نیا سال پرانی حقیقت

دو ہزار سولہ کا نیا سورج بھی گزشتہ اور اس سے پیوستہ برسوں کی طرح وہ ہی پرانی امیدیں

دو ہزار سولہ کا نیا سورج بھی گزشتہ اور اس سے پیوستہ برسوں کی طرح وہ ہی پرانی امیدیں، وہی خواہشیں، وہی امنگیں، وہی آرزوئیں، وہی مرادیں، وہی عزائم، وہی ارادے لیے ایک مختلف عدد کے ساتھ طلوع ہوا۔ نئے سال کی آمد پر مصائب میں گھرے عوام اپنے اداس چہروں پر مسکراہٹوں کا لبادہ اوڑھے ایک دوسرے سے نیک تمناؤں کا اظہار کرتے نظر آئے۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ یہ سال پچھلے سالوں کی طرح کیا گل کھلائے گا مگر کیا کریں کہ عادت سی پڑ گئی ہے، قصے، کہانیوں، لطیفوں اور افسانوں کی طرح سیاسی جھوٹ سے لطف اندوز ہونے کی۔

موجودہ حکومت کے ڈھائی سالہ دور کی مجموعی کارگزاریاں دیکھیں یا پھر فقط گزشتہ سال کی کارکردگی یہ آپ کو یکساں ہی نظر آئینگی البتہ 2015کے دوران امن و امان کی صورتحال میں کسی حد جو بہتری آئی اس کا کریڈٹ سانحہ اے پی ایس کے ان شہید بچوں کو ملنا چاہیے جن کی قربانی نے پاکستانیوں کو دہشتگردی کے خلاف جاری امریکی جنگ کو اپنا سمجھنے اور اس گیم کے بڑے بڑے مہروں کو ہونٹ سینے پر مجبور کر دیا۔

باقی رہی بات دہشتگردی کی جس سے متعلق حقائق کا ادراک وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کے اس بیان نے قدرے آسان بنا دیا کہ ''دہشتگرد ختم نہیں ہوئے بلکہ پسپا ہوئے ہیں''، کیڈٹ کالج حسن ابدال میں پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے خواجہ آصف کا یہ بھی کہنا تھا کہ دشمن ختم نہیں ہوا بلکہ کمزور ہوا ہے اور دہشتگردی کے خلاف یہ جنگ جاری رہے گی۔ شاید وفاقی وزیر دفاع یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ جوں ہی حکومت کا جوش اور جذبہ ڈھیلا پڑا یہ دہشتگرد دوبارہ سے سرگرم ہو جائیں اور اپنا کام شروع کر دینگے۔

''آخرش وہ بھی کہیں ریت پر بیٹھی ہو گی

تیرا یہ پیار بھی دریا ہے اتر جائے گا''

ہماری حکومتیں، ہمارے وزرا، ہمارے سیاستدان جیسے بھی ہوں وہ کہیں نہ کہیں سچ بول ہی دیتے ہیں یا پھر ان کی بے بسی کہیں نہ کہیں آشکار ہو جاتی ہے، اگرچہ ہمارے سیاستدان ایسے اظہار کے لیے الفاظ کے استعمال میں محتاط رویہ اختیار کرتے ہیں مگر ان کی مجبوریوں کو سمجھنا زیادہ مشکل نہیں رہتا، جیسا کہ گزشتہ دنوں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید نے کشمیر تھنک ٹینک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ''کئی لوگوں کا روزگار مسئلہ کشمیر سے جڑا ہے، اس لیے وہ اس تنازع کا حل نہیں چاہتے''۔ ایک طاقتور وزیر نے اپنی حکومت کی بے بسی کا اعتراف تو کر لیا مگر یہ نہیں بتایا کہ آخر یہ لوگ کون ہیں جو حکومت سے بھی زیادہ طاقتور ہیں۔

قومی اسمبلی میں وزارت داخلہ کی کارکردگی کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان بھی ایک موقعے پر وفاقی وزیر اطلاعات سینیٹر پرویز رشید کی طرح بے بس نظر آئے۔ چوہدری نثار علی خان اس بات کا اعادہ تو بارہا کرتے رہے ہیں کہ نادرا نے غیر ملکیوں کو پاکستانی شناختی کارڈ جاری کیے ہیں، مگر قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران انھوں نے یہ انکشاف بھی کر ڈالا کہ نادرا میں غیر ملکیوں کو شناختی کارڈ جای کرنے کے لیے غیر ملکیوں کو ملازمتیں دلوائی گئی ہیں، مطلب کہ غیر ملکیوں کو شناختی کارڈ جاری کرنے والے بھی غیر ملکی ہی تھے، مگر وفاقی وزیر داخلہ کے قومی اسمبلی میں اس انکشاف نے چکرا کر رکھ دیا کہ غیر ملکیوں کو شناختی کارڈ جاری کرنے والے غیر ملکیوں کو کسی غیر ملکی نے نہیں بلکہ خود ہمارے اپنے ارکان پارلیمنٹ نے ہی ملازمتیں دلوائیں۔ چوہدری نثار نے بتایا کہ ان غیر ملکی ملازمین نے دیگر غیر ملکیوں کو غیر قانونی طور پر لاکھوں شناختی کارڈ جاری کیے ہیں۔


وفاقی وزیر داخلہ نے نہ صرف ان غیر ملکیوں کے نام بتانے سے اجتناب برتا جو نادرا میں بیٹھے اپنے دیگر غیر ملکی ساتھیوں کو کمپیوٹرائزڈ پاکستانی قومی شناختی کارڈ جاری کر رہے ہیں بلکہ ان ارکان پارلیمنٹ کے نام لینے سے بھی گریزاں رہے جنہوں نے ان 'غیر ملکیوں' دوسرے 'غیر ملکیوں' کو اصل پاکستانی شناختی کارڈ غیر قانونی طور پر جاری کرنے کے لیے بھرتی کروایا۔ یقینا اگر ان ارکان پارلیمنٹ کا تعلق اپوزیشن کی کسی جماعت سے ہوتا تو اب تک ان کا بینڈ بج چکا ہوتا، خیر ان ارکان پارلیمنٹ کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو ان کا نام سامنے آنا چاہیے بلکہ اس بات کی بھی تحقیقات ہونی چاہئیں کہ آخر وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں، اور کیا ملک اور قوم کے لیے ان کی ''خدمات'' یہیں تک محدود ہیں یا ان کے تانے بانے کہیں دور جا ملتے ہیں؟۔

موجودہ حکومت کے دفاع، داخلہ اور اطلاعات کے تین انتہائی اہم وفاقی وزرا کے بیانات اس وقت بہت سے حقائق تک اور بھی زیادہ رسائی کے لیے معاون ہو سکتے ہیں جب ان کے ساتھ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے دور میں سپریم کورٹ میں ہونے والی کراچی بدامنی کیس کی کارروائی کو بھی سامنے رکھ لیا جائے۔

افتخار چوہدری کے دور میں کراچی بدامنی کیس کی سماعت کے دوران فریق اداروں کے سربراہان یا نمایندوں کے بیانات میں ایک سیکیورٹی ادارے کے سربراہ کا لیاری میں کارروائی کے حوالے سے کہنا تھا کہ ''ہمیں متاثرہ علاقوں میں جانے کی اجازت نہیں ہے''، اسی طرح نارا (نیشنل ایلینز رجسٹریشن اتھارٹی جو غیر ملکیوں کے کوائف جمع کرنے کے لیے قائم کی گئی تھی مگر موجودہ حکومت نے اسے سرے سے ہی ختم کر دیا تھا) کی جانب سے یہ بیان بھی ریکارڈ میں موجود ہو گا کہ ''ہمیں کسی 'غیرملکی' کو غیرملکی کہنے کی اجازت نہیں ہے''۔

اسی سپریم کورٹ کی جانب سے بار بار استفسار کرنا کہ نام بتائے جائیں وہ کون لوگ ہیں جو قیام امن کی راہ میں رکاوٹ ہیں (یعنی بحالی امن کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی اجازت نہیں دیتے)، کے بعد بھی تسلی بخش جواب کا نہ ملنا حکومتی مشینری کی بے بسی کا واضح ثبوت ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج کل داعش کے حوالے سے بڑے مباحثے کیے جا رہے ہیں، حکومت ہر روز داعش کی پاکستان میں موجودگی کی نفی کرتی نظر آتی ہے اور سیکیورٹی ادارے ہر روز داعش کے ایک دو نیٹ ورک پکڑ لیتے ہیں۔ لگتا ہے حکومت اس سلسلے میں سنجیدہ ہی نہیں ہے یا پھر عنقریب وزارت اطلاعات یا وفاقی وزیر اطلاعات یہ بیان دینے پر مجبور ہو جائینگے کہ ان تنظیموں سے کچھ لوگوں کا روزگار وابستہ ہے اور اسی لیے ہم کچھ نہیں کر سکتے۔

آئیے ہم تسلیم کر لیتے ہیں، کیونکہ بدیر ہی سہی ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہو گا کہ ہمارا سفر درست سمت میں نہیں ہے۔ دہشتگردی میں اگرچہ وقتی طور پر کمی آ گئی ہے مگر اسے دیرپا سمجھ لینا کسی صورت بھی عقلمندی نہیں ہے کیونکہ دہشتگردی کی وجہ بننے والے عوامل میں سے کسی پر بھی سنجیدگی سے کام نہیں کیا جا رہا یہاں تک کہ قومی ایکشن پلان کی ایک شق جس کے تحت غیر ملکی مہاجرین کو ان کے آبائی وطنوں میں واپس بھیجا جانا تھا' پر عملدرآمد کو سرے ہی سے روکا جا چکا ہے۔

ہماری موجودہ اور گزشتہ حکومتیں مہاجرین کی واپسی کے سلسلے میں نہ جانے کیوں حیلے بہانوں کے ذریعے قوم کو بہلاتی چلی آئی ہیں۔ پچھلی حکومت افغان مہاجرین کے قیام کی مہلت میں تین، تین اور چھ، چھ ماہ کا اضافہ کر کے اپنے پانچ سال پورے کر گئی، موجودہ حکومت بھی اسی کے نقش قدم پر گامزن ہے، جب اقتدار میں آئی تو ڈیڈ لائن دی مگر عملدرآمد میں لیت و لعل سے کام لے کر ڈھائی سال گزار دیے، اب موجودہ حکومت ہی کی ایک وزارت نے یہ سفارش بھی کر ڈالی ہے کہ افغان مہاجرین کو پاکستان میں مزید دو سال قیام کی مہلت دے دی جائے۔

یعنی کسی بھی طرح حکومت اپنے پانچ سال گزار لے اور افغان مہاجرین کو واپس نہ بھیجنا پڑے، یہاں تک کہ بعض اہل وفا نے تو یہاں پیدا ہونے والے کسی بھی غیر ملکی کو پاکستانی شہریت دینے کی بھی سفارش کر دی ہے، ادھر یہ حال ہے کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاعی پیداوار کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پاک افغان سرحد سے روزانہ چالیس سے پچاس ہزار افراد کی غیر قانونی آمد و رفت کا سلسلہ جاری ہے۔ کیسی عجیب بلکہ بھیانک بات ہے کہ جیسے پاکستان کوئی ملک نہیں بلکہ سرائے ہو، جس کا جی چاہے جہاں سے مرضی منہ اٹھائے چلا آئے اور کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی ساکھ کا گراف دنیا بھر میں ہر روز گرتا چلا جا رہا ہے۔

بااختیار حلقوں کے حضور میں اتنی عرض گزاشت کی جا سکتی ہے کہ اگر وہ غیر ملکیوں کے معاملے اتنے ہی بے بس ہیں تو ایک قانون کے ذریعے انھیں پاکستانی شہریت کا حق دلوا دیں، شاید انھیں پاکستانی شناختی کارڈ قانونی طور حاصل کرنے کا حق مل جانے سے ان کے دلوں میں پاکستان کے لیے محبت ہی پیدا ہو جائے، یا کم از کم ان کے دلوں میں موجود پاکستان کے خلاف نفرت اور قدم قدم پر اس مادر وطن کو گالی دینے کا جواز تو ختم ہو سکے۔ اگر ایسا کرنا بھی ممکن نہیں ہے تو پھر کم از کم اس ملک میں رہنے والے تمام لوگوں کے کوائف تو اکھٹے کر لیے جائیں، تا کہ کوئی بھی غیر ملکی کسی شخص کو قتل کر کے یا کوئی اور واردات کر کے کہیں اور جا بسے تو اس تک رسائی تو ممکن ہو۔
Load Next Story