’پیشے ہیں پیش پیش‘
اخباروں میں سرخیاں لگتی ہیں لڑکیاں بازی لےگئیں مگر اصل خبریہ ہے کہ لڑکے دوہاتھ آگے ہوتے ہیں، وہ لڑکیاں ہی لے جاتے ہیں۔
KEY WEST:
پیشے تو دنیا میں کئی ہیں مگر باعزت ذرا کم ہی ہیں۔ وہ اس لیے کہ دنیا میں باعزت دکھنے کے لیے بھی اکثر جائے پیشہ پر بے عزت ہونا پڑتا ہے۔ پیشے کئی طرح ہوتے ہیں جن سے انسان پیسہ کماتا ہے اور پھر پہچانا جاتا ہے۔ جیسے غریب غربت سے، امیر امارت سے، سیاست دان باتوں سے، رشوت خور پیٹ سے، حرام خور شکل سے، انجئنیر ڈگری سے، وکیل کالے کوٹ سے اور ڈاکٹر لیب کوٹ سے۔ وغیرہ وغیرہ۔ معزز پیشوں سے متعلقہ افراد کا رونا یہ ہے کہ وہ دکھی انسانیت کی خدمت کرتے ہیں۔ غالبا دکھی انسانیت سے مراد وہ خود اور ان کا گھر بار ہے۔
خواندہ پیشے بھی کئی ہیں مگر سیاست وہ واحد پیشہ ہے جس میں خواندہ اور نا خواندہ، دونوں چلے ہوئے کارتوس کار آمد ہیں۔ کبھی کبھی یہ کارتوس ''کام'' بھی آجاتے ہیں۔ دنیا میں دو ہی ''مستند'' پیشے ہیں جو انسان کو قبر میں اتار سکتے ہیں اور ان پر سات ضرب لامتناہی (7×∞) خون معاف ہیں۔ ڈاکٹر اور وکیل۔ مزے کی بات یہ ہے کہ سیاست دان بغیر ڈگری کے بھی یہ کام احسن طریقے سے نبھاتے ہیں۔ ڈاکٹر، ڈاکٹر کو بخش دیتا ہے۔ وکیل، وکیل کو بخش دیتا ہے مگر مچھر دونوں کا خون چوس لیتا ہے اس لیے حساب برابر۔ سیاست دان وہ واحد مخلوق ہے جو مچھر کا بھی خون چوس لیتا ہے۔
ڈاکٹر آنکھ، کان، ناک اور دماغ کا علاج کرسکتا ہے مگر کچھ لوگوں کا دل لاعلاج ہوتا ہے کیوںکہ ان کے پاس صرف محبوب کا ٹوٹا پھوٹا دل ہی ہوتا ہے۔ اس استعمال شدہ، ترمیم شدہ اور عشق شدہ دل پر ڈاکٹر پنکچر لگا بھی دے تو چند سوراخ رہ ہی جاتے ہیں۔ ان سوراخوں پر انگلیاں رکھنے سےکوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ مانندِ صورت خورشید ہوتے ہیں، اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے۔ کبھی کبھی دل میں خیال آتا ہے کہ دل کا دورہ شریان پھٹنے کے علاوہ ان دیکھے محبوب کے اچانک دیدار سے بھی ہوسکتا ہے۔ اسی لئے سنجیدہ ڈاکٹر کو چاہیے کہ مریض کو کھانے کے ساتھ عشق کے پرہیز کی ہدایت ضرور کرے۔ بزرگانِ عشاق کرام کا قول ہے کہ،
ڈاکٹر دو وقت سب سے زیادہ پریشان دکھائی دیتا ہے۔ ایک وہ جب مریض پریشان ہو اور ڈاکٹر سے شفا مانگے اور دوم جب مریض مطمئن ہو اور ڈاکٹر سے پناہ مانگے۔ پہلی دفعہ میں پریشانی چہرے سے صرف عیاں ہوتی ہے اور دوسری دفعہ میں انگ انگ سے پھوٹتی ہے۔ وکیل پریشان اس لیے نہیں ہوتا کہ عدالتی نظام مکڑی کے جالے کی طرح عوام کو پھانس کر رکھتا ہے۔ رہا سیاست دان، تو وہ پیٹ سے پیٹ تک سوچتا ہے۔ یعنی ھل من مزید متقاضی رہتا ہے۔
پہلے زمانے میں عورتوں میں پڑھنے لکھنے کا رحجان کم ہی تھا۔ وہ آیا بننے کا خواب ایسے ہی بُنا کرتی تھیں جیسے آج کل اکثر نوجوان لڑکیاں اپنی شادی سے پہلے گائنی کی اسپیشلسٹ بن جاتی ہیں۔ دوسرے پیشوں سے تعلق رکھنے والے افراد چاہے جتنا پڑھ لیں مگر عزت کی موت کے لیے انہیں ڈاکٹر ہی سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔
ڈاکٹر اور چوہوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ دنیا میں زیادہ تر تحقیق چوہوں پر ہوتی ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ مرد کی ''مردانگی'' عورت پر ختم ہوتی ہے اور عورت کی ''مردانگی'' صرف چوہے پر، یعنی عورت بس ایک چوہے سے ڈرتی ہے۔ آئی ٹی سے تعلق رکھنے والے لوگ سوائے چوہے بلی کے کھیل کے اور کچھ نہیں کرتے۔
اکثر لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ بچہ انجئنیر بنے۔ ایک صاحب اپنی بیٹی کے سلسلے میں نوجوان انجنئیر سے ملے، پوچھا ''بیٹا کوئی کام شام بھی کرتے ہو یا بس انجئنیر ہی ہو؟'' انجئنیر بننے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں بچہ پڑھنے لکھنے لگا ہے۔ دورِ طالبِ علمی میں انجنئیر لوگوں کو یہ دکھاتا ہے کہ وہ بہت پڑھتا ہے۔ نوکری میں لوگ اسے دکھاتے ہیں اس نے کتنا پڑھا۔ ویسے ایک پتے کی بات ہے ڈاکٹر ہمیشہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بہت پڑھتے ہیں مگر ہم شرط لگاتے ہیں کہ 2 گھنٹے بعد وہ اپنا لکھا ہوا نہیں پڑھ سکتے۔
برسبیلِ تذکرہ، پڑھائی میں لڑکیوں کا بہت دیدہ لگتا ہے چاہے وہ انجئنیرنگ ہو، ڈاکٹری ہو یا کوئی اور علمی میدان۔ ہر سال اخباروں میں سرخیاں لگتی ہیں لڑکیاں بازی لے گئیں، لڑکیاں بازی لے گئیں ۔۔۔۔۔ مگر اصل خبر یہ ہے کہ لڑکے ہمیشہ لڑکیوں سے دو ہاتھ آگے ہوتے ہیں،
[poll id="871"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
پیشے تو دنیا میں کئی ہیں مگر باعزت ذرا کم ہی ہیں۔ وہ اس لیے کہ دنیا میں باعزت دکھنے کے لیے بھی اکثر جائے پیشہ پر بے عزت ہونا پڑتا ہے۔ پیشے کئی طرح ہوتے ہیں جن سے انسان پیسہ کماتا ہے اور پھر پہچانا جاتا ہے۔ جیسے غریب غربت سے، امیر امارت سے، سیاست دان باتوں سے، رشوت خور پیٹ سے، حرام خور شکل سے، انجئنیر ڈگری سے، وکیل کالے کوٹ سے اور ڈاکٹر لیب کوٹ سے۔ وغیرہ وغیرہ۔ معزز پیشوں سے متعلقہ افراد کا رونا یہ ہے کہ وہ دکھی انسانیت کی خدمت کرتے ہیں۔ غالبا دکھی انسانیت سے مراد وہ خود اور ان کا گھر بار ہے۔
خواندہ پیشے بھی کئی ہیں مگر سیاست وہ واحد پیشہ ہے جس میں خواندہ اور نا خواندہ، دونوں چلے ہوئے کارتوس کار آمد ہیں۔ کبھی کبھی یہ کارتوس ''کام'' بھی آجاتے ہیں۔ دنیا میں دو ہی ''مستند'' پیشے ہیں جو انسان کو قبر میں اتار سکتے ہیں اور ان پر سات ضرب لامتناہی (7×∞) خون معاف ہیں۔ ڈاکٹر اور وکیل۔ مزے کی بات یہ ہے کہ سیاست دان بغیر ڈگری کے بھی یہ کام احسن طریقے سے نبھاتے ہیں۔ ڈاکٹر، ڈاکٹر کو بخش دیتا ہے۔ وکیل، وکیل کو بخش دیتا ہے مگر مچھر دونوں کا خون چوس لیتا ہے اس لیے حساب برابر۔ سیاست دان وہ واحد مخلوق ہے جو مچھر کا بھی خون چوس لیتا ہے۔
ڈاکٹر آنکھ، کان، ناک اور دماغ کا علاج کرسکتا ہے مگر کچھ لوگوں کا دل لاعلاج ہوتا ہے کیوںکہ ان کے پاس صرف محبوب کا ٹوٹا پھوٹا دل ہی ہوتا ہے۔ اس استعمال شدہ، ترمیم شدہ اور عشق شدہ دل پر ڈاکٹر پنکچر لگا بھی دے تو چند سوراخ رہ ہی جاتے ہیں۔ ان سوراخوں پر انگلیاں رکھنے سےکوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ مانندِ صورت خورشید ہوتے ہیں، اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے۔ کبھی کبھی دل میں خیال آتا ہے کہ دل کا دورہ شریان پھٹنے کے علاوہ ان دیکھے محبوب کے اچانک دیدار سے بھی ہوسکتا ہے۔ اسی لئے سنجیدہ ڈاکٹر کو چاہیے کہ مریض کو کھانے کے ساتھ عشق کے پرہیز کی ہدایت ضرور کرے۔ بزرگانِ عشاق کرام کا قول ہے کہ،
''پرہیز ہو تو نہ عشق ہو، نہ نوبتِ دیدار ہو، اپنی آنکھیں پھوٹیں اور نہ دوسرے کی قسمت''۔
ڈاکٹر دو وقت سب سے زیادہ پریشان دکھائی دیتا ہے۔ ایک وہ جب مریض پریشان ہو اور ڈاکٹر سے شفا مانگے اور دوم جب مریض مطمئن ہو اور ڈاکٹر سے پناہ مانگے۔ پہلی دفعہ میں پریشانی چہرے سے صرف عیاں ہوتی ہے اور دوسری دفعہ میں انگ انگ سے پھوٹتی ہے۔ وکیل پریشان اس لیے نہیں ہوتا کہ عدالتی نظام مکڑی کے جالے کی طرح عوام کو پھانس کر رکھتا ہے۔ رہا سیاست دان، تو وہ پیٹ سے پیٹ تک سوچتا ہے۔ یعنی ھل من مزید متقاضی رہتا ہے۔
پہلے زمانے میں عورتوں میں پڑھنے لکھنے کا رحجان کم ہی تھا۔ وہ آیا بننے کا خواب ایسے ہی بُنا کرتی تھیں جیسے آج کل اکثر نوجوان لڑکیاں اپنی شادی سے پہلے گائنی کی اسپیشلسٹ بن جاتی ہیں۔ دوسرے پیشوں سے تعلق رکھنے والے افراد چاہے جتنا پڑھ لیں مگر عزت کی موت کے لیے انہیں ڈاکٹر ہی سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔
ڈاکٹر اور چوہوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ دنیا میں زیادہ تر تحقیق چوہوں پر ہوتی ہے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ مرد کی ''مردانگی'' عورت پر ختم ہوتی ہے اور عورت کی ''مردانگی'' صرف چوہے پر، یعنی عورت بس ایک چوہے سے ڈرتی ہے۔ آئی ٹی سے تعلق رکھنے والے لوگ سوائے چوہے بلی کے کھیل کے اور کچھ نہیں کرتے۔
اکثر لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ بچہ انجئنیر بنے۔ ایک صاحب اپنی بیٹی کے سلسلے میں نوجوان انجنئیر سے ملے، پوچھا ''بیٹا کوئی کام شام بھی کرتے ہو یا بس انجئنیر ہی ہو؟'' انجئنیر بننے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں بچہ پڑھنے لکھنے لگا ہے۔ دورِ طالبِ علمی میں انجنئیر لوگوں کو یہ دکھاتا ہے کہ وہ بہت پڑھتا ہے۔ نوکری میں لوگ اسے دکھاتے ہیں اس نے کتنا پڑھا۔ ویسے ایک پتے کی بات ہے ڈاکٹر ہمیشہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بہت پڑھتے ہیں مگر ہم شرط لگاتے ہیں کہ 2 گھنٹے بعد وہ اپنا لکھا ہوا نہیں پڑھ سکتے۔
برسبیلِ تذکرہ، پڑھائی میں لڑکیوں کا بہت دیدہ لگتا ہے چاہے وہ انجئنیرنگ ہو، ڈاکٹری ہو یا کوئی اور علمی میدان۔ ہر سال اخباروں میں سرخیاں لگتی ہیں لڑکیاں بازی لے گئیں، لڑکیاں بازی لے گئیں ۔۔۔۔۔ مگر اصل خبر یہ ہے کہ لڑکے ہمیشہ لڑکیوں سے دو ہاتھ آگے ہوتے ہیں،
''وہ لڑکیاں ہی لے جاتے ہیں''۔
[poll id="871"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔