گڈ گورننس
گڈ گورننس کا فقدان ہمارے ملک کا ایک اہم ترین مسئلہ بن چکا ہے لیکن اس مسئلے کو اب بھی سنجیدگی سے نہیں لیا جارہا ہے
لاہور:
گڈ گورننس کا فقدان ہمارے ملک کا ایک اہم ترین مسئلہ بن چکا ہے لیکن اس مسئلے کو اب بھی سنجیدگی سے نہیں لیا جارہا ہے، حالانکہ اس مسئلے سے دیگر اہم مسائل بھی جنم لے رہے ہیں، مثلاً آج کل ذرایع ابلاغ پر نمایاں ترین مسئلے یعنی سندھ میں رینجرز کے اختیارات کے مسئلے کا تعلق بھی اس سے ہے۔
اگر سندھ میں گڈ گورننس ہوتی تو پھر یہاں کسی بڑے آپریشن اور رینجرز کے بلانے کی ضرورت بھی نہیں رہتی۔ پاکستان ہو، اس کا کوئی صوبہ ہو یا کہ کسی صوبے کا کوئی ادارہ ہو، تمام جگہوں پر گڈ گورننس تقریباً ختم ہوچکی ہے۔ ہمارے وزیراعظم غریبوں کے علاج کے لیے کارڈ اسکیم کا اعلان کررہے ہیں۔ یقیناً یہ اچھی بات ہوگی مگر سرکاری اسپتالوں میں گڈ گورننس کب قائم ہوگی؟ وہ کب حقیقی معنوں میں فعال ہوں گے؟ کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ آخر گڈ گورننس کی راہ میں کیا رکاوٹ ہے؟ اور اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں، اس کا سیدھا سادہ سا حل ہے، آئیے اس پر غور کریں۔
سب سے پہلے کسی بھی ادارے کے سربراہ کا انتخاب میرٹ پر کیا جائے، نہ کہ سیاسی تعلق کی بنیاد پر یا پھر محض نوازنے کے لیے۔ نوازنے کے لیے کوئی اور طریقہ دریافت کیا جائے بجائے کسی قسم کی وزارت یا کسی ادارے کی سربراہی سونپنے کے۔ یہ بات تو کوئی راز ہی نہیں ہے کہ نوازنے کے لیے دی جانے والی ذمے داری سے ہر بڑا آدمی صرف ''کمانے'' کا کام کرتا ہے، نہ کہ اپنی ذمے داری کو ایمانداری سے نبھانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ کام خاصا مشکل ضرور ہے مگر ناممکن تو نہیں۔
یہ سوال بڑا اہم ہے کہ آخر ہماری حکمراں جماعتوں کو اپنی وزارتوں اور کسی بھی ادارے کے سربراہ کی تقرری کے وقت خود اپنی ہی جماعت میں کوئی باصلاحیت اور ایماندار آدمی کیوں نہیں ملتا؟ اور اگر نہیں ملتا تو کیا کوئی غیر جانبدار شخص بھی نہیں ملتا؟ زیادہ دور کی بات نہیں پچھلی حکومت میں ریلوے کے پورے نظام کو تلپٹ کرکے رکھ دیا گیا تھا، لیکن آج ایک صحیح شخص کے انتخاب نے ریلوے کو پاکستان سے نہ صرف ختم ہونے سے بچایا بلکہ اب یہ ادارہ مزید ترقی اور بہتری کی جانب گامزن ہے (یہاں راقم بحیثیت ایک پاکستانی سعد رفیق اور ن لیگ کو شاباش کہنا چاہے گا کہ انھوں نے ایک بہترین فیصلہ کیا اور پھر عمل بھی کرکے دکھایا)۔
گڈ گورننس قائم رکھنے میں نیب جیسے ادارے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں اور اس کا طریقہ نہایت آسان ہے مگر مشکل بھی۔ آسان اس طرح ہے کہ اس قسم کے ادارے اگر نیک نیتی کے ساتھ صرف اور صرف کسی بھی ادارے کے سربراہ کی مکمل چھان بین کریں کہ وہ ٹیکس کتنا دیتا ہے؟ اس کے اخراجات کیا ہیں؟ اور گزشتہ دس برسوں میں اس کے اثاثے کیا تھے اور اب کیا ہیں؟ اگر تمام اداروں کے سربراہوں کی اس طرح چھان پھٹک کرلی جائے اور بلاتفریق عدالت کے کٹہرے میں لے آیا جائے تو کسی ادارے کے سربراہ کے لیے یہ آسان نہ ہوگا کہ وہ کرپشن کرسکے۔ درحقیقت کرپشن ہی کسی بھی ادارے کو خراب گورننس اور تباہی کی طرف لے جاتی ہے۔ جن اداروں کے سربراہ کرپشن میں ملوث نہ ہوں وہ ادارے ہی ترقی کی طرف گامزن ہوتے ہیں۔
اگر سربراہ ہی کرپٹ ہوجائے تو ظاہر ہے کہ نیچے کا عملہ بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتا ہے، جس سے گڈ گورننس تو ایک طرف، ادارہ ہی تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتا ہے۔ یہاں ڈاکٹر عبدالوہاب کا تذکرہ بے محل نہ ہوگا، جس وقت جامعہ کراچی میں دوران امتحان نقل کا کلچر زور پکڑ گیا تھا اور گڈ گورننس بری طرح متاثر ہورہی تھی، ڈاکٹر عبدالوہاب نے سختی کے ساتھ نظم وضبط کو قائم کیا اور بہت سی خرابیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا، نقل کا کلچر جڑ سے ختم کرادیا، نیز جامعہ میں ایوننگ پروگرام شروع کرایا، آج جامعہ کراچی کے اسٹاف کو تنخواہوں کی ادائیگی ہورہی ہے تو اس ایوننگ پروگرام سے حاصل ہونے والی آمدنی سے، ورنہ تو یہاں کے اساتذہ بھی پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین کی طرح مہینوں مہینوں تنخواہوں سے محروم رہتے۔
کچھ ہی عرصے پہلے ایک اخبار میں یہ خبر شایع ہوئی کہ سندھ میں ایماندار افسران کی کمی ہے، ایک ایک افسر کو کئی کئی ذمے داریاں سونپی جارہی ہیں کیونکہ کرپٹ افسران کسی کارروائی کے خوف سے ملک سے جاچکے ہیں یا جارہے ہیں۔ یہ خبر عیاں کر رہی ہے کہ اس صوبے میں کرپشن کی کیا صورتحال ہے اور گڈ گورننس کس سطح پر ہے۔
مرض کو ابتدائی مرحلے میں توجہ نہ دی جائے تو پھر بڑا آپریشن ناگزیر ہوجاتا ہے۔ سندھ میں آپریشن کا بھی یہی معاملہ ہے، گو قانونی لحاظ سے سندھ حکومت کا موقف اپنی جگہ درست ہے مگر اس حکومت کے ذمے داروں کو یہ سوچنا تو چاہیے کہ عوامی آواز خود یہ محسوس کررہی تھی، اور آج بھی کررہی ہے کہ یہاں کے مرض کا علاج اب بڑا آپریشن ہی ہے۔ کرنے کا کام تو یہ ہے کہ مرض کو دور کرنے کے لیے صوبائی حکومت خود سے بڑا آپریشن کرکے یہاں گڈ گورننس قائم کرے۔
گڈ گورننس کا ایک اور اہم اور بڑا پہلو انصاف کی فراہمی ہے۔ راقم نے ایک بڑے سرکاری افسر سے پوچھا کہ آپ ایماندار افسر ہیں، آپ کوئی بڑا کردار ادا کیوں نہیں کرتے؟ ان کا جواب تھا کہ وہ اپنے طور پر تو یہ کردار ادا کررہے ہیں لیکن ان کی پشت پر کوئی بھی نہیں، ان کا تعلق کسی بھی جماعت یا گروہ سے نہیں، ایسے میں کوئی بڑا کلمہ حق کہنا بہت مشکل ہے، ہاں اگر ہماری عدالتیں اس قدر مضبوط ہوجائیں کہ عوام کا اعتماد ان پر بحال ہوجائے تو ایک میں کیا نہ جانے کتنے ایماندار افسران سر دھڑ کی بازی لگا کر اپنا کردار نبھائیں اور محاذ پر ڈٹ جائیں۔ بلاشبہ انصاف کی فراہمی بھی گڈ گورننس میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔
آج راقم سمیت بہت سے لوگوں کے دن رات کا مشاہدہ ہے کہ مختلف اداروں میں جو ایسوسی ایشنز یا یونینز اپنے ادارے کے ملازمین کو حقوق دلوانے کے لیے بنتی ہیں، وہ خود ہی اپنے ملازمین کا سب سے بڑا استحصال کرتی ہیں اور محض اپنے پسندیدہ ملازمین کے کام کرواتی ہیں اور انتظامیہ پر دباؤ ڈال کر غیر قانونی کام کروا کر اپنے بینک بیلنس بناتی ہیں۔
یوں جن تنظیموں کا کام لوگوں کو ان کے حقوق دلوانا ہوتا ہے، ظلم و ناانصافی ختم کرنا ہوتا ہے اور ادارے میں گڈ گورننس قائم کرنا ہوتا ہے ان کی جانب سے خود قانون کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں اور گڈ گورننس کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ ظاہر ہے کہ جب گڈ گورننس کو قائم کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے والے الٹا گڈ گورننس ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈالیں گے تو پھر ادارے کی انتظامیہ بھی ان کے غیر قانونی کام کرنے کے بعد شتر بے مہار بن جاتی ہے اور ادارے کو ذاتی فوائد حاصل کرنے کے لیے کھل کر نقصان پہنچاتی ہے، کیونکہ اسے پتہ ہوتا ہے کہ اب اسے کوئی روک ٹوک کرنے والا نہیں اور اگر کوئی ہوگا بھی تو اس سے یہ ملازمین کے حقوق دلوانے کے دعویدار خود ہی نمٹ لیں گے۔
راقم کے ایک دوست کا کہنا ہے کہ انصاف اور احتساب وہی کرسکتا ہے جس کا دامن صاف ہو، جب تک قانون نافذ کرنے والے اور انصاف فراہم کرنے والے اداروں میں ایسے لوگوں کی کثرت نہیں ہوجاتی، گڈ گورننس کا قیام آسان نہیں۔ راقم کا خیال ہے کہ ایسے افراد کی ضرورت تو ہر ادارے میں ہے۔ آئیے پہلے اپنا دامن صاف کرنے کی کو شش کریں اور کچھ دیر اس پہلو پر بھی غور کریں۔
گڈ گورننس کا فقدان ہمارے ملک کا ایک اہم ترین مسئلہ بن چکا ہے لیکن اس مسئلے کو اب بھی سنجیدگی سے نہیں لیا جارہا ہے، حالانکہ اس مسئلے سے دیگر اہم مسائل بھی جنم لے رہے ہیں، مثلاً آج کل ذرایع ابلاغ پر نمایاں ترین مسئلے یعنی سندھ میں رینجرز کے اختیارات کے مسئلے کا تعلق بھی اس سے ہے۔
اگر سندھ میں گڈ گورننس ہوتی تو پھر یہاں کسی بڑے آپریشن اور رینجرز کے بلانے کی ضرورت بھی نہیں رہتی۔ پاکستان ہو، اس کا کوئی صوبہ ہو یا کہ کسی صوبے کا کوئی ادارہ ہو، تمام جگہوں پر گڈ گورننس تقریباً ختم ہوچکی ہے۔ ہمارے وزیراعظم غریبوں کے علاج کے لیے کارڈ اسکیم کا اعلان کررہے ہیں۔ یقیناً یہ اچھی بات ہوگی مگر سرکاری اسپتالوں میں گڈ گورننس کب قائم ہوگی؟ وہ کب حقیقی معنوں میں فعال ہوں گے؟ کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ آخر گڈ گورننس کی راہ میں کیا رکاوٹ ہے؟ اور اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں، اس کا سیدھا سادہ سا حل ہے، آئیے اس پر غور کریں۔
سب سے پہلے کسی بھی ادارے کے سربراہ کا انتخاب میرٹ پر کیا جائے، نہ کہ سیاسی تعلق کی بنیاد پر یا پھر محض نوازنے کے لیے۔ نوازنے کے لیے کوئی اور طریقہ دریافت کیا جائے بجائے کسی قسم کی وزارت یا کسی ادارے کی سربراہی سونپنے کے۔ یہ بات تو کوئی راز ہی نہیں ہے کہ نوازنے کے لیے دی جانے والی ذمے داری سے ہر بڑا آدمی صرف ''کمانے'' کا کام کرتا ہے، نہ کہ اپنی ذمے داری کو ایمانداری سے نبھانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ کام خاصا مشکل ضرور ہے مگر ناممکن تو نہیں۔
یہ سوال بڑا اہم ہے کہ آخر ہماری حکمراں جماعتوں کو اپنی وزارتوں اور کسی بھی ادارے کے سربراہ کی تقرری کے وقت خود اپنی ہی جماعت میں کوئی باصلاحیت اور ایماندار آدمی کیوں نہیں ملتا؟ اور اگر نہیں ملتا تو کیا کوئی غیر جانبدار شخص بھی نہیں ملتا؟ زیادہ دور کی بات نہیں پچھلی حکومت میں ریلوے کے پورے نظام کو تلپٹ کرکے رکھ دیا گیا تھا، لیکن آج ایک صحیح شخص کے انتخاب نے ریلوے کو پاکستان سے نہ صرف ختم ہونے سے بچایا بلکہ اب یہ ادارہ مزید ترقی اور بہتری کی جانب گامزن ہے (یہاں راقم بحیثیت ایک پاکستانی سعد رفیق اور ن لیگ کو شاباش کہنا چاہے گا کہ انھوں نے ایک بہترین فیصلہ کیا اور پھر عمل بھی کرکے دکھایا)۔
گڈ گورننس قائم رکھنے میں نیب جیسے ادارے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں اور اس کا طریقہ نہایت آسان ہے مگر مشکل بھی۔ آسان اس طرح ہے کہ اس قسم کے ادارے اگر نیک نیتی کے ساتھ صرف اور صرف کسی بھی ادارے کے سربراہ کی مکمل چھان بین کریں کہ وہ ٹیکس کتنا دیتا ہے؟ اس کے اخراجات کیا ہیں؟ اور گزشتہ دس برسوں میں اس کے اثاثے کیا تھے اور اب کیا ہیں؟ اگر تمام اداروں کے سربراہوں کی اس طرح چھان پھٹک کرلی جائے اور بلاتفریق عدالت کے کٹہرے میں لے آیا جائے تو کسی ادارے کے سربراہ کے لیے یہ آسان نہ ہوگا کہ وہ کرپشن کرسکے۔ درحقیقت کرپشن ہی کسی بھی ادارے کو خراب گورننس اور تباہی کی طرف لے جاتی ہے۔ جن اداروں کے سربراہ کرپشن میں ملوث نہ ہوں وہ ادارے ہی ترقی کی طرف گامزن ہوتے ہیں۔
اگر سربراہ ہی کرپٹ ہوجائے تو ظاہر ہے کہ نیچے کا عملہ بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتا ہے، جس سے گڈ گورننس تو ایک طرف، ادارہ ہی تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتا ہے۔ یہاں ڈاکٹر عبدالوہاب کا تذکرہ بے محل نہ ہوگا، جس وقت جامعہ کراچی میں دوران امتحان نقل کا کلچر زور پکڑ گیا تھا اور گڈ گورننس بری طرح متاثر ہورہی تھی، ڈاکٹر عبدالوہاب نے سختی کے ساتھ نظم وضبط کو قائم کیا اور بہت سی خرابیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا، نقل کا کلچر جڑ سے ختم کرادیا، نیز جامعہ میں ایوننگ پروگرام شروع کرایا، آج جامعہ کراچی کے اسٹاف کو تنخواہوں کی ادائیگی ہورہی ہے تو اس ایوننگ پروگرام سے حاصل ہونے والی آمدنی سے، ورنہ تو یہاں کے اساتذہ بھی پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین کی طرح مہینوں مہینوں تنخواہوں سے محروم رہتے۔
کچھ ہی عرصے پہلے ایک اخبار میں یہ خبر شایع ہوئی کہ سندھ میں ایماندار افسران کی کمی ہے، ایک ایک افسر کو کئی کئی ذمے داریاں سونپی جارہی ہیں کیونکہ کرپٹ افسران کسی کارروائی کے خوف سے ملک سے جاچکے ہیں یا جارہے ہیں۔ یہ خبر عیاں کر رہی ہے کہ اس صوبے میں کرپشن کی کیا صورتحال ہے اور گڈ گورننس کس سطح پر ہے۔
مرض کو ابتدائی مرحلے میں توجہ نہ دی جائے تو پھر بڑا آپریشن ناگزیر ہوجاتا ہے۔ سندھ میں آپریشن کا بھی یہی معاملہ ہے، گو قانونی لحاظ سے سندھ حکومت کا موقف اپنی جگہ درست ہے مگر اس حکومت کے ذمے داروں کو یہ سوچنا تو چاہیے کہ عوامی آواز خود یہ محسوس کررہی تھی، اور آج بھی کررہی ہے کہ یہاں کے مرض کا علاج اب بڑا آپریشن ہی ہے۔ کرنے کا کام تو یہ ہے کہ مرض کو دور کرنے کے لیے صوبائی حکومت خود سے بڑا آپریشن کرکے یہاں گڈ گورننس قائم کرے۔
گڈ گورننس کا ایک اور اہم اور بڑا پہلو انصاف کی فراہمی ہے۔ راقم نے ایک بڑے سرکاری افسر سے پوچھا کہ آپ ایماندار افسر ہیں، آپ کوئی بڑا کردار ادا کیوں نہیں کرتے؟ ان کا جواب تھا کہ وہ اپنے طور پر تو یہ کردار ادا کررہے ہیں لیکن ان کی پشت پر کوئی بھی نہیں، ان کا تعلق کسی بھی جماعت یا گروہ سے نہیں، ایسے میں کوئی بڑا کلمہ حق کہنا بہت مشکل ہے، ہاں اگر ہماری عدالتیں اس قدر مضبوط ہوجائیں کہ عوام کا اعتماد ان پر بحال ہوجائے تو ایک میں کیا نہ جانے کتنے ایماندار افسران سر دھڑ کی بازی لگا کر اپنا کردار نبھائیں اور محاذ پر ڈٹ جائیں۔ بلاشبہ انصاف کی فراہمی بھی گڈ گورننس میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔
آج راقم سمیت بہت سے لوگوں کے دن رات کا مشاہدہ ہے کہ مختلف اداروں میں جو ایسوسی ایشنز یا یونینز اپنے ادارے کے ملازمین کو حقوق دلوانے کے لیے بنتی ہیں، وہ خود ہی اپنے ملازمین کا سب سے بڑا استحصال کرتی ہیں اور محض اپنے پسندیدہ ملازمین کے کام کرواتی ہیں اور انتظامیہ پر دباؤ ڈال کر غیر قانونی کام کروا کر اپنے بینک بیلنس بناتی ہیں۔
یوں جن تنظیموں کا کام لوگوں کو ان کے حقوق دلوانا ہوتا ہے، ظلم و ناانصافی ختم کرنا ہوتا ہے اور ادارے میں گڈ گورننس قائم کرنا ہوتا ہے ان کی جانب سے خود قانون کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں اور گڈ گورننس کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ ظاہر ہے کہ جب گڈ گورننس کو قائم کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے والے الٹا گڈ گورننس ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈالیں گے تو پھر ادارے کی انتظامیہ بھی ان کے غیر قانونی کام کرنے کے بعد شتر بے مہار بن جاتی ہے اور ادارے کو ذاتی فوائد حاصل کرنے کے لیے کھل کر نقصان پہنچاتی ہے، کیونکہ اسے پتہ ہوتا ہے کہ اب اسے کوئی روک ٹوک کرنے والا نہیں اور اگر کوئی ہوگا بھی تو اس سے یہ ملازمین کے حقوق دلوانے کے دعویدار خود ہی نمٹ لیں گے۔
راقم کے ایک دوست کا کہنا ہے کہ انصاف اور احتساب وہی کرسکتا ہے جس کا دامن صاف ہو، جب تک قانون نافذ کرنے والے اور انصاف فراہم کرنے والے اداروں میں ایسے لوگوں کی کثرت نہیں ہوجاتی، گڈ گورننس کا قیام آسان نہیں۔ راقم کا خیال ہے کہ ایسے افراد کی ضرورت تو ہر ادارے میں ہے۔ آئیے پہلے اپنا دامن صاف کرنے کی کو شش کریں اور کچھ دیر اس پہلو پر بھی غور کریں۔