ہمارا نظام اور اللہ ہی اللہ

ہمارے ملک کے قبضہ گروپوں ، رشوت خوروں وغیرہ کو 2016 کے ساتھ ساتھ کالا دھن سفید کرنے کی ’اعلیٰ‘ اسکیم مبارک ہو

ہمارے ملک کے قبضہ گروپوں ، رشوت خوروں وغیرہ کو 2016 کے ساتھ ساتھ کالا دھن سفید کرنے کی 'اعلیٰ' اسکیم مبارک ہو ۔ اس مجوزہ قانون کے تحت پانچ سے پچاس کروڑ تک کے اثاثے ظاہر کرنے اور خود کو ٹیکس کے نظام میں لانے والے تاجروںاور صنعت کاروں کو یہ سہولت دی جائے گی کہ وہ ایک فی صد ٹیکس ادا کر کے اپنے کالے دھن کو سفید کرا سکیں۔

حکومت کی پارلیمنٹ میں عددی قوت کے باعث اس بل کو باقاعدہ قانون بننے سے روکنا حزبِ اختلاف کے لیے ممکن نہیں تا ہم حزبِ اختلاف اس بات پراپنی سیاست ضرور چمکا سکتی ہے جس کا عندیہ پیپلز پارٹی اور تحریکِ انصاف نے دے بھی دیا ہے۔ اب وہ جلسوں میں یا پھر کنٹینر پر کھڑے ہو کریہ کہہ سکیں گے کہ اپنے رشتے داروں، عزیزوں اور چمچوں کے کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے یہ اسکیم متعارف کرائی ہے۔

کالے دھن والوں کو نئے سال کا تحفہ دیا گیا ہے۔ ویسے ہونا تو یہ بھی چاہیے کہ جو دہشت گرد یا جرائم پیشہ پکڑے جا رہے ہیں انھیں بھی ایک فیصد سزا دے کر فارغ کرو۔ بلکہ میں تو یہ بھی چاہتا ہوں کہ پاکستان بھر کی جیلوں میں لاکھوں قیدی سزائیں بھگت رہے ہیں، ان کی سزا بھی ایک فیصد کر دو۔

پاکستان توکالے دھن والوں کے لیے جنت ہے؟ یہاں تو ہر صوبے میں بداعنونی کا 'معیار' بھی مختلف ہے ۔ مشہور ہے کہ سندھ میں ایم پی اے کے حلقے میں کسی بھی بڑے چھوٹے ترقیاتی کام میں 50سے 75فیصد کمیشن ہوتا ہے۔ پنجاب میں یہ تناسب 25فیصد، بلوچستان میں 75 سے 85فیصد اور کے پی کے میں تناسب فنڈز، حالات اور کام کی نوعیت دیکھ کر طے کیا جاتا ہے۔ یہاں اسمبلیوں میں بیٹھا ہوا ہر عوامی نمایندہ اپنے آپ میں بزنس تائیکون ہے۔ سونے پے سہاگہ یہ کہ اولاد اور رشتے دار بھی ساتھ والی سیٹوں پر براجمان ہیں۔ جنہوں نے بقول شاعر

گلشن کی شاخ شاخ کو ویراں کیا گیا
یوں بھی علاج تنگی داماں کیا گیا

گزشتہ پندرہ برسوں خصوصاََحالیہ جمہوری ادوار میں ہمارے کئی سیاستدان ارب پتی سے کھرب پتی، کروڑ پتی سے ارب پتی بن گئے۔ کئی وزراء اور ایم این ایز ایسے بھی ہیں جو کچھ عرصہ پہلے معمولی کاروبار کرتے تھے مگر اب ان کی شان و شوکت کسی بادشاہ سے کم نظر نہیں آتی۔۔۔ کئی تو اپنے کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے پرائز بانڈز کا سہارا لیتے نظر آتے ہیں۔ اسی لیے تو ایسی اسکیمیں بازار پارلیمنٹ میں لائی جا رہی ہیں کہ مزید کالے دھن کو سفید کرنے لیے مزید کوئی گنجائش نکل آئے۔حیران ہوں کہ بعض اینکر حضرات بھی کالادھن سفید کرنے کی پالیسی کے گن گا رہے ہیں جیسے انھیں بھی فائدہ پہنچنے والا ہو۔


عمران خان کا یہ تبصرہ سو فیصد درست ہے کہ یہ نام نہاد ٹیکس ایمنسٹی اسکیم چوروں کو بچانے اور اپنوں کو نوازنے کے لیے ہے۔بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ یہ اسکیم دراصل ٹیکس چوروں کے لیے عام معافی کا اعلان ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ کہیں نیب سے بچنے کے لیے درمیانی راہ تو نہیں نکالی جا رہی ۔

آج پاکستان کے 10امیر ترین خاندانوں میں سے 7سیاسی خاندانوں کا 1985 تک سیاست میں آنے سے پہلے 22امیر ترین خاندانوں میں کہیں ذکر نہیں تھا۔ لیکن آج یہ خاندان سیاست اور جمہوریت کی بدولت پاکستان پر اپنا راج قائم کیے ہوئے ہیں اور یہ'' امیری'' انھی اسکیموں کی مرہون منت ہے جس پر کبھی کسی سرکاری افسر یا ادارے نے ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہیں کی۔

ہمارے ملک میں جرم اور کرپشن کی پروموشن کے لیے جمہوری اداروں کا گٹھ جوڑ ہو جاتا ہے۔ جرائم اور کرپشن کے اسی گٹھ جوڑ نے معاشرہ کا جوڑ جوڑ علیحدہ کردیا اور یہی گٹھ جوڑ عدل و انصاف کے حصول کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے جو اس ملک کو اٹھنے، سنبھلنے اور ٹیک آف نہیں کرنے دے رہا جب کہ وزیر اعظم صاحب کا خیال ہے کہ اس اسکیم سے معیشت مستحکم ہوگی ۔

میرا خیال ہے معیشت مضبوط نہیں مزید مفلوج ہو گی۔ یہ بھی سچ ہے کہ پاکستان کی کاروباری برادری ایمانداری سے انکم ٹیکس ادا نہیں کرتے ۔ انکم ٹیکس چوری کرنے کے ساتھ صارف سے وصول کیا گیا سیلز ٹیکس بھی ڈکار جاتے ہیں ۔ ہر گلی محلے میں کھلے نام نہاد کرنسی ایکس چینج ڈیلر ایک سے تین فی صد تک کے سروس چارجز لے کر ان حضرات کا سر مایہ دبئی منتقل کرتے ہیں۔ پھر یہ سرمایہ واپس آتا ہے۔ بیرونِ ملک سے آنے والے سرمائے کا ذریعہ آمدن تو حکومت پوچھ ہی نہیں سکتی۔

گزشتہ سال کے آغاز سے ہی پاکستانی معیشت خرابی کا شکار رہی ہے۔ بین الاقوامی منڈی میں زرعی اجناس کی قیمتوں کا آدھا رہ جانا، جس کی زد میں پاکستان کا ٹیکسٹائل اور چاول کا برآمدی شعبہ آیا، ہمارے ہمسایہ بھارت کی ان شعبوں میں زرِتلافیوں (سبسڈیز)کے زور پر جارحانہ مارکیٹنگ نے مل کر ہمیں یہ دن دکھایا کہ ہماری ٹیکسٹائل کی بعض برآمدات میں تو ستائیس فی صد تک کمی کا رحجان دیکھا گیا۔ لیکن جہاں برآمدات میں کمی کا رحجان تھا وہاں درآمدات میں بھی کمی معیشت کے سکڑنے کی نشاندہی کر رہی تھی،

مختصر یہ کہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیموں کا کلچر عوام کو کرپٹ کرتا ہے، حکومت ٹیکس وصولی کے لیے ایف بی آر کو مضبوط بنائے، ایف بی آر اہلکاروں کو اختیارات اور اچھا پیکیج دے کر ان کے لیے ریکوری کا ہدف مقرر کردے۔ اگر ریاست دہشتگردی ختم کرسکتی ہے تو ٹیکس بھی وصول کرسکتی ہے۔

ہماری ریاست کی رِٹ کا یہ حال ہے کہ اپنے جائز حق کا ایک فیصد بھی بھیک کی طرح مانگ رہی ہے، ہم گلوبل گداگر کے ساتھ ساتھ لوکل گداگر بھی بن گئے ہیں ۔ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں طلبہ اساتذہ سے لڑ رہے ہیں، ڈاکٹر مریضوں سے متصادم ہیں، وکیل ججوں پر جھپٹ رہے ہیں، پولیس مظلوموں سے نبردآزما ہے، سیکیورٹی گارڈز بینک لوٹ رہے ہیں، راہنما گمراہی پھیلا رہے ہیں، مزدور بیکاری سے زور آزمائی میں مصروف ہیں، کسان بھوک سے ریسلنگ کررہا ہے، خزانہ خسارے اور قرضے سے ٹکر و ٹکری ہے۔ ایسے میں بھلا ملک کیسے ترقی کر سکتا ہے۔

میں دعوے سے کہتا ہوں کہ اگر ملک میں چیک اینڈ بیلنس کا نظام بہتر ہو جائے تو یہاں کسی پھنے خاں اسکیم کی ضرورت نہیں۔ ٹیکس وصول کرنا ریاست کا حق ہوتا ہے لیکن اگر حکومت ہی اسے بھیک کی طرح وصول کرے گی تو ملک کا کیا ہوگا۔ ویسے بھی جب حکمران مسلسل غلطیاں کریں تو عوام کے ساتھ قدرت بھی انھیں بلندیوں سے گہرایوں میں پھینک دیتی ہے۔
Load Next Story