اصغر خان کیس سیاستدانوں کو ساکھ بحال کرنا ہوگی
کیس کے فیصلے نے پاکستان میں ہونے والے انتخابات، انتخابی اتحادوں اور جمہوری ادوار پر سوالیہ نشان ڈال دیئے ہیں
KARACHI:
آمریت کے سائے میں پلتی جمہوریت بھلا تاریک اور گھنائونی نہ ہو تو کیسی ہو' سیانے کہتے ہیں ہمارے ملک میں یا تو آمریت کا راج رہا ہے یا آمروں نے جمہوریت کے نام پر راج کیا ہے۔
ایسے حالات میں جس دور کو اٹھا لیں ہر طرف اصغر خان کیس جیسے حالات دکھائی دیں گے۔ انتخابی اتحاد بنتے ٹوٹتے سیاسی جماعتیں تشکیل پاتیں' جماعتوں میں سے نئے پریشر گروپ ابھرتے اور بلیک میل کرتے دکھائی دینگے۔ کوئی اسٹیبلشمنٹ کی سیاست کرتا نظر آئے گا تو کوئی اسٹیبلشمنٹ کا بازو بنا ہوگا۔ اگر آمروں نے سیاستدانوں کو لتاڑا تو سیاستدان بھی اپنا یہی حشر کروانے کے لئے آمروں کے آگے لیٹ گئے۔ پیپلز پارٹی کہتی ہے کہ 1990ء کا الیکشن چرا لیا گیا ان کا مینڈیٹ چھین لیا گیا اگر اسٹیبلشمنٹ نے یہ کیا تو اس کا ساتھ دینے والے کون لوگ تھے۔ 1988ء میں تو جمہوریت بحال ہوگئی تھی محترمہ بے نظیر بھٹو عوامی طاقت کے ساتھ برسراقتدار آئی تھیں۔ اور 1990ء کے انتخابات ایک سول سیٹ اپ کے تحت کروائے گئے تھے لیکن سیاستدان ڈرائنگ رومز میں بیٹھے اپنے سودے کرا رہے تھے۔
کہیں وہ خود سستے داموں بک رہے تھے اور کہیں انھیں منہ مانگے داموں پر خریدا جارہا تھا۔ یہ کھیل بعد کے برسوں میں بھی نہیں تھما' کبھی (ق) بنی تو کبھی پیٹریاٹ اور ہم خیال، کیا یہ سب ایک ہی کشتی کے سوار نہیں لگتے۔ خرید و فروخت کے انداز بدلتے رہے کہیں عامیانہ انداز اور کہیں وائٹ کالر طریقہ کار۔ کئی ایسے بھی ہیں جنہوں نے ساری زندگی صبر کا روزہ رکھا لیکن اب آ کے توڑ دیا اور پھر حالات کے ساتھ بہتے چلے گئے۔ لیکن کیونکہ اصغر خان کیس پر عدالتی فیصلہ آگیا ہے اس لئے اس بے ضابطگی پر تصدیق کی مہر ثبت ہوگئی ہے اور اسی لئے زبان زد عام ہے۔ اسی معاملے سے نتھی یونس حبیب نے پیسے کے زور پر کیسے کیسے سیاستدانوں کو انگلیوں پر نچایا۔ تحریک انصاف کے صدر مخدوم جاوید ہاشمی کہتے ہیں کہ جب آئی جے آئی کی تشکیل چوہدری شجاعت کے گھر میں ہورہی تھی تو بہت سے سیاستدان عہدوں کے متمنی تھے۔
اس موقع پر غلام مصطفیٰ جتوئی کو آئی جے آئی کا صدر بنوایا گیا۔ مجھے ایڈیشنل سیکریٹری جنرل کی پیشکش ہوئی تو میں نے وردگ صاحب کا نام دیا۔ جب پنجاب کی صدارت کا معاملہ سامنے آیا تو پھر میرا نام آیا میاں محمد نواز شریف نے مجھ سے کہا کہ صوبے کا صدر مجھے بنوا دیں کیونکہ انتخابات میں ٹکٹوں کے معاملات دیکھنا ہونگے جس پر میں نے غلام مصطفیٰ جتوئی سے کہہ کر میاں نواز شریف کو پنجاب کا صدر بنوایا۔ لیکن جب ٹکٹوں کی تقسیم کا معاملہ آیا تو میاں نواز شریف نے مجھے ٹکٹ دینے کی بجائے فضل داد واہلہ کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا۔
جب میں نے بتایا کہ فضل داد واہلہ نہیں لڑیں گے تو پھر ان کی دوسری چوائس مخدوم شاہ محمود قریشی تھے' مخدوم شاہ محمود اور ان کے والد مخدوم سجاد حسین قریشی سے میری صلح ہوچکی تھی انھوں نے ٹکٹ نہ لیا اور کہا کہ ہمارے درمیان صلح ہوئی ہے آپ لڑانا چاہ رہے ہیں۔ جب میاں محمد نواز شریف کو حلقے سے کوئی اور امیدوار نہیں ملا تو پھر مجبوراً مجھے ٹکٹ دی۔ انھوں نے میری مدد کا یہ صلہ دیا۔ مخدوم جاوید ہاشمی نے یہ ساری گفتگو ایک پریس کانفرنس میں ضمناً کی۔ مان لیتے ہیں کہ مخدوم جاوید ہاشمی میاں نواز شریف سے سیاسی مخالفت کے باعث ایسا سب کچھ کہہ رہے ہیں لیکن اتنا تو واضح ہے کہ اس وقت جس طرح ٹکٹوں کی تقسیم ہورہی تھی وہ بھی صرف سودے بازی تھی اور کیا آئی جے آئی کے سب کرتا دھرتا اس اتحاد کی تشکیل میں پس پردہ عناصر سے واقف نہیں تھے۔ قوم تو صرف اتنا جانتی تھی کہ ملک میں جمہوریت بحال ہوچکی ہے آزادانہ اور شفاف انتخابات ہونے جارہے ہیں اور دائیں بازو کا اکٹھا ہوجانا ایک فطری انتخابی اتحاد ہے۔
88ء کے انتخابات میں جن لوگوں کو آگے لایا گیا 90ء کے انتخابات میں ان کو اقتدار میں پہنچا دیا گیا۔ دائیں بازو کی ان جماعتوں نے 88ء کے انتخابات میں 53 نشستیں جیتیں جبکہ پیپلز پارٹی نے 92ء نشستیں جیت کر حکومت بنائی لیکن دو برس بعد ہی یہ تناسب الٹا دیا گیا اور آئی جے آئی 105 نشستیں جیت کر آگے آگئی جبکہ مخالف سیاسی اتحاد جس کی سربراہی پیپلز پارٹی کے پاس تھی 45 نشستیں جیت پایا۔ اگر یہ سب کچھ پس پردہ ہاتھوں کے ذریعے ہوگیا تو پھر 97ء کے دو تہائی مینڈیٹ کو شفافیت کا لبادہ کس طرح اوڑھایا جاسکتا ہے اور کبھی مسلم لیگ میاں نواز شریف کی قیادت میں اسٹیبلشمنٹ کی منشا کے بغیر سیاست کرتی نظر آئی تو پیپلز پارٹی ایسے موقع پر کہاں کھڑی تھی۔
سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی بھی عید گزارنے کے لئے ملتان آئے تو اصغر خان کیس کا فیصلہ ان کے لبوں پر تھا اور وہ پیپلز پارٹی کی مظلومیت اور الیکشن چرائے جانے کے قصے دہراتے رہے سیاسی جماعتیں اور سیاسی قائدین اس کیس میں بے شک اپنے اپنے حق میں جملے اور زاویے تلاش کرتے رہیں لیکن عوامی سطح پر اس کیس کو مختلف انداز سے دیکھا اور سمجھا جارہا ہے اور اس کیس کے فیصلہ نے پاکستان میں انتخابات' انتخابی اتحاد اور جمہوری ادوار پر بھی سوالیہ نشانات ڈال دیئے ہیں اور ان سوالیہ نشانات کو صرف چکنے چپڑے بیانات اور مخالفانہ نعروں سے نہیں دھویا جاسکتا، سیاستدانوں کو جمہوریت کی ساکھ بحال کرنے کے لئے روایتی سیاست سے بلند ہو کر سوچنا ہوگا۔
آمریت کے سائے میں پلتی جمہوریت بھلا تاریک اور گھنائونی نہ ہو تو کیسی ہو' سیانے کہتے ہیں ہمارے ملک میں یا تو آمریت کا راج رہا ہے یا آمروں نے جمہوریت کے نام پر راج کیا ہے۔
ایسے حالات میں جس دور کو اٹھا لیں ہر طرف اصغر خان کیس جیسے حالات دکھائی دیں گے۔ انتخابی اتحاد بنتے ٹوٹتے سیاسی جماعتیں تشکیل پاتیں' جماعتوں میں سے نئے پریشر گروپ ابھرتے اور بلیک میل کرتے دکھائی دینگے۔ کوئی اسٹیبلشمنٹ کی سیاست کرتا نظر آئے گا تو کوئی اسٹیبلشمنٹ کا بازو بنا ہوگا۔ اگر آمروں نے سیاستدانوں کو لتاڑا تو سیاستدان بھی اپنا یہی حشر کروانے کے لئے آمروں کے آگے لیٹ گئے۔ پیپلز پارٹی کہتی ہے کہ 1990ء کا الیکشن چرا لیا گیا ان کا مینڈیٹ چھین لیا گیا اگر اسٹیبلشمنٹ نے یہ کیا تو اس کا ساتھ دینے والے کون لوگ تھے۔ 1988ء میں تو جمہوریت بحال ہوگئی تھی محترمہ بے نظیر بھٹو عوامی طاقت کے ساتھ برسراقتدار آئی تھیں۔ اور 1990ء کے انتخابات ایک سول سیٹ اپ کے تحت کروائے گئے تھے لیکن سیاستدان ڈرائنگ رومز میں بیٹھے اپنے سودے کرا رہے تھے۔
کہیں وہ خود سستے داموں بک رہے تھے اور کہیں انھیں منہ مانگے داموں پر خریدا جارہا تھا۔ یہ کھیل بعد کے برسوں میں بھی نہیں تھما' کبھی (ق) بنی تو کبھی پیٹریاٹ اور ہم خیال، کیا یہ سب ایک ہی کشتی کے سوار نہیں لگتے۔ خرید و فروخت کے انداز بدلتے رہے کہیں عامیانہ انداز اور کہیں وائٹ کالر طریقہ کار۔ کئی ایسے بھی ہیں جنہوں نے ساری زندگی صبر کا روزہ رکھا لیکن اب آ کے توڑ دیا اور پھر حالات کے ساتھ بہتے چلے گئے۔ لیکن کیونکہ اصغر خان کیس پر عدالتی فیصلہ آگیا ہے اس لئے اس بے ضابطگی پر تصدیق کی مہر ثبت ہوگئی ہے اور اسی لئے زبان زد عام ہے۔ اسی معاملے سے نتھی یونس حبیب نے پیسے کے زور پر کیسے کیسے سیاستدانوں کو انگلیوں پر نچایا۔ تحریک انصاف کے صدر مخدوم جاوید ہاشمی کہتے ہیں کہ جب آئی جے آئی کی تشکیل چوہدری شجاعت کے گھر میں ہورہی تھی تو بہت سے سیاستدان عہدوں کے متمنی تھے۔
اس موقع پر غلام مصطفیٰ جتوئی کو آئی جے آئی کا صدر بنوایا گیا۔ مجھے ایڈیشنل سیکریٹری جنرل کی پیشکش ہوئی تو میں نے وردگ صاحب کا نام دیا۔ جب پنجاب کی صدارت کا معاملہ سامنے آیا تو پھر میرا نام آیا میاں محمد نواز شریف نے مجھ سے کہا کہ صوبے کا صدر مجھے بنوا دیں کیونکہ انتخابات میں ٹکٹوں کے معاملات دیکھنا ہونگے جس پر میں نے غلام مصطفیٰ جتوئی سے کہہ کر میاں نواز شریف کو پنجاب کا صدر بنوایا۔ لیکن جب ٹکٹوں کی تقسیم کا معاملہ آیا تو میاں نواز شریف نے مجھے ٹکٹ دینے کی بجائے فضل داد واہلہ کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا۔
جب میں نے بتایا کہ فضل داد واہلہ نہیں لڑیں گے تو پھر ان کی دوسری چوائس مخدوم شاہ محمود قریشی تھے' مخدوم شاہ محمود اور ان کے والد مخدوم سجاد حسین قریشی سے میری صلح ہوچکی تھی انھوں نے ٹکٹ نہ لیا اور کہا کہ ہمارے درمیان صلح ہوئی ہے آپ لڑانا چاہ رہے ہیں۔ جب میاں محمد نواز شریف کو حلقے سے کوئی اور امیدوار نہیں ملا تو پھر مجبوراً مجھے ٹکٹ دی۔ انھوں نے میری مدد کا یہ صلہ دیا۔ مخدوم جاوید ہاشمی نے یہ ساری گفتگو ایک پریس کانفرنس میں ضمناً کی۔ مان لیتے ہیں کہ مخدوم جاوید ہاشمی میاں نواز شریف سے سیاسی مخالفت کے باعث ایسا سب کچھ کہہ رہے ہیں لیکن اتنا تو واضح ہے کہ اس وقت جس طرح ٹکٹوں کی تقسیم ہورہی تھی وہ بھی صرف سودے بازی تھی اور کیا آئی جے آئی کے سب کرتا دھرتا اس اتحاد کی تشکیل میں پس پردہ عناصر سے واقف نہیں تھے۔ قوم تو صرف اتنا جانتی تھی کہ ملک میں جمہوریت بحال ہوچکی ہے آزادانہ اور شفاف انتخابات ہونے جارہے ہیں اور دائیں بازو کا اکٹھا ہوجانا ایک فطری انتخابی اتحاد ہے۔
88ء کے انتخابات میں جن لوگوں کو آگے لایا گیا 90ء کے انتخابات میں ان کو اقتدار میں پہنچا دیا گیا۔ دائیں بازو کی ان جماعتوں نے 88ء کے انتخابات میں 53 نشستیں جیتیں جبکہ پیپلز پارٹی نے 92ء نشستیں جیت کر حکومت بنائی لیکن دو برس بعد ہی یہ تناسب الٹا دیا گیا اور آئی جے آئی 105 نشستیں جیت کر آگے آگئی جبکہ مخالف سیاسی اتحاد جس کی سربراہی پیپلز پارٹی کے پاس تھی 45 نشستیں جیت پایا۔ اگر یہ سب کچھ پس پردہ ہاتھوں کے ذریعے ہوگیا تو پھر 97ء کے دو تہائی مینڈیٹ کو شفافیت کا لبادہ کس طرح اوڑھایا جاسکتا ہے اور کبھی مسلم لیگ میاں نواز شریف کی قیادت میں اسٹیبلشمنٹ کی منشا کے بغیر سیاست کرتی نظر آئی تو پیپلز پارٹی ایسے موقع پر کہاں کھڑی تھی۔
سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی بھی عید گزارنے کے لئے ملتان آئے تو اصغر خان کیس کا فیصلہ ان کے لبوں پر تھا اور وہ پیپلز پارٹی کی مظلومیت اور الیکشن چرائے جانے کے قصے دہراتے رہے سیاسی جماعتیں اور سیاسی قائدین اس کیس میں بے شک اپنے اپنے حق میں جملے اور زاویے تلاش کرتے رہیں لیکن عوامی سطح پر اس کیس کو مختلف انداز سے دیکھا اور سمجھا جارہا ہے اور اس کیس کے فیصلہ نے پاکستان میں انتخابات' انتخابی اتحاد اور جمہوری ادوار پر بھی سوالیہ نشانات ڈال دیئے ہیں اور ان سوالیہ نشانات کو صرف چکنے چپڑے بیانات اور مخالفانہ نعروں سے نہیں دھویا جاسکتا، سیاستدانوں کو جمہوریت کی ساکھ بحال کرنے کے لئے روایتی سیاست سے بلند ہو کر سوچنا ہوگا۔