انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں

جب انصاف کی فراہمی کے حصول میں پہلی سیڑھی یعنی جرم کی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ ہی درج نہ ہوگی تو انصاف کیسے ملے گا؟

انصاف کا حصول عوام کا حق ہے، اداروں کی لاپروائی اور غفلت پر ایکشن لیتے ہوئے سسٹم کا سقم دور کیا جائے۔  فوٹو: فائل

MIRPUR:
عوام کو بلاتخصیص امیر و غریب انصاف کی فراہمی ریاست کی اہم ذمے داری میں شامل ہے، جس سے مثالی معاشرہ اور امن و امان کی فضا قائم ہوتی ہے لیکن پاکستان کے عوام کی یہ بدنصیبی ہے کہ یہاں جلد انصاف کی فراہمی تو دور کی بات انصاف کے تقاضوں کو بھی نظر انداز کیا جاتا ہے، عوام کو قانونی پیچیدگیوں اور گنجلک سسٹم کے چیستان میں اس طرح پھنسا دیا جاتا ہے کہ انصاف کے متلاشی اپنا حق حاصل کرنے میں دنیا سے گزر جاتے ہیں لیکن انصاف سے محروم رہتے ہیں۔

انصاف فراہم کرنے والے اداروں کی غفلت و لاپروائی اور قانونی موشگافیوں کے باعث عوام کا سسٹم سے اعتبار تو اٹھ ہی رہا ہے، اس پر مستزاد پولیس کے محکمے میں سیاسی بھرتیوں، رشوت ستانی، ڈنڈا کلچر نے بھی عوام کو متنفر کردیا ہے۔ سسٹم کی اس خرابی کا احساس عدالتوں میں بیٹھے محترم جسٹس صاحبان کو بھی ہے، یہی وجہ ہے کہ ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر سے متعلق ایک مقدمے میں چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیے ہیں کہ اس دور میں انصاف ملنا تو کجا غریب کی رپٹ درج ہونا ہی کمال ہے۔


چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میڈیا پر کسی بھی واقعے کی بریکنگ نیوز 3منٹ کے اندر نشر ہوجاتی ہے لیکن ایف آئی آر درج ہونے میں 4 دن لگتے ہیں، ایف آئی آر کے اندراج میں تاخیر کا نقصان غریب اور کمزور کو ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جہاں کیمرہ 3 منٹ میں پہنچ جاتا ہے وہاں پولیس کیوں نہیں پہنچتی؟ چیف جسٹس نے کہا کہ سب کے سامنے ایک واقعہ ہوا لیکن پھر بھی ایف آئی آر کٹنے میں 4 دن لگے، اس تاخیر کا ذمے دار کون ہے؟ جناب جسٹس کے یہ ریمارکس چشم کشا ہیں۔

جب انصاف کی فراہمی کے حصول میں پہلی سیڑھی یعنی جرم کی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ ہی درج نہ ہوگی تو انصاف کیسے ملے گا؟ پولیس کے جائے وقوعہ پر تاخیر سے پہنچنے کا سوال بھی اہمیت کا حامل ہے جب کہ پولیس کے محکمے کو جدید سہولیات کی فراہمی کے ساتھ تیز رفتار گاڑیاں بھی مہیا کی گئی ہیں، اس کے باوجود اپنی ڈیوٹی سے پہلوتہی برتنا اس بات کا عکاس ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی قانون کی رسوائی کا باعث بن رہے ہیں۔ انصاف کا حصول عوام کا حق ہے، اداروں کی لاپروائی اور غفلت پر ایکشن لیتے ہوئے سسٹم کا سقم دور کیا جائے۔
Load Next Story