کشمیر حقِ خود ارادیت اور بھارتی ناکامیاں
دیکھنا یہ ہے کہ دنیا کب تک کشمیر میں بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی ان کھلی خلاف ورزیوں پر خاموش تماشائی بنی رہے گی؟
1947 میں پاکستان بننے کے فوراً بعد حضرت قائدِ اعظم محمد علی جناح نے مہاراجہ ہری سنگھ اور بھارتی حکومت کے مابین کشمیر پر ہونے والی ساز باز کے نتیجے میں جہاد کا اعلان کیا اور جنرل گریسی کے تاخیری حربوں کی وجہ سے پشتون قبائل کو متحرک کیا اور جنگ کا آغاز ہوگیا۔ پاکستان نے بھارتی افواج کو پسپا کرتے ہوئے کشمیر کا ایک بڑا علاقہ خالی کروالیا جو کہ آج آزاد کشمیر کے نام سے موجود ہے۔ بھارت نے اس پسپائی سے بوکھلا کر اقوامِ متحدہ کا رخ کیا اور یکم جنوری 1948 کو مسئلۂ کشمیر اقوامِ متحدہ میں پیش کردیا اور جنگ بند کرانے کی درخواست کی۔ بالآخر اقوامِ متحدہ کی جانب سے یونائیٹڈ نیشنز کمیشن فار انڈیا اینڈ پاکستان (UNCIP) تشکیل دیا گیا۔ جس کے نتیجے میں جنگ بندی عمل میں آئی اور بعد ازاں پاکستانی وزیرِ خارجہ سر ظفر اللہ خان کی کوششوں سے کشمیر پر 5 جنوری 1949 میں ایک متفقہ قرارداد منظور ہوئی جس کے تحت بین الاقوامی سطح پر بھارت کو پابند کیا گیا کہ وہ کشمیر میں رائے شماری کروائے تاکہ کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق اس بات کا فیصلہ کیا جا سکے کہ آیا وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ ۔
لیکن آج 67 سال گذر جانے کے بعد بھی بھارت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے اور اس نے بجائے رائے شماری کروانے کے کشمیر میں ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا ہے تاکہ کشمیریوں کی آواز کو دبا سکے، لیکن آج 67 سالوں بعد بھی کشمیری اپنے حق کے لیئے سینہ تان کر بھارت کے آگے ڈٹے ہوئے ہیں۔
اگر بھارت کی جانب سے کشمیریوں پر کئے جانے والے ظلم و ستم اور قتلِ عام کا تکنیکی جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ بھارت کا مقصد صرف کشمیریوں کی آواز دبانا ہی نہیں بلکہ کشمیر میں مسلمانوں کی تعداد میں واضح کمی لانا بھی مقصود ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارت نے بڑے پیمانے پر کشمیر میں ہندو آباد کاریاں بھی شروع کردیں ہیں کیونکہ رائے شماری کروانے کی تلوار ہر وقت بھارت کے سر پر لٹکتی رہتی ہے اور اگر کسی وقت عالمی دباؤ آیا اور بھارت رائے شماری کروانے پر مجبور بھی ہوگیا تو مسلمانوں کے قتلِ عام اور ہندو آباد کاریوں کی وجہ سے زیادہ ووٹ بھارت کے حق میں پڑیں اور اس منظم سازش کے تحت بھارت کشمیر پر مستقل اپنے پنجے گاڑ سکے۔ حالانکہ پاکستان کا سرکاری مؤقف یہی ہے کہ کشمیری پاکستان یا بھارت میں سے جس کو بھی چنیں انہیں منظور ہوگا۔
آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی اس بات کا اظہار بارہا اپنی تقاریر میں کرچکے ہیں کہ کشمیر برِصغیر کی تقسیم کا نامکمل ایجنڈا ہے اور مسئلہ کشمیر کا حل کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق ہونا چاہیئے۔ لیکن شاید جب بھارت کشمیریوں کی امنگوں کی جانب نظر دوڑاتا ہے تو اسے کشمیریوں کی پُرعزم آنکھوں اور پُرجوش چہروں کو دیکھ کر اندازہ ہوجاتا ہے کہ رائے شماری کا کیا نتیجہ نکلے گا یا پھر کشمیری راہنماؤں کے ساتھ لاکھوں کشمیریوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر دیکھ کر بھارت کا ایمان متزلزل ہوجاتا ہے اور وہ اس وقت مزید خائف ہوجاتا ہے جب ایک نحیف و نحرار بزرگ کشمیری راہنما سید علی شاہ گیلانی کی پُراستقلال آواز اس کے کانوں میں گونجتی ہے کہ ''ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے'' اور ''جموں وکشمیر پاکستان کا قدرتی حصہ ہے'' اور ''ہم پاکستان میں چاند نظر آنے پر روزہ رکھتے ہیں اور اسی کے ساتھ عید مناتے ہیں''۔
شاید جب وہ کئی سال ایک مردِ مجاہد مسرت عالم کو جیل کی سلاخوں کی پیچھے قید رکھتے ہیں اور اسے بہلاتے پھسلاتے ہیں کہ ہمارے ساتھ مل جاؤ پاکستان کا نام نہ لو اور جب اسے رِہا کرتے ہیں تو وہ باہر آکر پہلا کام یہ کرتا ہے کہ کشمیریوں کے جم غفیر کو جمع کرکے سڑکوں پر لے آتا ہے اور ببانگِ دُہل ''پاکستان زندہ باد'' کا نعرہ لگاتا ہے اور پاکستانی پرچم لہراتا ہے۔ یا بھارت چند برقع پوش خواتین سے ڈرتا ہے جو سیدہ آسیہ اندرابی کی زیرِ قیادت سڑکوں پر نکل کر پاکستان کا پرچم لہرا دیتی ہیں۔ پاکستانی پرچم لہرانے اور پاکستان زندہ باد کے نعرے سننے کے بعد بھارت ایک بار پھر یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ نسل کشی ہی اس قوم کا واحد علاج ہے اور وہ ظلم و جبر کی نئی تاریخ رقم کرنے میں مصروف ہوجاتا ہے لیکن کشمیر کے بہادر بیٹے اور بیٹیاں آئے دن 'نعرۂ تکبیر' اور 'پاکستان زندہ باد' کی صدائیں بلند کرکے بھارت کی جڑیں تک ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔
دیکھنا یہ ہے کہ دنیا کب تک کشمیر میں بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی ان کھلی خلاف ورزیوں پر خاموش تماشائی بنی رہے گی؟ بھارت رائے شماری کروانے کے بجائے ظلم و ستم کے زور پر کشمیریوں کی آواز کو کب تک دبا پائے گا؟ ہمارے حکمران کشمیر کے لئے سنجیدہ کوششیں شروع کریں گے یا نہیں؟ لیکن ایک بات طے ہے کہ کشمیری ہر جمعہ کے روز، عید، بقر عید، یومِ آزادی پاکستان اور دیگر مواقع پر دنیا اور خصوصاً بھارت کو پاکستانی سبز ہلالی پرچم لہرا کر، اپنے سروں پر کفن کی طرح باندھ کر، بینر کی طرح اپنے سینوں کے سامنے اٹھا کر پاکستان کے حق میں کھلا ووٹ ڈالتے ہیں کہ کوئی کچھ سمجھے کچھ بھی کہے لیکن،
[poll id="869"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
لیکن آج 67 سال گذر جانے کے بعد بھی بھارت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے اور اس نے بجائے رائے شماری کروانے کے کشمیر میں ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا ہے تاکہ کشمیریوں کی آواز کو دبا سکے، لیکن آج 67 سالوں بعد بھی کشمیری اپنے حق کے لیئے سینہ تان کر بھارت کے آگے ڈٹے ہوئے ہیں۔
اگر بھارت کی جانب سے کشمیریوں پر کئے جانے والے ظلم و ستم اور قتلِ عام کا تکنیکی جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ بھارت کا مقصد صرف کشمیریوں کی آواز دبانا ہی نہیں بلکہ کشمیر میں مسلمانوں کی تعداد میں واضح کمی لانا بھی مقصود ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارت نے بڑے پیمانے پر کشمیر میں ہندو آباد کاریاں بھی شروع کردیں ہیں کیونکہ رائے شماری کروانے کی تلوار ہر وقت بھارت کے سر پر لٹکتی رہتی ہے اور اگر کسی وقت عالمی دباؤ آیا اور بھارت رائے شماری کروانے پر مجبور بھی ہوگیا تو مسلمانوں کے قتلِ عام اور ہندو آباد کاریوں کی وجہ سے زیادہ ووٹ بھارت کے حق میں پڑیں اور اس منظم سازش کے تحت بھارت کشمیر پر مستقل اپنے پنجے گاڑ سکے۔ حالانکہ پاکستان کا سرکاری مؤقف یہی ہے کہ کشمیری پاکستان یا بھارت میں سے جس کو بھی چنیں انہیں منظور ہوگا۔
آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی اس بات کا اظہار بارہا اپنی تقاریر میں کرچکے ہیں کہ کشمیر برِصغیر کی تقسیم کا نامکمل ایجنڈا ہے اور مسئلہ کشمیر کا حل کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق ہونا چاہیئے۔ لیکن شاید جب بھارت کشمیریوں کی امنگوں کی جانب نظر دوڑاتا ہے تو اسے کشمیریوں کی پُرعزم آنکھوں اور پُرجوش چہروں کو دیکھ کر اندازہ ہوجاتا ہے کہ رائے شماری کا کیا نتیجہ نکلے گا یا پھر کشمیری راہنماؤں کے ساتھ لاکھوں کشمیریوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر دیکھ کر بھارت کا ایمان متزلزل ہوجاتا ہے اور وہ اس وقت مزید خائف ہوجاتا ہے جب ایک نحیف و نحرار بزرگ کشمیری راہنما سید علی شاہ گیلانی کی پُراستقلال آواز اس کے کانوں میں گونجتی ہے کہ ''ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے'' اور ''جموں وکشمیر پاکستان کا قدرتی حصہ ہے'' اور ''ہم پاکستان میں چاند نظر آنے پر روزہ رکھتے ہیں اور اسی کے ساتھ عید مناتے ہیں''۔
شاید جب وہ کئی سال ایک مردِ مجاہد مسرت عالم کو جیل کی سلاخوں کی پیچھے قید رکھتے ہیں اور اسے بہلاتے پھسلاتے ہیں کہ ہمارے ساتھ مل جاؤ پاکستان کا نام نہ لو اور جب اسے رِہا کرتے ہیں تو وہ باہر آکر پہلا کام یہ کرتا ہے کہ کشمیریوں کے جم غفیر کو جمع کرکے سڑکوں پر لے آتا ہے اور ببانگِ دُہل ''پاکستان زندہ باد'' کا نعرہ لگاتا ہے اور پاکستانی پرچم لہراتا ہے۔ یا بھارت چند برقع پوش خواتین سے ڈرتا ہے جو سیدہ آسیہ اندرابی کی زیرِ قیادت سڑکوں پر نکل کر پاکستان کا پرچم لہرا دیتی ہیں۔ پاکستانی پرچم لہرانے اور پاکستان زندہ باد کے نعرے سننے کے بعد بھارت ایک بار پھر یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ نسل کشی ہی اس قوم کا واحد علاج ہے اور وہ ظلم و جبر کی نئی تاریخ رقم کرنے میں مصروف ہوجاتا ہے لیکن کشمیر کے بہادر بیٹے اور بیٹیاں آئے دن 'نعرۂ تکبیر' اور 'پاکستان زندہ باد' کی صدائیں بلند کرکے بھارت کی جڑیں تک ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔
دیکھنا یہ ہے کہ دنیا کب تک کشمیر میں بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی ان کھلی خلاف ورزیوں پر خاموش تماشائی بنی رہے گی؟ بھارت رائے شماری کروانے کے بجائے ظلم و ستم کے زور پر کشمیریوں کی آواز کو کب تک دبا پائے گا؟ ہمارے حکمران کشمیر کے لئے سنجیدہ کوششیں شروع کریں گے یا نہیں؟ لیکن ایک بات طے ہے کہ کشمیری ہر جمعہ کے روز، عید، بقر عید، یومِ آزادی پاکستان اور دیگر مواقع پر دنیا اور خصوصاً بھارت کو پاکستانی سبز ہلالی پرچم لہرا کر، اپنے سروں پر کفن کی طرح باندھ کر، بینر کی طرح اپنے سینوں کے سامنے اٹھا کر پاکستان کے حق میں کھلا ووٹ ڈالتے ہیں کہ کوئی کچھ سمجھے کچھ بھی کہے لیکن،
''کشمیر بنے گا پاکستان''
''پاکستان سے رشتہ کیا۔۔۔لا الہ الا اللہ''
''ہم چھین کے لیں گے آزادی''
''ہم لے کے رہیں گے آزادی''
''پاکستان زندہ باد''
[poll id="869"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔