کسی کی عید کسی کو وعید…
ہم نمود و نمائش کی اس انتہا کو ہیں کہ ہمیں فرض ادا کرتے ہوئے اللہ کی خوشنودی سے زیادہ دنیا کی باتوں کا ڈر ہوتا ہے۔
لاہور:
آپ سب کو عید مبارک ہو۔
عید کے دوسرے روز بھی کچھ لوگ قربانی کے لیے قصاب کی تلاش میں مارے مارے پھرتے رہے اور کچھ ایسے خوش قسمت بھی تھے جنھوں نے عید کے پہلے روز قربانی کر لی اور خوب سیر ہو کر گوشت خود بھی کھایا، فریزروں میں بھی بھرا اور کچھ نہ کچھ ظاہر ہے کہ غریبوں کو بھی دیا ہو گا، قرابت داروں میں رانیں اور دستیاں ثابت بٹی ہوں گی۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے ہاں قربانی تقلید سنت سے زیادہ نمود و نمائش کے لیے اور تعلقات استوار اور مضبوط کرنے کا ایک بہانہ ہوتی ہے، یہاں ایک نہیں تگڑے تگڑے اور مہنگے دس دس بکرے قربان ہوتے ہیں، اسی لیے تو قصاب پہلے دن دستیاب نہیں ہوتے کہ انھیں وہاں پر بہتر بکنگ مل چکی ہوتی ہے جہاں انھیں پوری دیہاڑی کا کام مل جاتا ہے۔یہاں سے گوشت بھی ایسے گھروں میں جاتا ہے جہاں پہلے ہی ان کے مقابلے کی قربانیاں ہو رہی ہوتی ہیں۔
ہم لوگ نمود و نمائش کی اس انتہا کو چلے گئے ہیں کہ ہمیں اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے اور سنت کی تقلید کرتے ہوئے بھی اللہ کی خوشنودی سے زیادہ دنیا کی باتوں کا ڈر ہوتا ہے۔ کوئی ہمارا بکرا دیکھے گا تو کیا کہے گا، کہیں سے سستا لے لیا ہے شاید۔ قیمتیں جہاں بھی پہنچ چکی ہیں، قیمتی اور صحت مند بکرا لینا بھی اسٹیٹس سمبل ہے۔ قربانی کی اصل روح سے ناآشنا ہم لوگ، شیرینیاں اپنوں میں ہی بانٹتے چلے جاتے ہیں، گوشت کے حصے کرتے وقت رشتوں کے حفظ ماتقدم کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔ سمدھیانے، بیٹیوں کی سسرالیں، باس اور ہر وہ شخص جس سے ہمیں کبھی نہ کبھی کوئی نہ کوئی کام پڑ سکتا ہے۔ بھئی کلو دو کلو گوشت سے ہم کسی کی عمر بھر محبت، احترام اور وفاداری کیونکر خرید سکتے ہیں۔
اسی طرح کسی کے گھر سے آنے والے گوشت کو دیکھ کر ہم اندازہ لگاتے ہیں کہ کسی کی نظر میں ہماری کیا وقعت ہے... ارے بس! آدھا کلو، چار بوٹیاں فقط... نری چربی اور چھچھڑے... چلو رکھو، کسی ایرے غیرے کے گھر جوں کا توں بھجوا دیں گے۔ بھئی کوئی کہاں سے ایسا بکرا لائے کہ جس میں نہ چربی ہو نہ چھچھڑے؟ جب ہمارا مذہب یہ کہتا ہے کہ اپنے لیے جو پسند کرو ویسا ہی دوسرے کے لیے چاہو تو پھر ہم دوسرے کو وہ کیوں دیں جسے ہماری نظر اچھا نہ سمجھے...
لفظ '' عید '' کا لفظی مطلب خوشی ہے، مگر کیا واقعی عید سب کے لیے خوشیاں لے کر آتی ہے؟ کیا آپ نے کبھی سنا کہ عید نزدیک آنے کا وقت ہو تو کسی کا چہرہ تفکر کی پرچھائیوں سے پر ہو جائے؟ کسی کے دل سے دعائیں نکلیں کہ کاش عید نہ آتی؟
ہے تو ناقابل یقین بات، مگر ایسا ہوتا ہے... وہاں جہاں سانس لینے کی قیمت بھی ادا کرنا پڑتی ہے، دن بھر جان مار کر شام کو گھر لوٹو تو چولہا جلانے کو کچھ نہیں ہوتا اور بندہ دل میں سوچ کر رہ جاتا ہے کہ بچوں کے بہلانے کو خالی ہانڈی بھی چولہے پر چڑھا دو تو کچھ نہیں ہونے والا... کوئی عمرؓ نہیں آنے والا!!! کسی ہمسائے کو یہ علم کیا ہو کہ اس کے پڑوسی میں غربت کا کیا عالم ہے، اب تو کسی کو یہ بھی علم نہیں کہ پڑوس میں آباد کون ہے۔ سفید پوش طبقہ ناپید ہو گیا ہے۔ ایک طبقہ امیروں کا ہے... ایک انتہائی امیروں کا... ایک غریبوں کا اور ایک انتہائی غریبوں کا!!! جسے متوسط طبقہ کہا جاتا تھا وہ اب ماضی کی کہانیوں میں ہی رہ گیا ہے۔
جہاں غم روزگار، مہنگائی اور لاقانونیت میں مدغم ہو کر نشے کو دو آتشہ کر دیتا ہے، جہاں گھر کی گاڑی چلانا ہی ناممکن ہو جائے، وہاں کوئی عید نہ آنے کی دعا نہ کرے تو اور کیا کرے؟ جہاں عید زخموں کو ہرا کر دے، جہاں عید کا مطلب وعید ہو، جہاں عید کا ایک دن مہینوں کا بجٹ متاثر کر دے... وہاں کون عید کے دن مسکرا سکتا ہے، وہاں کون عید آنے کی تمنا کر سکتا ہے۔ جہاں غریب کو علم ہو کہ اسے قربانی کا گوشت کہیں سے نصیب ہونے والا نہیں، انھیں اور ان کے بچوں کو قربانی کا ادراک کوڑے کے ڈھیروں پر جانوروں کی غلاظت دیکھ کر ہی ہوتا ہے یا پھر اس انتہائی غریب طبقے کو دیکھ کر کہ جوغلاظت کے ان ڈھیروں میں سے انتڑیوں وغیرہ کو بھی چن کر، گوشت سمجھ کر ہی اپنے بچوں کو کھلا دیتے ہیں... اگر آپ ذرا سے بھی حساس ہیں تو آپ کے حلق سے ایسا منظر سوچ کر بھی نوالہ اترنا مشکل ہو جائے گا۔
ہمارے گھروں میں معمول میں بھی ہر روز ہی گوشت کھایا جاتا ہے، میں نے لوگوں کو یہ بھی حساب کرتے سنا ہے کہ بیس ہزار کا بکرا لیا تھا، کل تیس کلو گوشت نکلا تھا، یار... پونے سات سو روپے کلو گوشت پڑا تھا، اپنے ہی مشکل سے بھگتے... میں نے پہلے سے بازار سے دس کلو بڑا گوشت لے کر رکھا ہوا تھا... غریبوں کو وہ بھجوا دیا تھا!!! یہ لطیفہ نہیں ہے، واقعی حقیقت میں ایسا ہوتا ہے۔ میں نے لوگوں کو عید سے قبل دس بیس رانیں لے کر اپنے فریزر میں رکھتے ہوئے بھی دیکھا ہے، عید کے دن یہ رانیںفریزر سے نکلتی ہیں اور ان کے عزیزوں اور دوستوں کے گھروں میں چلی جاتی ہیں۔ کوئی دیکھے تو سمجھے کہ انھوں نے بکرا نہیںہزار پایہ ... قربان کیا ہے!
براہ کرم ان لوگوں کے چہروں پر بھی مسکراہٹ لانے کی کوشش کریں جہاں غربت بن بلائے مہمان کی طرح آ کر مستقل ٹھکانہ کر کے بیٹھ گئی ہے۔ ان لوگوں کو تلاش کریں جن کے بچوں کو گوشت کا ذائقہ بھی معلوم نہیں۔ ہمارے بچے تو سو سو نخروں سے قربانی کا گوشت کھاتے ہیں اور تو اور بڑے بھی کہتے ہیں کہ اس میں سے ہیک آتی ہے، گلتا نہیں، رنگ بدل جاتا ہے وغیرہ وغیرہ!!!
جتنا گوشت ہمارے ہاں عید قربان پر کھایا جاتا ہے، جتنا پکایا جاتا ہے، جتنا بچایا جاتا ہے اور جتنا ضایع جاتا ہے... شاید ہی دنیا میں کسی دن اور کسی موقعے پر اتنا زیاں ہوتا ہو!!! کبھی اپنی ذات کے خول سے نکل کر دیکھیں، کبھی اپنے علاوہ کسی کے بارے میں سوچ کر دیکھیں، کبھی کسی کے لبوں پر مسکراہٹ لانے کے لیے اپنی کسی چھوٹی سی خوشی کا خون کر کے دیکھیں... یقین کریں اس سے وہ خوشی ملے گی کہ جس کا آپ ادراک بھی نہیں کر سکتے۔ جانوروں کی علامتی قربانی کرتے ہوئے ہمیں یہ ادراک بھی نہیں ہوتا کہ ہماری قربانی مستجاب بھی ہو گی یا نہیں... مگر کسی انسان کو اپنی خوشی کی قربانی دے کر سو فیصد نمبر لیے جاسکتے ہیں۔
اپنے مفادات سے ہٹ کر سوچیں تو یہی قربانی ہے، یہی عید ہے، یہی اصل روح ہے عبادت کی اور یہی حقیقی خوشی ہے جو نہ صرف ہمیں اور کسی غریب کو خوش کرتی ہے بلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی خوشنودی بھی اسی میں ہے۔ اللہ ہم سب کی عبادات اور قربانیوں کو قبول فرمائے اور ہمیں ہر عبادت کی اصل روح تک پہنچنے کی توفیق عطا فرمائے اور یہ عید صرف ہماری عید نہ ہو بلکہ ہر کسی کو عید مبارک ہو... آمین!
آپ سب کو عید مبارک ہو۔
عید کے دوسرے روز بھی کچھ لوگ قربانی کے لیے قصاب کی تلاش میں مارے مارے پھرتے رہے اور کچھ ایسے خوش قسمت بھی تھے جنھوں نے عید کے پہلے روز قربانی کر لی اور خوب سیر ہو کر گوشت خود بھی کھایا، فریزروں میں بھی بھرا اور کچھ نہ کچھ ظاہر ہے کہ غریبوں کو بھی دیا ہو گا، قرابت داروں میں رانیں اور دستیاں ثابت بٹی ہوں گی۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے ہاں قربانی تقلید سنت سے زیادہ نمود و نمائش کے لیے اور تعلقات استوار اور مضبوط کرنے کا ایک بہانہ ہوتی ہے، یہاں ایک نہیں تگڑے تگڑے اور مہنگے دس دس بکرے قربان ہوتے ہیں، اسی لیے تو قصاب پہلے دن دستیاب نہیں ہوتے کہ انھیں وہاں پر بہتر بکنگ مل چکی ہوتی ہے جہاں انھیں پوری دیہاڑی کا کام مل جاتا ہے۔یہاں سے گوشت بھی ایسے گھروں میں جاتا ہے جہاں پہلے ہی ان کے مقابلے کی قربانیاں ہو رہی ہوتی ہیں۔
ہم لوگ نمود و نمائش کی اس انتہا کو چلے گئے ہیں کہ ہمیں اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے اور سنت کی تقلید کرتے ہوئے بھی اللہ کی خوشنودی سے زیادہ دنیا کی باتوں کا ڈر ہوتا ہے۔ کوئی ہمارا بکرا دیکھے گا تو کیا کہے گا، کہیں سے سستا لے لیا ہے شاید۔ قیمتیں جہاں بھی پہنچ چکی ہیں، قیمتی اور صحت مند بکرا لینا بھی اسٹیٹس سمبل ہے۔ قربانی کی اصل روح سے ناآشنا ہم لوگ، شیرینیاں اپنوں میں ہی بانٹتے چلے جاتے ہیں، گوشت کے حصے کرتے وقت رشتوں کے حفظ ماتقدم کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔ سمدھیانے، بیٹیوں کی سسرالیں، باس اور ہر وہ شخص جس سے ہمیں کبھی نہ کبھی کوئی نہ کوئی کام پڑ سکتا ہے۔ بھئی کلو دو کلو گوشت سے ہم کسی کی عمر بھر محبت، احترام اور وفاداری کیونکر خرید سکتے ہیں۔
اسی طرح کسی کے گھر سے آنے والے گوشت کو دیکھ کر ہم اندازہ لگاتے ہیں کہ کسی کی نظر میں ہماری کیا وقعت ہے... ارے بس! آدھا کلو، چار بوٹیاں فقط... نری چربی اور چھچھڑے... چلو رکھو، کسی ایرے غیرے کے گھر جوں کا توں بھجوا دیں گے۔ بھئی کوئی کہاں سے ایسا بکرا لائے کہ جس میں نہ چربی ہو نہ چھچھڑے؟ جب ہمارا مذہب یہ کہتا ہے کہ اپنے لیے جو پسند کرو ویسا ہی دوسرے کے لیے چاہو تو پھر ہم دوسرے کو وہ کیوں دیں جسے ہماری نظر اچھا نہ سمجھے...
لفظ '' عید '' کا لفظی مطلب خوشی ہے، مگر کیا واقعی عید سب کے لیے خوشیاں لے کر آتی ہے؟ کیا آپ نے کبھی سنا کہ عید نزدیک آنے کا وقت ہو تو کسی کا چہرہ تفکر کی پرچھائیوں سے پر ہو جائے؟ کسی کے دل سے دعائیں نکلیں کہ کاش عید نہ آتی؟
ہے تو ناقابل یقین بات، مگر ایسا ہوتا ہے... وہاں جہاں سانس لینے کی قیمت بھی ادا کرنا پڑتی ہے، دن بھر جان مار کر شام کو گھر لوٹو تو چولہا جلانے کو کچھ نہیں ہوتا اور بندہ دل میں سوچ کر رہ جاتا ہے کہ بچوں کے بہلانے کو خالی ہانڈی بھی چولہے پر چڑھا دو تو کچھ نہیں ہونے والا... کوئی عمرؓ نہیں آنے والا!!! کسی ہمسائے کو یہ علم کیا ہو کہ اس کے پڑوسی میں غربت کا کیا عالم ہے، اب تو کسی کو یہ بھی علم نہیں کہ پڑوس میں آباد کون ہے۔ سفید پوش طبقہ ناپید ہو گیا ہے۔ ایک طبقہ امیروں کا ہے... ایک انتہائی امیروں کا... ایک غریبوں کا اور ایک انتہائی غریبوں کا!!! جسے متوسط طبقہ کہا جاتا تھا وہ اب ماضی کی کہانیوں میں ہی رہ گیا ہے۔
جہاں غم روزگار، مہنگائی اور لاقانونیت میں مدغم ہو کر نشے کو دو آتشہ کر دیتا ہے، جہاں گھر کی گاڑی چلانا ہی ناممکن ہو جائے، وہاں کوئی عید نہ آنے کی دعا نہ کرے تو اور کیا کرے؟ جہاں عید زخموں کو ہرا کر دے، جہاں عید کا مطلب وعید ہو، جہاں عید کا ایک دن مہینوں کا بجٹ متاثر کر دے... وہاں کون عید کے دن مسکرا سکتا ہے، وہاں کون عید آنے کی تمنا کر سکتا ہے۔ جہاں غریب کو علم ہو کہ اسے قربانی کا گوشت کہیں سے نصیب ہونے والا نہیں، انھیں اور ان کے بچوں کو قربانی کا ادراک کوڑے کے ڈھیروں پر جانوروں کی غلاظت دیکھ کر ہی ہوتا ہے یا پھر اس انتہائی غریب طبقے کو دیکھ کر کہ جوغلاظت کے ان ڈھیروں میں سے انتڑیوں وغیرہ کو بھی چن کر، گوشت سمجھ کر ہی اپنے بچوں کو کھلا دیتے ہیں... اگر آپ ذرا سے بھی حساس ہیں تو آپ کے حلق سے ایسا منظر سوچ کر بھی نوالہ اترنا مشکل ہو جائے گا۔
ہمارے گھروں میں معمول میں بھی ہر روز ہی گوشت کھایا جاتا ہے، میں نے لوگوں کو یہ بھی حساب کرتے سنا ہے کہ بیس ہزار کا بکرا لیا تھا، کل تیس کلو گوشت نکلا تھا، یار... پونے سات سو روپے کلو گوشت پڑا تھا، اپنے ہی مشکل سے بھگتے... میں نے پہلے سے بازار سے دس کلو بڑا گوشت لے کر رکھا ہوا تھا... غریبوں کو وہ بھجوا دیا تھا!!! یہ لطیفہ نہیں ہے، واقعی حقیقت میں ایسا ہوتا ہے۔ میں نے لوگوں کو عید سے قبل دس بیس رانیں لے کر اپنے فریزر میں رکھتے ہوئے بھی دیکھا ہے، عید کے دن یہ رانیںفریزر سے نکلتی ہیں اور ان کے عزیزوں اور دوستوں کے گھروں میں چلی جاتی ہیں۔ کوئی دیکھے تو سمجھے کہ انھوں نے بکرا نہیںہزار پایہ ... قربان کیا ہے!
براہ کرم ان لوگوں کے چہروں پر بھی مسکراہٹ لانے کی کوشش کریں جہاں غربت بن بلائے مہمان کی طرح آ کر مستقل ٹھکانہ کر کے بیٹھ گئی ہے۔ ان لوگوں کو تلاش کریں جن کے بچوں کو گوشت کا ذائقہ بھی معلوم نہیں۔ ہمارے بچے تو سو سو نخروں سے قربانی کا گوشت کھاتے ہیں اور تو اور بڑے بھی کہتے ہیں کہ اس میں سے ہیک آتی ہے، گلتا نہیں، رنگ بدل جاتا ہے وغیرہ وغیرہ!!!
جتنا گوشت ہمارے ہاں عید قربان پر کھایا جاتا ہے، جتنا پکایا جاتا ہے، جتنا بچایا جاتا ہے اور جتنا ضایع جاتا ہے... شاید ہی دنیا میں کسی دن اور کسی موقعے پر اتنا زیاں ہوتا ہو!!! کبھی اپنی ذات کے خول سے نکل کر دیکھیں، کبھی اپنے علاوہ کسی کے بارے میں سوچ کر دیکھیں، کبھی کسی کے لبوں پر مسکراہٹ لانے کے لیے اپنی کسی چھوٹی سی خوشی کا خون کر کے دیکھیں... یقین کریں اس سے وہ خوشی ملے گی کہ جس کا آپ ادراک بھی نہیں کر سکتے۔ جانوروں کی علامتی قربانی کرتے ہوئے ہمیں یہ ادراک بھی نہیں ہوتا کہ ہماری قربانی مستجاب بھی ہو گی یا نہیں... مگر کسی انسان کو اپنی خوشی کی قربانی دے کر سو فیصد نمبر لیے جاسکتے ہیں۔
اپنے مفادات سے ہٹ کر سوچیں تو یہی قربانی ہے، یہی عید ہے، یہی اصل روح ہے عبادت کی اور یہی حقیقی خوشی ہے جو نہ صرف ہمیں اور کسی غریب کو خوش کرتی ہے بلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی خوشنودی بھی اسی میں ہے۔ اللہ ہم سب کی عبادات اور قربانیوں کو قبول فرمائے اور ہمیں ہر عبادت کی اصل روح تک پہنچنے کی توفیق عطا فرمائے اور یہ عید صرف ہماری عید نہ ہو بلکہ ہر کسی کو عید مبارک ہو... آمین!