21 سال
عمران خان مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے کچھ پہلے کرکٹ ٹیم میں شامل ہوئے۔
PESHAWAR:
اکیس سال سے کیا مراد ہے؟ ہمارے آج کے کالم کا مقصد عمران خان، بے نظیر اور ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی کے کچھ گوشوں کو بے نقاب کرنا ہے۔ تینوں کی زندگی کے اہم ترین اکیس سال۔ اس کے علاوہ دو باتیں ہیں اور چار شہر۔ لاہور، کراچی، پشاور اور راولپنڈی۔
عمران خان مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے کچھ پہلے کرکٹ ٹیم میں شامل ہوئے۔ خان کو بھٹو کے اقتدار کے ابتدائی برسوں میں بھلادیا گیا تھا۔ جب آئین بن رہا تھا تب بھی عمران کا ٹیم میں آنا جانا لگا ہوا تھا۔ جب قادیانیوں کو اقلیت قرار دیا گیا تب بھی وہی صورتحال تھی۔ 76 میں سڈنی میں دو درجن وکٹیں لے کر وہ ٹیم کے مستقل ممبر بنے۔ بھٹو کی اقتدار سے بے دخلی اور پھانسی کے دو برسوں میں بھی عمران آگے بڑھتے رہے۔ ایک دور آیا جب ٹیم میں اختلافات ہوگئے۔
ظہیر اور میانداد ایک دوسرے کی قیادت میں کھیلنے کو تیار نہ تھے۔ جب ضیا کا ریفرنڈم ہوا تو عمران ٹیم کے کپتان تھے اور جیت کی راہ پر گامزن تھے۔ محمد خان جونیجو والے ادھورے جمہوری دور میں وہ ریٹائرمنٹ کا سوچ رہے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کپتان کی والدہ کینسر سے لڑتے ہوئے انتقال کرگئی تھیں۔ چار بہنوں اور والدین کے اکلوتے عمران نے اس صدمے کو بڑے گہرے انداز میں لیا۔ انھوں نے کینسر اسپتال کی تعمیر کا فیصلہ کیا۔
اس دوران جب عمران نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تو جنرل ضیا نے ان سے واپس ٹیم میں آنے کی گزارش کی۔ اپوزیشن نے فوجی حکمران پر طنز کیا کہ اب صدر کا یہ کام رہ گیا ہے کہ وہ کھلاڑیوں سے ریٹائرمنٹ واپس لینے کی درخواستیں کرتا پھرے۔ کینسر اسپتال کے منصوبہ سازوں نے صلاح دی کہ ریٹائرمنٹ کی صورت میں رقم جمع نہ ہوسکے گی۔ جنرل ضیا کا طیارہ حادثے کا شکار ہوا اور انتخابات کے بعد بے نظیر برسر اقتدار آئیں۔
اس دوران عمران اسپتال کے لیے فنڈ اکٹھا کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ انھوں نے انگلینڈ، آسٹریلیا، بھارت اور ویسٹ انڈیز کو ان کی اپنی سرزمین پر شکست دی۔ نوے کے عشرے میں کپتان مکمل فٹ نہ تھے۔ ان کے ذہن میں تھا کہ کرکٹ کی بھرپور کامیابیاں ہی ان کے اسپتال کے خواب کو پایہ تکمیل کو پہنچائیں گی۔ اس دوران صدر غلام اسحق خان نے بے نظیر کی حکومت کو برطرف کردیا اور مسلم لیگ برسر اقتدار آگئی۔ 92 کا ورلڈ کپ ہوا تو نواز شریف وزیراعظم تھے۔
ابتدا میں ناکامیوں کے بعد پاکستان سیمی فائنل میں پہنچا اور نیوزی لینڈ کو ہرا دیا۔ فائنل میں انگلینڈ کو شکست دینے پر پہلی مرتبہ کپ پاکستان آیا۔ عمران پر روپوں کی برسات ہوگئی۔ دو سال گزرے تو لاہور کا شوکت خانم اسپتال کام کرنے لگا۔ یہ ایک خواب کی تکمیل تھی۔ طویل جدوجہد کے اکیس سال گزرے تو پشاور کا اسپتال بھی بن گیا۔ ان دو عشروں میں عمران کی پارٹی خیبرپختونخوا میں برسر اقتدار ہے اور وہ ملک کے مقبول ترین رہنما ہیں۔ 1994 سے 2015 تک عمران خان کے اکیس سال۔ ایک سے دوسرے اسپتال کی تکمیل کا عرصہ ہے۔ ''دختر مشرق'' کی دو دہائیاں کیوں کر گزریں؟
بے نظیر نے ہوش سنبھالنے پر اپنے والد کو اقتدار کے ایوانوں میں دیکھا۔ تعلیم مکمل کی تو تخت سے تختے تک کا نظارہ کیا۔ چھ سات سال قید و جلا وطنی کے گزارے۔ اس دوران جنرل ضیا کا مارشل لا جونیجو حکومت کی چھتری تلے آگیا تھا۔ پاکستان واپسی کا سفر اپریل 86 میں تکمیل کو پہنچا۔ شاندار استقبال ایک تاریخ رقم کرگیا۔ دو سال مزید گزرے تو قدرت نے موقع عطا کیا۔ جنرل ضیا کی رخصتی کے بعد ہونے والے انتخابات نے بے نظیر کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کی۔ عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم کا اعزاز ان کے حصے میں آیا۔ بیس ماہ بعد اقتدار سے رخصتی اور اپوزیشن لیڈروں کے ساتھ مقدمے۔ تین سال گزرے تو پھر پاور کی ''میوزیکل چیئر'' پر بیٹھنے کا موقع ملا۔ موسیقی گونج رہی تھی اور کھلاڑی کرسی اقتدار کے گرد گھوم رہے تھے۔
اقتدار پھر چھن گیا اور وہی معاملات جو پہلے تھے یعنی شوہر کی گرفتاری۔ اس مرتبہ بچے چھوٹے تھے اور مقدمات بڑے۔ یوں ایک بار پھر جمہوری حکومت میں شروع ہونے والی جلاوطنی طول پکڑ گئی۔ فوجی حکمراں بھی وطن آمد میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔ نواز شریف ڈھائی سال اقتدار اور سوا سال جیل میں رہنے کے بعد جلاوطن ہوگئے۔ یوں جیالے اور متوالے ایک ہی صفحے پر آگئے۔ جب نوجوان لیڈرز بپھری موجوں کی زد میں آئے اور راستہ نہ ملا تو دونوں ایک معاہدہ کرکے بہتر جمہوریت کی کشتی پر سوار ہوگئے۔ مشرف کا سوا نیزے پر آیا اقتدار وکلا تحریک کے سامنے غروب ہوگیا۔ بے نظیر کی وطن واپسی کا راستہ کھلا اور ہمارے کالم کے یہی اکیس سال ہیں۔ 1986 میں پہلی مرتبہ لاہور آمد اور دوسری مرتبہ نئی صدی کے ساتویں برس میں کراچی آمد کے درمیان یہی مہ وسال ہیں۔ جی ہاں یہی اکیس سال۔
ذوالفقار علی بھٹو کے اکیس سال کون سے ہیں؟ سن اٹھائیس میں سر شاہنواز بھٹو کے گھر جنم لینے والے کو صرف تیس سال کی عمر میں وزیر بننے کا موقع مل گیا۔ پہلے اسکندر مرزا کی کابینہ میں اور پھر ایوب کی کابینہ میں۔ جنگ ستمبر ہوئی تو بھٹو وزیر خارجہ تھے۔ ان کی اقوام متحدہ میں کی جانے والی کشمیر پر تقریر کو اہل پنجاب نے بہت پسند کیا۔ تاشقند معاہدے پر ایوب سے اختلاف پر بھٹو اقتدار سے علیحدہ ہوگئے۔ دو برسوں بعد انھوں نے پاکستان پیپلز پارٹی قائم کی۔ اسلام ہمارا دین ہے، جمہوریت ہماری سیاست ہے۔ سوشلزم ہماری معیشت ہے، طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔
اس پروگرام میں بڑی کشش تھی۔ ان سے بڑھ کر روٹی کپڑا مکان والے نعرے نے بھٹو کو ''قائد عوام'' بنادیا۔ سن 70 کے انتخابات میں مغربی پاکستان سے ملنے والے ووٹوں کے اعتبار سے وہ سب سے بڑے لیڈر بن کر ابھرے۔ صدر جنرل محمد یحییٰ اور بھٹو کے معاملات شیخ مجیب سے طے نہ ہوسکے۔ بنگالیوں کو اقتدار نہ دیا گیا اور کارروائی شروع ہوگئی۔ بھارت درمیان میں کود پڑا اور مشرقی پاکستان نے بنگلہ دیش کا روپ دھارا۔ اقتدار بھٹو کی جھولی میں پکے ہوئے آم کی طرح آن گرا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے ساڑھے پانچ برسوں میں بھٹو نے کئی اچھے اور خراب کام کیے۔
ایٹمی پروگرام کی ابتدا، اسلامی سربراہ کانفرنس، قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینا، سیاسی پارٹیوں پر جبر، پریس پابند سلاسل، جمعہ کی تعطیل، شراب، ریس و جوئے پر پابندی، 73 کا آئین اور انتخابی دھاندلی۔ قومی اتحاد کی تحریک چلی اور جنرل ضیا نے مارشل لا نافذ کردیا۔ بھٹو پر محمد احمد خان کے قتل کا مقدمہ چلا۔ لاہور ہائی کورٹ کے متفقہ اور سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے کے مطابق بھٹو سمیت پانچ لوگوں کو 1979 میں پھانسی کی سزا دی گئی۔ یوں سن 58 میں تخت وزارت پر بیٹھنے والے بھٹو نے پورے اکیس سال بعد تختے کا سامنا کیا۔
27 دسمبر کو بے نظیر کی آٹھویں برسی تھی اور اس کے دو دن بعد عمران نے پشاور کے کینسر اسپتال کا افتتاح کیا جب کہ 5 جنوری کو بھٹو کی سالگرہ ہے۔ یہ آٹھ دن کے نہیں بلکہ ساٹھ برسوں کے واقعات ہیں۔ یہ پانچ دس دنوں کا نہیں بلکہ نصف صدی کا قصہ ہے۔ عمران نے اکیس برسوں میں دو اسپتال قائم کرکے خدمت کی اعلیٰ ترین مثال قائم کی ہے۔ بے نظیر نے دو فوجی حکمرانوں کے اقتدار میں جلاوطنی ختم کرکے جمہوریت کی آبیاری کی۔ بھٹو نے اکیس برسوں میں سب کچھ حاصل کرلیا۔ ادھورا اقتدار، اپوزیشن لیڈر، بھرپور حکومت، اقتدار سے بے دخلی اور پھر پھانسی۔ یہ تو ہوئی پہلی بات۔ کالم کی ابتدا میں لاہور، کراچی، پشاور اور راولپنڈی کا بھی ذکر تھا۔ دوسری بات اور چار شہروں کا کیا معاملہ ہے؟
عمران نے پہلا اسپتال لاہور میں تو دوسرا پشاور میں تعمیر کیا۔ بے نظیر نے آمریت کے بت میں پہلی دراڑ لاہور میں تو دوسری کراچی میں ڈالی۔ دارالخلافے کراچی میں اقتدار کی پہلی سسکی لینے والے بھٹو نے زندگی کی آخری ہچکی راولپنڈی میں لی۔ دوسری بات کیا ہے؟ یہی کہ نوجوانوں نے ایک کالم میں نصف صدی کا قصہ سن لیا۔ ادھیڑ عمر کے لوگوں اور بزرگوں کو پانچ منٹ میں پانچ عشروں کی یاد تازہ ہوگئی۔ کالم نگار نے دس دن کی اہم ترین خبروں اور تین رہنماؤں کی زندگی کے سمندر کو کوزے میں بند کرنے کی کوشش کی۔ وہ تین رہنما جنھوں نے ہمیں بہت کچھ دیا۔ اپنی زندگی کے بہترین مہ و سال ہمیں عطا کیے۔ کتنے اہم اور خوب صورت ہیں عمران خان، بے نظیر اور ذوالفقار علی بھٹو کے یہ 21 ،21 سال۔
اکیس سال سے کیا مراد ہے؟ ہمارے آج کے کالم کا مقصد عمران خان، بے نظیر اور ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی کے کچھ گوشوں کو بے نقاب کرنا ہے۔ تینوں کی زندگی کے اہم ترین اکیس سال۔ اس کے علاوہ دو باتیں ہیں اور چار شہر۔ لاہور، کراچی، پشاور اور راولپنڈی۔
عمران خان مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے کچھ پہلے کرکٹ ٹیم میں شامل ہوئے۔ خان کو بھٹو کے اقتدار کے ابتدائی برسوں میں بھلادیا گیا تھا۔ جب آئین بن رہا تھا تب بھی عمران کا ٹیم میں آنا جانا لگا ہوا تھا۔ جب قادیانیوں کو اقلیت قرار دیا گیا تب بھی وہی صورتحال تھی۔ 76 میں سڈنی میں دو درجن وکٹیں لے کر وہ ٹیم کے مستقل ممبر بنے۔ بھٹو کی اقتدار سے بے دخلی اور پھانسی کے دو برسوں میں بھی عمران آگے بڑھتے رہے۔ ایک دور آیا جب ٹیم میں اختلافات ہوگئے۔
ظہیر اور میانداد ایک دوسرے کی قیادت میں کھیلنے کو تیار نہ تھے۔ جب ضیا کا ریفرنڈم ہوا تو عمران ٹیم کے کپتان تھے اور جیت کی راہ پر گامزن تھے۔ محمد خان جونیجو والے ادھورے جمہوری دور میں وہ ریٹائرمنٹ کا سوچ رہے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کپتان کی والدہ کینسر سے لڑتے ہوئے انتقال کرگئی تھیں۔ چار بہنوں اور والدین کے اکلوتے عمران نے اس صدمے کو بڑے گہرے انداز میں لیا۔ انھوں نے کینسر اسپتال کی تعمیر کا فیصلہ کیا۔
اس دوران جب عمران نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تو جنرل ضیا نے ان سے واپس ٹیم میں آنے کی گزارش کی۔ اپوزیشن نے فوجی حکمران پر طنز کیا کہ اب صدر کا یہ کام رہ گیا ہے کہ وہ کھلاڑیوں سے ریٹائرمنٹ واپس لینے کی درخواستیں کرتا پھرے۔ کینسر اسپتال کے منصوبہ سازوں نے صلاح دی کہ ریٹائرمنٹ کی صورت میں رقم جمع نہ ہوسکے گی۔ جنرل ضیا کا طیارہ حادثے کا شکار ہوا اور انتخابات کے بعد بے نظیر برسر اقتدار آئیں۔
اس دوران عمران اسپتال کے لیے فنڈ اکٹھا کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ انھوں نے انگلینڈ، آسٹریلیا، بھارت اور ویسٹ انڈیز کو ان کی اپنی سرزمین پر شکست دی۔ نوے کے عشرے میں کپتان مکمل فٹ نہ تھے۔ ان کے ذہن میں تھا کہ کرکٹ کی بھرپور کامیابیاں ہی ان کے اسپتال کے خواب کو پایہ تکمیل کو پہنچائیں گی۔ اس دوران صدر غلام اسحق خان نے بے نظیر کی حکومت کو برطرف کردیا اور مسلم لیگ برسر اقتدار آگئی۔ 92 کا ورلڈ کپ ہوا تو نواز شریف وزیراعظم تھے۔
ابتدا میں ناکامیوں کے بعد پاکستان سیمی فائنل میں پہنچا اور نیوزی لینڈ کو ہرا دیا۔ فائنل میں انگلینڈ کو شکست دینے پر پہلی مرتبہ کپ پاکستان آیا۔ عمران پر روپوں کی برسات ہوگئی۔ دو سال گزرے تو لاہور کا شوکت خانم اسپتال کام کرنے لگا۔ یہ ایک خواب کی تکمیل تھی۔ طویل جدوجہد کے اکیس سال گزرے تو پشاور کا اسپتال بھی بن گیا۔ ان دو عشروں میں عمران کی پارٹی خیبرپختونخوا میں برسر اقتدار ہے اور وہ ملک کے مقبول ترین رہنما ہیں۔ 1994 سے 2015 تک عمران خان کے اکیس سال۔ ایک سے دوسرے اسپتال کی تکمیل کا عرصہ ہے۔ ''دختر مشرق'' کی دو دہائیاں کیوں کر گزریں؟
بے نظیر نے ہوش سنبھالنے پر اپنے والد کو اقتدار کے ایوانوں میں دیکھا۔ تعلیم مکمل کی تو تخت سے تختے تک کا نظارہ کیا۔ چھ سات سال قید و جلا وطنی کے گزارے۔ اس دوران جنرل ضیا کا مارشل لا جونیجو حکومت کی چھتری تلے آگیا تھا۔ پاکستان واپسی کا سفر اپریل 86 میں تکمیل کو پہنچا۔ شاندار استقبال ایک تاریخ رقم کرگیا۔ دو سال مزید گزرے تو قدرت نے موقع عطا کیا۔ جنرل ضیا کی رخصتی کے بعد ہونے والے انتخابات نے بے نظیر کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کی۔ عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم کا اعزاز ان کے حصے میں آیا۔ بیس ماہ بعد اقتدار سے رخصتی اور اپوزیشن لیڈروں کے ساتھ مقدمے۔ تین سال گزرے تو پھر پاور کی ''میوزیکل چیئر'' پر بیٹھنے کا موقع ملا۔ موسیقی گونج رہی تھی اور کھلاڑی کرسی اقتدار کے گرد گھوم رہے تھے۔
اقتدار پھر چھن گیا اور وہی معاملات جو پہلے تھے یعنی شوہر کی گرفتاری۔ اس مرتبہ بچے چھوٹے تھے اور مقدمات بڑے۔ یوں ایک بار پھر جمہوری حکومت میں شروع ہونے والی جلاوطنی طول پکڑ گئی۔ فوجی حکمراں بھی وطن آمد میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔ نواز شریف ڈھائی سال اقتدار اور سوا سال جیل میں رہنے کے بعد جلاوطن ہوگئے۔ یوں جیالے اور متوالے ایک ہی صفحے پر آگئے۔ جب نوجوان لیڈرز بپھری موجوں کی زد میں آئے اور راستہ نہ ملا تو دونوں ایک معاہدہ کرکے بہتر جمہوریت کی کشتی پر سوار ہوگئے۔ مشرف کا سوا نیزے پر آیا اقتدار وکلا تحریک کے سامنے غروب ہوگیا۔ بے نظیر کی وطن واپسی کا راستہ کھلا اور ہمارے کالم کے یہی اکیس سال ہیں۔ 1986 میں پہلی مرتبہ لاہور آمد اور دوسری مرتبہ نئی صدی کے ساتویں برس میں کراچی آمد کے درمیان یہی مہ وسال ہیں۔ جی ہاں یہی اکیس سال۔
ذوالفقار علی بھٹو کے اکیس سال کون سے ہیں؟ سن اٹھائیس میں سر شاہنواز بھٹو کے گھر جنم لینے والے کو صرف تیس سال کی عمر میں وزیر بننے کا موقع مل گیا۔ پہلے اسکندر مرزا کی کابینہ میں اور پھر ایوب کی کابینہ میں۔ جنگ ستمبر ہوئی تو بھٹو وزیر خارجہ تھے۔ ان کی اقوام متحدہ میں کی جانے والی کشمیر پر تقریر کو اہل پنجاب نے بہت پسند کیا۔ تاشقند معاہدے پر ایوب سے اختلاف پر بھٹو اقتدار سے علیحدہ ہوگئے۔ دو برسوں بعد انھوں نے پاکستان پیپلز پارٹی قائم کی۔ اسلام ہمارا دین ہے، جمہوریت ہماری سیاست ہے۔ سوشلزم ہماری معیشت ہے، طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔
اس پروگرام میں بڑی کشش تھی۔ ان سے بڑھ کر روٹی کپڑا مکان والے نعرے نے بھٹو کو ''قائد عوام'' بنادیا۔ سن 70 کے انتخابات میں مغربی پاکستان سے ملنے والے ووٹوں کے اعتبار سے وہ سب سے بڑے لیڈر بن کر ابھرے۔ صدر جنرل محمد یحییٰ اور بھٹو کے معاملات شیخ مجیب سے طے نہ ہوسکے۔ بنگالیوں کو اقتدار نہ دیا گیا اور کارروائی شروع ہوگئی۔ بھارت درمیان میں کود پڑا اور مشرقی پاکستان نے بنگلہ دیش کا روپ دھارا۔ اقتدار بھٹو کی جھولی میں پکے ہوئے آم کی طرح آن گرا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کے ساڑھے پانچ برسوں میں بھٹو نے کئی اچھے اور خراب کام کیے۔
ایٹمی پروگرام کی ابتدا، اسلامی سربراہ کانفرنس، قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینا، سیاسی پارٹیوں پر جبر، پریس پابند سلاسل، جمعہ کی تعطیل، شراب، ریس و جوئے پر پابندی، 73 کا آئین اور انتخابی دھاندلی۔ قومی اتحاد کی تحریک چلی اور جنرل ضیا نے مارشل لا نافذ کردیا۔ بھٹو پر محمد احمد خان کے قتل کا مقدمہ چلا۔ لاہور ہائی کورٹ کے متفقہ اور سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے کے مطابق بھٹو سمیت پانچ لوگوں کو 1979 میں پھانسی کی سزا دی گئی۔ یوں سن 58 میں تخت وزارت پر بیٹھنے والے بھٹو نے پورے اکیس سال بعد تختے کا سامنا کیا۔
27 دسمبر کو بے نظیر کی آٹھویں برسی تھی اور اس کے دو دن بعد عمران نے پشاور کے کینسر اسپتال کا افتتاح کیا جب کہ 5 جنوری کو بھٹو کی سالگرہ ہے۔ یہ آٹھ دن کے نہیں بلکہ ساٹھ برسوں کے واقعات ہیں۔ یہ پانچ دس دنوں کا نہیں بلکہ نصف صدی کا قصہ ہے۔ عمران نے اکیس برسوں میں دو اسپتال قائم کرکے خدمت کی اعلیٰ ترین مثال قائم کی ہے۔ بے نظیر نے دو فوجی حکمرانوں کے اقتدار میں جلاوطنی ختم کرکے جمہوریت کی آبیاری کی۔ بھٹو نے اکیس برسوں میں سب کچھ حاصل کرلیا۔ ادھورا اقتدار، اپوزیشن لیڈر، بھرپور حکومت، اقتدار سے بے دخلی اور پھر پھانسی۔ یہ تو ہوئی پہلی بات۔ کالم کی ابتدا میں لاہور، کراچی، پشاور اور راولپنڈی کا بھی ذکر تھا۔ دوسری بات اور چار شہروں کا کیا معاملہ ہے؟
عمران نے پہلا اسپتال لاہور میں تو دوسرا پشاور میں تعمیر کیا۔ بے نظیر نے آمریت کے بت میں پہلی دراڑ لاہور میں تو دوسری کراچی میں ڈالی۔ دارالخلافے کراچی میں اقتدار کی پہلی سسکی لینے والے بھٹو نے زندگی کی آخری ہچکی راولپنڈی میں لی۔ دوسری بات کیا ہے؟ یہی کہ نوجوانوں نے ایک کالم میں نصف صدی کا قصہ سن لیا۔ ادھیڑ عمر کے لوگوں اور بزرگوں کو پانچ منٹ میں پانچ عشروں کی یاد تازہ ہوگئی۔ کالم نگار نے دس دن کی اہم ترین خبروں اور تین رہنماؤں کی زندگی کے سمندر کو کوزے میں بند کرنے کی کوشش کی۔ وہ تین رہنما جنھوں نے ہمیں بہت کچھ دیا۔ اپنی زندگی کے بہترین مہ و سال ہمیں عطا کیے۔ کتنے اہم اور خوب صورت ہیں عمران خان، بے نظیر اور ذوالفقار علی بھٹو کے یہ 21 ،21 سال۔