا تھا۔
بھٹو حکومت پر الزام یہ تھا کہ اس نے الیکشن میں دھاندلی کی۔ یہ بات سارے سیاست دان تسلیم کرتے ہیں کہ پیپلزپارٹی انتخابات جیت چکی تھی اور دھاندلی کے الزامات پنجاب کی چند سیٹوں کے حوالے سے لگائے جارہے تھا۔ اس اتحاد کا اصل مقصد جمہوری قدروں کا تحفظ تھا لیکن اصل مسئلہ چونکہ بھٹو کو اقتدار سے ہٹانا تھا اور یہی مقصد امریکا کا بھی تھا، وہ ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری روکنا چاہتا تھا اور بھٹو امریکی سرکار کا یہ حکم ماننے کے لیے تیار نہ تھا۔
امریکا بھٹو کی اس حکم عدولی کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہ تھا اور بھٹو کو عبرت ناک سزا دینا چاہتا تھا، جس کا اعلان امریکا کے وزیر خارجہ ہنری کیسنجر نے کیا تھا۔ امریکا کے اس مقصد کی تکمیل اس وقت کے اتحاد پی این اے نے دانستہ یا نادانستہ کی۔ پاکستان کے قوم سیاست دان جنھیں انتخابات میں مبینہ طور پر چھوٹی موٹی بدعنوانی منظور نہ تھی اور وہ جمہوریت کا بول بالا چاہتے تھے بھٹو کی منتخب حکومت کو گراکر اس فوجی حکمران کی حکومت کا حصہ بن گئے، جس نے بھٹو کو قتل کرادیا اور جمہوریت کو یرغمال بنالیا۔
ان سیاست دانوں نے ضیا الحق کی فوجی آمریت کے خلاف کوئی بڑا اتحاد نہیں بنایا، صرف سندھ کی حد تک ایک اتحاد بنا، جسے ضیا الحق نے ریاستی طاقت کے ذریعے کچل دیا۔ ہمارے سیاست دان 11 سال تک ضیا الحق کو برداشت کرتے رہے، اگر ضیا الحق فضائی حادثے کا شکار ہوکر موت کے منہ میں نہ جاتا تو ہمارے سیاست دان شاید تاحیات ضیا الحق کے اقتدار کو قبول کرلیتے۔ یہ ہے ہمارے سیاست دانوں کی جمہوریت پسندی اور سیاسی اخلاقیات۔
پاکستان کی سیاست میں پیپلزپارٹی کی مقبولیت کی وجہ مرحوم بھٹو کی عوامی سیاست تھی۔ بھٹو کا تعلق اگرچہ ایک بڑے جاگیردار گھرانے سے تھا لیکن بھٹو نے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک نئی روایت کی ابتدا کی، وہ روایت تھی عوام کو متحرک کرکے ان میں سیاسی شعور پیدا کرنا۔ بھٹو اپنے اس مشن میں بڑی حد تک کامیاب رہے لیکن جن سیاسی رہنماؤں نے بھٹو کو عوامی سیاست کی راہ پر ڈالا اور روٹی کپڑا اور مکان جیسے پرکشش معاشی نعرے اور ایک ترقی پسندانہ پارٹی منشور دیا، بھٹو نے بہت جلد ان محسنوں کو پارٹی چھوڑنے پر اس لیے مجبور کردیا کہ اس ترقی پسند پارٹی پر بہت جلد وڈیروں اور جاگیرداروں نے قبضہ کرلیا اور پارٹی کا رخ عوامی سیاست سے وڈیرہ شاہی سیاست کی طرف موڑ دیا۔ یوں بھٹو کی سیاست، بھٹو کی پارٹی اشرافیہ کی سیاست اور اشرافیہ کی پارٹی میں بدل گئی۔
اس تبدیلی نے عوام کو اس قدر تبدیل کردیا کہ بھٹو کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے دور دراز ریلوے اسٹیشنوں پر پڑے رہنے والے عوام اس حد تک بھٹو سے لا تعلق ہوگئے کہ ضیا الحق نے بھٹو کو تختہ دار پر لٹکادیا اور عوام ٹس سے مس نہیں ہوئے۔
2008 میں پیپلزپارٹی کو عوام نے بوجوہ ایک اور موقع دیا لیکن بھٹو کے نام لیواؤں نے یہ سنہری موقع گنوادیا اور کرپشن کے حوالے سے اس قدر بدنام ہوئے کہ پارٹی عملاً ختم ہوگئی، جس کا ثبوت 2013 کے الیکشن تھے۔ 2008 سے 2013 تک پیپلزپارٹی کی حمایت کرنے والی مسلم لیگ (ن) آہستہ آہستہ پیپلزپارٹی سے دور ہوتی چلی گئی اور اب صورتحال یہ ہے کہ سندھ میں تازہ تشکیل پذیر اتحاد گرینڈ الائنس کے پیچھے بھی باخبر حلقے مسلم لیگ (ن) عرف نواز شریف کا ہاتھ دیکھ رہے ہیں۔
ان حلقوں کا خیال ہے کہ پیپلزپارٹی بلاول کو آگے لاکر عوام کو دوبارہ اپنی طرف متوجہ کرنے کی جو کوشش کررہی ہے اسے خطرہ بننے سے پہلے ہی روک دیا جائے۔ میاں صاحب پیپلزپارٹی سے اسٹیبلشمنٹ کی ناراضی کا فائدہ بھی اٹھانا چاہتے ہیں، یہ تاثرات خواہ غلط ہوں یا صحیح اس حقیقت یہ ہے کہ سیاسی اتحاد کبھی نہ عوامی مسائل پر بنے نہ عوامی مفادات کے لیے بنے۔ سیاسی اتحاد ہمیشہ ایک سیاسی بازی گری رہے اور ان کا واحد مقصد اپنے سیاسی رقیبوں کو نقصان پہنچانا رہا، چونکہ دونوں ہی فریق اپنی اصل میں عوام دشمن رہے ہیں، لہٰذا ان اتحادوں کو سیاسی شعبدہ بازی ہی کہا جا سکتا ہے۔